بلاول بھٹو کے ن لیگ پر تنقیدی وار

بلاول بھٹو کی اچانک بیان بازی اور مسلم لیگ ن کی پراسرار خاموشی سے عوام کے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا ہونے لگے ہیں

بلاول بھٹو نے لاہور کے جلسوں میں حکمران جماعت کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کو بھی تنقید کا شدید نشانہ بنایا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بلاول بھٹو لاہور سے حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی غیر موجودگی میں وہ لاہور میں ان پر گرج برس رہے ہیں۔ وہ کبھی عمران خان اور نواز شریف دونوں کو سلیکٹڈ قرار دیتے ہیں تو کبھی انہیں اسٹیبلشمنٹ کے منتخب کردہ ہونے کا الزام دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ تاجروں کےلیے کام کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی طرح ن لیگ بھی پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتی۔ اسی طرح انہوں نے شہباز شریف کی عدم موجودگی پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے ن لیگ پر تنقید کرتے ہوئے ایک تاریخی حوالہ بھی دیا اور کہا کہ 1997 میں بینظیر بھٹو نے نواز شریف کو امیرالمومنین نہیں بننے دیا اور ایوان میں صرف سترہ اراکین کے ساتھ مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔

بلاول بھٹو اچانک مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرنے لگے ہیں، حالانکہ ان کے گزشتہ بیانات اس کے خلاف ہیں جن میں وہ متحدہ اپوزیشن کی بات کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حکومت کے خلاف ہم ایک پیج ہیں۔ لیکن اب وہ خود ہی اس پیج کو چاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے ابھی تک ان کے بیانات کے کوئی مؤثر جوابات نہیں دیے گئے۔ فقط اتنا ہی کہا جارہا ہے کہ ہم آصف علی زرداری سے ان کی شکایت کریں گے۔ حالانکہ پی ٹی آئی کی طرف سے دیے گئے ہر بیان پر فوری طور پر رد عمل دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ لندن میں بیٹھے شہباز شریف بھی ان بیانات کا جواب دیتے ہیں اور پاکستان میں شاہد خاقان عباسی اور دیگر رہنما بھی اپنی جماعت کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔ لیکن یہاں آکر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے، کوئی ان بیانات پر ردعمل نہیں دے رہا۔

بلاول بھٹو کی اچانک بیان بازی اور مسلم لیگ ن کی پراسرار خاموشی سے عوام کے ذہنوں میں کئی اشکالات پیدا ہونے لگے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی خاموشی کی دو بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بلاول بھٹو میں اتنی ہمت پیدا ہوجانا اور مسلم لیگ ن کا انہیں کھلی چھوٹ دے دینا میثاق جمہوریت پر عملدرآمد ہے۔ میثاق جمہوریت لندن میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ ہے۔ جس میں انہوں نے مشرف کی آمریت کے خلاف تحریک چلانے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا عزم کیا تھا۔ اسی معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی نے تیسری مرتبہ وزیراعظم نہ بننے کے قانون کو ختم کیا اور نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے۔ اس معاہدے کے تحت تحریری طور پر صراحت کے ساتھ تو نہیں، لیکن عملاً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان دونوں بڑی جماعتوں نے باریاں مقرر کرلی تھیں کہ ایک بار تم حکومت سنبھالو گے اور ہم اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے اور دوسری بار ہم حکومت کریں گے اور تم اپوزیشن بینچوں پر بیٹھو گے۔ 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور اس نے نواز شریف کےلیے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا اور پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ 2018 میں اس معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی کی باری تھی لیکن تیسری جماعت پی ٹی آئی معاہدے کے بغیر ہی برسر اقتدار آگئی اور پیپلز پارٹی کو باری نہ مل سکی۔


اب بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی باری لینے کےلیے بے چین ہیں اور وہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرکے پنجاب میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور آئندہ انتخابات میں کامیابی اور اپنی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ ن لیگ کی خاموشی ان کے اس خیال کی تائید کر رہی ہے۔ اگرچہ بلاول بھٹو بھی جانتے ہیں کہ پنجاب میں ان کی پوزیشن بہت زیادہ کمزور ہے اور وہ پنجاب سے کامیاب نہیں ہوسکتے۔ لیکن پھر بھی وہ ن لیگ کے تعاون کی وجہ سے پرامید ہیں۔ ابھی تک تو ن لیگ بھی ان کے ساتھ کافی حد تک تعاون کررہی ہے لیکن اس کے بعد کا کچھ معلوم نہیں کہ حالات کس طرف کو پلٹ جائیں۔

مسلم لیگ (ن) کی خاموشی کی دوسری بڑی وجہ ان کے اپنے مسائل ہیں، جن میں وہ بری طرح گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے تقریباً تمام رہنماؤں پر مقدمات بنے ہوئے ہیں اور نیب کا ادارہ ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ ان رہنماؤں میں سے اکثر جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ ان کے قائد نوازشریف بیماری اور صدر شہباز شریف تیمارداری کی وجہ سے لندن میں مقیم ہیں۔ پہلے تو پی ٹی آئی ان کی بیرون ملک اقامت پر تنقید کرتی تھی، پھر بلاول بھٹو نے تنقید شروع کردی اور اب ان کی اپنی جماعت سے ہی ان کی غیر موجودگی کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ شہباز شریف کی بلاضرورت غیر حاضری پر کارکنان تو پہلے ہی نالاں تھے، اب پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بہت سے اراکین نے سینئر رہنماؤں سے شہباز شریف کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے کہ سینئر قیادت شہباز شریف کو وطن واپس آنے کا کہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی خبر ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ن لیگ کے چند اراکین نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کرکے ان کی قیادت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

یہ تمام مسائل جن میں ن لیگ گھری ہوئی ہے، انہیں بلاول کے بیانات کے خلاف ردعمل دینے سے روک رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے اراکین شہباز شریف کو وطن واپس لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر شہباز شریف واپس آگئے تو پھر ن لیگ اپنے لیے کوئی واضح لائحہ عمل تیار کرپائے گی۔ اگر وہ واپسی میں مزید تاخیر کرتے ہیں تو دوسری جماعتیں ان کی اس کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی، جو ان کے سیاسی مستقبل کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اس طرح کارکنان بھی اپنی قیادت سے متنفر ہوجائیں گے جبکہ اسمبلیوں کے اراکین بھی عوام کے ردعمل کے خوف سے پارٹی کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story