1857ء اور 1947ء کے بعد دلی آج پھر اُجڑی۔۔۔

ہندوستانی راج دہانی میں مسلمانوں کے لٹنے کی تاریخ نہ بدل سکی

ہندوستانی راج دہانی میں مسلمانوں کے لٹنے کی تاریخ نہ بدل سکی۔ فوٹو: فائل

جس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے!

اردو کے صف اول کے شاعر میر تقی میرؔ کے زمانے میں بھی برصغیر پاک وہند کی مانگ کا سندور سمجھی جانے والی 'دلّی' لہو رنگ ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں وہ لکھنؤ جا بسے۔۔۔ 1739ء میں نادر شاہ نے تقریباً ایک لاکھ دلی واسیوں کی گردنیں اتاریں اور 1757 ء میں احمد شاہ ابدالی نے اس شہر کو تاراج کیا، پھر مرہٹوں نے بھی اپنے پنجے گاڑے اور 1802ء میں دلی والوں پر 'سام راجی' شکنجے کسے جانے لگے۔۔۔ آخر 1857ء کی قیامت 'غدر' کی صورت بپا ہوگئی، اور ہندوستان میں تجارت کے بہانے آکر قابض ہونے والے برطانیہ نے اپنے اقتدار کی راہ میں حائل ہر آواز کچل کر رکھ دی۔ یہ مرزا غالبؔ کا زمانہ تھا۔۔۔! اس بار دلی ایسی اجڑی کہ دلی والے شہر کی حدود سے باہر جا پڑے۔۔۔ برسوں بعد جو لوٹ سکے تو عالم یہ تھا کہ گھروں کے منہدم ملبے میں اپنے آشیانوں کے نشان تلاشتے تھے۔۔۔!

میرؔ وغالبؔ کی اِس نگری میں 1857ء کے 'غدر' کے بعد 1947ء کی مسلم کُش 'قیامت' میں 90 برس حائل تھے، اور اب 2020ء میں آنے والی بربریت میں فقط 72 برس کی مسافت ہے۔۔۔ گویا دلی میں اُسے اجڑتے ہوئے دیکھنے والی 'آنکھیں' ہمیشہ موجود رہیں۔۔۔ 1857ء دیکھنے والے دنیا سے اُٹھے، تو بعد والوں نے 1947ء دیکھ لیا، اور اب سینتالیس والے خال خال ہونے لگے، تو اس نگر کے مسلمانوں نے 2020ء کا دیکھ لیا۔۔۔

بیتے برس نریندر مودی مسلسل دوسرا چناؤ جو جیت کے آئے، تو اگست 2019ء میں انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی، اسی اثنا میں بابری مسجد تنازع کا ''انصاف'' رام مندر کی تعمیر کے فیصلے کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس پر ابھی سانس بھی نہ لیا تھا کہ نریندر مودی نے متنازع شہریت بل کا اعلان کر دیا۔۔۔ جس میں براہ راست ہندوستان کے مسلمان شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، کیوں کہ تمام ہندوستانیوں کو اپنے پرانے کاغذات سے خود کو 'ہندوستانی' ثابت کرنا ہے۔ تو دوسری طرف پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش کے ہندو، سکھ، عیسائی اور جین مت وغیرہ کے پیروکاروں کا کاغذات نہ ملنے کی صورت میں شہریت کی 'چھوٹ' مل جائے گی، لیکن چوں کہ آس پڑوس کے دیشوں کے مسلمانوں کے لیے شہریت بند ہے، اس لیے گویا ایک دروازے سے تمام بھارتی باہر نکال لیے جائیں گے اور پھر واپس آنے کے لیے بنا کاغذی ثبوت کے کوئی بھی آسکتا ہے، سوائے مسلمان کے، ہندوستانی مسلمانوں کو کاغذات لازمی دکھانا ہوں گے، بہ صورت دیگر ان کی شہریت چھین لی جائے گی۔۔۔!

مسلمانوں کی بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ صوبہ 'بِہار' کی ایک مسلمان خاتون کہتی ہیں کہ اگر وہ ثبوت نہ دے سکیں، تو یہ کہا جائے گا کہ وہ بنگلادیش یا پاکستان سے آئی ہیں! یعنی سوچیے تو یہ کس قدر بھونڈی بات ہے کہ جو زمین دراصل ہے ہی صرف 'ہندوستان' کے جغرافیے میں، اس کے باسی کو آس پڑوس کے دیش سے آنے والا باشندہ سمجھا جائے!

پہلے پہل متنازع شہریت بل پر دلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ میدان میں نکلے، جن پر لاٹھی چارج کر کے ادھ موا کیا گیا۔۔۔ لیکن اُن کا جوش بڑھتا چلا گیا اور اس کی گونج ہندوستان کے جنوب میں بھی بہت دور تک سنی جانے لگی اور ہندوستان بھر کے مسلمانوں اور معتدل حلقوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ 16 دسمبر 2019ء کی رات کو دلی پولیس نے رات کے اندھیرے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گھس کر وحشیانہ طریقے سے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔۔۔ کتب خانے سے لے کر کینٹین تک خوب توڑ پھوڑ بھی کی۔۔۔ اس کارروائی نے 'شاہین باغ' میں مسلمان خواتین کے احتجاجی دھرنے کو زندگی دے دی۔۔۔ گھر کی دہلیز کم کم پھیلانگنے والی خواتین احتجاجاً پھر وہیں براجمان ہو گئیں۔ حتیٰ کہ خوف اور اس پر دلی میں گذشتہ 100سال کی شدید ترین جاڑے میں بھی 'شاہین باغ' کا شامیانہ آباد رہا۔۔۔ 'مودی سرکار' نے بہتیرے جتن کیے کہ کسی طرح اس دھرنے کو ختم کر دیا جائے۔۔۔ لیکن کام یابی نہ ہو سکی۔

پھر 30 جنوری 2020ء کو موہن داس گاندھی کے یوم قتل پر ایک انتہا پسند نوجوان گوپال نے پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں جامعہ ملیہ کے طلبہ پر گولی چلائی۔۔۔ اس سے پہلے جامعہ ملیہ میں آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے بعد جامعہ کے اندر وحشیانہ تشدد بھی آنے والے بھیانک منظر کی خبر دے رہا تھا، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی سرکار اب یہ راز بھی نہیں چھپانا چاہتی کہ یہ 'مسلم کُش' لہر اسی کی آشیرواد سے جاری ہے۔۔۔

یہی وجہ ہے کہ 24 فروری لو جس لمحے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستان پہنچے، عین اسی وقت دلی کو تاراج کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا گیا۔۔۔ مسلح انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر خواتین، بچوں اور بزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔۔۔ بند گھروں کے تالے توڑے گئے، دکانوں پر مسلمان نام دیکھ کر نذرِآتش کیا گیا۔۔۔ یہاں تک کہ مساجد اور مدارس تک کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

شمال مشرقی دلی مسلسل کئی دنوں تک بلوائیوں کے رحم وکرم پر رہا، جس کے نتیجے میں کم سے کم 46 افراد کی جانیں جا چکی ہیں، لوگ اب بھی اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقامات پر پناہ گزین ہیں۔ بلوے کے سبب اپنے گھروں سے نکلنے والوں کی داستانیں ایک بار پھر 1947ء کی یاد دلا رہی ہے، کہ جب اپنی جان اور عزت بچانے والے مسلمان اپنے گھروں سے صرف تن کے کپڑوں میں نکلے تو پھر کبھی پلٹ نہ سکے۔۔۔ تب تو ابو الکلام آزاد کی آواز کسی بہتری کی امید جگانے کی کوشش کرتی۔۔۔ موہن داس گاندھی بھی کسی قدر دلی کے مسلمانوں کے لیے آس تھے، پھر انہوں نے انہی مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر 'مرن برت' (تادم مرگ بھوک ہڑتال) رکھا۔۔۔ جو ختم تو کرا دیا، لیکن 30 جنوری 1948ء کو نتھو رام گوڈسے نے ہندوستانیوں کے 'باپو' کے نحیف ونزار وجود کو جیون کی قید سے آزاد کر کے گویا ہندوستانی مسلمانوں کو زنجیر میں جکڑنے کا اعلان کر دیا۔۔۔ آج 72 برس بعد گاندھی کے قاتل کی مالا جپنے والے 'انتہاپسند' ہی سیاہ وسفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اور ہندوستان بھر کے 20 کروڑ مسلمان تاریخ کے بد ترین جبر اور خوف تلے دبے جا رہے ہیں۔۔۔

'سماجی ذرایع اِبلاغ' (سوشل میڈیا) پر نفرت انگیز 'رواں تبصروں' کے ساتھ بنائی جانے والی ویڈیو یہ بتا رہی ہیں کہ دلی میں رہنے والے بہت سے ہندو گھرانے بھی 'نفرت' کا شکار ہو چکے ہیں۔۔۔ ایسی ہی ایک بہت سرعت سے پھیلنے والی ویڈیو کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ دیکھو، مسلمانوں کو ہنگامے کرنے کو روپے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ 'بی بی سی' نے اس ویڈیو کی کھوج کی اور بتایا کہ یہ دلی کی نیو مصطفیٰ آباد کے بابو نگر کی گلی نمبر چار کی ویڈیو ہے، جس میں فساد کرنے کے لیے نہیں، بلکہ فساد زدہ مسلمان خواتین کی داد رسی کو رقم بانٹی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ 26 فروری کے بعد سے دلی کے نالوں سے بھی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔ اس کے براہ راست حالات سے جڑنے کی کوئی واضح تصویر نہ مل سکی، لیکن شہری کہتے ہیں کہ پہلے کبھی نالوں سے اس طرح لاشیں برآمد نہیں ہوئیں، جس سے واضح طور پر یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو مار کر ان کی لاشیں نالے میں پھینکی جا رہی ہیں۔

دل والوں کی دلی ابھی 'اہل دل' سے خالی نہیں۔۔۔!


دلی کے رہایشی مہندر سنگھ نے بلوے کے دوران محمد حمزہ کے اہل خانہ کو گھر میں پناہ دی اور ان کے پگڑی باندھی، مہندر سنگھ کہتے ہیں کہ انہیں 1984ء کے دلی کے سکھ مخالف فسادات یاد ہیں، تب کسی بھلے آدمی نے ان کی جان بھی ایسے ہی بچائی گئی تھی، اس لیے یہ ان پر قرض تھا، انہوں نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا۔ فساد سے متاثرہ مسلمان بھورا خان بتاتے ہیں کہ ان کی املاک کو نذر آتش کیا گیا اور جب انہوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی تو ان پر پتھراؤ کیا گیا، انہوں نے دیکھا کہ پولیس اور لوگ مل کر آگ لگا رہے تھے، انہوں نے چھت سے کود کر اپنی جان بچائی۔

26 فروری 2020ء کی شام 27 سالہ محمد عرفان بچوں کے لیے دودھ لینے نکلا اور اس کی لاش آئی، جو ان کے محلے 'کرتار نگر' اس لیے نہ لے جائی جا سکی کہ حالات خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ دلی کے شہری مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کی جان بچانے والے سنجیو کمار اس بات پر آب دیدہ ہو گئے کہ انہوں نے اپنے مسلمان ہم سائے کو پناہ دی تو گلی والوں نے انہیں 'غدار' کہا اور 'دہشت گرد' سمجھا۔۔۔ اگر چہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہنگامے اور قتل وغارت کرنے والے باہر کے لوگ تھے، لیکن ایک ساتھ رہنے والوں کا انہیں غلط کہنا یہ رویہ یقیناً کوئی اچھی نشان دہی نہیں کر رہا!

ابوالکلام آزاد اور جناح کے مباحثے

دلی کی 'مسلم کش' ہنگاموں کی لہر کے بعد ایک بار پھر 'بٹوارا درست' اور 'بٹوارا غلط' کی بحث چل نکلی ہے۔ 'سوشل میڈیا' پر سرحد کے دونوں طرف سے ہی اِس پر بات کی جا رہی ہے۔۔۔ ایک موقف یہ ہے کہ قائداعظم نے پاکستان بنا دیا، ورنہ آج وہاں کے مسلمانوں کی طرح بنگلادیش اور یہاں بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خوف تلے سہمے ہوئے ہوتے۔ دوسری طرف کا موقف یہ ہے کہ دراصل ہندوستانی مسلمان اسی بٹوارے کی ہی قیمت ہی ادا کر رہے ہیں، آج انہیں 'پاکستان جاؤ' کے طعنے سننے پڑتے ہیں، اگر 'تقسیمِ ہند' نہ ہوتی تو ایک ارب غیر مسلموں کے مقابلے میں 20 کروڑ کے بہ جائے (بنگلادیش اور پاکستان کے ملا کر) کُل 60 کروڑ مسلمان یک جا ہوتے، تو ایسی کسی بھی انتہاپسندی کے سامنے کم از کم تین گنا زیادہ بڑی اقلیت ہوتی، یوں امکان ہے کہ صورت حال اس قدر دگرگوں نہ ہوتی۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ 'پاکستان تو ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کا ضامن بھی تھا، مگر آج پاکستان کا وہ کردار کہاں ہے؟'' ساتھ ساتھ کچھ لوگ نہایت شدومد سے مولانا ابو الکلام آزاد کے 'متحد ہندوستان' کے موقف پر انہیں مطعون کر رہے ہیں کہ دیکھو اُن کے ہندوستان کا حال، اور پاکستان نہ آنے والوں یا پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کا انجام دیکھ کر عبرت حاصل کرو وغیرہ۔ اس ضمن میں بنیادی تاریخ سے آگاہی ضروری ہے کہ 'پاکستان' مسلمانان ہند کی جدوجہد کا ثمرہ تھا۔۔۔



یہ صرف اِن علاقوں کے مسلمانوں کی کاوش نہ تھا، جو 'پاکستان' کے جغرافیے میں شامل ہوئیں، بقول کالم نگار سعد اللہ جان برق کے کہ 'پاکستان کی اصل ضرورت تو اقلیتی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی تھی، نہ کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی!' ساتھ ہی یہ تاریخی حقیقت بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح یہ بات سچ ہے کہ 'پاکستان' ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔

اسی طرح یہ بات بھی حقیقت ہے کہ 1947ء میں قائم ہونے والے مسلمانوں کے اس دیش میں پورے ہندوستانی مسلمانوں کو سمونے کی استطاعت نہیں تھی۔۔۔ نیز یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں نے ابوالکلام آزاد کا ساتھ دیا تھا، تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ پورے ہندوستانی مسلمانوں نے 'جناح' کے مقابلے میں 'آزاد' کے نظریے کو مکمل طور پر مسترد کیا تھا۔۔۔ تو ایسے میں بھی اگر ہم ابو الکلام آزاد کو مورود الزام ٹھیرائیں، تو یہ تو وہی بات ہوگی کہ آپ دو ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر کا علاج کریں اور پھر فائدہ نہ ہو تو اُس ڈاکٹر پر تنقید کرنے لگیں، جس کی دوا استعمال ہی نہیں کی! چناں چہ وہاں رہنے والے مسلمانوں پر یہ لعن طعن کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ ہجرت نہ کرنے کے فیصلے کی قیمت ادا کر رہے ہیں کہ جب خود بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اگست 1947ء میں دلی سے کراچی آتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان کا وفادار رہنے کی تلقین کی تھی، کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان میں 'ہجرت' کے حوالے سے کوئی پروگرام طے شدہ نہیں تھا۔

''اروند کیجریوال بھی ایسا ہی ہے ۔۔۔ ''

11 فروری 2020ء کو دلی کے صوبائی انتخابات میں 'عام آدمی پارٹی' مسلسل تیسری بار سرکار بنانے میں کام یاب ہوئی۔۔۔ اس کے بہت سے مسلمان امیدوار بھی بھاری ووٹ لے کر سرخرو ہوئے، دوسری طرف 'بی جے پی' کو اگرچہ بدترین شکست ہوئی، لیکن اسے پچھلے چناؤ سے زیادہ ووٹ ملے، اِسے مودی نوازوں نے 'مثبت' اشارے کے طور پر دیکھا۔ اروند کیجریوال کی کام یابی کو اُن کی سادگی اور بے مثال عوام دوست اقدام کا ثمرہ قرار دیا گیا۔



بالخصوص ہندوستان کی نفرت انگیز سیاست اور گھٹن زدہ ماحول میں وہ 'موذی' سے کئی گنا بہتر انتخاب تھے، لیکن اِس چناؤ کے فوری بعد دلی میں جو خوں آشامی اتری اس پر کیجریوال کے کردار سے عوام میں ایک مایوسی کی لہر بھی دیکھی جا رہی ہے، ہرچند کہ دلی پولیس مودی سرکار کے پاس ہے، اس کے باوجود کیجریوال کے اس کٹھن گھڑی میں منظر سے 'غائب' اور غیر فعال رہنے پر سوالات کھڑے کیے جار ہے ہیں اور 'یہ بھی ویسا ہی ہے' جیسی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔
Load Next Story