امریکا کی طویل ترین جنگ کا فاتح کون
ان عوامل کا سبق آموز قصہ جن کے باعث عالم بے سروسامانی میں بھی افغانوں نے دنیا کی اکلوتی سپرپاور کو شکست دے ڈالی
ISLAMABAD:
واٹر موٹر کے نزدیک سینکڑوں مرد اور بچے کھڑے تھے۔ ایک الیکٹریشن پمپ ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ آدھے گھنٹے تک مغز ماری کرتا رہا مگر پمپ ٹھیک نہ ہوسکا۔
وہ کابل سے اسے ٹھیک کرنے اس قصبے آیا تھا۔ بچوں کے لیے یہ واقعہ دلچسپ اور تجسّس بھرا بن گیا۔ مگر جب پمپ درست نہ ہوا تو وہ بور ہوکر اپنے کھیل کود میں لگ گئے۔ بڑوں کے لیے مگر پمپ ٹھیک نہ ہونا بری خبر تھی۔ اب انہیں پیپوں میں بند دریا کا پانی اپنے گدھوں یا کاندھوں پر لاد کر اپنی زمینیوں تک پہنچانا تھا۔
وہ صدیوں سے یہ محنت مشقت کررہے تھے۔ افسوس کہ دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کے کمالات بھی ان کی بیچارگی اور پس ماندگی دور نہ کرسکے۔یہ قصبہ افغانستان کے دارالحکومت، کابل سے صرف 25 کلو میٹر دور ہے۔ موسہی کہلاتا ہے۔ اسی نام کے ضلع کا صدر مقام ہے۔ ضلع میں تیس پنتیس ہزار افغان بستے ہیں۔ دریائے شینا بہہ کر علاقے کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ لیکن مٹھی بھر سردار طبقے کو چھوڑ کر وہاں آباد99 فیصد افغان غریب، ناخواندہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ وہ سبزیاں و فصلیں اگا یا مویشی پال کر گزارہ کرتے ہیں۔ زندگی لشٹم پشٹم بسر ہورہی ہے۔ تاہم وہ ملکی ترقی و خوشحالی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔
یادگار جیت
ماہ فروری کے اواخر میں امریکا اور افغان طالبان کے مابین امن معاہدہ انجام پایا۔ یہ دونوں قوتیں پچھلے اٹھارہ برس سے باہم نبرد آزما تھیں۔ ایک لحاظ سے یہ معاہدہ طالبان کی فتح بن گیا کیونکہ امریکا عالمی سپرپاور ہونے اور جدید ترین اسلحہ رکھنے کے باوجود سر توڑ کوششوں سے بھی کہیں زیادہ کمزوراوروسائل سے محروم قوت کو شکست نہ دے سکا۔ طالبان کی کامیابی و جیت محض عمدہ گوریلا جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پس پردہ بعض عوامل پوشیدہ ہیں۔
انھیں جان کر پاکستانی حکمران طبقہ بھی طرز حکمرانی کے قیمتی سبق حاصل کرسکتا ہے۔طالبان کی کامیابی کا پہلا اہم راز یہ ہے کہ ان کے تقریباً سبھی رہنما اور کارکن کرپٹ، مفاد پرست اور عیش پسند نہیں ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اپنے آپ کو دولت مند بنانے اور مراعات دینے نہیں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے حکومت سنبھالی۔ اپنے مقصد سے مخلص اور عوام دوست ہونے نے ہی اپنی سخت مزاجی کے باوجود طالبان کو افغان عوام میں مشہور و مقبول بنادیا۔ اور عوام کی حمایت و مدد پاکر ہی طالبان کو یہ سنہرا موقع ملا کہ وہ امریکا جیسے معاشی و عسکری طور پر نہایت طاقتور ملک کے سیاست دانوں، جرنیلوں اور سرکاری افسروں کو تگنی کا ناچ نچا دیں اور انہیں اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ عوام میں مقبولیت کی بنا پر ہی طالبان میدان جنگ میں قدم جماسکے اور فتح کے قریب ہوتے گئے۔ اس یادگار جیت کی داستان سبق آموز اور دلچسپ ہے۔
افغان عوام صدیوں سے سرداری نظام کی چھتری تلے رہ رہے تھے۔وہ مختلف قبائل میں تقسیم ہیں جن کے سردار ہی روزمرہ معاملات طے اور سارے فیصلے کرتے ۔ چونکہ بیشتر سردار پختون تھے اسی لیے انہی میں کوئی طاقتور شخص افغانستان کا حاکم بن جاتا۔ اگرچہ اسے اقلیتی تاجکوں، ہزارہ، ازبکوں وغیرہ سے مسائل درپیش رہتے جنہیں شکایت تھی کہ پختون اہم معاملات میں ان کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔بیسویں صدی میں افغان سیاسی و نظریاتی طور پر بھی مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔
اسی نظریاتی کشمکش نے آخر کار انہیں خانہ جنگی کے الاؤ میں دھکیل دیا۔ یہ 1978ء کی بات ہے۔ خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر سویت یونین کی فوج نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ 1989ء میں وہ رخصت ہوئی تو قدیم قبائلی اختلافات عود کر آئے، چناں چہ افغان گروہوں میں دوبارہ خانہ جنگی چھڑ گئی۔ ماضی کی طرح افغانستان میں جابجا قبائلی سرداروں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرلیں اور وہاں آمرانہ انداز میں حکومت کرنے گے۔ رفتہ رفتہ عیاش سرداروں نے بچے بچیوں کی بے حرمتی کو معمول بنالیا۔
1994ء میں ملا محمد عمر کا صوبہ قندھار میں ظہور ہوا۔ وہ مدرسے کے استاد تھے۔ ان سے بے بس و مجبور عوام پر سرداروں کا ظلم نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے اپنے چالیس پچاس طلبہ پر مشتمل ایک مسلح گروہ بنایا اور عیاش و ظالم سرداروں کی سرکوبی کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کئی کرپٹ مقامی سردار مار ڈالے۔ ان کی دلیری و بہادری دیکھ کر دور دراز سے غریب افغان انہیں اپنی مدد کے لیے بلانے لگے۔ یہی نہیں، دیگر مدارس کے طلبہ بھی ملا عمر سے آن ملے۔ ان کے ساتھیوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔ تبھی ملا عمر نے افغان معاشرے کو معاشرتی برائیوں سے پاک کرکے وہاں اسلامی نظام کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا۔ ان کی سپاہ کو ''طالبان'' کہا گیا کیونکہ اکثریت مدارس کے طلبہ تھے۔ستمبر 1996ء میں طالبان نے کابل فتح کرلیا۔
1998ء تک وہ افغانستان کے نوے فیصد رقبے پر اپنی اسلامی حکومت قائم کرچکے تھے۔ طالبان نے پوست کی کاشت غیر اسلامی قرار دے کر ختم کر ڈالی۔ یوں افغانستان ہی نہیں پاکستان میں بھی منشیات کی لعنت خاصی حد تک کم ہوگئی۔ تاہم طالبان پر الزام لگاکہ وہ مذہبی لحاظ سے کٹر ہیں۔ خصوصاً خواتین کے معاملے میں سخت قوانین اپناتے اور انہیں گھروں میں مقید کرنا چاہتے ہیں۔ اس دوران القاعدہ کے چیف، اسامہ بن لادن ان کے ساتھی بن چکے تھے۔ جب واقعہ نائن الیون رونما ہوا تو امریکا نے اس کا مرتکب اسامہ بن لادن کو قرار دیا اور صرف پچیس دن بعد 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر حملہ کردیا۔ امریکا کی زبردست عسکری طاقت کا طالبان مقابلہ نہیں کرپائے اور تتّر بتّر ہوگئے۔
کرپشن کی لعنت
امریکی حکمرانوں نے تب دعویٰ کیا تھا کہ وہ اعتدال پسند افغانوں کے ساتھ مل کر افغانستان کو ترقی اور خوشحال مملکت بنادیں گے۔ افغان معاشرے میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو پروان چڑھائیں گے۔ امریکا نے یورپی ممالک کو بھی ساتھ ملالیا اور وہ مل کر نئی افغان حکومت کو ہر سال ''ایک سو ارب ڈالر'' کی بھاری بھرکم امداد دینے لگے۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں، پاکستان کرنسی میں ''پندرہ ہزار ارب روپے'' بنتی ہے۔ یہ پاکستان کے سالانہ بجٹ (چھ ہزار ارب روپے) سے تقریباً دگنی رقم ہے۔ درست کہ ایک سو ارب ڈالر کا بیشتر حصہ جنگی اخراجات پر لگ جاتا مگر افغان حکومت کو ترقیاتی منصوبے بنانے کی خاطر ہر سال آٹھ تا دس ارب ڈالر ملتے رہے۔
صد افسوس کہ اس رقم کا 99 فیصد حصہ افغان حکومت میں شامل سردار، سیاست داں اور سرکاری افسر کھاگئے۔ چناں چہ پچھلے اٹھارہ برس میں یہ بہت بڑی تبدیلی ظہور پذیر ہوئی کہ افغان معاشرے میں ایک طاقتور اشرافیہ پیدا ہوگیا۔یہ اشرافیہ چار تا پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس میں قبائلی سردار، بااثر سیاست داں، فوج کے جرنیل، پولیس افسر ، طاقتور سرکاری افسر اور ان کے نچلے درجے کے گماشتے و ایجنٹ شامل ہیں جنھیں ڈالروں کی بہتی گنگا سے کچھ نہ کچھ حصہ مل جاتا ہے۔ پچھلے اٹھارہ برس میں کرپشن کے بل پر یہ طبقہ بہت دولت مند اور بارسوخ ہوچکا۔ اس اشرافیہ کے سبھی ارکان آپس میں قریبی تعلق رکھتے اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے سے ہر ممکن تعاون کرتے ہیں۔
غرض پچھلے اٹھارہ برس میں افغان حکمران طبقے کو جو ڈیڑھ سو تا دو سو ارب ڈالر کے مابین بھاری امداد ملی، اس کا بیشتر حصہ افغان حکمران طبقہ ہڑپ کرگیا۔ افغان عوام کو اس بین الاقوامی امداد سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ اسی لیے آج بھی افغانستان کی تین کروڑ اسّی لاکھ آبادی میں سے تقریباً نوے تا پچانوے فیصد افغان غریب یا بنیادی سہولتوں سے محروم افراد ہی کہلاتے ہیں۔ان کے حکمرانوں کو امریکا و یورپی ممالک سے جو اربوں ڈالر کی امداد ملی، وہ عوام کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاسکی۔ وہ آج بھی دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے صبح تا شام محنت کرتے ہیں۔
پانی دور دراز علاقوں سے بھر کر لاتے ہیں۔ جدید تعلیم سے محروم ہیں اور عمدہ علاج سے بھی۔ایک حکمران کا فرض و ذمے داری ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔ افغانستان میں حکمران طبقہ صرف اپنے مفادات مدنظر رکھتا ہے۔ اس نے اٹھارہ برس میں امریکی و یورپی امداد خردبرد کرکے خود کو ارب پتی بنالیا۔ بیچارے عوام بنیادی سہولیات سے بھی مستفید نہیں ہوپاتے۔مثال کے طور پر قبضہ موسہی کرلیجیے۔ کابل سے قریب ترین ہونے کے باوجود پچھلے اٹھارہ برس میں وہاں افغان حکومت کا صرف ایک کارنامہ واٹر موٹر لگانا ہے۔ مگر وہ موٹر بھی سال کے بیشتر عرصے خراب رہتی ہے۔ قصبے والے اپنے خرچ پر اس کی مرمت کراتے ہیں۔ قصبے میں چند گھروں میں بجلی ہے مگر جب وہ رخصت ہو تو کئی کئی دن اپنی شکل نہیں دکھاتی۔ غرض دور جدید کی سہولتوں سے صرف کابل کا مٹھی بھر حکمران طبقہ ہی لطف اندوز ہورہا ہے۔
ابھرنے کی وجوہ
حکمران طبقے کا افغان عوام کو نظر انداز کردینا وہ پہلی اہم وجہ ہے جس کی بنا پر افغانستان میں طالبان کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا۔ امریکا اور یورپی ممالک نے کابل میں جس کٹھ پتلی حکومت کی بنیاد رکھی، اس کے وزیر، مشیر اور سرکاری افسر ڈالر سمیٹنے میں لگ گئے۔ البتہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کاغذات میں دکھا جاتا کہ فلاں مقام پر صحت مراکز یا سکول بن گئے۔ فلاں جگہ کوئی عوامی منصوبہ شروع کیا گیا۔ مگربیشتر منصوبے صرف کاغذائی کارروائی تک ہی محدود تھے۔ اگر کہیں کوئی عوام دوست منصوبہ بنا بھی تو اس سے حکمران طبقے کے چیلے چانٹوں نے ہی فائدہ اٹھایا۔ عوام تک اس کے ثمرات کم ہی پہنچ سکے۔
اپنے حکمران طبقے کی کرپشن اور شاہانہ طرز زندگی دیکھ کر عام لوگ اس سے متنفر ہونے لگے۔ طالبان سخت مزاج تھے مگر کرپٹ نہیں ۔ ان کا رہن سہن بھی سادہ تھا۔ وہ اشیائے تعیش کے دلدادہ نہیں تھے اور صرف روزمرہ استعمال کی چیزیں ہی خریدتے۔ ان کی دلچسپی و توجہ کا محور مملکت میں اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔ عیش پسند اور مغرور و متکبر حکمران طبقے اور سادہ مزاج طالبانی لیڈروں کے بنیادی فرق نے خصوصاً پختون عوام کو دوبارہ طالبان کی سمت راغب کردیا۔افغان عوام میں طالبان کے مقبول ہونے کا دوسرا اہم راز یہ ہے کہ حکمران طبقہ عام آدمی کو انصاف فراہم نہیں کر سکا۔ لوگ سرکاری دفاتر میں مارے مارے پھرتے مگر ہفتوں ان کے مسائل حل نہ ہوتے۔ حکمرانوں اور سرکاری افسروں کو عوامکی تکالیف و مصائب کا احساس تک نہ تھا۔
وہ تو اپنی محدود سی رنگین دنیا میں مگن ہوگئے جہاں ڈالروں کی صورت ہن برس رہا تھا۔اسی دوران طالبان جن علاقوں کو اپنے زیر اثر لائے، وہاں انہوں نے بہترین حکومتی انتظام تشکیل دیا۔ کسی شہری کو کوئی تکلیف ہوتی، تو وہ جلد دور کردی جاتی۔ طالبان نے ہر علاقے میں عدالتیں قائم کردیں جہاں سے عام آدمی کو فوری انصاف ملنے لگا۔ انصاف کی بروقت فراہمی نے بھی عوام میں طالبان کو مقبول کردیا اور وہ انہیں پسند کرنے لگے۔یہ درست ہے کہ امریکی حکمران طبقے نے ابتداً انتقام کی آگ میں جل کر سر زمین افغانستان پر قدم دھرے۔ وہ القاعدہ اور طالبان کو اپنی دیوہیکل عسکری قوت سے نیست و نابود کردینا چاہتے تھے۔
تاہم آہستہ آہستہ امریکی جرنیلوں کو احساس ہوا کہ یہ دیس تو جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ایک طرف چین تھا، ابھرتی معاشی و عسکری قوت۔دوسری سمت روس اور وسطی ایشیا کے ذرائع تونائی سے مالامال ممالک دکھائی دیتے، تیسریجانب ایران تھا، ان کا کٹر دشمن اور چوتھی طرف بھارت و پاکستان جیسے ایٹمی ممالک واقع ہیں۔ امریکی جرنیلوں کو احساس ہوا کہ افغانستان میں بیٹھ کر جاسوسی کے جدید ترین آلات کی مدد سے وہ اپنے حریفوں پر باآسانی نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہ امر واضح ہوتے ہی امریکی و نیٹو جرنیلوں کے لیے افغان سرزمین کی اہمیت عسکری و تزویراتی لحاظ سے دو چند ہوگئی۔
ایک اہم تبدیلی
افغانستان میں 45 تا 60 فیصد آبادی پشتون ہے۔ بقیہ آبادی تاجک (27 فیصد)، ہزارہ (9 فیصد)، ایماق (4 فیصد)، ترکمان (4 فیصد) اور بلوچ (2 فیصد) پر مشتمل ہے۔ یہ تمام نسلیں روایتی طور پر لسانی، معاشی و سیاسی اختلافات کا شکار رہی ہیں۔ تاہم جب بھی غیر ملکی حملہ آور ہوئے تو انہوں نے باہمی مسئلے پس پشت ڈال کر اتحاد و یکجہتی سے ان کا مقابلہ کیا۔ چناں چہ برطانیہ اور سویت یونین کی افواج سے تمام افغان نبرد آزما رہے اور انہیں شکست دی۔2001ء میں جب امریکی سرزمین افغاناں پہنچے تو ایک بڑی تبدیلی نے جنم لیا۔ وہ یہ کہ غیر پشتون قبائل کی اکثریت نے ان سے اتحاد کرلیا۔ یہی نہیں، امریکی پشتون قبائل سے بھی ایسے سردار ڈھونڈنے میں کامیاب رہے جو کابل کی کٹھ پتلی حکومت کا حصہ بن گئے۔
دسمبر 2001ء میں جو عبوری افغان حکومت تشکیل پائی، قندھار کے پشتون پوپل زئی قبیلے کے اہم رہنما، حامد کرزئی کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ عبوری حکومت میں دو نائب صدر، وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ سمیت بارہ وزیر پشتون تھے۔امریکی فوج نے غیر پشتون سرداروں کی مدد سے افغان طالبان کے کئی رہنما اور کارکن مار ڈالے۔ یوں مصائب ومسائل کا نشانہ بنے طالبان کو بیک وقت چار قوتوں... امریکا، نیٹو، غیر پشتون سرداروں اور مخالف پشتونوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ یہ چومکھی جنگ لڑنے کی خاطر ہی طالبان نے گوریلا جنگ کی حکمت عملی اپنالی۔ ابتداً انہیں خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن جیسے جیسے کابل حکومت کی نااہلی و کرپشن واضح ہوئی، خصوصاً پشتون علاقوں میں طالبان کا اثر و رسوخ پھیلتا چلاگیا۔
مخالفین افغان طالبان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہیں پاکستان کی درپردہ فوجی و مالی مدد حاصل رہی مگر وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرپاتے۔ یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2001ء ہی سے بھارت نے افغانستان میں اپنے ایجنٹوں کا جال بچھا دیا اور سرزمین افغاناں سے پاکستان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ پاکستان میں جو حکومت دشمن مسلح گروہ سرگرم تھے، بھارتی خفیہ ایجنسی، را انہیں ہر ممکن فوجی و مالی امداد فراہم کرنے لگی۔
اسی امداد کے باعث ہی پاکستان میں دشمن مسلح تنظیمیں اتنی زیادہ طاقتور ہوگئیں کہ کئی برس وطن عزیز میں دہشت گردی کا ارتب کرتی رہیں۔ انہوں نے پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہید کردیئے اور پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہ عین ممکن ہے کہ افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ زائل کرنے کی خاطر پاکستان کسی حد تک افغان طالبان کی مدد کرتا رہا۔ اپنے دفاع میں یہ اقدام کرنا کیا حق بجانب نہ تھا؟افغان طالبان پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے زیر اثر علاقوں میں پوست کی کاشت پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ مقصد یہ تھا کہ کسانوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاسکے۔
ان پر یہ الزام بھی لگا کہ وہ رقم جمع کرنے کی خاطر اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتے ہیں۔ نیز اپنے علاقوں سے گزرنے والوں سے سلامتی ٹیکس لیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض علاقوں میں جرائم پیشہ طالبان کی صفوں میں شامل ہوگئے اور درج بالا جرموں کا ارتکاب کرنے لگے۔ انہی کی سرگرمیوں نے افغان طالبان کو بدنام کر ڈالا۔حقیقت مگر یہ ہے کہ بیشتر پشتونوں کی نگاہ میں افغان طالبان غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف جہاد کررہے تھے۔ اسی لیے عام لوگ ان کی ہر ممکن مالی مدد کرتے رہے۔ گویا بنیادی طور پر عوام کی مدد و تعاون سے طالبان نے اپنی لڑائی جاری رکھی اور انہیں روز بروز تقویت ملتی چلی گئی۔
اس وقت افغان طالبان کی صفوں میں پچاس تا ستر ہزار سپاہ شامل ہے۔ افغانستان میں جہاں کہیں پشتونوں کی اکثریت ہے، وہاں کٹھ پتلی کابل حکومت کے بجائے طالبان کا اثرورسوخ ہی زیادہ ہے۔ یہ عیاں ہے کہ امریکی و نیٹو فوجی جدید ترین اسلحہ رکھنے کے باوجود افغان طالبان کو شکست نہیں دے سکے بلکہ بتدریج اپنی چوکیوں میں سمٹنے پر مجبور ہوگئے۔دلچسپ بات یہ کہ افغانستان پر قابض ہوتے ہی امریکی و نیٹو ممالک افغان فوج کی تشکیل نو میں مصروف ہوگئے تھے۔ انہوں نے افغان فوج کھڑی کرنے کی خاطر کم از کم دو سو ارب ڈالر خرچ کردیئے۔ فوجیوں کو عسکری تربیت دی اور جدید اسلحہ فراہم کیا۔2013 ء تک افغان فوج میں ساڑھے تین لاکھ فوجی بھرتی ہوچکے تھے۔ مگر یہ فوج ظفر موج بھی امریکی حکمران طبقے کی امیدوں پر پورا نہیں اترسکی۔
جوش و جذبے کی اہمیت
آج افغان فوج نے گو تمام شہروں اور بڑے قصبوں میں چوکیاں قائم کررکھی ہیں لیکن فوجی شاذونادر ہی اپنی چوکیوں سے باہر نکلتے ہیں۔ جب تک انہیں جدید ترین امریکی سازوسامان اور ٹکنالوجی کی مدد حاصل نہ ہو، وہ کہیں حملہ کرنے نہیں جاتے۔ ان کی بزدلی کا بڑا سبب افغان طالبان کی دلیری و بہادری ہے۔ وہ کمتر ہتھیار رکھتے ہوئے بھی افغان فوج کے دستوں پر اتنے بھرپور اور زوردار حملے کرتے ہیں کہ فوجیوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ اس ثبوت سے ظاہر ہے کہ میدان جنگ میں جوش و جذبہ بھی جیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔حق و یقین کی طاقت ایک فریق کو جوش و جذبہ عطا کردیتی ہے۔
افغان فوج مغربی استعمار کی پٹھو ہے۔ غاصبوں کا ساتھ دینے کے باعث ہی افغان فوجی اس جوش و جذبے سے محروم رہے جو فتح پانے کی خاطر لازم ہے۔ نپولین اور ہٹلر جیسے بڑے جرنیلوں کی افواج بھی روسی دارالحکومت تک اس لیے نہیں پہنچ سکیں کہ سرد موسم کے علاوہ ان کی ہمتیں بھی پست ہو گئی تھیں۔ جیت کی تمنا نہ ہونے سے عددی برتری کے باوجود وہ شکست کھا گئیں۔ انسانی تاریخ میں ایسے واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ جنگ بدر میں بھی ایمانی قوت و حرارت ہی کے باعث مٹھی بھر مسلمانوں نے کفار مکہ کی کہیں زیادہ طاقتور فوج کو ہار کا مزا چکھایا تھا۔ غرض جدید ترین اسلحے کی اہمیت اپنی جگہ مگر قطعی نتیجہ سامنے لانے میں تجربہ اور جوش و جذبہ بھی اپناکردار ادا کرتے ہیں۔
امریکی حکمران طبقے کو بھی آخر کار احساس ہوگیا کہ وہ طالبان کو شکست نہیں دے سکتے۔ امریکی عوام اس جنگ کے مخالف ہوچکے۔ وہ اب ٹیکسوں کی اپنی رقم اس لاحاصل جنگ پر خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ مگر امریکی جرنیلوں کی خواہش ہے کہ افغانستان جیسے اہم جغرافیائی حیثیت والے ملک میں وہ اپنی موجودگی برقرار رکھیں۔ مقصد یہ ہے کہ چین اور روس کی جاسوسی ہوسکے۔
اسی لیے انہوں نے طالبان سے دوستی کی پینگیں بڑھالیں تاکہ وہ افغانستان میں امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچائیں۔ امن معاہدے سے عیاں ہے کہ طالبان فی الحال امریکی حکمران طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے تیار ہیں۔ شرط مگر یہ ہے کہ امریکی و نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں۔ طالبان نے امریکیوں کو یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ سرزمین افغاناں امریکا کے خلاف کسی بھی طرح استعمال نہیں ہوگی۔حسب توقع مگر امن معاہدہ رکاوٹوں کا شکار ہوگیا جب افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے قیدی رہا کرنے سے انکار کردیا۔ دراصل طالبان کی صورت افغان حکمران طبقے کو اپنی کمائی کا در بند ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر ہے، طالبان اگر افغان حکومت کا حصہ بن گئے، تو کرپٹ حکمران طبقہ کرپشن جاری نہیں رکھ سکتا۔ وہ اٹھارہ سال سے کرپشن کا عادی ہوچکا۔ اب وہ یہ بیش بہا ذریعہ روزگار چھوڑنے کو ہرگز تیار نہیں۔ طالبان کے آنے سے ان کا ذریعہ آمدن ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ مملکت میں اثرورسوخ اور طاقت بھی ماند پڑجائے گی۔ اس لیے افغان حکمران طبقہ ''اسٹیٹس کو'' یا حالات جوں کے توں رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ اس طبقے سے جان چھڑانے کی خاطر طالبان کو کافی تگ و دو کرنا پڑے گی۔
افغان جنگ...ایک بلیک ہول
سچ یہ ہے کہ صرف امریکی حکومت ہی کرپٹ افغان حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ وجہ یہ کہ یہ طبقہ امریکی ڈالروں کے سہارے ہی زندہ ہے۔ وہ امریکی امداد ہی سے آکسیجن حاصل کرتا ہے۔ فی الوقت کابل حکومت کے سالانہ بجٹ کی مالیت 11 ارب ڈالر ہے۔ اسے ہر سال ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں وغیرہ کی صورت ڈھائی ارب ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔ بقیہ 8.5 ارب ڈالر اسے امریکا و یورپی ممالک ہی بطور امداد فراہم کرتے ہیں تاکہ افغان حکومت کا دھندا چل سکے اور وہ قائم و دائم رہے۔ اگر امریکا آج ہی یہ امداد روک دے تو اشرف غنی حکومت چند ہی ہفتوں میں ختم ہوجائے۔حالات سے عیاں ہے کہ افغانستان میں جنگ روکنے کی کلید امریکا کے پاس ہے۔
اگر امریکی حکمران طبقہ افغان عوام کو جنگ کی تباہی و بربادی سے نجات دلانا چاہتا ہے تو اسے فی الفور کابل حکومت کی امداد روکنا ہوگی تاکہ وہ راہ راست پر آجائے۔ یہ حکومت حقیقتاً کابل یا غیر پشتون علاقوں تک محدود ہے۔ افغانستان کی نصف سے زائد آبادی اسے قانونی و اخلاقی طور پہ جائز حکومت تسلیم نہیں کرتی۔ کابل کے حکمران الیکشن میں فراڈ اور دھوکے بازی اپنا کر اقتدار سنبھالتے ہیں۔ افغانستان میں کچھ عرصہ قبل صدارتی الیکشن ہوا تھا۔ وہ دھاندلی کے الزامات سے لتھڑا رہا۔ گو افغان الیکشن کمیشن اشرف غنی کی جیت کا اعلان کرچکا مگر مدمقابل، عبداللہ عبداللہ حتیٰ کہ امریکی حکومت نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا۔
یہ یقینی ہے کہ افغان جنگ کے معاملے پر پس پردہ امریکی جرنیلوں اور صدر ٹرمپ کے مابین ٹسل چل رہی ہے۔ ٹرمپ نے 2016ء میں انتخابی مہم کے دوران اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی جنگیں ختم کردیں گے۔ اس سال دوبارہ الیکشن ہونے ہیں۔ لہٰذا ٹرمپ افغان جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ سرخرو ہوکر امریکی عوام کے سامنے جائیں اور ان سے پھر ووٹ مانگ سکیں۔
لیکن امریکی جرنیل افغانستان میں دو تین مقامات پر اپنے فوجی مستقر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہاں جدید ترین آلات کی مدد سے وہ اپنے طاقتور حریفوں کی سرگرمیوں پر باآسانی نظر رکھ سکیں گے۔طالبان اور ٹرمپ حکومت کے مابین امن معاہدے سے عیاں ہے کہ طالبان نے مستقبل میں امریکا سے تعاون کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ اگرچہ آگے چل کر طالبان افغانستان کے خود مختار حکمران بن گئے تو وہ صورت حال کے مطابق پالیسی تبدیل کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے تب وہ امریکا کے بجائے چین اور روس سے دوستی و تعاون کرنا زیادہ پسند کریں گے جو ان کے ہمسائے بھی ہیں۔امریکی جرنیل بھی جانتے ہیں کہ ممکن ہے، مستقبل میں طالبان کی پالیسی تبدیل ہوجائے۔ مگر وہ طالبان سے امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ ان گنت جنگوں نے امریک کو ''ساڑھے تئیس ٹریلین ڈالر (ساڑھے تیئس ہزار ڈالر)کا مقروض بنا دیا ہے۔ چونکہ امریکا اب بھی ہر سال تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کے اخراجات کرتا ہے، اس لیے یہ قرضہ بڑھ رہا ہے۔ جنگوں کی وجہ سے امریکا دنیا کا مقروض ترین ملک بن چکا۔ آج ہر امریکی تقریباً 73 ہزار ڈالر (ایک کروٹ نو لاکھ پچاس ہزار روپے) کا مقروض ہوچکا جو یقیناً محیر العقول رقم ہے۔
بے حساب قرضے کے سبب امریکی عوام ٹرمپ حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ بیرون ممالک سرکاری پشت پناہی سے چلنے والی جنگیں روکی جائیں تاکہ ان کے ٹیکسوں کی رقم ضائع نہ جائے۔دوسری وجہ یہ کہ امریکی جرنیلوں کو احساس ہوچکا کہ وہ عسکری طور پر طالبان کو کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ لہٰذا لازماً انہیں طالبان سے دوستی کرنا ہو گی تاکہ وہ نہ صرف جونک کی طرح چمٹ جانے والی افغان جنگ سے نجات پائیں بلکہ مستقبل کے افغانستان میں ان کے مفادات بھی محفوظ رہیں۔ افغان جنگ امریکی حکمران طبقے کے لیے ایسا ''بلیک ہول'' بن چکی جس میں کھربوں ڈالر بھی پھینک دو تو وہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں ۔لہذا اس جنگ کو محض انا کی خاطر اور سپر پاور ہونے کے زعم میں جاری رکھنا بے وقوفی اور احمقانہ پن ہو گا۔
تاریخ ِانسانیت میں پہلی بار
2001ء میں افغان عبوری حکومت بنتے ہی بھارت اس سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگا۔حکومت کو کروڑوں روپے کی بھارتی امداد ملنے لگی۔بھارت نے افغانستان میں مختلف سرکاری عمارتیں تعمیر کرائیں۔افغان فوج کے افسروں کو جنگی تربیت دی اور عسکری سامان بھی دیا۔جلد وہ امریکا کے بعد کابل حکومت کو امداد دینے والا دوسرا بڑا ملک بن بیٹھا۔ سارے تام جھام کا مقصد یہ تھا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکے۔چناں چہ پاکستان جلد بھارتی خفیہ ایجنسی،را کی ایجنٹ تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بن گیا۔افغان طالبان کی جدوجہد غاصبوں کے خلاف تھی۔انھوں نے پاکستان کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔
اس بنا پہ ممکن ہے،پاکستان نے بھارتی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کو ٹیکٹیکل سپورٹ دی گو سرکاری طور پر پاکستانی حکومت کا موقف تھا کہ وہ افغانستان میں کسی فریق کی طرفدار نہیں۔امریکا و بھارت نے لیکن اٹھارہ برس واویلا مچائے رکھا کہ پاکستان افغان طالبان کی مدد کرتا ہے۔امریکا و افغان طالبان معاہدے کے بعد بھارت میں صف ِماتم بچھ گئی جسے انجام دینے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔وہاں ماہرین ِعسکریات کہنے لگے کہ خطّے کی ''ففتھ جنریشن'' جنگ میں پاکستانی دماغوں نے اپنی بہترین چالوں سے بھارتی پالیسی سازوں کو مات دے دی۔ افغانستان میں بھارت نے جو تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی،وہ رائیگاں گئی۔لیفٹیننٹ جنرل(ر)ایچ ایس پناگ بھارتی فوج کی نارتھرن کمانڈ کا سربراہ رہا ۔اب ممتاز ماہر ِعسکریات ہے۔وہ اپنے ایک مضمون''India should face new Afghanistan realities''میں لکھتا ہے:
''افغانستان میں امریکا کی ہار پاکستانی سٹیٹ کرافٹ پالیسی سازوں کے لیے خوشی وفخر کا یادگار موقع ہے۔انسانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ایک قوم نے سپرپاور کو شکست دینے کی خاطر سرگرمی سے چالیں چلیں مگر ساتھ ساتھ وہ سپرپاور کی قربت اور اس سے فوائد پانے میں بھی کامیاب رہی۔''سون تزو چین کا مشہور عسکری ماہر گذرا ہے۔اس کا قول ہے:''اپنے آپ کو پہچانواور اپنے دشمن کو بھی...تب ہزار جنگیں بھی ہوں تب بھی تم ہی فاتح ٹھہرو گے۔''
واٹر موٹر کے نزدیک سینکڑوں مرد اور بچے کھڑے تھے۔ ایک الیکٹریشن پمپ ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ آدھے گھنٹے تک مغز ماری کرتا رہا مگر پمپ ٹھیک نہ ہوسکا۔
وہ کابل سے اسے ٹھیک کرنے اس قصبے آیا تھا۔ بچوں کے لیے یہ واقعہ دلچسپ اور تجسّس بھرا بن گیا۔ مگر جب پمپ درست نہ ہوا تو وہ بور ہوکر اپنے کھیل کود میں لگ گئے۔ بڑوں کے لیے مگر پمپ ٹھیک نہ ہونا بری خبر تھی۔ اب انہیں پیپوں میں بند دریا کا پانی اپنے گدھوں یا کاندھوں پر لاد کر اپنی زمینیوں تک پہنچانا تھا۔
وہ صدیوں سے یہ محنت مشقت کررہے تھے۔ افسوس کہ دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کے کمالات بھی ان کی بیچارگی اور پس ماندگی دور نہ کرسکے۔یہ قصبہ افغانستان کے دارالحکومت، کابل سے صرف 25 کلو میٹر دور ہے۔ موسہی کہلاتا ہے۔ اسی نام کے ضلع کا صدر مقام ہے۔ ضلع میں تیس پنتیس ہزار افغان بستے ہیں۔ دریائے شینا بہہ کر علاقے کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ لیکن مٹھی بھر سردار طبقے کو چھوڑ کر وہاں آباد99 فیصد افغان غریب، ناخواندہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ وہ سبزیاں و فصلیں اگا یا مویشی پال کر گزارہ کرتے ہیں۔ زندگی لشٹم پشٹم بسر ہورہی ہے۔ تاہم وہ ملکی ترقی و خوشحالی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔
یادگار جیت
ماہ فروری کے اواخر میں امریکا اور افغان طالبان کے مابین امن معاہدہ انجام پایا۔ یہ دونوں قوتیں پچھلے اٹھارہ برس سے باہم نبرد آزما تھیں۔ ایک لحاظ سے یہ معاہدہ طالبان کی فتح بن گیا کیونکہ امریکا عالمی سپرپاور ہونے اور جدید ترین اسلحہ رکھنے کے باوجود سر توڑ کوششوں سے بھی کہیں زیادہ کمزوراوروسائل سے محروم قوت کو شکست نہ دے سکا۔ طالبان کی کامیابی و جیت محض عمدہ گوریلا جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پس پردہ بعض عوامل پوشیدہ ہیں۔
انھیں جان کر پاکستانی حکمران طبقہ بھی طرز حکمرانی کے قیمتی سبق حاصل کرسکتا ہے۔طالبان کی کامیابی کا پہلا اہم راز یہ ہے کہ ان کے تقریباً سبھی رہنما اور کارکن کرپٹ، مفاد پرست اور عیش پسند نہیں ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اپنے آپ کو دولت مند بنانے اور مراعات دینے نہیں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے حکومت سنبھالی۔ اپنے مقصد سے مخلص اور عوام دوست ہونے نے ہی اپنی سخت مزاجی کے باوجود طالبان کو افغان عوام میں مشہور و مقبول بنادیا۔ اور عوام کی حمایت و مدد پاکر ہی طالبان کو یہ سنہرا موقع ملا کہ وہ امریکا جیسے معاشی و عسکری طور پر نہایت طاقتور ملک کے سیاست دانوں، جرنیلوں اور سرکاری افسروں کو تگنی کا ناچ نچا دیں اور انہیں اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ عوام میں مقبولیت کی بنا پر ہی طالبان میدان جنگ میں قدم جماسکے اور فتح کے قریب ہوتے گئے۔ اس یادگار جیت کی داستان سبق آموز اور دلچسپ ہے۔
افغان عوام صدیوں سے سرداری نظام کی چھتری تلے رہ رہے تھے۔وہ مختلف قبائل میں تقسیم ہیں جن کے سردار ہی روزمرہ معاملات طے اور سارے فیصلے کرتے ۔ چونکہ بیشتر سردار پختون تھے اسی لیے انہی میں کوئی طاقتور شخص افغانستان کا حاکم بن جاتا۔ اگرچہ اسے اقلیتی تاجکوں، ہزارہ، ازبکوں وغیرہ سے مسائل درپیش رہتے جنہیں شکایت تھی کہ پختون اہم معاملات میں ان کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔بیسویں صدی میں افغان سیاسی و نظریاتی طور پر بھی مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔
اسی نظریاتی کشمکش نے آخر کار انہیں خانہ جنگی کے الاؤ میں دھکیل دیا۔ یہ 1978ء کی بات ہے۔ خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر سویت یونین کی فوج نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ 1989ء میں وہ رخصت ہوئی تو قدیم قبائلی اختلافات عود کر آئے، چناں چہ افغان گروہوں میں دوبارہ خانہ جنگی چھڑ گئی۔ ماضی کی طرح افغانستان میں جابجا قبائلی سرداروں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرلیں اور وہاں آمرانہ انداز میں حکومت کرنے گے۔ رفتہ رفتہ عیاش سرداروں نے بچے بچیوں کی بے حرمتی کو معمول بنالیا۔
1994ء میں ملا محمد عمر کا صوبہ قندھار میں ظہور ہوا۔ وہ مدرسے کے استاد تھے۔ ان سے بے بس و مجبور عوام پر سرداروں کا ظلم نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے اپنے چالیس پچاس طلبہ پر مشتمل ایک مسلح گروہ بنایا اور عیاش و ظالم سرداروں کی سرکوبی کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کئی کرپٹ مقامی سردار مار ڈالے۔ ان کی دلیری و بہادری دیکھ کر دور دراز سے غریب افغان انہیں اپنی مدد کے لیے بلانے لگے۔ یہی نہیں، دیگر مدارس کے طلبہ بھی ملا عمر سے آن ملے۔ ان کے ساتھیوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔ تبھی ملا عمر نے افغان معاشرے کو معاشرتی برائیوں سے پاک کرکے وہاں اسلامی نظام کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا۔ ان کی سپاہ کو ''طالبان'' کہا گیا کیونکہ اکثریت مدارس کے طلبہ تھے۔ستمبر 1996ء میں طالبان نے کابل فتح کرلیا۔
1998ء تک وہ افغانستان کے نوے فیصد رقبے پر اپنی اسلامی حکومت قائم کرچکے تھے۔ طالبان نے پوست کی کاشت غیر اسلامی قرار دے کر ختم کر ڈالی۔ یوں افغانستان ہی نہیں پاکستان میں بھی منشیات کی لعنت خاصی حد تک کم ہوگئی۔ تاہم طالبان پر الزام لگاکہ وہ مذہبی لحاظ سے کٹر ہیں۔ خصوصاً خواتین کے معاملے میں سخت قوانین اپناتے اور انہیں گھروں میں مقید کرنا چاہتے ہیں۔ اس دوران القاعدہ کے چیف، اسامہ بن لادن ان کے ساتھی بن چکے تھے۔ جب واقعہ نائن الیون رونما ہوا تو امریکا نے اس کا مرتکب اسامہ بن لادن کو قرار دیا اور صرف پچیس دن بعد 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر حملہ کردیا۔ امریکا کی زبردست عسکری طاقت کا طالبان مقابلہ نہیں کرپائے اور تتّر بتّر ہوگئے۔
کرپشن کی لعنت
امریکی حکمرانوں نے تب دعویٰ کیا تھا کہ وہ اعتدال پسند افغانوں کے ساتھ مل کر افغانستان کو ترقی اور خوشحال مملکت بنادیں گے۔ افغان معاشرے میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو پروان چڑھائیں گے۔ امریکا نے یورپی ممالک کو بھی ساتھ ملالیا اور وہ مل کر نئی افغان حکومت کو ہر سال ''ایک سو ارب ڈالر'' کی بھاری بھرکم امداد دینے لگے۔ یہ کوئی معمولی رقم نہیں، پاکستان کرنسی میں ''پندرہ ہزار ارب روپے'' بنتی ہے۔ یہ پاکستان کے سالانہ بجٹ (چھ ہزار ارب روپے) سے تقریباً دگنی رقم ہے۔ درست کہ ایک سو ارب ڈالر کا بیشتر حصہ جنگی اخراجات پر لگ جاتا مگر افغان حکومت کو ترقیاتی منصوبے بنانے کی خاطر ہر سال آٹھ تا دس ارب ڈالر ملتے رہے۔
صد افسوس کہ اس رقم کا 99 فیصد حصہ افغان حکومت میں شامل سردار، سیاست داں اور سرکاری افسر کھاگئے۔ چناں چہ پچھلے اٹھارہ برس میں یہ بہت بڑی تبدیلی ظہور پذیر ہوئی کہ افغان معاشرے میں ایک طاقتور اشرافیہ پیدا ہوگیا۔یہ اشرافیہ چار تا پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس میں قبائلی سردار، بااثر سیاست داں، فوج کے جرنیل، پولیس افسر ، طاقتور سرکاری افسر اور ان کے نچلے درجے کے گماشتے و ایجنٹ شامل ہیں جنھیں ڈالروں کی بہتی گنگا سے کچھ نہ کچھ حصہ مل جاتا ہے۔ پچھلے اٹھارہ برس میں کرپشن کے بل پر یہ طبقہ بہت دولت مند اور بارسوخ ہوچکا۔ اس اشرافیہ کے سبھی ارکان آپس میں قریبی تعلق رکھتے اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے سے ہر ممکن تعاون کرتے ہیں۔
غرض پچھلے اٹھارہ برس میں افغان حکمران طبقے کو جو ڈیڑھ سو تا دو سو ارب ڈالر کے مابین بھاری امداد ملی، اس کا بیشتر حصہ افغان حکمران طبقہ ہڑپ کرگیا۔ افغان عوام کو اس بین الاقوامی امداد سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔ اسی لیے آج بھی افغانستان کی تین کروڑ اسّی لاکھ آبادی میں سے تقریباً نوے تا پچانوے فیصد افغان غریب یا بنیادی سہولتوں سے محروم افراد ہی کہلاتے ہیں۔ان کے حکمرانوں کو امریکا و یورپی ممالک سے جو اربوں ڈالر کی امداد ملی، وہ عوام کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاسکی۔ وہ آج بھی دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے صبح تا شام محنت کرتے ہیں۔
پانی دور دراز علاقوں سے بھر کر لاتے ہیں۔ جدید تعلیم سے محروم ہیں اور عمدہ علاج سے بھی۔ایک حکمران کا فرض و ذمے داری ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔ افغانستان میں حکمران طبقہ صرف اپنے مفادات مدنظر رکھتا ہے۔ اس نے اٹھارہ برس میں امریکی و یورپی امداد خردبرد کرکے خود کو ارب پتی بنالیا۔ بیچارے عوام بنیادی سہولیات سے بھی مستفید نہیں ہوپاتے۔مثال کے طور پر قبضہ موسہی کرلیجیے۔ کابل سے قریب ترین ہونے کے باوجود پچھلے اٹھارہ برس میں وہاں افغان حکومت کا صرف ایک کارنامہ واٹر موٹر لگانا ہے۔ مگر وہ موٹر بھی سال کے بیشتر عرصے خراب رہتی ہے۔ قصبے والے اپنے خرچ پر اس کی مرمت کراتے ہیں۔ قصبے میں چند گھروں میں بجلی ہے مگر جب وہ رخصت ہو تو کئی کئی دن اپنی شکل نہیں دکھاتی۔ غرض دور جدید کی سہولتوں سے صرف کابل کا مٹھی بھر حکمران طبقہ ہی لطف اندوز ہورہا ہے۔
ابھرنے کی وجوہ
حکمران طبقے کا افغان عوام کو نظر انداز کردینا وہ پہلی اہم وجہ ہے جس کی بنا پر افغانستان میں طالبان کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا۔ امریکا اور یورپی ممالک نے کابل میں جس کٹھ پتلی حکومت کی بنیاد رکھی، اس کے وزیر، مشیر اور سرکاری افسر ڈالر سمیٹنے میں لگ گئے۔ البتہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کاغذات میں دکھا جاتا کہ فلاں مقام پر صحت مراکز یا سکول بن گئے۔ فلاں جگہ کوئی عوامی منصوبہ شروع کیا گیا۔ مگربیشتر منصوبے صرف کاغذائی کارروائی تک ہی محدود تھے۔ اگر کہیں کوئی عوام دوست منصوبہ بنا بھی تو اس سے حکمران طبقے کے چیلے چانٹوں نے ہی فائدہ اٹھایا۔ عوام تک اس کے ثمرات کم ہی پہنچ سکے۔
اپنے حکمران طبقے کی کرپشن اور شاہانہ طرز زندگی دیکھ کر عام لوگ اس سے متنفر ہونے لگے۔ طالبان سخت مزاج تھے مگر کرپٹ نہیں ۔ ان کا رہن سہن بھی سادہ تھا۔ وہ اشیائے تعیش کے دلدادہ نہیں تھے اور صرف روزمرہ استعمال کی چیزیں ہی خریدتے۔ ان کی دلچسپی و توجہ کا محور مملکت میں اسلامی نظام قائم کرنا تھا۔ عیش پسند اور مغرور و متکبر حکمران طبقے اور سادہ مزاج طالبانی لیڈروں کے بنیادی فرق نے خصوصاً پختون عوام کو دوبارہ طالبان کی سمت راغب کردیا۔افغان عوام میں طالبان کے مقبول ہونے کا دوسرا اہم راز یہ ہے کہ حکمران طبقہ عام آدمی کو انصاف فراہم نہیں کر سکا۔ لوگ سرکاری دفاتر میں مارے مارے پھرتے مگر ہفتوں ان کے مسائل حل نہ ہوتے۔ حکمرانوں اور سرکاری افسروں کو عوامکی تکالیف و مصائب کا احساس تک نہ تھا۔
وہ تو اپنی محدود سی رنگین دنیا میں مگن ہوگئے جہاں ڈالروں کی صورت ہن برس رہا تھا۔اسی دوران طالبان جن علاقوں کو اپنے زیر اثر لائے، وہاں انہوں نے بہترین حکومتی انتظام تشکیل دیا۔ کسی شہری کو کوئی تکلیف ہوتی، تو وہ جلد دور کردی جاتی۔ طالبان نے ہر علاقے میں عدالتیں قائم کردیں جہاں سے عام آدمی کو فوری انصاف ملنے لگا۔ انصاف کی بروقت فراہمی نے بھی عوام میں طالبان کو مقبول کردیا اور وہ انہیں پسند کرنے لگے۔یہ درست ہے کہ امریکی حکمران طبقے نے ابتداً انتقام کی آگ میں جل کر سر زمین افغانستان پر قدم دھرے۔ وہ القاعدہ اور طالبان کو اپنی دیوہیکل عسکری قوت سے نیست و نابود کردینا چاہتے تھے۔
تاہم آہستہ آہستہ امریکی جرنیلوں کو احساس ہوا کہ یہ دیس تو جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ایک طرف چین تھا، ابھرتی معاشی و عسکری قوت۔دوسری سمت روس اور وسطی ایشیا کے ذرائع تونائی سے مالامال ممالک دکھائی دیتے، تیسریجانب ایران تھا، ان کا کٹر دشمن اور چوتھی طرف بھارت و پاکستان جیسے ایٹمی ممالک واقع ہیں۔ امریکی جرنیلوں کو احساس ہوا کہ افغانستان میں بیٹھ کر جاسوسی کے جدید ترین آلات کی مدد سے وہ اپنے حریفوں پر باآسانی نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہ امر واضح ہوتے ہی امریکی و نیٹو جرنیلوں کے لیے افغان سرزمین کی اہمیت عسکری و تزویراتی لحاظ سے دو چند ہوگئی۔
ایک اہم تبدیلی
افغانستان میں 45 تا 60 فیصد آبادی پشتون ہے۔ بقیہ آبادی تاجک (27 فیصد)، ہزارہ (9 فیصد)، ایماق (4 فیصد)، ترکمان (4 فیصد) اور بلوچ (2 فیصد) پر مشتمل ہے۔ یہ تمام نسلیں روایتی طور پر لسانی، معاشی و سیاسی اختلافات کا شکار رہی ہیں۔ تاہم جب بھی غیر ملکی حملہ آور ہوئے تو انہوں نے باہمی مسئلے پس پشت ڈال کر اتحاد و یکجہتی سے ان کا مقابلہ کیا۔ چناں چہ برطانیہ اور سویت یونین کی افواج سے تمام افغان نبرد آزما رہے اور انہیں شکست دی۔2001ء میں جب امریکی سرزمین افغاناں پہنچے تو ایک بڑی تبدیلی نے جنم لیا۔ وہ یہ کہ غیر پشتون قبائل کی اکثریت نے ان سے اتحاد کرلیا۔ یہی نہیں، امریکی پشتون قبائل سے بھی ایسے سردار ڈھونڈنے میں کامیاب رہے جو کابل کی کٹھ پتلی حکومت کا حصہ بن گئے۔
دسمبر 2001ء میں جو عبوری افغان حکومت تشکیل پائی، قندھار کے پشتون پوپل زئی قبیلے کے اہم رہنما، حامد کرزئی کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ عبوری حکومت میں دو نائب صدر، وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ سمیت بارہ وزیر پشتون تھے۔امریکی فوج نے غیر پشتون سرداروں کی مدد سے افغان طالبان کے کئی رہنما اور کارکن مار ڈالے۔ یوں مصائب ومسائل کا نشانہ بنے طالبان کو بیک وقت چار قوتوں... امریکا، نیٹو، غیر پشتون سرداروں اور مخالف پشتونوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ یہ چومکھی جنگ لڑنے کی خاطر ہی طالبان نے گوریلا جنگ کی حکمت عملی اپنالی۔ ابتداً انہیں خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن جیسے جیسے کابل حکومت کی نااہلی و کرپشن واضح ہوئی، خصوصاً پشتون علاقوں میں طالبان کا اثر و رسوخ پھیلتا چلاگیا۔
مخالفین افغان طالبان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہیں پاکستان کی درپردہ فوجی و مالی مدد حاصل رہی مگر وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرپاتے۔ یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2001ء ہی سے بھارت نے افغانستان میں اپنے ایجنٹوں کا جال بچھا دیا اور سرزمین افغاناں سے پاکستان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ پاکستان میں جو حکومت دشمن مسلح گروہ سرگرم تھے، بھارتی خفیہ ایجنسی، را انہیں ہر ممکن فوجی و مالی امداد فراہم کرنے لگی۔
اسی امداد کے باعث ہی پاکستان میں دشمن مسلح تنظیمیں اتنی زیادہ طاقتور ہوگئیں کہ کئی برس وطن عزیز میں دہشت گردی کا ارتب کرتی رہیں۔ انہوں نے پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہید کردیئے اور پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہ عین ممکن ہے کہ افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ زائل کرنے کی خاطر پاکستان کسی حد تک افغان طالبان کی مدد کرتا رہا۔ اپنے دفاع میں یہ اقدام کرنا کیا حق بجانب نہ تھا؟افغان طالبان پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے زیر اثر علاقوں میں پوست کی کاشت پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ مقصد یہ تھا کہ کسانوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاسکے۔
ان پر یہ الزام بھی لگا کہ وہ رقم جمع کرنے کی خاطر اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتے ہیں۔ نیز اپنے علاقوں سے گزرنے والوں سے سلامتی ٹیکس لیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض علاقوں میں جرائم پیشہ طالبان کی صفوں میں شامل ہوگئے اور درج بالا جرموں کا ارتکاب کرنے لگے۔ انہی کی سرگرمیوں نے افغان طالبان کو بدنام کر ڈالا۔حقیقت مگر یہ ہے کہ بیشتر پشتونوں کی نگاہ میں افغان طالبان غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف جہاد کررہے تھے۔ اسی لیے عام لوگ ان کی ہر ممکن مالی مدد کرتے رہے۔ گویا بنیادی طور پر عوام کی مدد و تعاون سے طالبان نے اپنی لڑائی جاری رکھی اور انہیں روز بروز تقویت ملتی چلی گئی۔
اس وقت افغان طالبان کی صفوں میں پچاس تا ستر ہزار سپاہ شامل ہے۔ افغانستان میں جہاں کہیں پشتونوں کی اکثریت ہے، وہاں کٹھ پتلی کابل حکومت کے بجائے طالبان کا اثرورسوخ ہی زیادہ ہے۔ یہ عیاں ہے کہ امریکی و نیٹو فوجی جدید ترین اسلحہ رکھنے کے باوجود افغان طالبان کو شکست نہیں دے سکے بلکہ بتدریج اپنی چوکیوں میں سمٹنے پر مجبور ہوگئے۔دلچسپ بات یہ کہ افغانستان پر قابض ہوتے ہی امریکی و نیٹو ممالک افغان فوج کی تشکیل نو میں مصروف ہوگئے تھے۔ انہوں نے افغان فوج کھڑی کرنے کی خاطر کم از کم دو سو ارب ڈالر خرچ کردیئے۔ فوجیوں کو عسکری تربیت دی اور جدید اسلحہ فراہم کیا۔2013 ء تک افغان فوج میں ساڑھے تین لاکھ فوجی بھرتی ہوچکے تھے۔ مگر یہ فوج ظفر موج بھی امریکی حکمران طبقے کی امیدوں پر پورا نہیں اترسکی۔
جوش و جذبے کی اہمیت
آج افغان فوج نے گو تمام شہروں اور بڑے قصبوں میں چوکیاں قائم کررکھی ہیں لیکن فوجی شاذونادر ہی اپنی چوکیوں سے باہر نکلتے ہیں۔ جب تک انہیں جدید ترین امریکی سازوسامان اور ٹکنالوجی کی مدد حاصل نہ ہو، وہ کہیں حملہ کرنے نہیں جاتے۔ ان کی بزدلی کا بڑا سبب افغان طالبان کی دلیری و بہادری ہے۔ وہ کمتر ہتھیار رکھتے ہوئے بھی افغان فوج کے دستوں پر اتنے بھرپور اور زوردار حملے کرتے ہیں کہ فوجیوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ اس ثبوت سے ظاہر ہے کہ میدان جنگ میں جوش و جذبہ بھی جیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔حق و یقین کی طاقت ایک فریق کو جوش و جذبہ عطا کردیتی ہے۔
افغان فوج مغربی استعمار کی پٹھو ہے۔ غاصبوں کا ساتھ دینے کے باعث ہی افغان فوجی اس جوش و جذبے سے محروم رہے جو فتح پانے کی خاطر لازم ہے۔ نپولین اور ہٹلر جیسے بڑے جرنیلوں کی افواج بھی روسی دارالحکومت تک اس لیے نہیں پہنچ سکیں کہ سرد موسم کے علاوہ ان کی ہمتیں بھی پست ہو گئی تھیں۔ جیت کی تمنا نہ ہونے سے عددی برتری کے باوجود وہ شکست کھا گئیں۔ انسانی تاریخ میں ایسے واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ جنگ بدر میں بھی ایمانی قوت و حرارت ہی کے باعث مٹھی بھر مسلمانوں نے کفار مکہ کی کہیں زیادہ طاقتور فوج کو ہار کا مزا چکھایا تھا۔ غرض جدید ترین اسلحے کی اہمیت اپنی جگہ مگر قطعی نتیجہ سامنے لانے میں تجربہ اور جوش و جذبہ بھی اپناکردار ادا کرتے ہیں۔
امریکی حکمران طبقے کو بھی آخر کار احساس ہوگیا کہ وہ طالبان کو شکست نہیں دے سکتے۔ امریکی عوام اس جنگ کے مخالف ہوچکے۔ وہ اب ٹیکسوں کی اپنی رقم اس لاحاصل جنگ پر خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ مگر امریکی جرنیلوں کی خواہش ہے کہ افغانستان جیسے اہم جغرافیائی حیثیت والے ملک میں وہ اپنی موجودگی برقرار رکھیں۔ مقصد یہ ہے کہ چین اور روس کی جاسوسی ہوسکے۔
اسی لیے انہوں نے طالبان سے دوستی کی پینگیں بڑھالیں تاکہ وہ افغانستان میں امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچائیں۔ امن معاہدے سے عیاں ہے کہ طالبان فی الحال امریکی حکمران طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے تیار ہیں۔ شرط مگر یہ ہے کہ امریکی و نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں۔ طالبان نے امریکیوں کو یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ سرزمین افغاناں امریکا کے خلاف کسی بھی طرح استعمال نہیں ہوگی۔حسب توقع مگر امن معاہدہ رکاوٹوں کا شکار ہوگیا جب افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے قیدی رہا کرنے سے انکار کردیا۔ دراصل طالبان کی صورت افغان حکمران طبقے کو اپنی کمائی کا در بند ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر ہے، طالبان اگر افغان حکومت کا حصہ بن گئے، تو کرپٹ حکمران طبقہ کرپشن جاری نہیں رکھ سکتا۔ وہ اٹھارہ سال سے کرپشن کا عادی ہوچکا۔ اب وہ یہ بیش بہا ذریعہ روزگار چھوڑنے کو ہرگز تیار نہیں۔ طالبان کے آنے سے ان کا ذریعہ آمدن ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ مملکت میں اثرورسوخ اور طاقت بھی ماند پڑجائے گی۔ اس لیے افغان حکمران طبقہ ''اسٹیٹس کو'' یا حالات جوں کے توں رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ اس طبقے سے جان چھڑانے کی خاطر طالبان کو کافی تگ و دو کرنا پڑے گی۔
افغان جنگ...ایک بلیک ہول
سچ یہ ہے کہ صرف امریکی حکومت ہی کرپٹ افغان حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ وجہ یہ کہ یہ طبقہ امریکی ڈالروں کے سہارے ہی زندہ ہے۔ وہ امریکی امداد ہی سے آکسیجن حاصل کرتا ہے۔ فی الوقت کابل حکومت کے سالانہ بجٹ کی مالیت 11 ارب ڈالر ہے۔ اسے ہر سال ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں وغیرہ کی صورت ڈھائی ارب ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔ بقیہ 8.5 ارب ڈالر اسے امریکا و یورپی ممالک ہی بطور امداد فراہم کرتے ہیں تاکہ افغان حکومت کا دھندا چل سکے اور وہ قائم و دائم رہے۔ اگر امریکا آج ہی یہ امداد روک دے تو اشرف غنی حکومت چند ہی ہفتوں میں ختم ہوجائے۔حالات سے عیاں ہے کہ افغانستان میں جنگ روکنے کی کلید امریکا کے پاس ہے۔
اگر امریکی حکمران طبقہ افغان عوام کو جنگ کی تباہی و بربادی سے نجات دلانا چاہتا ہے تو اسے فی الفور کابل حکومت کی امداد روکنا ہوگی تاکہ وہ راہ راست پر آجائے۔ یہ حکومت حقیقتاً کابل یا غیر پشتون علاقوں تک محدود ہے۔ افغانستان کی نصف سے زائد آبادی اسے قانونی و اخلاقی طور پہ جائز حکومت تسلیم نہیں کرتی۔ کابل کے حکمران الیکشن میں فراڈ اور دھوکے بازی اپنا کر اقتدار سنبھالتے ہیں۔ افغانستان میں کچھ عرصہ قبل صدارتی الیکشن ہوا تھا۔ وہ دھاندلی کے الزامات سے لتھڑا رہا۔ گو افغان الیکشن کمیشن اشرف غنی کی جیت کا اعلان کرچکا مگر مدمقابل، عبداللہ عبداللہ حتیٰ کہ امریکی حکومت نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا۔
یہ یقینی ہے کہ افغان جنگ کے معاملے پر پس پردہ امریکی جرنیلوں اور صدر ٹرمپ کے مابین ٹسل چل رہی ہے۔ ٹرمپ نے 2016ء میں انتخابی مہم کے دوران اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی جنگیں ختم کردیں گے۔ اس سال دوبارہ الیکشن ہونے ہیں۔ لہٰذا ٹرمپ افغان جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ سرخرو ہوکر امریکی عوام کے سامنے جائیں اور ان سے پھر ووٹ مانگ سکیں۔
لیکن امریکی جرنیل افغانستان میں دو تین مقامات پر اپنے فوجی مستقر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہاں جدید ترین آلات کی مدد سے وہ اپنے طاقتور حریفوں کی سرگرمیوں پر باآسانی نظر رکھ سکیں گے۔طالبان اور ٹرمپ حکومت کے مابین امن معاہدے سے عیاں ہے کہ طالبان نے مستقبل میں امریکا سے تعاون کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ اگرچہ آگے چل کر طالبان افغانستان کے خود مختار حکمران بن گئے تو وہ صورت حال کے مطابق پالیسی تبدیل کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے تب وہ امریکا کے بجائے چین اور روس سے دوستی و تعاون کرنا زیادہ پسند کریں گے جو ان کے ہمسائے بھی ہیں۔امریکی جرنیل بھی جانتے ہیں کہ ممکن ہے، مستقبل میں طالبان کی پالیسی تبدیل ہوجائے۔ مگر وہ طالبان سے امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ ان گنت جنگوں نے امریک کو ''ساڑھے تئیس ٹریلین ڈالر (ساڑھے تیئس ہزار ڈالر)کا مقروض بنا دیا ہے۔ چونکہ امریکا اب بھی ہر سال تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کے اخراجات کرتا ہے، اس لیے یہ قرضہ بڑھ رہا ہے۔ جنگوں کی وجہ سے امریکا دنیا کا مقروض ترین ملک بن چکا۔ آج ہر امریکی تقریباً 73 ہزار ڈالر (ایک کروٹ نو لاکھ پچاس ہزار روپے) کا مقروض ہوچکا جو یقیناً محیر العقول رقم ہے۔
بے حساب قرضے کے سبب امریکی عوام ٹرمپ حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ بیرون ممالک سرکاری پشت پناہی سے چلنے والی جنگیں روکی جائیں تاکہ ان کے ٹیکسوں کی رقم ضائع نہ جائے۔دوسری وجہ یہ کہ امریکی جرنیلوں کو احساس ہوچکا کہ وہ عسکری طور پر طالبان کو کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ لہٰذا لازماً انہیں طالبان سے دوستی کرنا ہو گی تاکہ وہ نہ صرف جونک کی طرح چمٹ جانے والی افغان جنگ سے نجات پائیں بلکہ مستقبل کے افغانستان میں ان کے مفادات بھی محفوظ رہیں۔ افغان جنگ امریکی حکمران طبقے کے لیے ایسا ''بلیک ہول'' بن چکی جس میں کھربوں ڈالر بھی پھینک دو تو وہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں ۔لہذا اس جنگ کو محض انا کی خاطر اور سپر پاور ہونے کے زعم میں جاری رکھنا بے وقوفی اور احمقانہ پن ہو گا۔
تاریخ ِانسانیت میں پہلی بار
2001ء میں افغان عبوری حکومت بنتے ہی بھارت اس سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگا۔حکومت کو کروڑوں روپے کی بھارتی امداد ملنے لگی۔بھارت نے افغانستان میں مختلف سرکاری عمارتیں تعمیر کرائیں۔افغان فوج کے افسروں کو جنگی تربیت دی اور عسکری سامان بھی دیا۔جلد وہ امریکا کے بعد کابل حکومت کو امداد دینے والا دوسرا بڑا ملک بن بیٹھا۔ سارے تام جھام کا مقصد یہ تھا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکے۔چناں چہ پاکستان جلد بھارتی خفیہ ایجنسی،را کی ایجنٹ تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بن گیا۔افغان طالبان کی جدوجہد غاصبوں کے خلاف تھی۔انھوں نے پاکستان کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔
اس بنا پہ ممکن ہے،پاکستان نے بھارتی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کو ٹیکٹیکل سپورٹ دی گو سرکاری طور پر پاکستانی حکومت کا موقف تھا کہ وہ افغانستان میں کسی فریق کی طرفدار نہیں۔امریکا و بھارت نے لیکن اٹھارہ برس واویلا مچائے رکھا کہ پاکستان افغان طالبان کی مدد کرتا ہے۔امریکا و افغان طالبان معاہدے کے بعد بھارت میں صف ِماتم بچھ گئی جسے انجام دینے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔وہاں ماہرین ِعسکریات کہنے لگے کہ خطّے کی ''ففتھ جنریشن'' جنگ میں پاکستانی دماغوں نے اپنی بہترین چالوں سے بھارتی پالیسی سازوں کو مات دے دی۔ افغانستان میں بھارت نے جو تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی،وہ رائیگاں گئی۔لیفٹیننٹ جنرل(ر)ایچ ایس پناگ بھارتی فوج کی نارتھرن کمانڈ کا سربراہ رہا ۔اب ممتاز ماہر ِعسکریات ہے۔وہ اپنے ایک مضمون''India should face new Afghanistan realities''میں لکھتا ہے:
''افغانستان میں امریکا کی ہار پاکستانی سٹیٹ کرافٹ پالیسی سازوں کے لیے خوشی وفخر کا یادگار موقع ہے۔انسانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ایک قوم نے سپرپاور کو شکست دینے کی خاطر سرگرمی سے چالیں چلیں مگر ساتھ ساتھ وہ سپرپاور کی قربت اور اس سے فوائد پانے میں بھی کامیاب رہی۔''سون تزو چین کا مشہور عسکری ماہر گذرا ہے۔اس کا قول ہے:''اپنے آپ کو پہچانواور اپنے دشمن کو بھی...تب ہزار جنگیں بھی ہوں تب بھی تم ہی فاتح ٹھہرو گے۔''