کورونا وائرس حفاظتی اقدامات میں مقامی حکومتوں کی اہمیت

ہم اپنی مقامی حکومتوں کو جتنا موثر بنائیں گے، اتنا ہی نچلی سطح پر مختلف امور کی انجام دہی میں آسانی ہوگی


شاکر اللہ March 14, 2020
کورونا وائرس سے نمٹنے کےلیے پاکستان کو بھی چین کی طرح مضبوط مقامی حکومتوں کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی آبادی 21 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ آبادی تقریباً سات لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر ملک کے طول وعرض میں واقع مختلف شہروں اور دیہاتوں میں رہ رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شہر اور دیہات مناسب منصوبہ بندی کے بغیر نظریہ ضرورت کے مطابق لوگوں نے خود آباد کیے ہیں۔ جہاں زمیں زرخیز ہے یا جہاں روزگار کے مواقع میسر ہیں اور جہاں ضروریات زندگی تک رسائی ہے، وہاں شہر اور گاؤں آباد ہوتے گئے۔ جہاں ایسا نہیں ہے، وہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح ان شہروں اور دیہاتوں کا انتظام چلانے کےلیے کوئی مؤثر انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں۔ اور اگر ہے تو وقت کے تقاضوں سے بہت پیچھے ہے۔

شہروں میں تو پھر بھی بوسیدہ ہی سہی تھوڑا بہت نظام موجود ہے، لیکن دیہاتوں کی سطح پر ایسا بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر تعمیرات کو لیجئے۔ اس بارے میں نہ تو کوئی مناسب رہنمائی موجود ہے، نہ ہدایات اور نہ ہی کوئی چیک اینڈ بیلنس۔ گلی کی چوڑائی کتنی ہونی چاہیے؟ عمارات کی اونچائی کتنی ہونی چاہیے؟ کتنی منزلہ عمارت کی اجازت ہے؟ نکاسی کا نظام کیا ہوگا؟ بجلی اور گیس کی فراہمی کیسی ہوگی اور دوسری ضروریات زندگی کی کیا صورت حال ہوگی؟ ماسوائے اسلام آباد یا چند ایک دوسرے شہروں کے، سرکار کی طرف سے نہ تو مناسب رہنمائی ہے اور نہ ہی قدغن۔ لہٰذا ہمارے شہر اور دیہات بے ترتیبی کے نمونے ہیں۔ اللہ بھلا کرے تعمیرات کے شعبے میں بعض پرائیوٹ سوسائٹیز کا، جنہوں نے تعمیرات اور آبادکاری میں ترتیب اور قرینے کو پروان چڑھایا۔ یا ان لوگوں کا، جنہوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرکے تعمیرات کے تقاضوں کو ملحوظ نظر رکھا۔ میرا موقف یہ ہے کہ اگر مضبوط اور مناسب نظام موجود ہو تو یہ بے ترتیبی نہ ہو۔

ہمارے ہاں بنیادی سطح پر اگر کوئی مؤثر اکائی موجود ہے تو وہ حکومتی یا انتظامی اکائی نہیں، بلکہ معاشرتی اکائی ہے اور وہ ہے خاندان۔ خوش قسمتی سے یہ اکائی میاں بیوی اور بچوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ اکائی بہن بھائیوں سے لے کر چچا، چچی، ماموں، خالہ، پھوپھی، دادا، دادی، نانا، نانی، کزنز وغیرہ تک کافی وسیع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا خوشی اور غمی، مشکل اور راحت دونوں میں یہ اکائی آپ کو فعال نظر آئے گی۔ یہ اکائی معاشرتی، معاشی، نفسیاتی اور جذباتی لحاظ سے نہایت مؤثر اور زبردست کردار ادا کررہی ہے۔ تاہم انتظامی، اجتماعی اور حکومتی اکائی کی ہرگز ہرگز متبادل نہیں۔ کیونکہ تعلیم، صحت اور دیگر بے شمار پہلوؤں کو دیکھیں تو ان ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی اور نہ ہی کرسکتی ہے۔ لہٰذا آپ کو اس سے بڑھ کر دیگر اکائیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو آپ کی زندگی کی دوسری ضروریات کی فراہمی اور ان تک رسائی کو ممکن بنائے۔ اور یہاں میرا دوسرا نکتہ آتا ہے مقامی حکومت کی اہمیت اور کردار کا۔

مقامی حکومت کی اہمیت اور کردار کا اندازہ مجھے عوامی جمہوریہ چین میں قیام کے دوران ہوا اور اس سے بڑھ کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں۔ تاہم آگے بڑھنے سے پہلے میں عوامی جمہوریہ چین کے انتظامی ڈھانچے کا مختصر تعارف کرانا چاہتا ہوں۔

انتظامی لحاظ سے عوامی جمہوریہ چین کو مرکزی حکومت کے براہ راست اقتدار کے تحت صوبوں، خودمختار علاقوں اور بلدیات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ صوبوں اور خودمختار علاقوں کو پری فیکچرز، کاؤنٹیوں، خود مختار کاؤنٹیوں اور شہروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کاؤنٹیوں اور خود مختار کاؤنٹیوں کو بستیوں اور قصبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کے تحت براہ راست بلدیات اور صوبوں اور خودمختار علاقوں کے بڑے شہروں کو اضلاع اور کاؤنٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت کے تحت خصوصی انتظامی علاقے بھی شامل ہیں۔ اس انتظامی ڈھانچے سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ انتظامی لحاظ سے کتنی سطحوں پر حکومت موجود ہے، جن کی وجہ سے بنیادی سطح پر اقدامات اور احکامات کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، نگرانی اور احتساب کو یقینی بنایا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر مسابقتی فضا موجود ہے، جس کے تحت مقامی حکومتوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے کہ کون سی مقامی حکومت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ملک کی مختلف مقامی حکومتیں صرف اپنے علاقوں تک محدود نہیں رہتیں، بلکہ ملک کے دوسری حصوں میں موجود مقامی حکومتوں کی مختلف امور اور چیلنجز سے نمٹنے میں بھی مدد کرتی ہیں۔

کورونا وائرس (کووڈ 19) کی وبا پھوٹنے کے بعد مقامی حکومتوں نے جہاں ایک طرف وبا کی روک تھام میں اہم کردار ادا کیا، وہاں نظم ونسق کو برقرار رکھنے اور بنیادی ضرورت کی اشیا لوگوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش رہیں۔ مقامی حکومتیں اپنے ماتحت کمیونٹی کے ہر شہری کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمے داری بطریق احسن نبھارہی ہیں۔

کورونا کے خلاف جدوجہد کے دوران انتظامی لحاظ سے مختلف آبادی کی اکائیوں نے داخلے کےلیے راستے مخصوص کیے اور ہر انٹری پوائنٹ پر عملہ تعینات کیا گیا۔ یہ عملہ صرف اس مخصوص آبادی کے یونٹ کے افراد کو داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ داخلے کے وقت ہر فرد کے جسم کا درجہ حرارت چیک کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کا درجہ حرارت نارمل انسانی درجہ حرارت سے زیادہ ہے تو اس کو قریبی اسپتال یا خصوصی طور پر قائم کیے گئے مرکز پہنچایا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ درجہ حرارت کس وجہ سے ہے۔ اگر کورونا کا شک ہو تو ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور نتیجہ مثبت آنے کی صورت میں مناسب علاج معالجہ فراہم کیا جاتا ہے اور قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔

اسی طرح لوگوں کے آنے جانے پر نظر رکھی گئی ہے۔ اگر کسی نے متاثرہ شہر سے سفر کیا ہے تو اس کو قرنطین کیا گیا ہے، تاکہ کمیونٹی کے دوسرے افراد محفوظ رہیں۔ اس کے ساتھ مقامی حکومتوں کے تحت دن میں کئی مرتبہ جراثیم کش اسپرے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اجتماعات اور لوگوں کے اکٹھا ہونے پر پابندی کے نفاذ کو مقامی حکومتوں نے ہی عملی جامہ پہنایا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی ضرورت کی اشیا کی فراہمی کو بھی مقامی حکومتوں نے یقینی بنایا ہے۔ ان اقدامات کی بدولت مقامی حکومتوں نے چین کے طول و عرض میں شہروں اور دیہاتوں کی سطح پر ہر شہری کی حفاظت کو یقینی بنایا اور وبا کی موثرروک تھام کی ہے۔

کورونا وائرس اور دوسرے چیلینجز سے نمٹنے کےلیے پاکستان کو بھی مضبوط مقامی حکومتوں کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی مقامی حکومتوں کو جتنا موثر بنائیں گے، اتنی ہی نچلی سطح پر مختلف امور کی انجام دہی میں آسانی ہوگی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ اس سلسلے میں تاخیراور غفلت مزید نقصان کا باعث بنے گی۔ میڈیا کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ فی الوقت میڈیا کی توجہ کا مرکز مرکزی اور صوبائی حکومت کی سرگرمیاں اور قومی اور صوبائی سطح کی قیادت ہے۔ میڈیا عام آدمی کی بات تو بہت کرتا ہے لیکن مقامی حکومتیں جو عام آدی کےلیے سب سے موثر اور مفید کردار ادا کرسکتی ہیں، کے حوالے سے آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اکیسویں صدی چیلنجز کی صدی ہے۔ کورونا وائرس نے دنیا کے گلوبل ویلیج کے تصور کو توڑا ہے۔ آج زیادہ تر ممالک اپنی اپنی طبعی سرحدوں تک محدود ہوگئے ہیں۔ ایسے میں مقامی یونٹ یا اکائی جتنی مضبوط ہوگی، اتنا ہی چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹا جاسکے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔