کیا کورونا وائرس خلاء سے آیا ہے کتنی حقیقت کتنا فسانہ

ڈاکٹر چندرا وکرما سنگھے کا دعوی ہے کہ کورونا وائرس ایک شہابِ ثاقب کے ذریعے، خلاء سے زمین پر آیا ہے

ڈاکٹر چندرا وکرما سنگھے کا دعوی ہے کہ کورونا وائرس ایک شہابِ ثاقب کے ذریعے، خلاء سے زمین پر آیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کچھ روز پہلے سری لنکن نژاد برطانوی ریاضی داں اور بکنگھم سینٹر فار آسٹروبائیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر چندرا وکرما سنگھے نے دعوی کیا تھا کہ ناول کورونا وائرس ایک شہابِ ثاقب سے زمین پر آیا ہے جو پچھلے سال اکتوبر کے دوران شمالی چین کی فضاؤں میں آگ کے ایک گولے کی طرح دکھائی دیا اور دھماکے سے پھٹ پڑا۔

ڈاکٹر وکرما سنگھے نے کہا کہ اس شہابِ ثاقب کی راکھ اور گرد میں کورونا وائرس بھی موجود تھا جو بالآخر زمین تک پہنچ گیا اور جس کے نتیجے میں نومبر 2019 سے چین میں ناول کورونا وائرس کی وبا کا ظہور ہوا جو آج پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔

اپنے ''دعوے کے ثبوت'' میں انہوں نے ''پین اسپرمیا'' (panspermia) نامی مفروضے کا سہارا لیا، جو یہ کہتا ہے کہ زندگی ہماری پوری کائنات میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے جو خلائی گرد، شہابیوں، بڑی شہابی چٹانوں (ایسٹیرائیڈز)، سیار پاروں (planetoids) اور دُم دار ستاروں (comets) تک میں موجود ہے۔ اسی مفروضے کے تحت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتداء اسی ''جاندار مواد'' سے ہوئی جو اربوں سال پہلے ہماری نوجوان زمین پر خلاء سے برس رہا تھا۔

یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ ''پین اسپرمیا'' کا مفروضہ 1974 میں چندرا وکرما سنگھے نے اپنے استاد اور مشہور برطانوی ماہرِ فلکیات ''سر فریڈ ہویل'' کے ساتھ پیش کیا تھا۔ اس مفروضے کے حق میں ان دونوں استاد اور شاگرد نے 1986 میں ایک کتاب بھی شائع کروائی جس کا عنوان ''وائرسز فرام اسپیس اینڈ ریلیٹڈ میٹر'' (خلاء سے وائرس اور دوسرا متعلقہ مادّہ) تھا۔

اس کتاب میں اپنے اصل مفروضے سے آگے بڑھ کر ان دونوں ماہرین نے یہ دعوی بھی کیا کہ زمینی فضا کے راستے خلاء سے ''زندگی کی مختلف اشکال'' سطحِ زمین تک پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے جن کی وجہ سے نت نئی وبائیں اور بیماریاں وجود میں آتی ہیں؛ اور یہ کہ زمین پر خردبینی ارتقاء (مائیکرو ایوولیوشن) کےلیے درکار نیا جینیاتی مواد بھی خلاء سے زمین پر گرتا رہتا ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں میں یہ کتاب اور اس کے مندرجات بڑی حد تک بھلائے جاچکے تھے لیکن ناول کورونا وائرس کی حالیہ وبا پر وکرما سنگھے کے دعوے نے یہ بحث ایک بار پھر گرم کردی اور چٹپٹی، مصالحے دار لیکن بے تُکی خبریں شائع کرنے والے ''ٹیبلائیڈ'' اخبارات و جرائد اور ان جیسی ویب سائٹس نے اس دعوے کو خوب اچھالا جس پر چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔

وکرما سنگھے کے اس دعوے کے بارے میں ''ایکسپریس نیوز'' سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے مایہ ناز فلکی طبیعیات داں (ایسٹرو فزسٹ)، پروفیسر ڈاکٹر سہیل ذکی فاروقی نے کہا، ''ایک معتبر سائنسدان کی جانب سے، جو فریڈ ہویل کا شاگرد بھی ہے، ایسا بے بنیاد دعوی میرے لیے حیرت انگیز اور ناقابلِ فہم ہے۔''


انہوں نے وضاحت کی کہ زمین کے گرد فضا (ہوا) کی تہہ تقریباً 200 کلومیٹر موٹی ہے؛ اور جب کوئی شہابِ ثاقب وغیرہ (خلاء سے) زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار 70 کلومیٹر فی سیکنڈ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اتنی زبردست رفتار پر زمینی فضا میں صرف 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہی وہ اتنا شدید گرم ہوجاتا ہے کہ اس کا درجہ حرارت 1000 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔

یہ درجہ حرارت اتنا زیادہ ہے کہ اس پر نہ تو کوئی جاندار زندہ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نامیاتی سالمہ (آرگینک مالیکیول) یا وائرس اپنی شکل برقرار رکھ سکتا ہے۔

''اگر یہ شہابِ ثاقب اتنا بڑا ہوتا کہ اس کا کچھ حصہ سالم حالت میں سطح زمین تک پہنچ جاتا، تب بھی یہ سوچا جاسکتا تھا کہ شاید اس کے اندر کہیں کوئی سالمہ پوشیدہ رہا ہو۔ لیکن یہ تو فضا میں ہی جل کر بھسم ہوگیا اور اس کی راکھ ہوا میں بکھر گئی۔ اس لیے سائنسی لحاظ سے دیکھا جائے تو (وکرما سنگھے کا) یہ دعوی بالکل ہی بے بنیاد ہے،'' ڈاکٹر سہیل ذکی فاروقی نے کہا۔

دوسری جانب ''آئی ایف ایل سائنس'' نامی ویب سائٹ نے بھی اس دعوے پر یونیورسٹی کالج لندن ہاسپٹل سے وابستہ، متعدی امراض (انفیکشس ڈِزیزز) کے ماہر ڈاکٹر ڈومینک اسپارکس سے رائے لی تو انہوں نے کہا: ''ناول کورونا وائرس (SARS-CoV-2) کے کسی شہابِ ثاقب سے (زمین پر) نہ آنے کی سب سے اہم شہادت یہ ہے کہ یہ کورونا وائرس کی دیگر معلومہ اقسام سے بہت مماثلت رکھتا ہے... یہ سارس (SARS) وائرس سے بہت ملتا جلتا ہے جس نے اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں وبائی صورت اختیار کی تھی؛ اور یہ مرس (MERS: مڈل ایسٹرن ریسپائریٹری سنڈروم) وائرس جیسا بھی ہے جو آج بھی بیماری کی وجہ بن رہا ہے۔''

انہوں نے واضح کیا کہ ''سارس'' وائرس پہلے چمگادڑوں سے بلیوں میں، اور پھر بلیوں سے انسانوں میں منتقل ہو کر وبائی پھیلاؤ کی وجہ بنا جبکہ ''مرس'' وائرس نے بھی اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہو کر وبائی مرض کی شکل اختیار کی۔ عین یہی معاملہ کورونا وائرس کا بھی ہے جس کا پھیلاؤ، چین (ووہان) میں جنگلی جانوروں کا گوشت فروخت کرنے والی مارکیٹ سے شروع ہوا۔

غرض کے ہر طرح کے سائنسی اور عقلی تجزیئے کی روشنی میں بھی وکرما سنگھے کا یہ دعوی بے بنیاد ثابت ہوتا ہے کہ ناول کورونا وائرس خلاء سے، شہابِ ثاقب کے ذریعے، زمین تک پہنچا ہے۔

آخر میں صرف اتنا مزید عرض کریں گے کہ ہمیں کورونا وائرس سے خوفزدہ ہونے اور اس بارے میں جھوٹی سچی خبروں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کے بجائے اس سے نبرد آزما ہونے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story