سیہون کا گمنام قلعہ

آنے والے دنوں میں مٹی کے ٹیلے کی طرح دکھائی دینے والا قلعہ بھی معدوم ہوجائے گا یا پھر برسات میں بہہ جائے گا

مقامی لوگ اس مقام کو ’’الٹی بستی‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ (فوٹو: بلاگر)

سندھ میلوں، ٹیلوں اور تاریخی مقامات کی دھرتی ہے، جہاں مختلف عبادت گاہوں کے ساتھ بزرگان دین کے مزارات بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ سندھ کی تاریخ نامور صوفی شاعر و فلاسفر لعل شہباز قلندر کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ جھولے لعل جن کا اصلی نام حضرت سید عثمان مروندی ہے۔ لعل شہباز قلندر کی زندگی پر بہت لکھا جاچکا ہے۔ آج کا سیہون شریف لعل شہباز قلندر کی وجہ سے ہی بین الاقوامی شہرت پاسکا ہے جبکہ یہ قدیم شہر سنڈیمن، سنڈیمانا، شوآستان ، سیوستان، سیستان کے مختلف ادوار طے کرتا ہوا سیہون تک پہنچا ہے۔

اس بار سندھ کے مطالعاتی دورے کا مقصد سیہون شریف میں لعل شہباز قلندر کی درگاہ کے دامن سے جڑے قدیم و پراسرار قلعے کے پوشیدہ راز جاننا اور اس قدیم ورثے سے عوام کو روشناس کرانا تھا۔ اس قلعے کی تاریخ اور روایات اس قدر پیچیدہ، گہری اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں کہ ان سے پردہ اٹھانا، ان کی درجہ بندی کرنا اور انھیں سائنسی طریقے سے اصل حقائق تک پہنچنا ناممکن ہے۔ اس قلعے کی تاریخ کی بابت بین الاقوامی سیاح اور محققین مختلف آرا رکھتے ہیں جبکہ مقامی محققین کی آرا بھی موجود ہیں جسے تاریخ کے طالبعلموں اور نوجوان نسل کو جاننا ضروری ہے۔ قلعے کے اصلی نام سے بھی لوگ ناواقف ہیں، جس کو سکندر کا قلعہ، کافر قلعہ، پرانا قلعہ یا اب سیہون کا قلعہ کہا جاتا ہے، جبکہ مقامی لوگ اس مقام کو ''الٹی بستی'' کے نام سے جانتے ہیں۔



ہم کراچی سے ساڑھے تین گھنٹے کا سفر کرکے جب سیہون پہنچے اور ہماری گاڑی لعل شہباز قلندر کے مزار سے آگے نکل کر روڈ پر آئی تو دور سے دیکھنے پر مٹی کے ٹیلوں سے بنے چھوٹے چھوٹے پہاڑ دکھائی دیئے، مگر ان ٹیلوں کے پاس جاکر اندازہ ہوا کہ یہی ''الٹی بستی'' یعنی سیہون کا قلعہ ہے۔ ہم گاڑی سے اتر کر تھوڑا پیدل چل کر جب اس قلعے کے دامن میں پہنچے تو اندازہ ہوا کہ یہاں زندگی بستی تھی۔ بچی کچھی دیواروں کی بناوٹ اور مٹی کے پہاڑ میں دھنسی ہوئی چوڑائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے زمانے میں ایک دفاعی قلعہ رہا ہوگا۔ قلعے کی باقیات کے پاس ہی ایک مقامی آدمی بھینس کے گوبر سے اوپلے بنانے میں مصروف تھا۔ ہم نے سلام کے بعد ان کا نام پوچھا۔ انہوں نے اپنا نام اللہ یارو بتایا اور کہا کہ ہم جدی پشتی اسی علاقے کے مکین ہیں۔ انہوں نے بھی وہی روایتی لوک کہانی سنائی جسے ہم سب بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ اس دور کا ظالم حاکم راجہ چوپٹ اس قلعے میں رہا کرتا تھا اور اس نے جھولے لعل سائیں کے خادم خاص بودلہ بہار کو شہید کردیا تو آپ نے عالم جلال میں اپنے کشکول کو زمین پر ایسا پٹخا کہ اسی وقت یہ بستی الٹ گئی۔ جب سے اس جگہ کا نام الٹی بستی ہے۔

تاریخ کے اوراق آج بھی سیہون کے قدیم ترین ہونے کے شواہد دیتے نظر آتے ہیں۔ 326 قبل از مسیح میں سیہون کا حکمران راجا سامبس تھا۔ راجا سامبس نے سکندر کے خلاف بغاوت کی تھی۔ تاریخ کے مطابق سامبس کا تعلق بدھ مت سے تھا۔ اس زمانے میں اس شہر کا نام سنڈیمن تھا۔ قلعے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ سکندراعظم نے تعمیر کیا تھا اور اسی وجہ سے اسے سکندر کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ بہت سے محققین کی رائے ہے کہ جب سکندراعظم سندھ میں داخل ہوا تو یہ قلعہ موجود تھا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قلعہ رائے سہاسی دوئم کے زمانے 600 عیسوی سے قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ کیونکہ رائے سہاسی نے 603 عیسوی میں وفات پائی تھی۔ اس کے بعد اس قلعے کو 713 میں محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا، جب راجا داہر کو شکست ہوئی تھی۔ جبکہ 1520 کے زمانے میں شاہ بیگ ارغون نے سمہ حکمرانوں سے سیہون خالی کروایا تھا۔ مگر محققین اس بابت کہنے سے قاصر ہیں کہ کب اور کس طرح اس قلعے کا زوال شروع ہوا۔ صرف سینہ بہ سینہ کہانیاں مشہور ہیں۔ آج اس قلعے کی خستہ حال بچی کچھی دیواریں شکست اور تباہی کی کہانی بیان کرتی ہیں۔




فرانسیسی آثار قدیمہ کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر مونک کیروران نے سیہون کے قلعے پر بہت کام کیا۔ انہوں نے 2002 اور 2003 میں محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی کھدائی کی تھی اور اس وقت نکلنے والے نوادارت سیہون میوزیم میں رکھے ہوئے ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ و ثقافت نے ایک ریسٹ ہاؤس بھی بنایا ہوا ہے تاکہ سیہون آنے والے محققین کو سہولیات فراہم کی جاسکے۔ مگر جب ہم نے قلعے کی اراضی کے آس پاس کا جائزہ لیا تو وہاں ایک ریسٹ ہاؤس موجود تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ وہاں کسی پولیس آفیسر کی رہائش ہے۔ جب ہم وہاں گئے تو اس ریسٹ ہاؤس میں کوئی نہیں تھا۔ شاید اس ریسٹ ہاؤس کے مکین بھی ہماری طرح چھٹی گزارنے نکلے ہوئے تھے۔

محققین کے مطابق اس قلعے میں ٹھٹھہ کے قلعہ کلیان کوٹ جیسی اینٹوں کا کام ہے۔ جبکہ بعض محققین کا کہنا ہے کہ اس کے بھی شواہد موجود ہیں کہ سکندر کے ہندوستان آنے سے قبل یہ قلعہ موجود تھا اور شاید اس نے اپنی فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے اس کی مرمت کی تھی۔ قلعے کے محراب اور دیگر خصوصیات مشرقی ہیں، نہ کہ گریسیائی۔ ٹھٹھہ کے کلیان کوٹ قلعے کی طرح اینٹوں کا کام، اور ''کافر قلعہ'' نام بھی اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیہون فورٹ ہندو حکمرانی کے دوران تعمیر ہوا تھا۔

ڈاکٹر مائیکل بوؤین کے مطابق اس علاقے میں فرنچ اسکالرز نے لمبے عرصے تک تحقیق کی مگر ابھی تک ہم اس کے حقائق تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ تاریخ پر لکھنے اور ان کی باقیات کو بچانے کےلیے کوشاں آچر خاصخیلی کے مطابق اس قلعے میں بچانے کےلیے اب کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ ہاں مگر یہاں پر کھدائی کرکے اس کی حقیقت کو عوام کو سامنے لایا جانا ضروری ہے۔ یہ بھی ہمارا سرمایہ اور تہذیب کے چھپے راز کو سامنے لانے میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

آج اس گمنام قلعے میں وہ طلسمی کشش باقی نہیں ہے جو سندھ کے دوسرے قلعوں میں ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہاں اس کی باقیات کا نہ ہونا ہے۔ سیہون میں آنے والے زائرین اور تفریح کی غرض سے آنے والے عوام نے بھی اس قلعے کی باقیات کو ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ در و دیوار سے ہی قلعے و محلات کو پہچانا جاتا ہے۔ اس بدنصیب قلعے کی تو دیواریں ہی نہیں ہیں، تو دروازے دور کی بات ہیں۔ اب یہ قلعہ مٹی کا کوئی بہت بڑا سا ڈھیر لگتا ہے۔ ایسا مٹی کا قلعہ جس کے برج مٹی کے، دیواریں مٹی کی اور فصیلیں مٹی سے بنی ہوں۔ اب صرف کہیں کہیں ہی پکی اینٹیں قلعے کی دیواروں میں گڑی ہیں، باقی تو سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ اور سندھ واسیوں نے موقع غنیمت جان کر قریب کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ صرف مختصر سا حصہ ہے جو علامتی طور قلعے کے ہونے کا یقین دلاتا ہے۔

وہ قلعہ جو کئی بادشاہوں اور حکمرانوں کو تحفظ فراہم کیا کرتا تھا، جب اس کو حفاظت کی ضرورت تھی تو کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ محکمہ آثار قدیمہ و نوادرات وفاق کے پاس ہونے کا جتنا نقصان صوبہ سندھ کا ہوا، اتنا نقصان کسی صوبے کا نہیں ہوا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے محکمہ آثار قدیمہ و نوادرات حکومت سندھ کے پاس آگیا ہے، جب سے محکمہ اپنی تہذیب کے آثار کو بچانے کےلیے کوشاں ہے۔ آنے والے دنوں میں مٹی کے ٹیلے کی طرح دکھائی دینے والا قلعہ بھی معدوم ہوجائے گا یا پھر برسات میں بہہ جائے گا۔ پھر ہم اس قلعے کے بارے میں صرف کتابوں اور انٹرنیٹ پر ہی پڑھ سکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story