ثمن سرکار کا لال میلہ
سندھ میں ثمن سرکارکا چوتھا بڑا عرس اور میلہ منعقد ہوتا ہے۔
سندھ کی سرزمین میں عظیم بزرگان دین مدفون ہیں، ملک بھر سے زائرین انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آتے ہیں۔ سندھ میں ثمن سرکارکا چوتھا بڑا عرس اور میلہ منعقد ہوتا ہے، جب کہ شاہ لطیف بھٹائی، قلندرشہباز اور سچل سرمست کے بڑے پیمانے پر عرس منائے جاتے ہیں، جن میں لاکھوں عقیدت مند شریک ہوتے ہیں۔
ثمن سرکار 1854 میں تعلقہ ٹنڈو باگو ضلع بدین کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام سید گل شاہ جیلانی ہے۔ ثمن سرکار 1927 میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی تاریخ پیدائش روایت میں مختلف درج ہے اور وفات کی تاریخ میں بھی فرق ہے۔ ثمن سرکارکو مجذوب اور ابدال کہتے تھے۔ یہ واحد بزرگ ہیں، جن کا میلہ اس وقت شروع ہوا جب وہ حیات تھے کیونکہ انگریزحکومت نے ان سے خوش ہوکر اس کے میلے کا انعقادکیا اور اس کے لیے جگہ اور خرچہ دیا۔ کئی جگہ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ان کی پیدائش بھورا لغاری میں ہوئی اور ان کی مادری زبان سرائیکی تھی۔ ان کے دو بڑے بھائی مٹھن شاہ اور پھلن شاہ تھے۔
ثمن شاہ کا عرس ملکانی شریف میں منعقد ہوتا ہے جہاں پر تین دن مردوں اور دو دن عورتوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ اس میلے کو لوگ لال میلہ کہتے ہیں (Red Fair)۔ اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ عرس کے موقع پر جو لنگر پکتا ہے اس میںگھروں میں پیار سے پالے ہوئے مرغ ذبح کیے جاتے ہیں ۔ عرس کے پانچ دنوں میں پورا علاقہ مرغوں کی اذانوں سے گونجتا رہتا ہے۔ ان کی کوئی تصویر موجود نہیں تھی ، لہذا پرانے مریدوں سے پوچھ کر ایک خیالی تصویر ایک مقبول آرٹسٹ خوشحل داس سے بنوائی گئی جس کا تعلق تلہار بدین سے تھا۔ اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ثمن شاہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں ایک مرغا ہے۔
ان کے مرید ہندوستان سے بھی آتے ہیں اور ان کا عرس ایک منتخب تاریخ پر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے وصال کی تاریخ میں بھی ایک اختلاف ہے، اس لیے وہاں کے لوگ جب فصل کی کٹائی سے پیسے حاصل کرتے ہیں تو عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان کے مرید اسلامی مہینے کے پہلے پیر کے موقع پر مزار پر آتے ہیں اور اپنے ساتھ مرغ بھی لاتے ہیں جنھیں وہ بڑی اچھی خوراک کھلاتے ہیں تاکہ وہ صحت مند رہیں ۔ عورتیں بھی بڑی تعداد میں ثمن شاہ کے مزار پر حاضر ہوتی ہیں۔
وہ اکثر نصر پور اور کچ رن میں بہنے والی پرانی ندی کے ریت کے ٹیلوں پر جاکر رہتے تھے جہاں پر کئی بزرگ مدفون ہیں جن کی صحیح تاریخ ابھی تک پتا نہیں لگ سکی ہے۔ ان کے مریدوں میں ہندوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ جب وہ انتقال کرگئے تو وہ اس وقت کاری واہ پر موجود تھے اور پھر اسے آخری آرام گاہ کے لیے دیہہ شر پنگریو کے قریب موجودہ جگہ پر رکھا گیا۔ ان کی عادت تھی کہ وہ علاقے کے مختلف جگہوں پر ویرانے میں اکیلے چلے جاتے تھے اور خاص طور پر جہاں ریت کے ٹیلے ہوتے تھے۔
کہتے ہیں کہ ثمن شاہ نے شادی نہیں کی اور آخری دنوں میں ایک گھنی سفید داڑھی رکھی ہوئی تھی اس کا چہرہ گول تھا اور وہ ہمیشہ اپنی آنکھیں زمین پر گاڑ کرکئی گھنٹے سوچتے رہتے تھے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے تو اس کی آنکھیں بہت زیادہ لال ہوتی تھیں ، وہ اکثر وجد میں آجاتے تھے اور اپنے لمبے بال کھول کر رکھتے یا پھر ان کے اوپر ایک کپڑے کا ٹکڑا باندھ کر رکھتے تھے۔ جب انھوں نے جوانی میں قدم رکھا تو گاؤں کی ایک لڑکی سے پیار ہو گیا جس کو وہ صرف دیکھتے رہتے تھے اور اسے اپنے پاس رکھ لیا جسے وہ گھر جانے نہیں دیتے تھے۔
جب لڑکی کے والدین نے یہ شکایت ان کے والد سے کی تو انھوں نے ثمن شاہ کو پورے چار دن ایک کمرے میں بند کردیا اور لڑکی کا ہاتھ ان کے ماں باپ کے ہاتھ میں دے کر انھیں کہا کہ وہ اس گاؤں سے بہت دور چلے جائیں۔ چار دن کے بعد جب وہ اس کمرے سے باہر آئے تو سیدھا لڑکی کے گھر گئے جہاں سے اسے معلوم ہوا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر چار دن پہلے چلی گئی جس پر وہ بڑے رنجیدہ ہوئے اور غصے میں پورے علاقے میں بھاگتے رہے اور آخر میں ٹھنڈے ہوکر بیٹھ گئے۔
ثمن شاہ کو اس لڑکی سے کوئی جسمانی غرض نہیں تھی بس وہ اسے سامنے بٹھا کر دیکھتے رہتے تھے۔ اب اس صورتحال کے بعد ثمن شاہ نے کبیر شاہ قبرستان میں اپنا ٹھکانہ بنایا جہاں انھیں سکون ملا اور ان کی زندگی میں ٹھہرائو آگیا ۔ اب ان کے پاس لوگ اپنے مسائل لے کر آنے لگے ،کئی لوگ مرید بن گئے۔ وہ پیش گوئی کرنے لگے جو صحیح ثابت ہوتیں۔ ایک دن انگریز سرکار کے کلکٹر نے ان سے کسی بات کے لیے پیش گوئی کروائی جو صحیح نکلی انگریز کلکٹر نے مریدوں کو ایک جگہ الاٹ کردی کہ وہ اپنے پیر کے لیے میلہ لگائیں۔
ان کے خاص خدمت گاروں میں تین لوگ شامل تھے جن میں گلاب رائے ہندو تھا اور ان کی وفات کے بعد مسلمان ہوا اور اپنا نام غلام محمد رکھا اور سعودی عرب چلے گئے اور مدینہ منورہ میں رہنے لگے جہاں پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے روضے پر جھاڑو لگاتے تھے اور وہاں پر حاضری دینے والوں کو پانی پلاتے تھے اور جب ان کی وفات ہوئی تو انھیں جنت البقیع میں آخری آرام گاہ ملی۔ دوسرے خدمت گاروں میں فقیر لالو کہیری تھے جو ثمن شاہ کو پانی پلاتے تھے اور تیسرے مائی سلیمت تھی جو اس کے لیے کھانا بناتی تھی۔
اس کے علاوہ انھیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سناتی تھی کیونکہ وہ بھٹائی کی شاعری کو بے حد پسند کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد گلاب رائے نے ثمن شاہ کا مزار بنوایا تھا جس کی مرمت اور بعد میں دوبارہ بنوانے میں مزار کے گدی نشین کا بڑا کردار ہے جنھوں نے مزار کو 2002 میں سفید رنگ سے بڑا خوبصورت بنوایا ہے۔
کہتے ہیں کہ سندھ کی مشہور لوگ گائیکہ مائی بھاگی کو ایک مرتبہ کوئی بیماری لاحق ہوئی تو اس نے مزار پر آکر ایک فریاد بصورت مناجت پیش کی ،جس کے بعد وہ صحتیاب ہوگئی۔ کلام جو گایا تھا اس کے بول تھے ''ثمن سائیں ماں تہ گولی غلام تھنج درجی '' ثمن سرکار کے مزار پر پاکستان کی بڑی سیاسی شخصیات بھی آتی رہی ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، سائیں صبغت اللہ شاہ اور ممتاز بھٹو بھی شامل ہیں۔ ثمن سرکار شاعر بھی تھے ، سندھ کے مقبول گلوگاروں نے ان کا کلام گایا ہے جن میں عابدہ پروین، مائی بھاگی، جلال چانڈیو، ثمن میرالی، الن فقیر، فوزیہ سومرو شامل ہیں۔ جب بھی عرس کے موقع پر یا پھر ہر مہینے میں ان کی مزار کو عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے۔
کبھی کبھی حقہ پیتے تھے اور جب کبھی کوئی بہت اچھا کھانا ان کی خدمت میں پیش کرتا ، تو آپ اس میں حقے کا پانی ملا کرکھانا تناول فرماتے اورکہتے کہ اب کھانے کا ذائقہ وہ نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ ان کھانوں کے عادی ہوجائیں۔ اس طرح کے سندھ میں کئی بزرگ ہیں جن پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں حکومت سندھ کو چاہیے کہ ہر ضلع کے آثار قدیمہ اور دوسرے اہم ثقافتی اور مذہبی مقامات کے بارے میں مکمل تحقیق حاصل کرکے اسے محفوظ کیا جائے۔
ثمن سرکار 1854 میں تعلقہ ٹنڈو باگو ضلع بدین کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام سید گل شاہ جیلانی ہے۔ ثمن سرکار 1927 میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی تاریخ پیدائش روایت میں مختلف درج ہے اور وفات کی تاریخ میں بھی فرق ہے۔ ثمن سرکارکو مجذوب اور ابدال کہتے تھے۔ یہ واحد بزرگ ہیں، جن کا میلہ اس وقت شروع ہوا جب وہ حیات تھے کیونکہ انگریزحکومت نے ان سے خوش ہوکر اس کے میلے کا انعقادکیا اور اس کے لیے جگہ اور خرچہ دیا۔ کئی جگہ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ان کی پیدائش بھورا لغاری میں ہوئی اور ان کی مادری زبان سرائیکی تھی۔ ان کے دو بڑے بھائی مٹھن شاہ اور پھلن شاہ تھے۔
ثمن شاہ کا عرس ملکانی شریف میں منعقد ہوتا ہے جہاں پر تین دن مردوں اور دو دن عورتوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ اس میلے کو لوگ لال میلہ کہتے ہیں (Red Fair)۔ اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ عرس کے موقع پر جو لنگر پکتا ہے اس میںگھروں میں پیار سے پالے ہوئے مرغ ذبح کیے جاتے ہیں ۔ عرس کے پانچ دنوں میں پورا علاقہ مرغوں کی اذانوں سے گونجتا رہتا ہے۔ ان کی کوئی تصویر موجود نہیں تھی ، لہذا پرانے مریدوں سے پوچھ کر ایک خیالی تصویر ایک مقبول آرٹسٹ خوشحل داس سے بنوائی گئی جس کا تعلق تلہار بدین سے تھا۔ اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ثمن شاہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں ایک مرغا ہے۔
ان کے مرید ہندوستان سے بھی آتے ہیں اور ان کا عرس ایک منتخب تاریخ پر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے وصال کی تاریخ میں بھی ایک اختلاف ہے، اس لیے وہاں کے لوگ جب فصل کی کٹائی سے پیسے حاصل کرتے ہیں تو عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان کے مرید اسلامی مہینے کے پہلے پیر کے موقع پر مزار پر آتے ہیں اور اپنے ساتھ مرغ بھی لاتے ہیں جنھیں وہ بڑی اچھی خوراک کھلاتے ہیں تاکہ وہ صحت مند رہیں ۔ عورتیں بھی بڑی تعداد میں ثمن شاہ کے مزار پر حاضر ہوتی ہیں۔
وہ اکثر نصر پور اور کچ رن میں بہنے والی پرانی ندی کے ریت کے ٹیلوں پر جاکر رہتے تھے جہاں پر کئی بزرگ مدفون ہیں جن کی صحیح تاریخ ابھی تک پتا نہیں لگ سکی ہے۔ ان کے مریدوں میں ہندوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ جب وہ انتقال کرگئے تو وہ اس وقت کاری واہ پر موجود تھے اور پھر اسے آخری آرام گاہ کے لیے دیہہ شر پنگریو کے قریب موجودہ جگہ پر رکھا گیا۔ ان کی عادت تھی کہ وہ علاقے کے مختلف جگہوں پر ویرانے میں اکیلے چلے جاتے تھے اور خاص طور پر جہاں ریت کے ٹیلے ہوتے تھے۔
کہتے ہیں کہ ثمن شاہ نے شادی نہیں کی اور آخری دنوں میں ایک گھنی سفید داڑھی رکھی ہوئی تھی اس کا چہرہ گول تھا اور وہ ہمیشہ اپنی آنکھیں زمین پر گاڑ کرکئی گھنٹے سوچتے رہتے تھے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے تو اس کی آنکھیں بہت زیادہ لال ہوتی تھیں ، وہ اکثر وجد میں آجاتے تھے اور اپنے لمبے بال کھول کر رکھتے یا پھر ان کے اوپر ایک کپڑے کا ٹکڑا باندھ کر رکھتے تھے۔ جب انھوں نے جوانی میں قدم رکھا تو گاؤں کی ایک لڑکی سے پیار ہو گیا جس کو وہ صرف دیکھتے رہتے تھے اور اسے اپنے پاس رکھ لیا جسے وہ گھر جانے نہیں دیتے تھے۔
جب لڑکی کے والدین نے یہ شکایت ان کے والد سے کی تو انھوں نے ثمن شاہ کو پورے چار دن ایک کمرے میں بند کردیا اور لڑکی کا ہاتھ ان کے ماں باپ کے ہاتھ میں دے کر انھیں کہا کہ وہ اس گاؤں سے بہت دور چلے جائیں۔ چار دن کے بعد جب وہ اس کمرے سے باہر آئے تو سیدھا لڑکی کے گھر گئے جہاں سے اسے معلوم ہوا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر چار دن پہلے چلی گئی جس پر وہ بڑے رنجیدہ ہوئے اور غصے میں پورے علاقے میں بھاگتے رہے اور آخر میں ٹھنڈے ہوکر بیٹھ گئے۔
ثمن شاہ کو اس لڑکی سے کوئی جسمانی غرض نہیں تھی بس وہ اسے سامنے بٹھا کر دیکھتے رہتے تھے۔ اب اس صورتحال کے بعد ثمن شاہ نے کبیر شاہ قبرستان میں اپنا ٹھکانہ بنایا جہاں انھیں سکون ملا اور ان کی زندگی میں ٹھہرائو آگیا ۔ اب ان کے پاس لوگ اپنے مسائل لے کر آنے لگے ،کئی لوگ مرید بن گئے۔ وہ پیش گوئی کرنے لگے جو صحیح ثابت ہوتیں۔ ایک دن انگریز سرکار کے کلکٹر نے ان سے کسی بات کے لیے پیش گوئی کروائی جو صحیح نکلی انگریز کلکٹر نے مریدوں کو ایک جگہ الاٹ کردی کہ وہ اپنے پیر کے لیے میلہ لگائیں۔
ان کے خاص خدمت گاروں میں تین لوگ شامل تھے جن میں گلاب رائے ہندو تھا اور ان کی وفات کے بعد مسلمان ہوا اور اپنا نام غلام محمد رکھا اور سعودی عرب چلے گئے اور مدینہ منورہ میں رہنے لگے جہاں پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے روضے پر جھاڑو لگاتے تھے اور وہاں پر حاضری دینے والوں کو پانی پلاتے تھے اور جب ان کی وفات ہوئی تو انھیں جنت البقیع میں آخری آرام گاہ ملی۔ دوسرے خدمت گاروں میں فقیر لالو کہیری تھے جو ثمن شاہ کو پانی پلاتے تھے اور تیسرے مائی سلیمت تھی جو اس کے لیے کھانا بناتی تھی۔
اس کے علاوہ انھیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سناتی تھی کیونکہ وہ بھٹائی کی شاعری کو بے حد پسند کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد گلاب رائے نے ثمن شاہ کا مزار بنوایا تھا جس کی مرمت اور بعد میں دوبارہ بنوانے میں مزار کے گدی نشین کا بڑا کردار ہے جنھوں نے مزار کو 2002 میں سفید رنگ سے بڑا خوبصورت بنوایا ہے۔
کہتے ہیں کہ سندھ کی مشہور لوگ گائیکہ مائی بھاگی کو ایک مرتبہ کوئی بیماری لاحق ہوئی تو اس نے مزار پر آکر ایک فریاد بصورت مناجت پیش کی ،جس کے بعد وہ صحتیاب ہوگئی۔ کلام جو گایا تھا اس کے بول تھے ''ثمن سائیں ماں تہ گولی غلام تھنج درجی '' ثمن سرکار کے مزار پر پاکستان کی بڑی سیاسی شخصیات بھی آتی رہی ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، سائیں صبغت اللہ شاہ اور ممتاز بھٹو بھی شامل ہیں۔ ثمن سرکار شاعر بھی تھے ، سندھ کے مقبول گلوگاروں نے ان کا کلام گایا ہے جن میں عابدہ پروین، مائی بھاگی، جلال چانڈیو، ثمن میرالی، الن فقیر، فوزیہ سومرو شامل ہیں۔ جب بھی عرس کے موقع پر یا پھر ہر مہینے میں ان کی مزار کو عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے۔
کبھی کبھی حقہ پیتے تھے اور جب کبھی کوئی بہت اچھا کھانا ان کی خدمت میں پیش کرتا ، تو آپ اس میں حقے کا پانی ملا کرکھانا تناول فرماتے اورکہتے کہ اب کھانے کا ذائقہ وہ نہیں رہا جس کی وجہ سے وہ ان کھانوں کے عادی ہوجائیں۔ اس طرح کے سندھ میں کئی بزرگ ہیں جن پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں حکومت سندھ کو چاہیے کہ ہر ضلع کے آثار قدیمہ اور دوسرے اہم ثقافتی اور مذہبی مقامات کے بارے میں مکمل تحقیق حاصل کرکے اسے محفوظ کیا جائے۔