افغان مہاجرین کی واپسی… وقت کی اہم ضرورت
افغان مہاجرین کی واپسی پاکستان کی معیشت اور معاشرت میں بہتری کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
ہجرت کا عمل تاریخ انسانیت میں تواتر سے ملتا ہے۔ حالات بعض اوقات انسانوں اور قوموں کو ہجرت پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ جب 1979میں روس نے افغانستان پر براہ راست حملہ کر دیا تو افغان شہریوں کی بڑی کھیپ نے پاکستان کا رخ کیا۔ بعدازاں امریکا نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر جارحیت کی تو مزید لاکھوں افراد ہمسایہ ملکوں کی جانب ہجرت کر گئے ۔ مہاجرین کی اکثریت نے پاکستان اور ایران کا رخ کیا ۔
ایران نے تمام پناہ گزینوں کو ایک کیمپ میں رکھ کر ان کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا ۔ حکومت پاکستان نے بھی پناہ گزیں کیمپ بنائے لیکن افغان مہاجرین کی نقل و حرکت پر ایران کی طرح پابندی نہ لگائی ۔ یوں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو جب کسی نظم و ضبط کے تابع نہ رکھا گیا ہو تو پیچیدہ مسائل کا پیدا ہونا یقینی تھا۔
پاکستان تسلسل سے خوفناک دہشتگردی کا شکار رہا۔ سیکیورٹی کے گمبھیر مسائل پیدا ہوئے ۔ ہزاروں افراد شہید ہوئے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی کمیونٹی نے پاکستان کی مشکلات کا ادراک کرنے کے بجائے پاکستان کو دباؤ کا شکار کیا ۔
افغان مہاجرین کی اکثریت جب پاکستان آئی تو بدحالی کا شکار اور ناخواندہ بھی تھی ۔ کچھ عرصے بعد ان مہاجرین کی اکثریت نے محنت مزدوری اور چھوٹے موٹے کام شروع کرکے اپنے روزمرہ اخراجات کو پورا کرنا شروع کر دیا۔ بعض مہاجرین کے بچوں نے پاکستانی تعلیمی اداروں میں پڑھائی بھی شروع کر دی۔ مہاجرین کے کئی گروہوں نے منشیات اور غیر قانونی اسلحے کا کام شروع کردیا ۔
افغان مہاجرین کی ایک مخصوص تعداد بھکاری بھی بن گئی۔ انھوں نے غیرقانونی طور پر پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنوا لیے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔ پاکستان کے برعکس ایرانیوں نے ان مہاجرین کو مخصوص جگہ پر سخت نگرانی میں رکھا۔ ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی گئی اور قواعد و ضوابط کے تحت آمدورفت کی اجازت دی گئی جب کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کو کھلی چھٹی تھی ۔ہمارے ہاں گڈ گورننس کے فقدان نے ان مہاجرین کو من مانے انداز میں میں یہاںبسنے میں مدد دی جس سے پاکستان کوشدید مالی، معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔
اس حوالے سے تحقیقی مقالے اور اخبارات میں کالم لکھے گئے لیکن '' ڈھاک کے تین پات،، ہی رہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ ان مہاجرین میں سے اکثر کی شناخت کرنا مشکل ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی ایک مخصوص تعداد دہشتگردی ،کرنسی اور اسلحہ کی اسمگلنگ میں اہم سہولت کار ہے۔بارہا ایسا ہوا ہے کہ افغان مہاجرین دہشتگردوں کو مالی مدد اور رہائشی تعاون دینے پر گرفتار کیا گئے ہیں۔یہ مہاجرین ہنڈی اور حوالے کے ذریعے غیر قانونی طور پر کرنسی دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو بھیج رہے تھے۔
حکومت پاکستان نے جب بھی افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کا اعلان کیا تو افغان حکومت نے پاکستان سے درخواست کی کہ وہ ابھی ان مہاجرین کو افغانستان نہ بھیجے کیونکہ وہ انھیں سنبھال نہیں سکتے۔پاکستان کو درپیش سیکیورٹی خطرات کے حوالے سے تیار کی گئی ایک انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق افغان مہاجرین کو پاکستان میں مزید رہنے کی اجازت دینا کسی بھی طرح دانشمندی اور ملک کی خیرخواہی نہیں ہے خصوصی طور پر جب کہ پاکستان کے دشمن ممالک کی سیکیورٹی ایجنسیاں ان مہاجرین کے ذریعے پاکستان کی سالمیت اور امن امان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان میں 20 لاکھ بنگالی، بہاری، روہنگیا، ایرانی، عرب، افریقی اور کئی دوسرے ملکوں کے غیرملکی پناہ گزیں ہیں اور پاکستان ان کی میزبانی کر رہا ہے۔ پاکستان نے اپنے اپنے محدود وسائل کے باوجود تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے مثالی کیمپ مینجمنٹ کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ذمے داری کا بوجھ بانٹنے کے لیے عالمی سٹیک ہولڈرز بھی آگے بڑھیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے اور یو این ایچ سی آر UNHCR آگے بڑھیں اور وہ امریکا نیٹو اور یورپی یونین پر دبا ڈالیں کہ وہ ان مہاجرین کو وطن واپس پہنچانے کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمے داری پوری کریں کیونکہ افغانستان میں انھی کی کارروائی کے نتیجے میں یہ مظلوم افراد بے گھر ہوئے اور گزشتہ 40 سال سے پاکستانی معیشت اور معاشرت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
افغان مہاجرین کی واپسی پاکستان کی معیشت اور معاشرت میں بہتری کے لیے انتہائی ضروری ہے، ایسے افغان مہاجرین جو اب تک رجسٹر نہ ہوئے ہیں، انھیں فوری طورپر پاکستان سے رخصت کر دینا چاہیے، اس عمل کو تکمیل پذیر کرنے کے لیے واضح کمیٹ منٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ایس پی صاحبان ان کو حکم جاری کیا جائے کہ وہ ایک مقررہ مدت کے دوران اپنے اپنے اضلاع میں موجود ایسے افراد جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ یا شہریت کی کوئی دستاویز نہ ہے، انھیں ایک جگہ جمع کرکے بتدریج افغان سرحد کراس کروا دی جائے اور آیندہ پاکستان آنے والے ہر افغانی کے لیے ویزہ کو لازمی قرار دیا جائے۔
پاکستان میں بعض مفاد پرستوں نے پیدائش کی بنیاد پر افغان مہاجرین کے بچوں کو غیر مشروط شہریت دینے کی وکالت شروع کی ، اس بنیاد پر افغان مہاجرین پاکستانی شہریت حاصل کر سکتے تھے لیکن پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے اس اقدام کو درست قرار نہیں دیا ورنہ اب تک لاکھوں افغان پاکستان کے شہری بن جاتے۔ان تمام تر پابندیوں کے باوجود بھی ہمارے حکومتی نظام میں خامیوں کی وجہ سے بہت سے افغانیوں نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرلیا ہے ۔دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد جنھوں نے غیر قانونی طور پر پاکستانی پاسپورٹ یا نادرا کارڈ حاصل کیا ہے، ان کی یہ دستاویزات منسوخ کردی جائیں۔
ایران نے تمام پناہ گزینوں کو ایک کیمپ میں رکھ کر ان کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا ۔ حکومت پاکستان نے بھی پناہ گزیں کیمپ بنائے لیکن افغان مہاجرین کی نقل و حرکت پر ایران کی طرح پابندی نہ لگائی ۔ یوں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو جب کسی نظم و ضبط کے تابع نہ رکھا گیا ہو تو پیچیدہ مسائل کا پیدا ہونا یقینی تھا۔
پاکستان تسلسل سے خوفناک دہشتگردی کا شکار رہا۔ سیکیورٹی کے گمبھیر مسائل پیدا ہوئے ۔ ہزاروں افراد شہید ہوئے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی کمیونٹی نے پاکستان کی مشکلات کا ادراک کرنے کے بجائے پاکستان کو دباؤ کا شکار کیا ۔
افغان مہاجرین کی اکثریت جب پاکستان آئی تو بدحالی کا شکار اور ناخواندہ بھی تھی ۔ کچھ عرصے بعد ان مہاجرین کی اکثریت نے محنت مزدوری اور چھوٹے موٹے کام شروع کرکے اپنے روزمرہ اخراجات کو پورا کرنا شروع کر دیا۔ بعض مہاجرین کے بچوں نے پاکستانی تعلیمی اداروں میں پڑھائی بھی شروع کر دی۔ مہاجرین کے کئی گروہوں نے منشیات اور غیر قانونی اسلحے کا کام شروع کردیا ۔
افغان مہاجرین کی ایک مخصوص تعداد بھکاری بھی بن گئی۔ انھوں نے غیرقانونی طور پر پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنوا لیے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔ پاکستان کے برعکس ایرانیوں نے ان مہاجرین کو مخصوص جگہ پر سخت نگرانی میں رکھا۔ ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی گئی اور قواعد و ضوابط کے تحت آمدورفت کی اجازت دی گئی جب کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کو کھلی چھٹی تھی ۔ہمارے ہاں گڈ گورننس کے فقدان نے ان مہاجرین کو من مانے انداز میں میں یہاںبسنے میں مدد دی جس سے پاکستان کوشدید مالی، معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔
اس حوالے سے تحقیقی مقالے اور اخبارات میں کالم لکھے گئے لیکن '' ڈھاک کے تین پات،، ہی رہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ ان مہاجرین میں سے اکثر کی شناخت کرنا مشکل ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی ایک مخصوص تعداد دہشتگردی ،کرنسی اور اسلحہ کی اسمگلنگ میں اہم سہولت کار ہے۔بارہا ایسا ہوا ہے کہ افغان مہاجرین دہشتگردوں کو مالی مدد اور رہائشی تعاون دینے پر گرفتار کیا گئے ہیں۔یہ مہاجرین ہنڈی اور حوالے کے ذریعے غیر قانونی طور پر کرنسی دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو بھیج رہے تھے۔
حکومت پاکستان نے جب بھی افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کا اعلان کیا تو افغان حکومت نے پاکستان سے درخواست کی کہ وہ ابھی ان مہاجرین کو افغانستان نہ بھیجے کیونکہ وہ انھیں سنبھال نہیں سکتے۔پاکستان کو درپیش سیکیورٹی خطرات کے حوالے سے تیار کی گئی ایک انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق افغان مہاجرین کو پاکستان میں مزید رہنے کی اجازت دینا کسی بھی طرح دانشمندی اور ملک کی خیرخواہی نہیں ہے خصوصی طور پر جب کہ پاکستان کے دشمن ممالک کی سیکیورٹی ایجنسیاں ان مہاجرین کے ذریعے پاکستان کی سالمیت اور امن امان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان میں 20 لاکھ بنگالی، بہاری، روہنگیا، ایرانی، عرب، افریقی اور کئی دوسرے ملکوں کے غیرملکی پناہ گزیں ہیں اور پاکستان ان کی میزبانی کر رہا ہے۔ پاکستان نے اپنے اپنے محدود وسائل کے باوجود تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے مثالی کیمپ مینجمنٹ کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ذمے داری کا بوجھ بانٹنے کے لیے عالمی سٹیک ہولڈرز بھی آگے بڑھیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے اور یو این ایچ سی آر UNHCR آگے بڑھیں اور وہ امریکا نیٹو اور یورپی یونین پر دبا ڈالیں کہ وہ ان مہاجرین کو وطن واپس پہنچانے کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمے داری پوری کریں کیونکہ افغانستان میں انھی کی کارروائی کے نتیجے میں یہ مظلوم افراد بے گھر ہوئے اور گزشتہ 40 سال سے پاکستانی معیشت اور معاشرت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
افغان مہاجرین کی واپسی پاکستان کی معیشت اور معاشرت میں بہتری کے لیے انتہائی ضروری ہے، ایسے افغان مہاجرین جو اب تک رجسٹر نہ ہوئے ہیں، انھیں فوری طورپر پاکستان سے رخصت کر دینا چاہیے، اس عمل کو تکمیل پذیر کرنے کے لیے واضح کمیٹ منٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ایس پی صاحبان ان کو حکم جاری کیا جائے کہ وہ ایک مقررہ مدت کے دوران اپنے اپنے اضلاع میں موجود ایسے افراد جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ یا شہریت کی کوئی دستاویز نہ ہے، انھیں ایک جگہ جمع کرکے بتدریج افغان سرحد کراس کروا دی جائے اور آیندہ پاکستان آنے والے ہر افغانی کے لیے ویزہ کو لازمی قرار دیا جائے۔
پاکستان میں بعض مفاد پرستوں نے پیدائش کی بنیاد پر افغان مہاجرین کے بچوں کو غیر مشروط شہریت دینے کی وکالت شروع کی ، اس بنیاد پر افغان مہاجرین پاکستانی شہریت حاصل کر سکتے تھے لیکن پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے اس اقدام کو درست قرار نہیں دیا ورنہ اب تک لاکھوں افغان پاکستان کے شہری بن جاتے۔ان تمام تر پابندیوں کے باوجود بھی ہمارے حکومتی نظام میں خامیوں کی وجہ سے بہت سے افغانیوں نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرلیا ہے ۔دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد جنھوں نے غیر قانونی طور پر پاکستانی پاسپورٹ یا نادرا کارڈ حاصل کیا ہے، ان کی یہ دستاویزات منسوخ کردی جائیں۔