پی ایس ایل’’کورونا وائرس‘‘ کا شکار

موجودہ حالات پر کسی کا زور نہیں چل سکتا، اب یہی دعا کرنی چاہیے کہ دنیا کو جلد از جلد کورونا وائرس سے نجات ملے۔

موجودہ حالات پر کسی کا زور نہیں چل سکتا، اب یہی دعا کرنی چاہیے کہ دنیا کو جلد از جلد کورونا وائرس سے نجات ملے۔ فوٹو: فائل

''بھائی جان ہماری تصویر ضرور لیں اسے اپنے فیس بک پیج پر بھی لگائیں مگر کسی سے کہہ کر ہمیں اسٹیڈیم میں جانے کی اجازت تو دلا دیں''

نیشنل اسٹیڈیم جاتے ہوئے جب میں نے باہر چند لڑکوں کو ہاتھوں میں ٹکٹ تھامے اپنی فیورٹ ٹیم کی شرٹ میں ملبوس دیکھا تو گاڑی روک کر ان کی تصاویر لینے لگا،ان میں سے ایک نے مجھ سے یہ بات کہی، میں نے انھیں جواب دیا کہ یہ سب کچھ ہماری حفاظت کیلیے ہی ہو رہا ہے، گھر جا کر آرام سے ٹی وی پر میچ دیکھیں، اسٹیڈیم میں بھی ہو کا عالم تھا۔

لفٹ میں ایک بھارتی ٹی وی کریو ممبر سے پوچھا کہ آپ کو وائرس کا خوف نہیں ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ''کورونا ہمارے ملک سمیت پوری دنیا میں پھیلا ہے کہاں کہاں بچیں گے، بس احتیاط ہی کر رہے ہیں'' میڈیا سینٹرز میں صحافیوں کی تعداد بھی قدرے کم محسوس ہوئی، ملتان سلطانز اور پشاور زلمی کے میچ میں 24 چوکے اور8چھکے لگے،14 پلیئرز آؤٹ ہوئے، مگر اسٹیڈیم میں ہو کا عالم رہا، اس سے قبل ہر باؤنڈری یا وکٹ گرنے پراتنا شور مچتا تھا کہ بیان سے باہر ہے۔

میڈیا سینٹر ساؤنڈ پروف ہوتے ہیں پھر بھی کام کے دوران اگر توجہ لیپ ٹاپ پر مرکوز ہو تو شائقین کے شور سے پتا چلتا تھا کہ ضرور کوئی باؤنڈری لگی یا کھلاڑی آؤٹ ہوا ہے، مگر اب ایسا نہیں رہا، زندگی میں پہلی بار کسی خالی اسٹیڈیم میں کوئی بڑا میچ کور کرتے ہوئے عجیب سے احساسات ہیں، پاکستانی میدانوں کی رونقیں اتنی مشکل سے بحال ہوئی تھیں مگربدقسمتی سے پی ایس ایل بھی ''کورونا وائرس'' کا شکارہو گئی،یہ عالمی وبا ہے اور دنیا بھر کے اسپورٹس ایونٹس اس کی وجہ سے ملتوی یا منسوخ کر دیے گئے ہیں، تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا لہذا فی الحال احتیاط ہی کی جا سکتی ہے۔

پی سی بی پہلے کنفیوژن کا شکار نظر آیا، اس نے میچز پروگرام کے مطابق کرانے کا فیصلہ کیا،اگر سندھ حکومت نے ایسا کہا تھا تو آپ بتا سکتے تھے کہ یہ مناسب نہیں ہے، دنیا بھر کے اسٹیڈیمز میں شائقین کا داخلہ بند کر دیا گیا مگر یہاں شدید خوف کے عالم میں کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کا میچ کرا دیا،پاکستانی کرکٹ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ خطرے کے باوجود ہزاروں شائقین اسٹیڈیم آ گئے، پھرغلطی سے سبق سیکھتے ہوئے اگلے روز سے بند دروازوں میں میچز کرائے گئے۔

غیرملکی کرکٹرزکے جانے سے پی ایس ایل کی رونقیں برقرار نہ رہ سکیں، اب تو یہ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ جیسا ہی محسوس ہو رہا ہے، ٹی وی پر میچ دیکھنے والے بھی یہی شکوہ کر رہے ہیں کہ بالکل مزا نہیں آ رہا، کھلاڑی بھی خالی میدان میں پرفارمنس کی داد نہ ملنے پر رنجیدہ ہیں مگر موجودہ حالات میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا، اگر لیگ کو روک دیا جاتا تو شاید بہتر ہوتا مگر نجانے موجودہ حالات کب تک برقرار رہیں شاید یہی سوچ کر جلد از جلد ایونٹ کوختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اب تو ایسا لگتا ہے کہ بس رسمی کارروائی پوری ہو رہی ہے۔


بنگلہ دیش سے سیریز بھی ممکن نظر نہیں آتی بلکہ ورلڈکپ بھی خطرے میں ہی لگنے لگا ہے، مشکل وقت میں بورڈ حکام حواس باختہ نظر آئے، پی ایس ایل میں پلاننگ کا شدید فقدان تو ابتدا سے ہی سامنے نظر آ رہا تھا، چاہے وہ افتتاحی تقریب ہو یا شیڈولنگ سب میں واضح تھا کہ دوسروں کو ''تیار ہیں تیار ہیں'' کہنے والا بورڈ خود تیار نہیں تھا، اب مسائل زیادہ اجاگر ہو گئے، آپ کو یہ ہی نہیں پتا تھا کہ میچز کرانے ہیں یا نہیں،کراؤڈ کو آنے دینا چاہیے یا نہیں، جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو ہوش آیا،پنجاب میں بارش کی پیشگوئی تھی مگر وہاں سے میچز بھی کراچی منتقل نہیں کیے گئے۔

یہ بات درست ہے کہ اب بورڈ اور فرنچائزز کو مالی نقصان تو ہوگا مگر یہ انسانی جانوں سے قیمتی نہیں، اگر خطرہ ہے تو وہ صرف غیرملکی کرکٹرز کے لیے نہیں ہے، ملکی کرکٹرز اور اسٹیڈیم میں موجود دیگر اسٹیک ہولڈرز کا کیا قصور، اگر معاملات خراب لگ رہے ہیں تو لیگ کو معطل ہی کر دینا چاہیے تھا،بس اب دعا ہی کرنی چاہیے کہ باقی میچز بھی خیروعافیت سے گذر جائیں اورکوئی خطرناک وائرس کا شکار نہ ہو، فرنچائز بھی بورڈ کی پلاننگ سے خوش نہیں ہیں۔

بیشتر کا اس بات پر اتفاق تھا کہ چار ٹیمیں کراچی میں ہی موجود ہیں دیگر 2کو بھی بلا کر یہیں میچز کرا دیں، پھر لاہور جانے کے اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے، یہاں بھی خالی میدان میں غیرملکی کھلاڑیوں کے بغیر میچز ہونا ہیں وہاں بھی ایسا ہی ہوگا، اس سے پہلے بھی شیڈول کے معاملے میں بورڈ نے کئی سنگین غلطیاں کیں، اگر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم ایونٹ سے اخراج کے دہانے پر ہے تو اس میں شیڈولنگ کا اہم کردار رہا، ٹیم کو ایک سے دوسرے شہر بے تحاشا سفر کرایا گیا، خراب موسم سے فلائٹس متاثر ہوئیں تو ایئرپورٹ پر بھی کھلاڑی گھنٹوں بیٹھے رہے۔

ٹیم مینجمنٹ کے پاس انھیں تحریک دلانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اسی تھکاوٹ کی وجہ سے اچھی کارکردگی سامنے نہ آ سکی، افسوس بورڈ نے پی ایس ایل کی باگ ڈور ایسے افراد کو سونپی ہوئی ہے جنھیں کام سے زیادہ اپنی ذاتی تشہیر میں دلچسپی ہے، شیڈول میں تبدیلی تک کی ویڈیو خود بنا کر بورڈ کے اکاؤنٹ سے شیئر کرائی جاتی ہے، جو ان کا اصل کام ہے وہ کریں، ان معاملات سے ہٹ کر اگر دیکھیں تو پی ایس ایل میں اس بار بھی کرکٹ کا معیار بہت اچھا رہا۔

ایونٹ اختتامی مراحل میں داخل ہو چکا مگر سیمی فائنل میں رسائی کی دوڑ جاری ہے، کئی نوجوان کرکٹرز نے بھی اپنے کھیل سے شائقین کو بیحد متاثر کیا،موجودہ حالات پر کسی کا زور نہیں چل سکتا، اب یہی دعا کرنی چاہیے کہ دنیا کو جلد از جلد کورونا وائرس سے نجات ملے تاکہ حالات معمول پر آئیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے میدانوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں بھی پھر سے بحال ہوں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے@saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 
Load Next Story