بدلتی دنیا اور ہم
اصل میں اس قسم کے دن مغرب کی پیداوار ہیں چونکہ مغربی اور مشرقی تہذیب میں ابھی بہت فاصلہ ہے
مغربی دنیا کچھ کرے نہ کرے مختلف حوالوں سے عالمی دن ضرور مناتی ہے۔ اس حوالے سے 9مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا گیا اور روایت کے مطابق مختلف پروگراموں کے ذریعے خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ ہمارے آرمی چیف نے اس موقع پر کہا کہ خواتین زندگی کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں، مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین قوم کا فخر ہیں۔
اس نوعیت کے پیغامات اور بیانات سیاست دانوں کی طرف سے بھی میڈیا کی حسب روایت زینت بنے رہے۔ مغرب والے خواتین کے حوالے سے جو بیانات دیتے ہیں وہ بیانات مغرب کی عورت کو سامنے رکھ کر دیے جاتے ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ مغرب کی عورت کے مسائل سے دنیا واقف ہوئی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں عورت کیسے دلدوز مسائل سے گزر رہی ہے، اس کا علم مغربی میڈیا کو بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
پسماندہ ملکوں میں مرد کی بالادستی پر مبنی کلچر موجود ہے۔ اس کلچر میں عورت کا حال شاہی دورکی باندیوں سے مختلف نہیں۔ عورت کا کام بچے پیدا کرنا، اپنے محدود وسائل میں ان کی ''تربیت'' کرنا ،کچن اور گھر کی ذمے داریاں پوری کرنا، شوہر کی حسب ہمت خدمت کرنا شامل ہے، اب ملک کے بڑے شہروں میں خواتین کے لیے صنعتیں لگ رہی ہیں خاص طور پرگارمنٹ کے شعبے میں خواتین بڑی تعداد کام کر رہی ہے ۔
اس معاشی سیٹ اپ میں خواتین آزاد حیثیت میں کام تو نہیں کر پاتیں البتہ ان خواتین میں اس حوالے سے بیداری ضرور پیدا ہو رہی ہے انھیں احساس ہو رہا ہے کہ مرد کی طرح وہ بھی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ ایک مثبت پیشرفت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ خواتین کی ترقی کے اس مرحلے میں بعض عناصر اپنے ماحول اپنے کلچرکو دیکھے بغیر آزادی اور خودمختاری کے جو نعرے لگاتے ہیں اس کی وجہ سے عورت کی ترقی کا یہ پہلا قدم متنازعہ اور تصادم کا عمل بن جاتا ہے۔
غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے خاندانوں کی خواتین کو اگر معاشی خودمختاری کا سندیسہ دیا جائے تو عورت صرف کنفیوژڈ ہو سکتی ہے، ہماری خواتین کا ایک بہت بڑاحصہ میڈیسن اور گارمنٹ کے شعبے میں کام کرتا ہے اور مالکان اپنی صنعتوں میں خواتین کو پریفر کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ مالکان خواتین کی پذیرائی کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ خواتین کم معاوضے میں مرد سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزدوروں کی نمایندگی کرنے والے لیڈران مالکان کی اس ایکسپلائٹیشن کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں؟عورت کی آزادی کی جب بات کی جاتی ہے تو لازماً مرد کے دباؤ سے آزادی کی بات کو سرفہرست رکھا جاتا ہے۔
بلاشبہ ہماری سوسائٹی میل ڈامیننٹ سوسائٹی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں، یہ سیکنڈری مسئلہ ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا صنعتوں میں مزدور کو اس کی محنت کا صحیح معاوضہ ملتا ہے؟ جب ہم مزدور کی حالت خواہ وہ مرد ہو یا عورت نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صنعتکار بلاتفریق مرد عورت سب کا استحصال کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد کما کر لاتا ہے عورت گھریلو ذمے داریاں پوری کرتی ہے سو جب عورت انکم شیئر نہیں کرتی تو اس کی حیثیت فطری طور پر سیکنڈری ہو جاتی ہے لیکن ہمارے سوشل سیٹ اپ میں اس صورتحال کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ مرد کی بے لگام برتری کے اس سیٹ اپ کو تبدیل ہونا چاہیے لیکن اگر یہ تبدیلی مغرب کی اتباع میں کی جاتی ہے تو یہ تبدیلی صرف مشکلات پیدا کر سکتی ہے ۔کوئی مثبت سمت میں پیش قدمی نہیں کی جا سکتی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ میل ڈامنینٹڈ سوسائٹی میں کئی پرتیں ہیں، ان سب کو پیش نظر رکھ کر کوئی ایسی ذمے دارانہ درمیانی راہ نکالنے کی ضرورت ہے جو عورت کو مرد کی غلامی سے آزادی بھی دلا سکے اور خاندانی نظام کا ڈھانچہ بھی متاثر نہ ہو۔ ہمارے بعض دوست صدیوں پر پھیلے اس سیٹ اپ کو ''آزادی'' کے ایک جھٹکے سے توڑ دینا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں۔ اس سمت میں خونی رشتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جو نئی جنریشن کو ذہنی الجھنوں سے بچاتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ اس کے برخلاف ایک نکتہ نظر وہ ہے جو عورت کی آزادی کو روایتی فکری پس منظر میں دیکھ کر یہ فتویٰ صادر کردیتا ہے کہ عورت کا مقام اس کا گھر ہے، اسے گھر کے اندر ہی ''آزادی'' ملنی چاہیے لیکن چونکہ معاشی مجبوریاں اور مارکیٹ میں خواتین ورکرز کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ نے اس طبقہ فکر کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ عورت کو معاشی حوالے سے آزادی دے۔
مشکل یہ ہے کہ جب ہم عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو اپنے معاشرتی سیٹ اپ کو بالکل نظر انداز کر کے مغرب کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوا ہنس کی چال چلنے پر اتراتا ہے جس سے سماجی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب ہمارے نظریاتی رہنماؤں کو اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اکیلا مرد اپنے پورے خاندان کی اپنی محدود انکم سے سپورٹ نہیں کر سکتا۔ اب ہر حال میں عورت کو مرد کے ساتھ معاشی جدوجہد میں شامل ہونا پڑے گا اور مرد پر اعتبار کرنا ہو گا۔
اصل میں اس قسم کے دن مغرب کی پیداوار ہیں چونکہ مغربی اور مشرقی تہذیب میں ابھی بہت فاصلہ ہے لہٰذا محض مغرب کی تقلید میں بے سرو پا دن منانے کے بجائے اپنے معاشرتی سیٹ اپ کو سامنے رکھ کر کوئی ایسی راہ عمل تلاش کرنا ہو گا جو ہمارے معاشرتی سیٹ اپ کو ڈنڈے سے توڑنے کے بجائے ایسی راہوں کا انتخاب کرے جو ہم جیسے پسماندہ ملکوں کے معاشرتی سیٹ اپ کو ایک دم ڈھیر کیئے بغیر خاندان کے معاشی مسائل سے نمٹ سکے۔ سب سے بڑا مسئلہ نئی جنریشن کے مستقبل کا ہے۔ انفرمیشن کی بے شمار سہولتوں نے آج کے نوجوان کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے نوجوان نسل کو میڈیا کا یرغمال بننے سے روکنا ہے، ابھی ہماری نوجوان نسل مغرب کے رنگ میں نہیں رنگی گئی یہی موقعہ ہے کہ نوجوانوں کو اعتدال کی طرف لایا جائے۔
اس نوعیت کے پیغامات اور بیانات سیاست دانوں کی طرف سے بھی میڈیا کی حسب روایت زینت بنے رہے۔ مغرب والے خواتین کے حوالے سے جو بیانات دیتے ہیں وہ بیانات مغرب کی عورت کو سامنے رکھ کر دیے جاتے ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ مغرب کی عورت کے مسائل سے دنیا واقف ہوئی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں عورت کیسے دلدوز مسائل سے گزر رہی ہے، اس کا علم مغربی میڈیا کو بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
پسماندہ ملکوں میں مرد کی بالادستی پر مبنی کلچر موجود ہے۔ اس کلچر میں عورت کا حال شاہی دورکی باندیوں سے مختلف نہیں۔ عورت کا کام بچے پیدا کرنا، اپنے محدود وسائل میں ان کی ''تربیت'' کرنا ،کچن اور گھر کی ذمے داریاں پوری کرنا، شوہر کی حسب ہمت خدمت کرنا شامل ہے، اب ملک کے بڑے شہروں میں خواتین کے لیے صنعتیں لگ رہی ہیں خاص طور پرگارمنٹ کے شعبے میں خواتین بڑی تعداد کام کر رہی ہے ۔
اس معاشی سیٹ اپ میں خواتین آزاد حیثیت میں کام تو نہیں کر پاتیں البتہ ان خواتین میں اس حوالے سے بیداری ضرور پیدا ہو رہی ہے انھیں احساس ہو رہا ہے کہ مرد کی طرح وہ بھی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ ایک مثبت پیشرفت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ خواتین کی ترقی کے اس مرحلے میں بعض عناصر اپنے ماحول اپنے کلچرکو دیکھے بغیر آزادی اور خودمختاری کے جو نعرے لگاتے ہیں اس کی وجہ سے عورت کی ترقی کا یہ پہلا قدم متنازعہ اور تصادم کا عمل بن جاتا ہے۔
غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے خاندانوں کی خواتین کو اگر معاشی خودمختاری کا سندیسہ دیا جائے تو عورت صرف کنفیوژڈ ہو سکتی ہے، ہماری خواتین کا ایک بہت بڑاحصہ میڈیسن اور گارمنٹ کے شعبے میں کام کرتا ہے اور مالکان اپنی صنعتوں میں خواتین کو پریفر کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ مالکان خواتین کی پذیرائی کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ خواتین کم معاوضے میں مرد سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزدوروں کی نمایندگی کرنے والے لیڈران مالکان کی اس ایکسپلائٹیشن کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں؟عورت کی آزادی کی جب بات کی جاتی ہے تو لازماً مرد کے دباؤ سے آزادی کی بات کو سرفہرست رکھا جاتا ہے۔
بلاشبہ ہماری سوسائٹی میل ڈامیننٹ سوسائٹی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں، یہ سیکنڈری مسئلہ ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا صنعتوں میں مزدور کو اس کی محنت کا صحیح معاوضہ ملتا ہے؟ جب ہم مزدور کی حالت خواہ وہ مرد ہو یا عورت نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صنعتکار بلاتفریق مرد عورت سب کا استحصال کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد کما کر لاتا ہے عورت گھریلو ذمے داریاں پوری کرتی ہے سو جب عورت انکم شیئر نہیں کرتی تو اس کی حیثیت فطری طور پر سیکنڈری ہو جاتی ہے لیکن ہمارے سوشل سیٹ اپ میں اس صورتحال کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ مرد کی بے لگام برتری کے اس سیٹ اپ کو تبدیل ہونا چاہیے لیکن اگر یہ تبدیلی مغرب کی اتباع میں کی جاتی ہے تو یہ تبدیلی صرف مشکلات پیدا کر سکتی ہے ۔کوئی مثبت سمت میں پیش قدمی نہیں کی جا سکتی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ میل ڈامنینٹڈ سوسائٹی میں کئی پرتیں ہیں، ان سب کو پیش نظر رکھ کر کوئی ایسی ذمے دارانہ درمیانی راہ نکالنے کی ضرورت ہے جو عورت کو مرد کی غلامی سے آزادی بھی دلا سکے اور خاندانی نظام کا ڈھانچہ بھی متاثر نہ ہو۔ ہمارے بعض دوست صدیوں پر پھیلے اس سیٹ اپ کو ''آزادی'' کے ایک جھٹکے سے توڑ دینا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں۔ اس سمت میں خونی رشتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جو نئی جنریشن کو ذہنی الجھنوں سے بچاتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ اس کے برخلاف ایک نکتہ نظر وہ ہے جو عورت کی آزادی کو روایتی فکری پس منظر میں دیکھ کر یہ فتویٰ صادر کردیتا ہے کہ عورت کا مقام اس کا گھر ہے، اسے گھر کے اندر ہی ''آزادی'' ملنی چاہیے لیکن چونکہ معاشی مجبوریاں اور مارکیٹ میں خواتین ورکرز کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ نے اس طبقہ فکر کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ عورت کو معاشی حوالے سے آزادی دے۔
مشکل یہ ہے کہ جب ہم عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو اپنے معاشرتی سیٹ اپ کو بالکل نظر انداز کر کے مغرب کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوا ہنس کی چال چلنے پر اتراتا ہے جس سے سماجی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب ہمارے نظریاتی رہنماؤں کو اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اکیلا مرد اپنے پورے خاندان کی اپنی محدود انکم سے سپورٹ نہیں کر سکتا۔ اب ہر حال میں عورت کو مرد کے ساتھ معاشی جدوجہد میں شامل ہونا پڑے گا اور مرد پر اعتبار کرنا ہو گا۔
اصل میں اس قسم کے دن مغرب کی پیداوار ہیں چونکہ مغربی اور مشرقی تہذیب میں ابھی بہت فاصلہ ہے لہٰذا محض مغرب کی تقلید میں بے سرو پا دن منانے کے بجائے اپنے معاشرتی سیٹ اپ کو سامنے رکھ کر کوئی ایسی راہ عمل تلاش کرنا ہو گا جو ہمارے معاشرتی سیٹ اپ کو ڈنڈے سے توڑنے کے بجائے ایسی راہوں کا انتخاب کرے جو ہم جیسے پسماندہ ملکوں کے معاشرتی سیٹ اپ کو ایک دم ڈھیر کیئے بغیر خاندان کے معاشی مسائل سے نمٹ سکے۔ سب سے بڑا مسئلہ نئی جنریشن کے مستقبل کا ہے۔ انفرمیشن کی بے شمار سہولتوں نے آج کے نوجوان کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے نوجوان نسل کو میڈیا کا یرغمال بننے سے روکنا ہے، ابھی ہماری نوجوان نسل مغرب کے رنگ میں نہیں رنگی گئی یہی موقعہ ہے کہ نوجوانوں کو اعتدال کی طرف لایا جائے۔