عورت مارچ اور وزیراعظم کی تشخیص
مختلف نظاموں کو مسئلے کی جڑ قرار دے کر یہ امید نہ لگائیں کہ آپ یہ جڑ کاٹ دیں گے اور مسئلہ آناً فاناً ٹھیک ہوجائے گا
BEIJING:
عورت مارچ پر پتھر اور جوتے برسانا بری بات ہے۔ عورت مارچ منعقد کرنے والوں کو گالیاں دینا بری بات ہے۔ مریم نواز، عمران خان، سیکیورٹی اداروں، فنکاروں و دیگر عوام و خواص کو برا بھلا کہنا بری بات ہے۔ یہ سب کہنے کےلیے سماجی رابطوں کے ای پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا بری بات ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے وجود میں آنے کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔ کم و بیش ان کے عالم وجود میں آنے کے ساتھ ہی ان پر یہ طوفان بدتمیزی بھی دیکھا جانے لگا تھا۔ لیکن یہ طوفان اٹھانے والے بلاشبہ کوئی غیر مرئی لوگ تو نہیں۔ کسی اور عالم سے آئے ہوئے لوگ تو نہیں۔ ہم ہی لوگ یہ سب کر رہے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں۔ تو کیا ہم سوشل میڈیا کے آںے کے نتیجے میں بدتمیز ہوگئے ہیں؟ قطعی نہیں۔
ہم پہلے اپنے گھروں کے اندر، کھیل کے میدانوں میں، گلیوں بازاروں میں اور حتیٰ کہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر یہی طوفانِ بدتمیزی بپا کیا کرتے تھے۔ ہم میں سے کچھ معززین نے 21 ستمبر 1958 کو مشرقی پاکستان اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی پٹواری کو پیپر ویٹ، ڈنڈے اور کرسیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔ فی زمانہ ہم ہی لوگ ٹاک شوز میں بیٹھ کر باہم دست و گریبان ہوتے ہیں۔ منہ سے جھاگ اڑاتے ہیں۔ چلاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خود کو نظریاتی اور قوم کا رہنما بھی کہتے جاتے ہیں۔ ہم عدالتوں سے ڈرتے ہیں، کیونکہ ان میں سچ ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ سچ دلیل کے ساتھ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ جو شاید ہمارے مزاج کے خلاف ہے یا ہمارے بس سے باہر ہے۔ چنانچہ کبھی ہم نظام انصاف کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی وکلا کی بولیاں لگاتے ہیں تو کبھی گواہوں کی۔ بات نہ بنے تو بندوقیں نکل آتی ہیں۔ مخالفین کو مروا دیتے ہیں۔ مقابلوں میں پار لگوا دیتے ہیں یا لاپتہ کردیتے ہیں۔ دلیل اور منطق یعنی فہم، علم اور سچ سے محروم معاشروں کا یہی چلن ہوتا ہے۔
آج علم کم ہوتا جارہا ہے اور معلومات بڑھتی جارہی ہیں۔ ہم علم سے دور ہوتے جارہے ہیں اور صرف معلومات پر اکتفا کر رہے ہیں۔ معلومات بری چیز نہیں لیکن یہ ادھوری ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان کے نتیجے میں گمراہ ہوجانے کے غالب امکانات موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ چنانچہ اگر ٹاک شوز میں بیٹھے لوگ یا کوئی سیاستدان یا عوامی حلقوں میں اثرورسوخ رکھنے والا کوئی اور فرد بغیر ٹھوس شواہد کے کہہ دے کہ ملک اس لیے ترقی نہیں کررہا کیونکہ ہمارے حکمران کرپٹ ہیں تو جہاں کچھ لوگ اس دعوے کا ثبوت مانگیں گے وہیں کچھ لوگ اسے مان بھی لیں گے۔ بعینہ جب کسی کو کسی الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے تو کچھ لوگ اس الزام کو سچ مان لیتے ہیں جبکہ کچھ ثبوت کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب کبھی دنیا میں کورونا وائرس ٹائپ کا کوئی نیا مسئلہ جنم لیتا ہے تو کچھ لوگ اس کے متعلق تفصیلات جانے بغیر ہی بزعمِ خود اس کے علاج تجویز کرنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کے دعوؤں کو مان لیتے ہیں مگر کچھ دوسرے ثبوت کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب کوئی انجینئر وقار پانی سے چلنے والی گاڑی بناتا ہے تو کچھ مان لیتے ہیں اور کچھ سوال اٹھاتے ہیں۔ جب سیاسی ادوار میں ملک کا نظام کھینچاتانی کا شکار نظر آتا ہے اور ہر طرف آپادھاپی دکھائی دینے لگتی ہے تو کچھ لوگوں کو آمریت کی یاد ستانے لگتی ہے اور وہ اسے اس بنیاد پر جمہوریت سے بہتر قرار دینے لگتے ہیں کہ تب بھانت بھانت کی بولیاں، اپنی اپنی من مانیاں، کرپشن اور لاقانونیت وغیرہ نہیں ہوتی، مگر کچھ لوگ ان سے اختلاف کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اگر واقعی آمریت چین اور سکون کا زمانہ ہوتا ہے تو پھر ایسے ہی ادوار میں ملک کیوں ٹوٹا؟ خودکش حملے کیوں شروع ہوئے؟ چھوٹے صوبے کیوں ناراض ہوئے؟ اپنے ہی لوگوں نے بندوقیں کیوں اٹھائیں؟ ڈرون حملے کیوں شروع ہوئے؟ قلعے، قیدیں، کوڑے، پھانسیاں، زبان بندیاں، جعلی ریفرنڈم، جعلی الیکشن اور غداریوں کے مقدمات کیوں بنے؟
یوں معاشرہ متضاد دعوے کرنے والوں اور ان پر متضاد ردعمل دینے والوں کے درمیان بٹتا چلا جاتا ہے۔ غیر منطقی دعوے کرنے والے اور ان کو فطرتاً یا مجبوراً مان لینے والے ایک طرف، جبکہ دلیل دینے والے اور دلیل مانگنے والے دوسری طرف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تک کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ البتہ معاشرے میں وہ تقسیم یا تفریق ضرور گہری ہوتی چلی جاتی ہے جس کا ذکر وزیراعظم نے عورت مارچ کے دوران دو گروہوں میں تصادم کا ذکر کرتے ہوئے تو کیا، لیکن ان اوقات میں کبھی نہیں کیا جب وہ بلاثبوت نواز شریف کو چور اور ملک کی ابتری کا ذمے دار قرار دے رہے ہوتے ہیں یا ان کے ماتحت بلاثبوت رانا ثنا پر ہیروئن ڈال رہے ہوتے ہیں اور پھر ان کے پیروکار سوشل میڈیا پر مخالفین کو ان ہی دعوؤں کی بنیاد پر برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔
خیر! مسئلہ بڑا اس وقت ہوتا ہے کہ جب یہ باہمی اختلاف اظہار رائے سے بڑھ کر بدتہذیبی میں بدل جاتا ہے اور لوگ دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں، باہم دست و گریبان ہونے لگتے ہیں، جوتے، ڈنڈے، پتھر اور بندوقیں نکال لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف حسبِ توفیق ریاستی یا غیرریاستی قوت کا مظاہرہ کیا جانے لگتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے؟ واکس؟ ٹاک شوز؟ سوال و جواب؟ تقاریر؟ مذاکرے؟ اگر ایسا ہوتا تو اب تک یہ مسئلہ حل ہوگیا ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوپارہا۔ حل صرف علم ہی ہے اور اس مسئلے کی جڑ ہیں معلومات یعنی ادھورا و خام علم۔
لہٰذا وزیراعظم سے التماس ہے کہ معاشرے میں رائج مختلف تعلیمی نظاموں پر تنقید ضرور کریں اور ان کی جگہ کوئی مشترکہ یا جزوی مشترکہ نظام تعلیم لانے کی کوشش بھی ضرور کریں مگر مختلف سماجی گروہوں کی پیدائش کے معاملے پر کوئی جامع تحقیق کیے بغیر مختلف نظاموں کو مسئلے کی جڑ قرار دے کر یہ امید نہ لگائیں کہ آپ یہ جڑ کاٹ دیں گے اور مسئلہ آناً فاناً ٹھیک ہوجائے گا۔
آپ کہتے تھے، مجھے حکومت ملے گی تو عوام ٹیکس دینا شروع کردیں گے، بیرونی سرمایہ کاری آنے لگے گی، ڈیم فنڈ میں پیسے آئیں گے اور ہمیں قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی، الٹا پرانا قرض بھی اتار دیں گے۔ مگر آج آپ کی حکومت آئے پونے دو برس بیت گئے اور آپ کے تمام دعوے غلط ثابت ہوگئے۔ کم از کم اب تو آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب بیماری کی تشخیص درست نہیں ہوتی تو پھر علاج بھی درست نہیں ہوتا۔
لہٰذا مہربانی کیجئے اور کچھ وقت نکال کر صحراؤں، پہاڑوں اور کچی آبادیوں میں مقیم ان بچوں اور ان کے ان غریب، نادار اور زندگیوں سے بیزار والدین اور اساتذہ (اگر ہوں تو) سے ملیے اور یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ ہمارا اصل مسئلہ یہ والا اور وہ والا نظام تعلیم ہے یا تعلیم اور تعلیمی نظام دونوں کا نہ ہونا ہے؟ جس ملک میں کروڑوں بچے سرے سے کسی اسکول یا مدرسے میں جاتے ہی نہیں اور جس ملک کے کروڑوں نوجوان مولویوں، سیاستدانوں اور جرائم پیشہ افراد کی باتوں میں آکر یک سر بہک جاتے اور جن کی برین واشنگ کرنا اس قدر آسان ہے کہ کوئی بھی مداری پانچ منٹ میں انہیں بہلا پھسلا کر دھرنا دینے، جلوس نکالنے، پتھراؤ کرنے اور آنسو گیس کی شیلنگ کے سامنے ڈٹ جانے سے لے کر خودکش بمبار تک بننے پر آمادہ کرسکتا ہے، وہاں صرف نظام تعلیم یا نصاب تعلیم بدلنے سے کیا ہوگا؟ جو بچے اور بڑے کبھی اسکول گئے ہی نہیں وہ نظامِ تعلیم بدلنے سے کیسے ٹھیک ہوں گے؟ جو اساتذہ خود واجبی تعلیم یافتہ ہیں وہ بچوں کو کیا پڑھائیں گے؟ جو اساتذہ کتابیں پڑھانے کے بجائے بچوں کو صرف اپنے خیالات و خطبات سے نواز کر گھر بھیج دیتے ہیں اور نہ یہ والی کتاب کھولتے ہیں اور نہ وہ والی، وہاں نیا نظام تعلیم کسی سماجی مسئلے کا حل کیونکر ثابت ہوسکتا ہے؟ جس ملک میں لاکھوں بچے نقل کرکے، لاکھوں بچے گیس پیپر لے کر، لاکھوں بچے بری پیپر مارکنگ کے طفیل اور لاکھوں بچے رٹا لگا کر امتحان پاس کرتے ہیں اور اس سارے عمل کے دوران تعلیم انہیں چھو کر بھی نہیں گزرتی، وہاں خالی نظام تعلیم کیونکر قوم کے مستقبل کی تعمیر کا فریضہ انجام دے سکے گا؟ اگر جامعہ حفصہ کے طلبا قرآن و حدیث کی تعلیم سے صحیح معنوں میں فیضیاب ہورہے ہوتے تو کیا وہ تشدد کا راستہ اپناتے؟ اگر چوبیس گھنٹے سوشل میڈٰیا پر نظر آنے والے جغادریوں پر کسی کالج یونیورسٹی کی تعلیم کا کوئی اثر ہوا ہوتا، تو کیا وہ گالم گلوچ اور مغلظات کے تبادلے کا چلن اپنائے ہوئے ہوتے؟
اگر ہم نے اپنے بچوں کو اس قابل بنانا ہے کہ کوئی بھی ان کے ذہن و دل کو اغوا نہ کرسکے اور اگر ہم نے اپنے بچوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ بجائے استعمال ہونے کے استعمال کرنے کی کوشش کرنے والوں کو چاروں شانے چت کرسکیں تو ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہر بچہ اسکول جائے، ہر اسکول صحیح معنوں میں بچوں کو تعلیم دے، ہر استاد صحیح معنوں میں بچوں کا ذہنی رجحان و قلبی میلان علم و تحقیق کی جانب موڑنے کی کوشش کرے۔ اور بچہ جب اپنی درسگاہ سے نکلے تو خود کو فارغ التحصیل نہ سمجھے بلکہ علم اور کتاب سے دائمی دوستی کرکے نکلے۔ اور یہ سب تقریریں کرنے اور پالیسیاں بنانے سے نہیں، انہیں نافذ کرنے سے ممکن ہوگا۔ اقبال یاد آگئے
محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر
اس محملِ خالی کو پھر شاہدِ لیلا دے
رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر
خودداری ساحل دے، آزادی دریا دے
بے لوث محبت ہو، بے باک صداقت ہو
سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عورت مارچ پر پتھر اور جوتے برسانا بری بات ہے۔ عورت مارچ منعقد کرنے والوں کو گالیاں دینا بری بات ہے۔ مریم نواز، عمران خان، سیکیورٹی اداروں، فنکاروں و دیگر عوام و خواص کو برا بھلا کہنا بری بات ہے۔ یہ سب کہنے کےلیے سماجی رابطوں کے ای پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا بری بات ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے وجود میں آنے کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔ کم و بیش ان کے عالم وجود میں آنے کے ساتھ ہی ان پر یہ طوفان بدتمیزی بھی دیکھا جانے لگا تھا۔ لیکن یہ طوفان اٹھانے والے بلاشبہ کوئی غیر مرئی لوگ تو نہیں۔ کسی اور عالم سے آئے ہوئے لوگ تو نہیں۔ ہم ہی لوگ یہ سب کر رہے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں۔ تو کیا ہم سوشل میڈیا کے آںے کے نتیجے میں بدتمیز ہوگئے ہیں؟ قطعی نہیں۔
ہم پہلے اپنے گھروں کے اندر، کھیل کے میدانوں میں، گلیوں بازاروں میں اور حتیٰ کہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر یہی طوفانِ بدتمیزی بپا کیا کرتے تھے۔ ہم میں سے کچھ معززین نے 21 ستمبر 1958 کو مشرقی پاکستان اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی پٹواری کو پیپر ویٹ، ڈنڈے اور کرسیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔ فی زمانہ ہم ہی لوگ ٹاک شوز میں بیٹھ کر باہم دست و گریبان ہوتے ہیں۔ منہ سے جھاگ اڑاتے ہیں۔ چلاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خود کو نظریاتی اور قوم کا رہنما بھی کہتے جاتے ہیں۔ ہم عدالتوں سے ڈرتے ہیں، کیونکہ ان میں سچ ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ سچ دلیل کے ساتھ ثابت کرنا پڑتا ہے۔ جو شاید ہمارے مزاج کے خلاف ہے یا ہمارے بس سے باہر ہے۔ چنانچہ کبھی ہم نظام انصاف کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی وکلا کی بولیاں لگاتے ہیں تو کبھی گواہوں کی۔ بات نہ بنے تو بندوقیں نکل آتی ہیں۔ مخالفین کو مروا دیتے ہیں۔ مقابلوں میں پار لگوا دیتے ہیں یا لاپتہ کردیتے ہیں۔ دلیل اور منطق یعنی فہم، علم اور سچ سے محروم معاشروں کا یہی چلن ہوتا ہے۔
آج علم کم ہوتا جارہا ہے اور معلومات بڑھتی جارہی ہیں۔ ہم علم سے دور ہوتے جارہے ہیں اور صرف معلومات پر اکتفا کر رہے ہیں۔ معلومات بری چیز نہیں لیکن یہ ادھوری ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان کے نتیجے میں گمراہ ہوجانے کے غالب امکانات موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ چنانچہ اگر ٹاک شوز میں بیٹھے لوگ یا کوئی سیاستدان یا عوامی حلقوں میں اثرورسوخ رکھنے والا کوئی اور فرد بغیر ٹھوس شواہد کے کہہ دے کہ ملک اس لیے ترقی نہیں کررہا کیونکہ ہمارے حکمران کرپٹ ہیں تو جہاں کچھ لوگ اس دعوے کا ثبوت مانگیں گے وہیں کچھ لوگ اسے مان بھی لیں گے۔ بعینہ جب کسی کو کسی الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے تو کچھ لوگ اس الزام کو سچ مان لیتے ہیں جبکہ کچھ ثبوت کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب کبھی دنیا میں کورونا وائرس ٹائپ کا کوئی نیا مسئلہ جنم لیتا ہے تو کچھ لوگ اس کے متعلق تفصیلات جانے بغیر ہی بزعمِ خود اس کے علاج تجویز کرنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کے دعوؤں کو مان لیتے ہیں مگر کچھ دوسرے ثبوت کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب کوئی انجینئر وقار پانی سے چلنے والی گاڑی بناتا ہے تو کچھ مان لیتے ہیں اور کچھ سوال اٹھاتے ہیں۔ جب سیاسی ادوار میں ملک کا نظام کھینچاتانی کا شکار نظر آتا ہے اور ہر طرف آپادھاپی دکھائی دینے لگتی ہے تو کچھ لوگوں کو آمریت کی یاد ستانے لگتی ہے اور وہ اسے اس بنیاد پر جمہوریت سے بہتر قرار دینے لگتے ہیں کہ تب بھانت بھانت کی بولیاں، اپنی اپنی من مانیاں، کرپشن اور لاقانونیت وغیرہ نہیں ہوتی، مگر کچھ لوگ ان سے اختلاف کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اگر واقعی آمریت چین اور سکون کا زمانہ ہوتا ہے تو پھر ایسے ہی ادوار میں ملک کیوں ٹوٹا؟ خودکش حملے کیوں شروع ہوئے؟ چھوٹے صوبے کیوں ناراض ہوئے؟ اپنے ہی لوگوں نے بندوقیں کیوں اٹھائیں؟ ڈرون حملے کیوں شروع ہوئے؟ قلعے، قیدیں، کوڑے، پھانسیاں، زبان بندیاں، جعلی ریفرنڈم، جعلی الیکشن اور غداریوں کے مقدمات کیوں بنے؟
یوں معاشرہ متضاد دعوے کرنے والوں اور ان پر متضاد ردعمل دینے والوں کے درمیان بٹتا چلا جاتا ہے۔ غیر منطقی دعوے کرنے والے اور ان کو فطرتاً یا مجبوراً مان لینے والے ایک طرف، جبکہ دلیل دینے والے اور دلیل مانگنے والے دوسری طرف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تک کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ البتہ معاشرے میں وہ تقسیم یا تفریق ضرور گہری ہوتی چلی جاتی ہے جس کا ذکر وزیراعظم نے عورت مارچ کے دوران دو گروہوں میں تصادم کا ذکر کرتے ہوئے تو کیا، لیکن ان اوقات میں کبھی نہیں کیا جب وہ بلاثبوت نواز شریف کو چور اور ملک کی ابتری کا ذمے دار قرار دے رہے ہوتے ہیں یا ان کے ماتحت بلاثبوت رانا ثنا پر ہیروئن ڈال رہے ہوتے ہیں اور پھر ان کے پیروکار سوشل میڈیا پر مخالفین کو ان ہی دعوؤں کی بنیاد پر برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔
خیر! مسئلہ بڑا اس وقت ہوتا ہے کہ جب یہ باہمی اختلاف اظہار رائے سے بڑھ کر بدتہذیبی میں بدل جاتا ہے اور لوگ دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں، باہم دست و گریبان ہونے لگتے ہیں، جوتے، ڈنڈے، پتھر اور بندوقیں نکال لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف حسبِ توفیق ریاستی یا غیرریاستی قوت کا مظاہرہ کیا جانے لگتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے؟ واکس؟ ٹاک شوز؟ سوال و جواب؟ تقاریر؟ مذاکرے؟ اگر ایسا ہوتا تو اب تک یہ مسئلہ حل ہوگیا ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوپارہا۔ حل صرف علم ہی ہے اور اس مسئلے کی جڑ ہیں معلومات یعنی ادھورا و خام علم۔
لہٰذا وزیراعظم سے التماس ہے کہ معاشرے میں رائج مختلف تعلیمی نظاموں پر تنقید ضرور کریں اور ان کی جگہ کوئی مشترکہ یا جزوی مشترکہ نظام تعلیم لانے کی کوشش بھی ضرور کریں مگر مختلف سماجی گروہوں کی پیدائش کے معاملے پر کوئی جامع تحقیق کیے بغیر مختلف نظاموں کو مسئلے کی جڑ قرار دے کر یہ امید نہ لگائیں کہ آپ یہ جڑ کاٹ دیں گے اور مسئلہ آناً فاناً ٹھیک ہوجائے گا۔
آپ کہتے تھے، مجھے حکومت ملے گی تو عوام ٹیکس دینا شروع کردیں گے، بیرونی سرمایہ کاری آنے لگے گی، ڈیم فنڈ میں پیسے آئیں گے اور ہمیں قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی، الٹا پرانا قرض بھی اتار دیں گے۔ مگر آج آپ کی حکومت آئے پونے دو برس بیت گئے اور آپ کے تمام دعوے غلط ثابت ہوگئے۔ کم از کم اب تو آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب بیماری کی تشخیص درست نہیں ہوتی تو پھر علاج بھی درست نہیں ہوتا۔
لہٰذا مہربانی کیجئے اور کچھ وقت نکال کر صحراؤں، پہاڑوں اور کچی آبادیوں میں مقیم ان بچوں اور ان کے ان غریب، نادار اور زندگیوں سے بیزار والدین اور اساتذہ (اگر ہوں تو) سے ملیے اور یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ ہمارا اصل مسئلہ یہ والا اور وہ والا نظام تعلیم ہے یا تعلیم اور تعلیمی نظام دونوں کا نہ ہونا ہے؟ جس ملک میں کروڑوں بچے سرے سے کسی اسکول یا مدرسے میں جاتے ہی نہیں اور جس ملک کے کروڑوں نوجوان مولویوں، سیاستدانوں اور جرائم پیشہ افراد کی باتوں میں آکر یک سر بہک جاتے اور جن کی برین واشنگ کرنا اس قدر آسان ہے کہ کوئی بھی مداری پانچ منٹ میں انہیں بہلا پھسلا کر دھرنا دینے، جلوس نکالنے، پتھراؤ کرنے اور آنسو گیس کی شیلنگ کے سامنے ڈٹ جانے سے لے کر خودکش بمبار تک بننے پر آمادہ کرسکتا ہے، وہاں صرف نظام تعلیم یا نصاب تعلیم بدلنے سے کیا ہوگا؟ جو بچے اور بڑے کبھی اسکول گئے ہی نہیں وہ نظامِ تعلیم بدلنے سے کیسے ٹھیک ہوں گے؟ جو اساتذہ خود واجبی تعلیم یافتہ ہیں وہ بچوں کو کیا پڑھائیں گے؟ جو اساتذہ کتابیں پڑھانے کے بجائے بچوں کو صرف اپنے خیالات و خطبات سے نواز کر گھر بھیج دیتے ہیں اور نہ یہ والی کتاب کھولتے ہیں اور نہ وہ والی، وہاں نیا نظام تعلیم کسی سماجی مسئلے کا حل کیونکر ثابت ہوسکتا ہے؟ جس ملک میں لاکھوں بچے نقل کرکے، لاکھوں بچے گیس پیپر لے کر، لاکھوں بچے بری پیپر مارکنگ کے طفیل اور لاکھوں بچے رٹا لگا کر امتحان پاس کرتے ہیں اور اس سارے عمل کے دوران تعلیم انہیں چھو کر بھی نہیں گزرتی، وہاں خالی نظام تعلیم کیونکر قوم کے مستقبل کی تعمیر کا فریضہ انجام دے سکے گا؟ اگر جامعہ حفصہ کے طلبا قرآن و حدیث کی تعلیم سے صحیح معنوں میں فیضیاب ہورہے ہوتے تو کیا وہ تشدد کا راستہ اپناتے؟ اگر چوبیس گھنٹے سوشل میڈٰیا پر نظر آنے والے جغادریوں پر کسی کالج یونیورسٹی کی تعلیم کا کوئی اثر ہوا ہوتا، تو کیا وہ گالم گلوچ اور مغلظات کے تبادلے کا چلن اپنائے ہوئے ہوتے؟
اگر ہم نے اپنے بچوں کو اس قابل بنانا ہے کہ کوئی بھی ان کے ذہن و دل کو اغوا نہ کرسکے اور اگر ہم نے اپنے بچوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ بجائے استعمال ہونے کے استعمال کرنے کی کوشش کرنے والوں کو چاروں شانے چت کرسکیں تو ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہر بچہ اسکول جائے، ہر اسکول صحیح معنوں میں بچوں کو تعلیم دے، ہر استاد صحیح معنوں میں بچوں کا ذہنی رجحان و قلبی میلان علم و تحقیق کی جانب موڑنے کی کوشش کرے۔ اور بچہ جب اپنی درسگاہ سے نکلے تو خود کو فارغ التحصیل نہ سمجھے بلکہ علم اور کتاب سے دائمی دوستی کرکے نکلے۔ اور یہ سب تقریریں کرنے اور پالیسیاں بنانے سے نہیں، انہیں نافذ کرنے سے ممکن ہوگا۔ اقبال یاد آگئے
محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر
اس محملِ خالی کو پھر شاہدِ لیلا دے
رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر
خودداری ساحل دے، آزادی دریا دے
بے لوث محبت ہو، بے باک صداقت ہو
سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔