ہماری ایجادات
خدا کے فضل وکرم سے اب بھی معززین کام کو ہاتھ نہیں لگاتے
ان دنوں اخباروں میں ہم زیادہ تربچوں کا صفحہ پڑھتے ہیں اور اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ باقی اخبارمیں ہمیں کبھی کوئی نئی چیز نظر نہیں آئی ہے، ستر بلکہ کچھ زیادہ برس ہوگئے صرف چہرے بدلتے ہیں بیان بلکہ ''بریکنگ نیوز''وہی ایک چل رہی ہے، ایک خاص لیکن نامعلوم قسم کی کسی ریاست کے بنائے جانے کی خوشخبری اور بس۔جس طرح پاک وہند میں سوسال سے صرف ایک ہی ''فلم''بنائی جارہی ہے، اداکار بدل جاتے ہیں لیکن اسٹوری وہی ایک ہے۔
کچھ دنوں سے ایک خوبصورت چہرہ مہمان اداکار کے طور پرسامنے آرہاتھا، وہ بھی فردوس گم گشتہ ہوگیاہے۔دوسری وجہ بچوں کا صفحہ پڑھنے کی یہ ہے، بوڑھوں کا تو سرے سے کوئی صفحہ بلکہ ''پیج''ہی نہیں ہے اور جب سے بوڑھوں کو بزرگ شہریوں اور سینئرسٹی زن کے عہدے پرترقی دے دی گئی ہے، تب سے بوڑھے بھی ناپید ہوتے جارہے ہیں یہاں تک کہ ایک مرتبہ ہم لاہور بھی گئے تھے، پیدا ہونے کے لیے لیکن وہاں بھی ناپید ہی رہے۔ اس لیے صرف بچوں کا صفحہ ہی ہماری توجہ اور دلچسپی کا مرکز ہوچکا ہے کہ بوڑھے اور بچے میں زبردست قسم کی چیزیں اور معلومات ہوتی ہیں جسے فرق معلوم کریں، رنگ بھریں۔نام ڈھونڈیں بوجھو تو جانیں۔
''فرق معلوم کریں''والی تصویروں کے سلسلے میں ہم قطعی ناکام رہے ہیں کیونکہ ایک زمانے سے ہمیں تصویروں میں کوئی فرق نظر نہیں آتاہے، چاہے وہ بچوں کے صفحے کی ہوں یا بڑوں کے صفحے پرہوں۔سب کی سب ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں جیسے بچھوں میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا صرف دم پر ہاتھ رکھنے سے پتہ چلتاہے لیکن ان تصویروں کی تو دمیں بھی نہیں ہوتیں۔گزشتہ دنوں ایک اخبار میں بچوں کا صفحہ دیکھا تو مزہ آگیا۔ عنوان تھا معلومات۔اور نیچے ان تمام ایجادات کے نام تھے جو ایجاد مسلمانوں نے کی تھیں لیکن یہ مغرب کے چور یہاںسے چرا کرلے گئے۔
کیونکہ محلات کی مصروفیات میں ان بزرگوں کو رجسٹریشن کا خیال نہیں رہا تھااور ان عیاروں، مکاروں اور جدی پشتی چوروں لٹیروں نے انھیں محلات میں مصروف دیکھ کر وہ فارمولے اڑالیے۔ بات تحقیق کی آگئی تھی، اس لیے ہمارے اندر کی محققانہ رگ بھی پھڑکنے لگی۔اور پھر جب ہم نے اپنا ٹٹوئے تحقیق دوڑایا توزبردست قسم کے انکشافات ہوئے۔ نوشتوںمیں جگہ جگہ لکھاہواتھا کہ ہوائی جہاز جس پر مغرب والے اتنا اترارہے ہیں، ہماری ہی ایجاد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے بزرگ ہوائی جہاز کو ''انجن'' کے بجائے ''جن''جوت کراڑایا کرتے تھے بلکہ ہند والوں کے نوشتوں میں تویہاں تک لکھاہے کہ ہوائی جہاز کی ایجاد ان کے بزرگوں نے انسان بننے سے بھی پہلے ''بندر''کے زمانے میں کی تھی۔راون نامی ایک غنڈہ ، ستیا کو ہیلی کاپٹر میں اغوا کرکے لے گیا تھا اور اسے بازیاب کرانے کے لیے انھوں نے ایک ہنومان نام کے پائلٹ کو بھیجا جس نے لنکا کو ملیامیٹ کر دیا تھا۔
موضوع بڑا دلچسپ تھا، اس لیے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ عرب شیوخ نے تو کھلی ہوا سے لطف اندوزہونے کے لیے ایسے لگژری جہاز بنائے تھے جو قالین کی طرح ہوتے تھے اور وہ ان پربیٹھ کر ہوا ہی میں کنیزوں کے رقص ونغمہ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ گوٹیاں چار رنگوں کی ہوتی تھیں، سیاہ رنگ کی گوٹیاں ریٹائر ہونے والی کنیزوں کی نمائندگی کرتی تھیں۔
سفید رنگ کی گوٹیاں سینئر اور ریٹائرمنٹ کے قریب کنیزوں کی نمائندگی کرتی تھیں، سرخ رنگ کی گوٹیاں جوان کنیزوں کو ظاہر کرتیں۔ ایک پانچواں رنگ جو میٹنگ لسٹ کے لیے مخصوص تھا جو پنک رنگ کی گوٹیوں پرمشتمل ہوتاتھا۔ پھرکچھ اور شیوخ نے ان میں اضافے کیے تو ایک کیلکولیٹر ایجاد ہوا، اسی کیلکولیٹر کوچرا کر مغرب والوں نے کمپوئٹرایجاد کیا، یہ سب کچھ توہماری تحقیق سے سامنے آگیا کہ آج کل کی تقریباًساری ایجادات ہمارے بزرگوں کی ہیں۔لیکن جو اصل سوال سامنے آیا کہ آخر ہمارے بزرگ جو اتنے زیادہ ذہین وفطین تھے، ان سے یورپ کے جاہل اجڈ اور احمق لوگ یہ قیمتی ایجادات اور فارمولے چرا کیسے گئے کیونکہ اس وقت تویہ مغرب والے اتنے نالائق تھے کہ کھانا بھی منہ کے بجائے ناک سے کھاتے تھے، کھانے کے بجائے گھاس چرتے تھے، پانی پینے تک کا سلیقہ بھی ان کو نہیں آتا تھا۔ اس لیے پانی پینے کی بجائے زبان سے چاٹتے تھے۔
کپڑے پہننے کے بجائے جسم کپڑوں کو پہناتے تھے۔ تو ہمارے لائق فائق دانا دانشور اور عالم فاضل بزرگوں سے ان کی ایجادات چراکیسے لے گئے۔ تو اس کی وجہ بھی آخرکار ہم نے محقق کرلی۔ کہ بے پناہ دولت اور کنیزوں غلاموں کے ریوڑوں میں وہ اتنے زیادہ مصروف رہاکرتے تھے کہ کام کے لیے وقت ہی نہیں ملتا تھا، دوسرے یہ''کام'' کمی کمین لوگ کرتے ہیں، بڑے خاندانی اور باعزت لوگ کام کرتے نہیں بلکہ کراتے ہیں، اس لیے ہمارے ان بزرگوں نے بھی ''کام''ان یورپ کے کمی کمین لوگوں کے سپرد کر دیے تھے، تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ بھلا خاندانی معزز اورا شراف لوگ ''کام'' کرتے ہوئے اچھے لگیں گے؟بالکل نہیں۔ خدا کے فضل وکرم سے اب بھی معززین کام کو ہاتھ نہیں لگاتے اور مغرب کے کمی کمین لوگوں سے کراتے ہیں اور خود آرام سے ان کے کاموں کا مزہ لے رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے یہی فخر کافی ہے کہ ان کے اجداد بھی معززین تھے اور وہ بھی ہیں۔
کچھ دنوں سے ایک خوبصورت چہرہ مہمان اداکار کے طور پرسامنے آرہاتھا، وہ بھی فردوس گم گشتہ ہوگیاہے۔دوسری وجہ بچوں کا صفحہ پڑھنے کی یہ ہے، بوڑھوں کا تو سرے سے کوئی صفحہ بلکہ ''پیج''ہی نہیں ہے اور جب سے بوڑھوں کو بزرگ شہریوں اور سینئرسٹی زن کے عہدے پرترقی دے دی گئی ہے، تب سے بوڑھے بھی ناپید ہوتے جارہے ہیں یہاں تک کہ ایک مرتبہ ہم لاہور بھی گئے تھے، پیدا ہونے کے لیے لیکن وہاں بھی ناپید ہی رہے۔ اس لیے صرف بچوں کا صفحہ ہی ہماری توجہ اور دلچسپی کا مرکز ہوچکا ہے کہ بوڑھے اور بچے میں زبردست قسم کی چیزیں اور معلومات ہوتی ہیں جسے فرق معلوم کریں، رنگ بھریں۔نام ڈھونڈیں بوجھو تو جانیں۔
''فرق معلوم کریں''والی تصویروں کے سلسلے میں ہم قطعی ناکام رہے ہیں کیونکہ ایک زمانے سے ہمیں تصویروں میں کوئی فرق نظر نہیں آتاہے، چاہے وہ بچوں کے صفحے کی ہوں یا بڑوں کے صفحے پرہوں۔سب کی سب ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں جیسے بچھوں میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا صرف دم پر ہاتھ رکھنے سے پتہ چلتاہے لیکن ان تصویروں کی تو دمیں بھی نہیں ہوتیں۔گزشتہ دنوں ایک اخبار میں بچوں کا صفحہ دیکھا تو مزہ آگیا۔ عنوان تھا معلومات۔اور نیچے ان تمام ایجادات کے نام تھے جو ایجاد مسلمانوں نے کی تھیں لیکن یہ مغرب کے چور یہاںسے چرا کرلے گئے۔
کیونکہ محلات کی مصروفیات میں ان بزرگوں کو رجسٹریشن کا خیال نہیں رہا تھااور ان عیاروں، مکاروں اور جدی پشتی چوروں لٹیروں نے انھیں محلات میں مصروف دیکھ کر وہ فارمولے اڑالیے۔ بات تحقیق کی آگئی تھی، اس لیے ہمارے اندر کی محققانہ رگ بھی پھڑکنے لگی۔اور پھر جب ہم نے اپنا ٹٹوئے تحقیق دوڑایا توزبردست قسم کے انکشافات ہوئے۔ نوشتوںمیں جگہ جگہ لکھاہواتھا کہ ہوائی جہاز جس پر مغرب والے اتنا اترارہے ہیں، ہماری ہی ایجاد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے بزرگ ہوائی جہاز کو ''انجن'' کے بجائے ''جن''جوت کراڑایا کرتے تھے بلکہ ہند والوں کے نوشتوں میں تویہاں تک لکھاہے کہ ہوائی جہاز کی ایجاد ان کے بزرگوں نے انسان بننے سے بھی پہلے ''بندر''کے زمانے میں کی تھی۔راون نامی ایک غنڈہ ، ستیا کو ہیلی کاپٹر میں اغوا کرکے لے گیا تھا اور اسے بازیاب کرانے کے لیے انھوں نے ایک ہنومان نام کے پائلٹ کو بھیجا جس نے لنکا کو ملیامیٹ کر دیا تھا۔
موضوع بڑا دلچسپ تھا، اس لیے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ عرب شیوخ نے تو کھلی ہوا سے لطف اندوزہونے کے لیے ایسے لگژری جہاز بنائے تھے جو قالین کی طرح ہوتے تھے اور وہ ان پربیٹھ کر ہوا ہی میں کنیزوں کے رقص ونغمہ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ گوٹیاں چار رنگوں کی ہوتی تھیں، سیاہ رنگ کی گوٹیاں ریٹائر ہونے والی کنیزوں کی نمائندگی کرتی تھیں۔
سفید رنگ کی گوٹیاں سینئر اور ریٹائرمنٹ کے قریب کنیزوں کی نمائندگی کرتی تھیں، سرخ رنگ کی گوٹیاں جوان کنیزوں کو ظاہر کرتیں۔ ایک پانچواں رنگ جو میٹنگ لسٹ کے لیے مخصوص تھا جو پنک رنگ کی گوٹیوں پرمشتمل ہوتاتھا۔ پھرکچھ اور شیوخ نے ان میں اضافے کیے تو ایک کیلکولیٹر ایجاد ہوا، اسی کیلکولیٹر کوچرا کر مغرب والوں نے کمپوئٹرایجاد کیا، یہ سب کچھ توہماری تحقیق سے سامنے آگیا کہ آج کل کی تقریباًساری ایجادات ہمارے بزرگوں کی ہیں۔لیکن جو اصل سوال سامنے آیا کہ آخر ہمارے بزرگ جو اتنے زیادہ ذہین وفطین تھے، ان سے یورپ کے جاہل اجڈ اور احمق لوگ یہ قیمتی ایجادات اور فارمولے چرا کیسے گئے کیونکہ اس وقت تویہ مغرب والے اتنے نالائق تھے کہ کھانا بھی منہ کے بجائے ناک سے کھاتے تھے، کھانے کے بجائے گھاس چرتے تھے، پانی پینے تک کا سلیقہ بھی ان کو نہیں آتا تھا۔ اس لیے پانی پینے کی بجائے زبان سے چاٹتے تھے۔
کپڑے پہننے کے بجائے جسم کپڑوں کو پہناتے تھے۔ تو ہمارے لائق فائق دانا دانشور اور عالم فاضل بزرگوں سے ان کی ایجادات چراکیسے لے گئے۔ تو اس کی وجہ بھی آخرکار ہم نے محقق کرلی۔ کہ بے پناہ دولت اور کنیزوں غلاموں کے ریوڑوں میں وہ اتنے زیادہ مصروف رہاکرتے تھے کہ کام کے لیے وقت ہی نہیں ملتا تھا، دوسرے یہ''کام'' کمی کمین لوگ کرتے ہیں، بڑے خاندانی اور باعزت لوگ کام کرتے نہیں بلکہ کراتے ہیں، اس لیے ہمارے ان بزرگوں نے بھی ''کام''ان یورپ کے کمی کمین لوگوں کے سپرد کر دیے تھے، تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ بھلا خاندانی معزز اورا شراف لوگ ''کام'' کرتے ہوئے اچھے لگیں گے؟بالکل نہیں۔ خدا کے فضل وکرم سے اب بھی معززین کام کو ہاتھ نہیں لگاتے اور مغرب کے کمی کمین لوگوں سے کراتے ہیں اور خود آرام سے ان کے کاموں کا مزہ لے رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے یہی فخر کافی ہے کہ ان کے اجداد بھی معززین تھے اور وہ بھی ہیں۔