اتحاد بین المسلمین

دنیا کے مسلم ممالک کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے


Shakeel Farooqi March 17, 2020
[email protected]

HANOI: یورپ 28 خود مختار آزاد اقوام پر مشتمل براعظم ہے، جس میں شامل ہر قوم کی زبان ، عقیدہ ، ثقافت ، طرز حیات، معیشت ومعاشرت، بود وباش اور رہن سہن مختلف ہے۔ ہر قوم اور مملکت کے وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ افرادی قوت کی بھی شدید کمی ہے، لیکن یورپی یونین نے انھیں اتحاد کے مضبوط بندھن میں باندھ کر ایک عظیم اور ناقابل شکست قوت بنا دیا ہے جس کی آوازکو دبانے کی کسی کی مجال نہیں۔ واقعی اتحاد میں بہت بڑی قوت مضمر ہوتی ہے۔

دنیا کے مسلم ممالک کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کی کل تعداد 57 ہے جو یورپی یونین کے ممبران کے مقابلے میں د گنا سے بھی زیادہ ہے۔ اس میں پاکستان بھی شامل ہے جو دنیا کی ساتویں اور مسلم امہ کی اولین ایٹمی قوت ہے جسے اسلام کا قلعہ بھی مانا جاتا ہے لیکن پوری مسلم امہ دنیا بھر میں رسوا اور خوار ہے ۔ مسلم امہ کی اس زبوں حالی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ:

منفعت ایک ہے اس قوم کی' نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی' دین بھی' ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی' اللہ بھی' قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک؟

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

یورپی یونین میں شامل ممالک مختلف لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ جڑکر یک جان دو قالب بنے ہوئے ہیں۔ ان کی کرنسی ہی نہیں بلکہ آواز بھی ایک ہے۔ اس یونین کے ممبر ممالک آپس میں آزادانہ تجارت اور سیروسیاحت کرتے ہیں۔ ان میں ثقافت اور فنون لطیفہ کے علاوہ ٹیکنالوجی، ریسرچ اور علم و ادب کے تبادلے بھی فراوانی سے ہوتے ہیں۔ الگ الگ ہونے کے باوجود یہ تمام ممالک ایکتا کے گٹھ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔

یوں کہنے کو تو او آئی سی دنیا بھر کے مسلمان ممالک کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے لیکن اس کی بات میں نہ کوئی وزن ہے اور نہ آواز میں کوئی زور۔ اس کی اوقات مضحکہ خیز حد تک Oh! I See! سے زیادہ نہیں۔ اس کی ناکامی اور غیر موثر ہونے کا اصل اور بنیادی سبب باہمی اختلافات کا غلبہ اور اخلاص نیت اور تعاون کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر جیسے سنگین مسائل آج تک رستے ہوئے ناسور بنے ہوئے ہیں ۔ ادھر بھارت کے مسلمانوں پر بی جے پی کے راج میں عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور راجدھانی دلی میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے، اور انھیں روہنگیا مسلمانوں کی طرح ملک بدر کرنے کے مذموم منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کی نسل کشی کی اس مکروہ مہم کے خلاف دنیا کے تمام مسلم ممالک اسلام کے برادرانہ رشتے کی بنیاد پر متحد ہوکر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے بھارت کا معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کرتے تاکہ اس کا طاقت کا نشہ ہرن ہو جاتا اور اس کے ہوش ٹھکانے آجاتے لیکن افسوس صد افسوس کہ بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کی بعض عرب مسلم ممالک کھلم کھلا سخت ترین الفاظ میں مذمت اور معاشی بائیکاٹ کرنے کے بجائے اس کی آؤ بھگت اور اعزازات سے نوازنے میں مصروف ہیں۔ نریندر مودی کو نوازنے والے مسلم حکمرانوں کو بزبان اقبال مخاطب کرنے کے سوائے بھلا اور کیا چارہ باقی رہ جاتا ہے:

یوں تو سید بھی ہو' مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

57 مسلم ممالک پر مشتمل اسلامی ممالک کی تنظیم المعروف او آئی سی بہ ظاہر ایک طاقت ور آرگنائزیشن ہے لیکن اس کی کم اثری یا بے اثری کا بنیادی سبب اس کی مصلحت کوشی ہے۔ اسی لیے اس کی قراردادوں اور فیصلوں میں بھی کوئی دم خم نہیں ہے۔ آپ خود بھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارت کے وزیر خارجہ کی شرکت کا بھلا کیا جواز ہے؟ مصلحت کوشی کی اس روش کا واحد مقصد صرف یہ ہے کہ بقول شاعر:

باغباں بھی خوش رہے

راضی رہے صیاد بھی

ستم بالائے ستم یہ کہ ہندوستان میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مساجد کو شہید کرنے والے اسلام دشمنوں کی نہ صرف حد سے زیادہ پذیرائی کی جا رہی ہے بلکہ انھیں مسلم ریاست میں مندر کی تعمیر کی اجازت کے ساتھ ساتھ مفت زمین بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

مسئلہ فلسطین کا ہو یا کشمیر کا یا بھارت کے مظلوم مسلمانوں کا اس کے حل کی کنجی اتحاد بین المسلمین کی صورت میں مسلم امہ کے پاس موجود ہے۔ اگر اس Master Key کو استعمال کیا جائے تو دنیا کے ہر گوشے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے بڑے سے بڑے اور گمبھیر مسئلے کو باآسانی اور یقینی طور پر حل کرایا جاسکتا ہے۔ او آئی سی کی شکل میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کا ایک بہت پلیٹ فارم موجود ہے جس کی معاونت سے مسلم امہ بڑے سے بڑا کام انجام دے سکتی ہے۔

او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکریٹری و نمایندہ خصوصی برائے کشمیر یوسف الدوبے کا یہ حالیہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ او آئی سی کشمیر کے مسئلے کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتی ہے جتنا فلسطین کے مسئلے کو۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر او آئی سی کے ایجنڈے پر مستقل موجود ہے۔ او آئی سی کے آیندہ اجلاس میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی جائے گی۔ او آئی سی یہ بات کان کھول کر سن لے کہ بی جے پی کے بھارتی حکمرانوں پر قرارداد کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ جب گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکل سکے تو پھر اسے ٹیڑھی انگلیوں سے نکالنا پڑے گا۔ مسلم کش مودی سرکار دراصل ڈنڈے کی یار ہے۔

اسے راہ راست پر لانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ او آئی سی یہ وارننگ دے دے کہ اگر بھارت کی مودی سرکار نے اپنا مسلم مخالف گھناؤنا رویہ ترک نہ کیا تو او آئی سی کے ممبر ممالک کے دروازے بھارتی ہندوؤں پر بند کردیے جائیں گے اور ان ممالک میں پہلے سے موجود بھارت کے ہندو شہریوں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مودی سرکار کا ہندوتوا کا سارا نشہ محض اس الٹی میٹم سے فوراً ہرن ہو جائے گا اور خود متاثر ہونے کے خوف سے سہمے ہوئے ہندو مودی سرکار کا دھڑن تختہ کردیں گے۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو اس سلسلے میں باقاعدہ حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے تحت سفارتی مہم چلانی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔