کب حل ہوں گے یہ مسئلے پرانے۔۔۔

صنف نازک کے صلب کردہ حقوق کی بحالی ضروری ہے

صنف نازک کے صلب کردہ حقوق کی بحالی ضروری ہے ۔ فوٹو : فائل

کبھی کبھی ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں خواتین دو انتہاؤں میں جی رہی ہیں، ایک طرف نہایت آزاد خیال ماحول، جب کہ دوسری انتہا میں مکمل پابند ماحول دکھائی دیتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان وہ خواتین ہیں، جو نہ وہ اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے کھل کر جی سکتی ہیں اور نہ ہی وہ پابند رہ کرجینا چاہتی ہیں۔ اس روش سے ذرا بھی ہٹتی ہیں، تو انہیں شدید دباؤ اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنی شناخت بنانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ زیادہ تر مسائل بھی اسی طبقے میں جنم لیتے ہیں۔ خواتین کے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور صحیح سمت میں پیش رفت سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

بنیادی مسئلہ عورت کی شناخت کا ہے۔ اسے مرد کے برابر انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کم علمی اور جہالت ہے۔ کبھی اولاد نہ ہونا یا بیٹا نہ ہونا اس کی زندگی میں زہر گھول دیتا ہے، تو کبھی اس کے اختلاف کرنے پر حشر اٹھا دیا جاتا ہے۔

اس مسئلے کا حل اس سوچ کو اجاگر کرنا ہے کہ عورت بھی ایک جیتا جاگتا انسان ہے، وہ اپنا اچھا برا بھی سوچ سمجھ سکتی ہے اور دنیا میں جتنا فعال کردار مرد ادا کر سکتا ہے، اتنا ہی ایک عورت بھی کر سکتی ہے۔ اس کے لیے روشن خیال علما، دانش وَروں کو مل کر معاشرے کی سوچ بدلنی ہوگی۔ ایک بیٹی اور بیٹے کے درمیان برابر کا سلوک کیوں نہیں کرتے۔ دوسرا بڑا مسئلہ خواتین میں تعلیم کی کمی ہے، ہمارے بہت سے دیہاتوں میں آج بھی عورتوں کی تعلیم کا رواج نہیں۔ ماں باپ بچی کی تعلیم کو اہم ہی نہیں گردانتے ان کے مطابق لڑکی تو شادی کر کے 'پرائے گھر' چلی جائے گی، اس لیے اس کی تعلیم پر خرچ کیوں کیا جائے۔ ایک ذہنیت یہ بھی ہے کہ تعلیم حاصل کر کے لڑکیوں میں 'بے حیائی' پیدا ہوگی۔ وہ ہر معاملے کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ گاؤں دیہات میں کمی کی بیٹی پڑھ گئی۔ تو وہ جائیداد میں اپنا حصہ مانگے گی، یہی وجہ ہے وہاں عورتوں کی تعلیم کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔

اس مسئلے کو انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم لازمی قرار دی جائے اور ماں باپ کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم دلائیں، بلکہ حکومتی سطح پر میٹرک تک تعلیم لازمی اور مفت قرار دی جائے۔ تعلیم اُسے شعور اور آگاہی دیتا ہے، اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے۔ اسلام میں ایسی کوئی تخصیص نہیں کہ مرد تعلیم حاصل کرے اور عورت نہیں۔ حکومت کو اس پر سب سے پہلے کام کرنا چاہیے ۔ نیپولین کا قول ہے تم مجھے ''اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔'' ایک پڑھی لکھی ماں ہی اپنی نسل کی اچھی تعلیم و تربیت کر سکتی ہے۔ اس لیے خواتین کی تعلیم پر بہت کام کرنا ہوگا۔


تیسرا اہم مسئلہ ان خواتین کا ہے جو 'ورکنگ ویمن' ہیں۔ ہمارے سماج میں ٹیچر، ڈاکٹر اور دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی بہت سی خواتین کو ہتک آمیز سلوک اور حراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گاؤں دیہات میں ان پڑھ خواتین بھی معاشی کام کرتی ہیں، کہیں بھٹہ مزدوری، کہیں کھیتوں میں کام، نہروں کنوؤں سے پانی بھرنا، جانوروں کی دیکھ بھال وغیرہ۔ ان خواتین کو ان سب کاموں کے علاوہ گھریلو کام بھی انجام دینے پڑتے ہیں اور ساتھ ہی بہت سے ناگفتہ بہ معاملات پر زبان بھی بند کرنا پڑتی ہے۔

اس کے لیے قانون پر سختی سے عمل درآمد ناگزیر ہے، کیوں کہ قانون تو موجود ہیں، لیکن ہمارے ملک کی 95 فی صد خواتین یہ نہیں جانتی ہیں کہ خواتین کو کسی طور پر ہراسگی کا شکار بنانا، تنگ کرنا، مثلاً سیٹی بجانا، آوازیں کسنا، بد اخلاقی کرنا یہ سب جرائم میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے خلاف شکایت درج کی جا سکتی ہے۔ اس جرم کی سزا تین سے پانچ سال قید اور جرمانہ ہے۔ قانون پر عمل نہ ہونا، پولیس کا ہتک آمیز رویہ بھی خواتین کوع اپنے حق کے لیے لڑنے سے ڈراتا ہے۔

جب تک ہم اس بات کو تسلیم نہیں کر لیتے کہ خواتین بھی جیتی جاگتی انسان ہیں اور معاشرے کے لیے کارآمد ہیں اور ان کا لحاظ اور احترام بھی مردوں کے برابر ہی ہے، تب تک کچھ بہتر نہیں ہوگا۔ ایک اور مسئلہ کم عمری کی شادی ہے، اس کی روک تھام کے قاون پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا، ہمارے ہاں بہت سی کم عمر خواتین میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں سے موت واقع ہو جاتی ہیں۔ اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم وتربیت کے ساتھ خواتین کو طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، جب تک ان مسائل سے آگاہی اور ان کے سدباب کو اچھی طرح سے سمجھا نہیں جائے گا، تب تک بہتری کی کوئی صورت حال نظر نہیں اتی۔ اس کے لیے محکمۂ صحت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے انہیں اسپتالوں کی حالت بہتر بنانی چاہیے۔

گھروں میں بہت سی خواتین پر تشدد بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس کی وجہ کہیں مرد کی انا ہے، تو کہیں جائیداد کے معاملات۔ بیوی، بہن یا بیٹی کو حصہ نہ دینا ان پر تشدد کر کے جائیداد اپنے نام کروانا، اپنی زمین کو تقسیم سے بچانے کے لیے لڑکی کی شادی قرآن سے کرکے اسے تاعمر گھر بٹھائے رکھنا روا ہے۔ غیرت کے نام پر عورت کو قتل کرنا، محبت مین ناکامی پر تیزاب پھینک کر عورت کو بدصورت بنانے کا عمل تو اکثر دُہرایا جاتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں میں عورت پر تشدد تو عام ہے، اس میں عورت کو قصور وار ٹھیرا کر کہا جاتا ہے برداشت کرو، جائیداد کی وجہ سے خاندان میں شادی کرنا، بے جوڑ رشتے چاہے لڑکی بڑی اور لڑکا نابالغ ہو۔ غیرت کے نام پر بھی عورت کا قتل، باپ بھائی کے کیے کی سزا عورت کو کاری کر کے دی جاتی ہے۔ جس وقت اس معاشرے نے عورت کو بھی انسان سمجھنا شروع کر دیا، وہیں سے بہتری کا آغاز ہو سکے گا۔
Load Next Story