خواتین کا استحصال ۔۔۔
ملازمت پیشہ خواتین بھی اپنے حقوق سے محروم ہیں!
LONDON:
پاکستان میں عورت کے مقام کی بات کی جائے، تو یہاں بہت سے علاقوں میں لڑکیاں ونی، کاروکاری، وٹہ سٹہ، غیرت کے نام پر قتل اور زندہ درگور کرنے جیسی کئی قبیح رسموں کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔
کیوں کہ ہمارے سماج میں عورت کو مرد سے کم تر مانا جاتا ہے، لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اصطلاح صنف نازک گھڑی گئی، جو بظاہر بڑی دل نشیں ہے، مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید درپردہ پیٹھ میں خنجر اتارنے جیسی ہے، گویا اسے 'صنف نازک' کا خطاب دے کر اس کی تربیت میں شامل کر دیا گیا ہے کہ وہ ہر صورت مرد کی فرماں برداری اور ناز برداری کرتی رہے۔
حالاں کہ 'مطبوعہ ذرایع اِبلاغ' سے لے کر سوشل میڈیا (سماجی ذرایع اِبلاغ) تک اس کے مسائل نے جہاں بھی سر اٹھایا وہاں صدائے احتجاج بلند تو ہوئی، مگر بدقسمتی سے نہ تو صنفی امتیاز کم ہوئے اور نہ ختم!
سماج کی پس ماندہ ترین سمجھی جانے والی جزو اول یعنی خواتین جہاں صنفی امتیاز تلے دب کر سانس لینے پر مجبور ہیں وہاں معاشی قتلِ عام کے ظالمانہ نظام تلے پس رہی ہیں۔ اس سلسلے میں اگر پاکستان میں کئی شعبوں میں کام کرتی ہوئی خواتین کے مسائل دیکھیں، تو ہمیں پتا چلے گا کہ یہ بدترین استحصال کا شکار ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین جو دفاتر میں صبح 9 سے شام 5 بجے تک فائلوں میں سر کھپاتی رہتی ہیں، مگر ان کی تنخواہ قلیل ہے یا نجی اسکولوں میں کام کرنے والی ٹیچر جن کی تنخواہ ایک دیہاڑی دار مزدور کی اجرت سے بھی کم ہے۔
ان اداروں میں پڑھانے کے ساتھ لڑکیاں ڈبل ایم اے اس آس پر کرتی ہیں کہ شاید سرکاری ملازمت مل جائے، یہاں کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے کرتے انہیں نہ شوخ رنگ بھاتے ہیں، نہ فطری تقاضوں کی آواز سننے کا وقت ملتا ہے، بلکہ وہ فطرت پر قابض لوگوں کا آلہ کار بن کر اس دائرے سے باہر ہی نہیں نکل پاتیں، یہاں تک کہ ان کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے۔
اسی دائرے میں اگر ایک نرس، آیا کو دیکھیں، جو اسپتال میں کام کرتی ہیں، جہاں آٹھ آٹھ گھنٹے کام کرنے کے باوجود فقط تین ہزار روپے ہتھیلی پر دھر دیے جاتے ہیں۔
ہمارے ارد گرد معاش کی تلاش میں جان کی پروا کیے بغیر پورا دن پیدل چلتی 'پولیو ورکر' سردی ہو یا گرمی ہمارے گھروں تک پہنچتی ہیں، مگر نہ تو ان کی تنخواہ بڑھائی جاتی ہے نہ ہی کوئی تسلی بخش تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اتنے خطرے میں ہونے کے باوجود یہ اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لیے یہاں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
کم تعلیم یافتہ وہ لڑکیاں جو گھر گھر جا کر کمپنی کی مصنوعات ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بیچ رہی ہیں۔ ان کی دستک کے جواب میں دروازے پر اگی مردانہ آنکھیں ذہنی طور پر کتنی اذیت سے دو چار کرتی ہیں، یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس پیشے سے جُڑی ہوئی ان بچیوں کی نوے لاکھ تعداد یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ دن میں نجانے کتنی بار مشکلات سے صرف اس لیے گزرتی ہیں کہ گھر کے چند افراد دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔
اسی طرح فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے اوقات کار لمبے اور اُجرت مرد کے مقابلے میں خاصی کم ہوتی ہے، فیکٹری کے مالک کے لیے منافع بنانے میں غرق یہ مخلوق صرف ماہانہ تنخواہ کی حق دار ٹھہرتی ہے، مگر گھر کے راشن کے لیے یہ اس کام سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان خواتین کی نسبت مزدور خواتین جو بالکل ان پڑھ ہیں وہ زیادہ استحصال کا شکار ہیں۔
انہیں اینٹوں کے بھٹے پر، پتھر کوٹتے صبح سے شام تک کام کرتے دیکھا جا سکتا ہے، جو اپنے پورے کنبے کے ساتھ کام کر کے بھی اپنا معیار زندگی بلند کرنے سے قاصر ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے عورت کے حق میں نعرہ یا بینر بلند کرتی عورت مارچ کی کسی شرکا کو یہ نظر نہیں آتا کہ ہمارے ہاں ساری لڑائی طبقات کی ہے مرد و عورت کی نہیں۔ ہمارے سماج میں اصل معاملہ معاشی عدم مساوات ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان مقابلے بازی تو دور کی بات یہاں تو عورت بھی عورت کے برابر نہیں۔ کیا اسمبلی میں بیٹھی ہوئی حکمران طبقے کی ایک عورت اور سڑکوں پر اینٹیں کوٹتی عورت برابر ہیں۔۔۔؟ حالاں کہ یہ بھی تو صنف نازک ہیں۔ دوسری طرف اپنے گھروں میں ہی جھانک کر دیکھ لیں... کیا ایک بااثر اور پیسے والا داماد اور غریب داماد برابر ہیں؟ ہمارے ہاں خصوصی پکوان بھی امیر داماد کے لیے بنتے ہیں!
مدعا اتنا سا ہے کہ ہمارے نظام میں نہ تو مرد، مرد کے برابر ہے اور نہ ہی عورت اور نہ ہی یہ دو مخالف صنف ایک دوسرے کی دشمن ہیں، بلکہ طبقاتی سماج میں عورت معاشی و سماجی عدم استحکام کی بنا پر مدمقابل آ گئی ہے، اس لیے ہمارے سماج میں طاقت وَر ہونے کا تعین صنف سے نہیں، بلکہ سرمائے سے تعلق رکھتا ہے، کیوں کہ اس نظام کے تحت طبقاتی استحصال کا خاتمہ جب تک نہیں ہو جاتا سماجی برابری کا تصور ممکن نہیں۔
پاکستان میں عورت کے مقام کی بات کی جائے، تو یہاں بہت سے علاقوں میں لڑکیاں ونی، کاروکاری، وٹہ سٹہ، غیرت کے نام پر قتل اور زندہ درگور کرنے جیسی کئی قبیح رسموں کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔
کیوں کہ ہمارے سماج میں عورت کو مرد سے کم تر مانا جاتا ہے، لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اصطلاح صنف نازک گھڑی گئی، جو بظاہر بڑی دل نشیں ہے، مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید درپردہ پیٹھ میں خنجر اتارنے جیسی ہے، گویا اسے 'صنف نازک' کا خطاب دے کر اس کی تربیت میں شامل کر دیا گیا ہے کہ وہ ہر صورت مرد کی فرماں برداری اور ناز برداری کرتی رہے۔
حالاں کہ 'مطبوعہ ذرایع اِبلاغ' سے لے کر سوشل میڈیا (سماجی ذرایع اِبلاغ) تک اس کے مسائل نے جہاں بھی سر اٹھایا وہاں صدائے احتجاج بلند تو ہوئی، مگر بدقسمتی سے نہ تو صنفی امتیاز کم ہوئے اور نہ ختم!
سماج کی پس ماندہ ترین سمجھی جانے والی جزو اول یعنی خواتین جہاں صنفی امتیاز تلے دب کر سانس لینے پر مجبور ہیں وہاں معاشی قتلِ عام کے ظالمانہ نظام تلے پس رہی ہیں۔ اس سلسلے میں اگر پاکستان میں کئی شعبوں میں کام کرتی ہوئی خواتین کے مسائل دیکھیں، تو ہمیں پتا چلے گا کہ یہ بدترین استحصال کا شکار ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین جو دفاتر میں صبح 9 سے شام 5 بجے تک فائلوں میں سر کھپاتی رہتی ہیں، مگر ان کی تنخواہ قلیل ہے یا نجی اسکولوں میں کام کرنے والی ٹیچر جن کی تنخواہ ایک دیہاڑی دار مزدور کی اجرت سے بھی کم ہے۔
ان اداروں میں پڑھانے کے ساتھ لڑکیاں ڈبل ایم اے اس آس پر کرتی ہیں کہ شاید سرکاری ملازمت مل جائے، یہاں کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے کرتے انہیں نہ شوخ رنگ بھاتے ہیں، نہ فطری تقاضوں کی آواز سننے کا وقت ملتا ہے، بلکہ وہ فطرت پر قابض لوگوں کا آلہ کار بن کر اس دائرے سے باہر ہی نہیں نکل پاتیں، یہاں تک کہ ان کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے۔
اسی دائرے میں اگر ایک نرس، آیا کو دیکھیں، جو اسپتال میں کام کرتی ہیں، جہاں آٹھ آٹھ گھنٹے کام کرنے کے باوجود فقط تین ہزار روپے ہتھیلی پر دھر دیے جاتے ہیں۔
ہمارے ارد گرد معاش کی تلاش میں جان کی پروا کیے بغیر پورا دن پیدل چلتی 'پولیو ورکر' سردی ہو یا گرمی ہمارے گھروں تک پہنچتی ہیں، مگر نہ تو ان کی تنخواہ بڑھائی جاتی ہے نہ ہی کوئی تسلی بخش تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اتنے خطرے میں ہونے کے باوجود یہ اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لیے یہاں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
کم تعلیم یافتہ وہ لڑکیاں جو گھر گھر جا کر کمپنی کی مصنوعات ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بیچ رہی ہیں۔ ان کی دستک کے جواب میں دروازے پر اگی مردانہ آنکھیں ذہنی طور پر کتنی اذیت سے دو چار کرتی ہیں، یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس پیشے سے جُڑی ہوئی ان بچیوں کی نوے لاکھ تعداد یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ دن میں نجانے کتنی بار مشکلات سے صرف اس لیے گزرتی ہیں کہ گھر کے چند افراد دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔
اسی طرح فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے اوقات کار لمبے اور اُجرت مرد کے مقابلے میں خاصی کم ہوتی ہے، فیکٹری کے مالک کے لیے منافع بنانے میں غرق یہ مخلوق صرف ماہانہ تنخواہ کی حق دار ٹھہرتی ہے، مگر گھر کے راشن کے لیے یہ اس کام سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان خواتین کی نسبت مزدور خواتین جو بالکل ان پڑھ ہیں وہ زیادہ استحصال کا شکار ہیں۔
انہیں اینٹوں کے بھٹے پر، پتھر کوٹتے صبح سے شام تک کام کرتے دیکھا جا سکتا ہے، جو اپنے پورے کنبے کے ساتھ کام کر کے بھی اپنا معیار زندگی بلند کرنے سے قاصر ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے عورت کے حق میں نعرہ یا بینر بلند کرتی عورت مارچ کی کسی شرکا کو یہ نظر نہیں آتا کہ ہمارے ہاں ساری لڑائی طبقات کی ہے مرد و عورت کی نہیں۔ ہمارے سماج میں اصل معاملہ معاشی عدم مساوات ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان مقابلے بازی تو دور کی بات یہاں تو عورت بھی عورت کے برابر نہیں۔ کیا اسمبلی میں بیٹھی ہوئی حکمران طبقے کی ایک عورت اور سڑکوں پر اینٹیں کوٹتی عورت برابر ہیں۔۔۔؟ حالاں کہ یہ بھی تو صنف نازک ہیں۔ دوسری طرف اپنے گھروں میں ہی جھانک کر دیکھ لیں... کیا ایک بااثر اور پیسے والا داماد اور غریب داماد برابر ہیں؟ ہمارے ہاں خصوصی پکوان بھی امیر داماد کے لیے بنتے ہیں!
مدعا اتنا سا ہے کہ ہمارے نظام میں نہ تو مرد، مرد کے برابر ہے اور نہ ہی عورت اور نہ ہی یہ دو مخالف صنف ایک دوسرے کی دشمن ہیں، بلکہ طبقاتی سماج میں عورت معاشی و سماجی عدم استحکام کی بنا پر مدمقابل آ گئی ہے، اس لیے ہمارے سماج میں طاقت وَر ہونے کا تعین صنف سے نہیں، بلکہ سرمائے سے تعلق رکھتا ہے، کیوں کہ اس نظام کے تحت طبقاتی استحصال کا خاتمہ جب تک نہیں ہو جاتا سماجی برابری کا تصور ممکن نہیں۔