امورخانہ داری کرنے والی خواتین ’بے کار‘ نہیں ۔۔۔

یہ دراصل ہماری ’سماجی گاڑی‘ کا پہیا چلا رہی ہیں

یہ دراصل ہماری ’سماجی گاڑی‘ کا پہیا چلا رہی ہیں

'عالمی یوم خواتین' حقوق نسواں کی بہت ساری باتوں کے ساتھ گذشتہ ہفتے بیت گیا۔ وہ عورت، جو آزاد پیدا ہوئی، اس کے فرائض ہیں تو بہت سے حقوق بھی ہیں، لیکن بات حقوق کی ہو تو عورت چاہے ترقی یافتہ ملک کی شہریت رکھتی ہو یا ترقی پذیر ملک کی، وہ کسی نہ کسی سطح پر اپنے حقوق کی جنگ لڑتی آ رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے آزاد خیال معاشروں نے اسے دراصل ایک جنس سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ وہ بظاہر آزاد ہے، لیکن جتنا بوجھ اس نے اپنے نازک کندھوں پر اٹھا لیا ہے، وہ اس کی ہمت وطاقت سے کہیں زیادہ ہے۔

ایشیائی ممالک میں تو عورت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ سماج کی طرح وہ بھی کئی طبقوں میں منقسم ہے۔ ایک نچلا طبقہ، جہاں وہ کاموں کے لحاظ سے تو مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور دُہری ذمہ داری نبھا رہی ہے، لیکن اس کو حقوق دینے کے معاملے میں بہت سی کمزوریاں ہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جہاں مرد نشے اور آرام طلبی سے چارپائی سنبھالے ہوا ہے اور بیوی صبح سے شام تک گھروں میں کپڑے، برتن اور صفائی کرکے اپنی زندگی بِتا رہی ہے۔


پڑھے لکھے طبقے میں خواتین، اسکول، کالجوں اور دفاتر وغیرہ میں اپنی صلاحیتوں و قابلیت کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ان خواتین کی بھی ہے، جو منہ زور مہنگائی کو قابو میں کرنے کے لیے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے اور گھریلو ضروریات پوری کرنے، یا اپنا طرز زندگی بلند کرنے کی خواہش میں صبح سے شام تک مختلف ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔

عورت اپنی ہر تصویر میں باعزت، باوقار، سراپا الفت ہے۔ وہ تو ایثار و وفا سے گُندھی ہے۔ آج کی عورت کو سماج میں جو مسائل درپیش ہیں، حکومت اس پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی، بلکہ آج کچھ حلقوں کی طرف سے عورت کو حقوق اور آزادی کے نام پر رشتوں سے آزادی اور وفاداری کے بندھن توڑنے کا انوکھا سبق پڑھایا جا رہا ہے، حالاں کہ عورت کا تحفظ اور اس کی قوت تو انہی رشتوں کے حصار میں ہے۔ بہت سے آزاد سوچ رکھنے والے شاید ہمارا وہی حال بنانا چاہتے ہیں، جو آج مغرب کا ہے۔ وہاں عورت پر بے جا ذمہ داریاں ڈال کر اسے عدم توازن کا شکار کر دیا گیا ہے، یعنی یہ کیسی آزادی ہے کہ جس کی منشا اُسے گھر سے باہر نکال کر ہر صورت معاش کی جدوجہد میں دھکیلنا ہے۔۔۔ اگر ایسا کرتے ہیں تو پھر گھر کے کاموں کے لیے ملازم رکھیں گے، تو بات پھر وہی ہو جائے گی۔ پھر بچوں کی نگہداشت اور ان کی تربیت کا خانہ بھی خالی ہو جائے گا، نتیجتاً پھر یہ بچے بھی صرف اپنے لیے جیتے ہیں، اور یہی بچے بڑے ہوکر والدین کو بھی گھروں سے رخصت کر دیتے ہیں۔

یہ سوچنے والی بات ہے کہ قوموں کی تربیت کرنے والی عورت کو ایسے کس طرح 'گھروں میں بیٹھا ہوا' یا 'بے کار' کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ تو حقیقت میں خواتین کے لیے بہت ظالمانہ سوچ معلوم ہوتی ہے کہ خواتین خانہ کے کردار کو تسلیم کرنے کے بہ جائے، الٹا طعنہ دیا جائے کہ یہ تو دقیانوسی خواتین ہیں، اور کوئی کام ہی نہیں کرتیں، اس لیے کہ وہ گھر داری کرتی ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ گھر داری اس سماج کے تمام شعبوں میں کام کرنے والوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے اپنا کردار ادا کر پاتے ہیں۔ اج عورت چاہے خاتون خانہ ہو یا گھر سے باہر اپنی کوئی ذمہ داری نبھا رہی ہو، ضروری ہے کہ اسے اپنے مدار سے نہ ہٹنے دیا جائے، اور اسی میں رہتے ہوئے اسے درپیش مختلف مسائل حل کیے جائیں۔
Load Next Story