غیرموثراقدامات جیل میں کورونا وائرس پھیلنے کا خدشہ
روزانہ 800 قیدی کورٹس لائے جاتے ہیں،ایک قیدی بھی وائرس کا شکار ہوگیا تو جیل میں صورتحال خوفناک ہوسکتی ہے
کورونا وائرس کے حوالے سے جیلوں میں کیے جانے والے تمام تر حفاظتی اقدامات ناکام ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ قیدیوں کے ابھی تک عدالتوں میں پیشی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اگر خدانخواستہ کسی قیدی کو وائرس لگ گیا تو جیلوں میں صورتحال انتہائی خوفناک ہوجائے گی، روزانہ کم و بیش 800 قیدی عدالتوں میں پیشی کے لیے جاتے ہیں، پیر کو بھی سینٹرل جیل میں قیدیوں اور عملے کی اسکریننگ کی گئی جبکہ ملاقات بھی صرف انٹرکام کے ذریعے ہی کرائی جارہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جیل انتظامیہ بھی متحرک ہے، اس سلسلے میں تمام تر حفاظتی انتظامات کیے جارہے ہیں، نئے آنے والے قیدیوں اور عدالتوں میں پیشی سے واپس آنے والے قیدیوں کی اسکریننگ کی گئی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انھیں ماسک بھی فراہم کردیے گئے، سینٹرل جیل میں روزانہ کم و بیش 200سے 300نئے قیدی لائے جاتے ہیں۔
قیدیوں کے علاوہ سینئر سپرنٹنڈنٹ محمد حسن سہتو، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کمال شاہ، جیلر سعید سومرو اور دیگر افسران و اہلکاروں کی بھی اسکریننگ کی گئی، قیدیوں کی ملاقات پر بھی سختی برتی جارہی ہے اور صرف انٹر کام کے ذریعے ہی اہل خانہ سے بات چیت ممکن ہے جبکہ درمیان میں شیشہ حائل ہوتا ہے۔
ان تمام تر اقدامات میں قیدی براہ راست کسی سے نہیں مل رہا اور اس کا باہر کی دنیا سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن جیل انتظامیہ کے یہ تمام تر اقدامات ناکام ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر سینٹرل جیل اور ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے تقریباً 800 سے زائد قیدی مختلف عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں ، عدالتوں میں پیشی کے دوران وہاں قیدی نہ صرف آپس میں ایک دوسرے ملتے ہیں بلکہ اہل خانہ ، دوست احباب ، پولیس ، عدالتی عملے اور دیگر کئی افراد سے بھی ان کا میل جول ہوتا ہے جس کے باعث وائرس لگنے کا خدشہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر کیے جانے والے تمام تر حفاظتی اقدامات کا اثر کورٹس میں پیشی سے زائل ہوجاتا ہے ، اگر اس دوران کسی قیدی کو خدانخواستہ وائرس لگ گیا اور وائرس قیدی کے ذریعے جیل تک پہنچ گیا تو جیلوں کی صورتحال انتہائی خوفناک ہوجائے گی، اس ضمن میں آئی جی جیل خانہ جات نصرت حسین منگن نے محکمہ داخلہ سندھ سے بھی درخواست کی ہے کہ قیدیوں کو عدالتوں میں پیشی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے لیکن اس پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔
محکمہ داخلہ کو لکھے گئے خط میں تجاویز دی گئی ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کی جائے کہ پینسٹھ سال سے زائد عمر کے معمولی جرائم میں قید افراد کو فوری طور پر رہا کردیا جائے۔ ضمانتوں پر جلد از جلد فیصلے کیے جائیں اور جو ضروری کیسز ہیں ان کی کارروائی ویڈیو لنک کے ذریعے کی جائے۔
نئے قیدیوں کی آمد کا سلسلہ بھی روکا جائے اور ابتدائی 14 دنوں کا ریمانڈ بھی پولیس کو ہی دیا جائے تاکہ ملزم تھانے میں ہی رہے، سب سے زیادہ خطرناک صورتحال ڈسٹرکٹ جیل ملیر کی ہے جہاں زیادہ تر نشے کے عادی افراد کو لایا جاتا ہے، ایسے افراد کی صحت پہلے ہی تباہ ہوچکی ہوتی ہے اور وہ وائرس کا آسان ہدف ثابت ہوسکتے ہیں۔
اگر خدانخواستہ کسی قیدی کو وائرس لگ گیا تو جیلوں میں صورتحال انتہائی خوفناک ہوجائے گی، روزانہ کم و بیش 800 قیدی عدالتوں میں پیشی کے لیے جاتے ہیں، پیر کو بھی سینٹرل جیل میں قیدیوں اور عملے کی اسکریننگ کی گئی جبکہ ملاقات بھی صرف انٹرکام کے ذریعے ہی کرائی جارہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جیل انتظامیہ بھی متحرک ہے، اس سلسلے میں تمام تر حفاظتی انتظامات کیے جارہے ہیں، نئے آنے والے قیدیوں اور عدالتوں میں پیشی سے واپس آنے والے قیدیوں کی اسکریننگ کی گئی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انھیں ماسک بھی فراہم کردیے گئے، سینٹرل جیل میں روزانہ کم و بیش 200سے 300نئے قیدی لائے جاتے ہیں۔
قیدیوں کے علاوہ سینئر سپرنٹنڈنٹ محمد حسن سہتو، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کمال شاہ، جیلر سعید سومرو اور دیگر افسران و اہلکاروں کی بھی اسکریننگ کی گئی، قیدیوں کی ملاقات پر بھی سختی برتی جارہی ہے اور صرف انٹر کام کے ذریعے ہی اہل خانہ سے بات چیت ممکن ہے جبکہ درمیان میں شیشہ حائل ہوتا ہے۔
ان تمام تر اقدامات میں قیدی براہ راست کسی سے نہیں مل رہا اور اس کا باہر کی دنیا سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن جیل انتظامیہ کے یہ تمام تر اقدامات ناکام ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر سینٹرل جیل اور ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے تقریباً 800 سے زائد قیدی مختلف عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں ، عدالتوں میں پیشی کے دوران وہاں قیدی نہ صرف آپس میں ایک دوسرے ملتے ہیں بلکہ اہل خانہ ، دوست احباب ، پولیس ، عدالتی عملے اور دیگر کئی افراد سے بھی ان کا میل جول ہوتا ہے جس کے باعث وائرس لگنے کا خدشہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر کیے جانے والے تمام تر حفاظتی اقدامات کا اثر کورٹس میں پیشی سے زائل ہوجاتا ہے ، اگر اس دوران کسی قیدی کو خدانخواستہ وائرس لگ گیا اور وائرس قیدی کے ذریعے جیل تک پہنچ گیا تو جیلوں کی صورتحال انتہائی خوفناک ہوجائے گی، اس ضمن میں آئی جی جیل خانہ جات نصرت حسین منگن نے محکمہ داخلہ سندھ سے بھی درخواست کی ہے کہ قیدیوں کو عدالتوں میں پیشی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے لیکن اس پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔
محکمہ داخلہ کو لکھے گئے خط میں تجاویز دی گئی ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کی جائے کہ پینسٹھ سال سے زائد عمر کے معمولی جرائم میں قید افراد کو فوری طور پر رہا کردیا جائے۔ ضمانتوں پر جلد از جلد فیصلے کیے جائیں اور جو ضروری کیسز ہیں ان کی کارروائی ویڈیو لنک کے ذریعے کی جائے۔
نئے قیدیوں کی آمد کا سلسلہ بھی روکا جائے اور ابتدائی 14 دنوں کا ریمانڈ بھی پولیس کو ہی دیا جائے تاکہ ملزم تھانے میں ہی رہے، سب سے زیادہ خطرناک صورتحال ڈسٹرکٹ جیل ملیر کی ہے جہاں زیادہ تر نشے کے عادی افراد کو لایا جاتا ہے، ایسے افراد کی صحت پہلے ہی تباہ ہوچکی ہوتی ہے اور وہ وائرس کا آسان ہدف ثابت ہوسکتے ہیں۔