عورتوں کے حقوق کے لیے مسلم خواتین کیا کریں
مسلم تہذیب کی علمبردار تعلیم یافتہ خواتین کو جلوسوں یا سیاسی سر گرمیوں کے بجائے، تربیّت پر فوکس کرنا چاہیے۔
کورونا وائرس کے ضمن میں حکومتی سطح پر شورز یادہ ہے، ضروری حفاظتی انتظامات کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں، لاہور ایئر پورٹ پر اوراسلام آباد کے بڑے اسپتالوںمیں لوگوں کی فری ٹیسٹنگ کا بندو بست نہیں ہے۔ویسے ایک چھوٹے سے کیڑے نے سپر پاورز کو اپنی اوقات یاد دلادی ہے۔
مگر آج کی تحریر عورتوں کے حقو ق پر ہی ہوگی کیونکہ یہ بے حد اہم اشو ہے جب کہ مارچ والی بیبیاں اسے صرف اپنی کمرشل ضروریا ت کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔
پچھلا کالم شایع ہونے کے بعدبہت سی تعلیم یافتہ، پروفیشنل اور معروف خواتین نے فون اور ای میلز کے ذریعے نہ صرف اس سے اتفاق کیا بلکہ یہ بھی تجویز دی کہ خواتین کے حقوق کے حصول اور ایک اعلیٰ معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم یافتہ مسلم خواتین کیا کردار ادار کریں اس کے بارے میں ضرور لکھا جائے۔
بہت سی خواتین نے مغرب زدہ عورتوں کے بیہودہ نعروں کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ '' یہ چند سو عورتیں پاکستان کی عورت کا مقدمّہ نہیں لڑ رہی تھیں وہ تو ڈالروں کے عوض ملا ہوا ٹاسک پورا کررہی تھیں۔ اگر میرا جسم میری مرضی کی علمبرداروں سے پوچھا جائے کہ والدین چارپانچ سالہ بیٹی کو کہہ دیں کہ جاؤ اب اپنی مرضی کروتو کیا وہ درست ہوگا؟ آپ بھی کہیں گی کہ نہیں اُس وقت ماں چولہے کے سامنے آگ میں جلے اور باپ کمانے کے لیے تپتی دھوپ میں جلتا رہے اور بیٹی کو پالتا رہے، اُسکی حفاظت کرے،اس کی ہر خواہش پوری کرے۔ بیٹی دس سال کی ہوجائے تو بھی مرضی کی بات نہ ہو، والدین اپنا خون پسینہ اپنی بیٹی کی نذرکرتے رہیں۔
خود روکھی سوکھی کھا کراسے اچھا کھلائیں ، خود پرانے کپڑے پہن کر اسے نئے سلواکردیں، اپنا پیٹ کاٹ کر اسے تعلیم دلوائیں اور جب وہ بیس سال کی جوان اور تعلیم یافتہ ہوجائے تو ایک صبح والدین کے سامنے تن کر کھڑی ہوجائے اور انھیں کہہ دے کہ '' میرے اس جسم پر جسے بیشک آپ نے ہی پال پوس کر جوان کیا ہے ،اب تمہار ا کوئی حق نہیں ہے۔
اپنی زندگی کے فیصلے میں خود کرونگی، مجھے آپکے مشوروں اور رہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی سوچ کسی بے حس، بے رحم، خود غرض اور احسان فراموش کی تو ہو سکتی ہے۔ یہ کسی نارمل اور متوازن بیٹی کی سوچ نہیں ہو سکتی''۔بیشک ایسی بات صرف وہ لڑکی کر سکتی ہے جو ماں کی، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی محبّت سے لبریز لمس سے ہی ناآشنا ہو اور جسے بیٹیوں کے لیے حصار کی حیثیت رکھنے والے باپ کے کندھوں سے چمٹ کر حاصل ہونے والی عافیّت کا کوئی ادراک نہ ہو۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک میں بھی جان اور عزت و ناموس کا تحفظ عورت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ اس کے علاوہ وراثتی جائیداد کا حصول ، حق مہر کی ادائیگی،لڑکی کی رضامندی کے بغیر شادی ، عورتوں پر تشدد، لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں اور ووٹ کے حق سے محرومی عورتوں کے وہ بنیادی مسائل ہیں جو حل طلب ہیں ۔
سینئر عہدوں پر فائز پڑھی لکھی اور مہذب خواتین نے درست لکھا ہے کہ '' جب سے لڑکیوں نے دوپٹہ اتار دیا ہے، ٹائیٹس اور سلیولیس بنیانیں پہننی شروع کی ہیں، وہ مردوں کی ہوسناک نظروںکا زیادہ شدّت سے نشانہ بنتی ہیں۔ لڑکیاں مخالف صنف کے جنسی جذبات ابھارنے والے لباس پہن کر زیادہ غیرمحفوظ ہو گئی ہیں جسکے نتیجے میں اُن کی عزت و عصمت پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے''۔
خالق و مالک نے جب عورتوں کو واضح طور پر جسم ڈھانپنے کا حکم دیا ہے تو کیا یہ حکمت سے خالی ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں بدن کے حساّس اعضاء نمایاں کرنے کے بعد توقع کی جائے کہ انھیں کوئی بری نظروں سے نہ دیکھے ایسا ہی ہے جیسے خشک بھوسے کو ماچس دکھا کر توّ قع کی جائے کہ آگ نہ لگے یادریا میں غوطہ لگا کر باہر نکلنے والے سے یہ گمان کیا جائے کہ اس کا جسم گیلا نہ ہو ''۔ اس جرم کو روکنے کے لیے بڑے موثر حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی درسگاہوں اور دفتروں میں لڑکیوں اور عورتوں کے لیے شائستہ اورdecent لباس مقرر کیا جائے ، انٹرنیٹ پر فحش مواد بلاک کر دیا جائے ۔پھر اگر کوئی درندہ کسی چھوٹی بچی یابڑی لڑکی کی عزت پر ہاتھ ڈالے تو اسے نشانِ عبرت بنادیناچاہیے ۔
چند مہینے پہلے آسٹریلیا میں کسی شخص کے خلاف 9سالہ بچی کی آبرو ریزی کا جرم ثابت ہوا تو اس کے جنسی اعضاء کاٹ دیے گئے، اس کی لاش کو کتے بھنبھوڑ تے رہے اور اسی حالت میں اس کی تصویر وائرل کی گئی مگر کسی یورپی ملک نے اس پر بربرّیت کا الزام نہیں لگایا۔بہت سی خواتین نے اس کا بھی سخت نوٹس لیا ہے کہ عورتوں کے لیے اﷲ تعالیٰ اور نبی کریم حضرت محمدﷺ کے دیے ہوئے حقوق کا تو غیر مسلم بھی اعتراف کرتے ہیں،کون نہیں جانتاکہ جس کے استقبال کے لیے آقائے دوجہاںﷺ کھڑے ہوجاتے تھے، وہ بھی عورت اور جسکے قدموں میں جنت لکھ دی گئی وہ بھی عورت ۔ مگر یہ لبرل اور مارچ والی عورتیں کیوں اعتراف نہیں کرتیں۔انھوں نے شاید سن لیا ہو کہ عورت مارچ میں کالج کی ایک لڑکی نے ایک بینر اٹھا یا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ''جو حقوق جضرت محمد ﷺ نے عورتوں کو دیے ہیں ہمیں وہ دلائے جائیں''تو منتظمین میں سے ایک مرد نے آکر وہ بینر اُس سے چھین لیا، اس لیے کہ یہ لوگ اگر نبی کریم ﷺ کے احسانات کا اعتراف کریں گے تو ان کے فنانسر انکی Paymentروک لیں گے۔
وراثتی جائیداد کے حصول کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے کہ جس شخص نے اپنی بیٹیوں کو اُنکا شرعی حصّہ نہ دیا وہ کسی بھی سرکاری نوکری یا پبلک آفس کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا۔ نیز علمائے کرام اس کی آگہی کے لیے ایک بھرپور مہم چلائیں اور یہ طے کیاجائے کہ جنازے کے وقت قرضے کیطرح یہ بھی پوچھا جائے گا کہ مرحوم نے بیٹیوں کو وراثتی جائیداد میں سے شرعی حصہ دیا ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں مائیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالیں کہ سب بہن بھائی برابر ہیں سب کا الگ الگ حصّہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں مقرر کردیا ہے، اگر والد یا بھائی اپنی بیٹی یا بہن کے حصّے پر ناجائز قبضہ کر لیں تو وہ جرم ہوگا اور اس کی آمدنی ان پر حرام ہوگی۔ مطلقہ خواتین سے بے رخی اور گھریلو تشدّد کے خلاف بھی آگہی مہم کی ضرورت ہے جس میں میڈیا ، علماء اور مقامی سطح کے اکابرین بڑا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ عورتوں پر تشدّد اَیف آئی آر کٹوانے یا پولیس بلانے سے نہیں مردوں کو اسوۂ رسولﷺ سے روشناس کرانے اور سماجی دباؤ بڑھانے سے حل ہوگا۔
شادی کے لیے لڑکی کی رضامندی تو اسلام میں وہ بنیادی ضرورت ہے جسکے بغیر نکاح ممکن ہی نہیں ہے۔ شادی میں لڑکی کی رائے نہ لینا یااس کی رضامندی کے بغیر اسے بیاہ دینا مسلم تہذیب کاخاصہ نہیں ہے، یہ ہندوانہ کلچر ہے ۔ اس کے لیے بھی میڈیا کے ذریعے آگہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہرلڑکی اس قانون سے باخبر ہو کہ اس کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح ہوہی نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ وہ غیر اسلامی رسمیں جنھیں دوسرے مذاہب نے پروان چڑھایااور پاک و ہند کے مسلمانوں نے انھیں اپنا لیا ، آہستہ آہستہ ختم کی جائیں ۔میڈیا ، علماء، سول سوسائٹی اور اساتذہ بھرپور مہم چلائیں تاکہ ہماری تمدّنی زندگی کا حصہ بن جانے والی خرافات کوہماری معاشرت سے نکال باہرکیا جائے ۔
ان میں لڑکی والوں کے ذمّے بارات کا کھانا ،شادی کے لیے لڑکی کے مہنگے لباس اور زیورات کی خریداری اور جیہز سرِفہرست ہیں۔یہ رسمیں غیر اسلامی ہیں، ان کے خاتمے کے لیے قانون سازی اور آگہی مہم دونوں سے کام لیا جائے ۔ معروف اور ایلیٹ گھرانوں کو میڈیا کے ذریعے جہیز کی لعنت سے لاتعلقی کا اعلان کر نا چاہیے اس کے علاوہ وہ ولیمے کی تقریب میں سوسے کم مہمانوں کے لیے سادہ ترین کھانے کااہتمام کریں توپورے معاشرے میں سادگی کا کلچر پروان چڑھے گا۔ نکاح کو سادہ ، سہل اور سستا بنانے کے لیے بھر پور جدوجہد ہونی چاہیے۔ شادی کی عمر(یعنی بیس سے چوبیس سال تک) کو پہنچتے ہی لڑکیوں اور لڑکوں کا نکاح کر دیناچاہیے ۔ اس سے بدکاری کے راستے بند ہونگے اور معاشرہ فساد سے محفوظ ہو گا ۔
مسلم تہذیب کی علمبردار تعلیم یافتہ خواتین کو جلوسوں یا سیاسی سر گرمیوں کے بجائے، تربیّت پر فوکس کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کی سطح پر ماؤں کی Master Trainers کے طور پر تربیّت کی جانی چاہیے۔ اس کے بعد یہ ماسٹر ٹرینرز اپنی بچیّوں کو اﷲ سبحانہ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ کے احکامات سے آگاہ کرکے انھیں بچپن سے ہی شرم و حیاء کے بارے میں Sensitise کریں۔ والدین اپنے بچوں کو حلال اور حرام کی تمیز سکھائیں ، ان کے دل و دماغ میں رزقِ حلال کے لیے محبّت اور حرام خوری اور جرائم کے لیے نفرت پیدا کریں۔والدین خصوصاً مائیں اپنے بچّوں کو اعلیٰ اخلاقی قدروں (ایمانداری، انسانی ہمدردی، سچائی، سادگی، قربانی وغیرہ) کی اہمیّت اور فضیلت سے روشناس کر ائیں۔ یاد رہے کہ اعلیٰ معاشرے ، سیاستدان ، بیوروکریٹ ، جج یا جرنیل پیدا نہیں کرتے،اعلیٰ معاشروں کی تشکیل اعلیٰ کردار کی مائیں کرتی ہیں ۔
مگر آج کی تحریر عورتوں کے حقو ق پر ہی ہوگی کیونکہ یہ بے حد اہم اشو ہے جب کہ مارچ والی بیبیاں اسے صرف اپنی کمرشل ضروریا ت کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔
پچھلا کالم شایع ہونے کے بعدبہت سی تعلیم یافتہ، پروفیشنل اور معروف خواتین نے فون اور ای میلز کے ذریعے نہ صرف اس سے اتفاق کیا بلکہ یہ بھی تجویز دی کہ خواتین کے حقوق کے حصول اور ایک اعلیٰ معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم یافتہ مسلم خواتین کیا کردار ادار کریں اس کے بارے میں ضرور لکھا جائے۔
بہت سی خواتین نے مغرب زدہ عورتوں کے بیہودہ نعروں کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ '' یہ چند سو عورتیں پاکستان کی عورت کا مقدمّہ نہیں لڑ رہی تھیں وہ تو ڈالروں کے عوض ملا ہوا ٹاسک پورا کررہی تھیں۔ اگر میرا جسم میری مرضی کی علمبرداروں سے پوچھا جائے کہ والدین چارپانچ سالہ بیٹی کو کہہ دیں کہ جاؤ اب اپنی مرضی کروتو کیا وہ درست ہوگا؟ آپ بھی کہیں گی کہ نہیں اُس وقت ماں چولہے کے سامنے آگ میں جلے اور باپ کمانے کے لیے تپتی دھوپ میں جلتا رہے اور بیٹی کو پالتا رہے، اُسکی حفاظت کرے،اس کی ہر خواہش پوری کرے۔ بیٹی دس سال کی ہوجائے تو بھی مرضی کی بات نہ ہو، والدین اپنا خون پسینہ اپنی بیٹی کی نذرکرتے رہیں۔
خود روکھی سوکھی کھا کراسے اچھا کھلائیں ، خود پرانے کپڑے پہن کر اسے نئے سلواکردیں، اپنا پیٹ کاٹ کر اسے تعلیم دلوائیں اور جب وہ بیس سال کی جوان اور تعلیم یافتہ ہوجائے تو ایک صبح والدین کے سامنے تن کر کھڑی ہوجائے اور انھیں کہہ دے کہ '' میرے اس جسم پر جسے بیشک آپ نے ہی پال پوس کر جوان کیا ہے ،اب تمہار ا کوئی حق نہیں ہے۔
اپنی زندگی کے فیصلے میں خود کرونگی، مجھے آپکے مشوروں اور رہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی سوچ کسی بے حس، بے رحم، خود غرض اور احسان فراموش کی تو ہو سکتی ہے۔ یہ کسی نارمل اور متوازن بیٹی کی سوچ نہیں ہو سکتی''۔بیشک ایسی بات صرف وہ لڑکی کر سکتی ہے جو ماں کی، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی محبّت سے لبریز لمس سے ہی ناآشنا ہو اور جسے بیٹیوں کے لیے حصار کی حیثیت رکھنے والے باپ کے کندھوں سے چمٹ کر حاصل ہونے والی عافیّت کا کوئی ادراک نہ ہو۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک میں بھی جان اور عزت و ناموس کا تحفظ عورت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ اس کے علاوہ وراثتی جائیداد کا حصول ، حق مہر کی ادائیگی،لڑکی کی رضامندی کے بغیر شادی ، عورتوں پر تشدد، لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں اور ووٹ کے حق سے محرومی عورتوں کے وہ بنیادی مسائل ہیں جو حل طلب ہیں ۔
سینئر عہدوں پر فائز پڑھی لکھی اور مہذب خواتین نے درست لکھا ہے کہ '' جب سے لڑکیوں نے دوپٹہ اتار دیا ہے، ٹائیٹس اور سلیولیس بنیانیں پہننی شروع کی ہیں، وہ مردوں کی ہوسناک نظروںکا زیادہ شدّت سے نشانہ بنتی ہیں۔ لڑکیاں مخالف صنف کے جنسی جذبات ابھارنے والے لباس پہن کر زیادہ غیرمحفوظ ہو گئی ہیں جسکے نتیجے میں اُن کی عزت و عصمت پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے''۔
خالق و مالک نے جب عورتوں کو واضح طور پر جسم ڈھانپنے کا حکم دیا ہے تو کیا یہ حکمت سے خالی ہو سکتا ہے؟ بالکل نہیں بدن کے حساّس اعضاء نمایاں کرنے کے بعد توقع کی جائے کہ انھیں کوئی بری نظروں سے نہ دیکھے ایسا ہی ہے جیسے خشک بھوسے کو ماچس دکھا کر توّ قع کی جائے کہ آگ نہ لگے یادریا میں غوطہ لگا کر باہر نکلنے والے سے یہ گمان کیا جائے کہ اس کا جسم گیلا نہ ہو ''۔ اس جرم کو روکنے کے لیے بڑے موثر حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی درسگاہوں اور دفتروں میں لڑکیوں اور عورتوں کے لیے شائستہ اورdecent لباس مقرر کیا جائے ، انٹرنیٹ پر فحش مواد بلاک کر دیا جائے ۔پھر اگر کوئی درندہ کسی چھوٹی بچی یابڑی لڑکی کی عزت پر ہاتھ ڈالے تو اسے نشانِ عبرت بنادیناچاہیے ۔
چند مہینے پہلے آسٹریلیا میں کسی شخص کے خلاف 9سالہ بچی کی آبرو ریزی کا جرم ثابت ہوا تو اس کے جنسی اعضاء کاٹ دیے گئے، اس کی لاش کو کتے بھنبھوڑ تے رہے اور اسی حالت میں اس کی تصویر وائرل کی گئی مگر کسی یورپی ملک نے اس پر بربرّیت کا الزام نہیں لگایا۔بہت سی خواتین نے اس کا بھی سخت نوٹس لیا ہے کہ عورتوں کے لیے اﷲ تعالیٰ اور نبی کریم حضرت محمدﷺ کے دیے ہوئے حقوق کا تو غیر مسلم بھی اعتراف کرتے ہیں،کون نہیں جانتاکہ جس کے استقبال کے لیے آقائے دوجہاںﷺ کھڑے ہوجاتے تھے، وہ بھی عورت اور جسکے قدموں میں جنت لکھ دی گئی وہ بھی عورت ۔ مگر یہ لبرل اور مارچ والی عورتیں کیوں اعتراف نہیں کرتیں۔انھوں نے شاید سن لیا ہو کہ عورت مارچ میں کالج کی ایک لڑکی نے ایک بینر اٹھا یا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ''جو حقوق جضرت محمد ﷺ نے عورتوں کو دیے ہیں ہمیں وہ دلائے جائیں''تو منتظمین میں سے ایک مرد نے آکر وہ بینر اُس سے چھین لیا، اس لیے کہ یہ لوگ اگر نبی کریم ﷺ کے احسانات کا اعتراف کریں گے تو ان کے فنانسر انکی Paymentروک لیں گے۔
وراثتی جائیداد کے حصول کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے کہ جس شخص نے اپنی بیٹیوں کو اُنکا شرعی حصّہ نہ دیا وہ کسی بھی سرکاری نوکری یا پبلک آفس کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا۔ نیز علمائے کرام اس کی آگہی کے لیے ایک بھرپور مہم چلائیں اور یہ طے کیاجائے کہ جنازے کے وقت قرضے کیطرح یہ بھی پوچھا جائے گا کہ مرحوم نے بیٹیوں کو وراثتی جائیداد میں سے شرعی حصہ دیا ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں مائیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالیں کہ سب بہن بھائی برابر ہیں سب کا الگ الگ حصّہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں مقرر کردیا ہے، اگر والد یا بھائی اپنی بیٹی یا بہن کے حصّے پر ناجائز قبضہ کر لیں تو وہ جرم ہوگا اور اس کی آمدنی ان پر حرام ہوگی۔ مطلقہ خواتین سے بے رخی اور گھریلو تشدّد کے خلاف بھی آگہی مہم کی ضرورت ہے جس میں میڈیا ، علماء اور مقامی سطح کے اکابرین بڑا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ عورتوں پر تشدّد اَیف آئی آر کٹوانے یا پولیس بلانے سے نہیں مردوں کو اسوۂ رسولﷺ سے روشناس کرانے اور سماجی دباؤ بڑھانے سے حل ہوگا۔
شادی کے لیے لڑکی کی رضامندی تو اسلام میں وہ بنیادی ضرورت ہے جسکے بغیر نکاح ممکن ہی نہیں ہے۔ شادی میں لڑکی کی رائے نہ لینا یااس کی رضامندی کے بغیر اسے بیاہ دینا مسلم تہذیب کاخاصہ نہیں ہے، یہ ہندوانہ کلچر ہے ۔ اس کے لیے بھی میڈیا کے ذریعے آگہی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہرلڑکی اس قانون سے باخبر ہو کہ اس کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح ہوہی نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ وہ غیر اسلامی رسمیں جنھیں دوسرے مذاہب نے پروان چڑھایااور پاک و ہند کے مسلمانوں نے انھیں اپنا لیا ، آہستہ آہستہ ختم کی جائیں ۔میڈیا ، علماء، سول سوسائٹی اور اساتذہ بھرپور مہم چلائیں تاکہ ہماری تمدّنی زندگی کا حصہ بن جانے والی خرافات کوہماری معاشرت سے نکال باہرکیا جائے ۔
ان میں لڑکی والوں کے ذمّے بارات کا کھانا ،شادی کے لیے لڑکی کے مہنگے لباس اور زیورات کی خریداری اور جیہز سرِفہرست ہیں۔یہ رسمیں غیر اسلامی ہیں، ان کے خاتمے کے لیے قانون سازی اور آگہی مہم دونوں سے کام لیا جائے ۔ معروف اور ایلیٹ گھرانوں کو میڈیا کے ذریعے جہیز کی لعنت سے لاتعلقی کا اعلان کر نا چاہیے اس کے علاوہ وہ ولیمے کی تقریب میں سوسے کم مہمانوں کے لیے سادہ ترین کھانے کااہتمام کریں توپورے معاشرے میں سادگی کا کلچر پروان چڑھے گا۔ نکاح کو سادہ ، سہل اور سستا بنانے کے لیے بھر پور جدوجہد ہونی چاہیے۔ شادی کی عمر(یعنی بیس سے چوبیس سال تک) کو پہنچتے ہی لڑکیوں اور لڑکوں کا نکاح کر دیناچاہیے ۔ اس سے بدکاری کے راستے بند ہونگے اور معاشرہ فساد سے محفوظ ہو گا ۔
مسلم تہذیب کی علمبردار تعلیم یافتہ خواتین کو جلوسوں یا سیاسی سر گرمیوں کے بجائے، تربیّت پر فوکس کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کی سطح پر ماؤں کی Master Trainers کے طور پر تربیّت کی جانی چاہیے۔ اس کے بعد یہ ماسٹر ٹرینرز اپنی بچیّوں کو اﷲ سبحانہ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ کے احکامات سے آگاہ کرکے انھیں بچپن سے ہی شرم و حیاء کے بارے میں Sensitise کریں۔ والدین اپنے بچوں کو حلال اور حرام کی تمیز سکھائیں ، ان کے دل و دماغ میں رزقِ حلال کے لیے محبّت اور حرام خوری اور جرائم کے لیے نفرت پیدا کریں۔والدین خصوصاً مائیں اپنے بچّوں کو اعلیٰ اخلاقی قدروں (ایمانداری، انسانی ہمدردی، سچائی، سادگی، قربانی وغیرہ) کی اہمیّت اور فضیلت سے روشناس کر ائیں۔ یاد رہے کہ اعلیٰ معاشرے ، سیاستدان ، بیوروکریٹ ، جج یا جرنیل پیدا نہیں کرتے،اعلیٰ معاشروں کی تشکیل اعلیٰ کردار کی مائیں کرتی ہیں ۔