ایک تھا شہباز شریف
سیاست کی ستم ظریفی دیکھیں ایک طرف شہباز شریف پر یہ تنقید ہے کہ وہ ملک سے باہر ہیں، وہ خاموش ہیں۔
ملک میں کورونا کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔ تمام صوبائی حکومتیں اپنی اپنی بساط کے مطابق کورونا سے نبٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی اقدامات کیے ہیں۔ عسکری قیادت بھی متحرک ہے۔
بہر حال ایک بات زبان زد عام ہے۔ پتہ نہیں کیوں لیکن پھر بھی اس وقت لوگ شہباز شریف کو یاد کر رہے ہیں۔ ایک فقرہ جو سننے میں مل رہا ہے ، وہ یہ کہ اگر شہباز شریف ہوتا تو کم از کم سندھ حکومت سے زیادہ اور بہتر انتظامات کرتا۔ بالخصوص کورونا ٹیسٹ کی قیمت کے حوالے سے شہباز شریف کو بہت یاد کیا جا رہا ہے۔
بے شک سندھ حکومت کی کورونا سے نبٹنے کے لیے حکمت عملی کو آج پذیرائی مل رہی ہے۔ مراد علی شاہ کی تعریف کی جا رہی ہے۔ لیکن لوگ ان کے کام کو بھی شہباز شریف کے پیمانے پر جانچنے کی کوشش کررہے ہیں۔پنجاب میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ مراد علی شاہ شہباز شریف کی طرح کام کر رہے ہیں اور ان میں شہباز شریف کے رنگ نظر آرہے ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کی حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ بھی شہباز شریف سے ہی کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ خود کورونا سے نبٹنے کے اقدمات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان اقدمات اور نگرانی کا موازنہ بھی کسی سابق وزیر اعظم سے نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ یہ موازنہ بھی شہباز شریف سے ہی کی جا رہا ہے۔
تنقید نگار اور تعریف نگار دونوں کے لیے ہی شہباز شریف موازنے کا پیمانے بن گیا ہے۔ عوامی رائے یہ ہے کہ جب لاہور اور پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں ڈنگی پھیل گیا تھا تو شہباز شریف نے ڈنگی ٹیسٹ کی قیمت اسی روپے مقرر کر دی تھی۔ حالانکہ اس وقت بھی پرائیوٹ لیبارٹریاں ڈنگی ٹیسٹ کے لیے ہزاروں روپے فیس وصول کر رہی تھیں۔ لیکن شہباز شریف نے ایک حکم نامہ کے ذریعے ٹیسٹ کی قیمت اسی روپے مقرر کر دی تھی۔ پرائیویٹ لیبارٹر یوں نے بہت شور بھی مچایا تھا۔ آج بھی کورونا ٹیسٹ کی فیس ہزاروں روپے وصول کی جا رہی ہے۔ آج جس کو شک ہے کہ کہیں اس کو کورونا تو نہیں ہوگیا اس کے لیے ٹیسٹ بہت مہنگا ہے۔ مارکیٹ میں کورونا کا ٹیسٹ آٹھ سے د س ہزار روپے میں ہو رہا ہے۔
جو غریب اور مڈل کلاس کی استطا عت سے باہر ہے۔ آپ اندازہ لگائیں جس کی تنخواہ بیس ہزار سے پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے، وہ اپنے گھر کے فرد کا کورونا ٹیسٹ کیسے کرا سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کورونا کا ٹیسٹ مفت کر دیا جائے، اس وقت جس قدر خوف و ہراس ہے بیس کر وڑ لوگ ٹیسٹ کرانے چل پڑیں گے۔ لیکن پھر بھی آٹھ سے دس ہزار فیس بہت زیادہ ہے۔ اس لیے لوگ شہباز شریف کو یاد کر رہے ہیں۔
اس وقت مارکیٹ میں ماسک اور ہاتھ دھونے والا سینیٹائزر بھی مہنگا اور نایاب ہو گیا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر شہباز شریف کی حکومت ہوتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ میں تو نہیں مانتا کہ شہباز شریف ہوتے تو ایسا ہوجاتا، ویسا ہوجاتا لیکن لوگوں کی رائے کہ اگر ان کی حکومت ہوتی تو کم از کم ماسک تو مفت ملتے ۔ بہرحال عوامی جذبات یہی ہیں ۔ یہ درست ہے کہ 2012میں جب ڈنگی کی وبا پھیل گئی تھی تو شہباز شریف بہت متحرک نظر آئے۔پنجاب کی صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد ڈنگی کی اس شکست کو قائم نہیں رکھ سکیں اور گزشتہ سال پنجاب میں ڈنگی دوبارہ ابھرتا نظر آیا۔
تب بھی عوام نے یہ بات کی تھی کہ جس شہباز شریف کا ڈنگی برادر کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا، اس کے ختم کیے گئے ڈنگی کو تحریک انصاف واپس لے آئی ہے۔ کیونکہ صرف پنجاب نہیں ملک بھر میں ڈنگی کے کیس نہ صرف واپس نظر آئے بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ سامنے آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے لاہور میں پی کے ایل آئی کو کورونا کے لیے مختص کر کے ایک درست اقدام کیا ہے۔ تمام ضلعی ہیڈ کواٹرز پر لازمی اور اگر ممکن ہو تو تحصیل ہیڈ کواٹرز میں کورونا کے لیے الگ میڈیکل سہولیات فراہم کرنا لازمی ہے۔ یہ درست سمت میں قدم ہے۔ ہم ہر اسپتال میں کورونا کے مریض نہیں رکھ سکتے۔ اب اس کو قدرت کی ستم ظریفی سمجھ لیں کہ پی کے ایل آئی پر بھی شہباز شریف کی مہر ثبت ہے۔
اس اسپتال کی تعمیر کے وقت جس قدر تنازعات قائم کیے گئے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک ماحول بنا دیا گیا کہ شائد یہ اسپتال بنا کر شہباز شریف نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہے۔ محترمہ یاسمین راشد جب بھی پریس کانفرنس کرتیں، اس پر تنقید کرتیں۔ آج جب میں انھیں اس کی تعریف کرتا دیکھتا ہوں تو محو حیرت رہتا ہوں۔ ویسے بھی جس مقصد کے لیے یہ اسپتال بنایا گیا تھا وہ تو ختم ہو گیا ہے۔ اب یہ بھی ایک عام اسپتال ہے۔ اس لیے اب اس کو کورونا کے لیے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
سیاست کی ستم ظریفی دیکھیں ایک طرف شہباز شریف پر یہ تنقید ہے کہ وہ ملک سے باہر ہیں، وہ خاموش ہیں۔ تنقید نگار کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کو ٹف ٹائم نہیں دے رہے ہیں جب کہ شہباز کا موقف ہے کہ نواز شریف کی صحت ان کے لیے سب سے مقدم ہے۔ وہ بیمار نواز شریف کو چھوڑ کر کیسے آسکتے ہیں۔ لیکن شہباز شریف خاموش ہونے اور منظر سے غائب ہونے کے باوجود حکمرانوں کی جان نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ان کے کام بول رہے ہیں۔ یہی سیاست کا حسن ہے۔