پاکستانی قوم ’کورونا‘ کو انجوائے کررہی ہے

کیا قومیں قدرتی آفات کا ایسے مقابلہ کیا کرتی ہیں؟ ہم کب تک خود کو دھوکا دیتے رہیں گے؟


پاکستانی صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنے کے بجائے کورونا سے محفوظ ہورہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

وہ میری طرف حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ الفاظ جیسے اس کے منہ سے نکلنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ چند لمحے تو دونوں طرف خاموشی چھائی رہی اور پھر اس سکوت کو اسی نے توڑا، اور بولا تو صرف اتنا کہ محمد واقعی؟

''ہاں بھائی واقعی ایسا ہے۔ میری قوم کورونا وائرس کو انجوائے کررہی ہے''۔ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ ''مگر کیسے؟'' وہ پھر ناقابل یقین لہجے میں گویا ہوا۔

اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھاؤں، عرض کرتا چلوں کہ یہ آج سے دو دن پہلے کی بات ہے۔ رات ساڑھے دس بجے میری دوپہر کی شفٹ ختم ہونے جارہی تھی کہ میرے فلپائنی ساتھی ریکارڈو نے مجھ سے سرگوشی کے انداز میں اچانک سوال کیا کہ آپ کے ملک میں کورونا وائرس کی کیا صورتحال ہے؟

''ہمارے ملک میں تو کورونا کو انجوائے کیا جارہا ہے''۔ میں نے سرسری انداز میں جواب دیا تو اسے جیسے حیرت کا جھٹکا لگا۔

''وہ ایسے میرے بھائی، میرے وطن میں کورونا کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہوچکے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے مالکان اب بغیر پڑھائے فیس وصول کرکے انجوائے کریں گے۔ طالب علم چھٹیوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ کاروباری حضرات اشیائے ضروریہ مہنگے داموں فروخت کرکے، میڈیکل اسٹور مالکان چند ایک مہنگے داموں ماسک فروخت کرکے اور چند ایک ماسک کو اسٹاک کرکے کورونا سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ علما حضرات کورونا سے بچاؤ کے اعمال بتا کر اپنی اہمیت محسوس کروارہے ہیں۔ اور یہ بھی سن رہے ہیں کہ بعض عامل حضرات جو پہلے محبوب کو آپ کے قدموں میں لانے کا فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے، اب وہ کورونا کو ختم کرنے کےلیے بھی اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ اور سب سے زیادہ کورونا سے استفادہ آج کل کا نوجوان طبقہ حاصل کررہا ہے۔ کوئی کورونا سے بچاؤ کےلیے پیاز کی اہمیت کو لوگوں تک پہنچا کر داد سمیٹ رہا ہے، تو کوئی لہسن میں اس موذی مرض کا علاج دریافت کررہا ہے۔ بعض سمجھدار لوگ تو سادہ پانی کو اس کا بہترین تریاق بتارہے ہیں، تاکہ ہر امیر و غریب ان کے نسخے سے استفادہ حاصل کرسکے۔ اور سب سے زیادہ خوش ہماری حکومت ہے۔ جسے نہ صرف امید ہوچلی ہے کہ کورونا سے نمٹنے کےلیے بھاری امداد ملنے والی ہے، بلکہ ہمارے سمجھدار وزیراعظم نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے دنیا سے قرضہ معاف کرنے کی اپیل بھی کردی ہے تاکہ ہم کورونا سے احسن طریقے سے نمٹ سکیں''۔

ریکارڈو تو حیرت میں ڈوبا رخصت ہوگیا مگر میرے اور آپ کےلیے سوال چھوڑ گیا کہ کیا قومیں قدرتی آفات کا ایسے مقابلہ کیا کرتی ہیں؟ ہم کب تک خود کو دھوکا دیتے رہیں گے؟ ہم کب تک اپنوں کا خون نچوڑ کر دروازے کو چوکھٹ پر ''ھذا من فضل ربی'' لکھواتے رہیں گے؟ لوگوں کو ملاوٹ زدہ اشیائے ضروریہ فروخت کریں گے اور افسوس اس بات پر ہوگا کہ عمرہ بند ہوگیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کورونا وائرس کے سلسلے میں بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کیا جائے جس خلوص کا مظاہرہ پاکستانی قوم نے 2005 کے زلزے کے دوران کیا تھا۔ بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں ہر کسی کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خاص طور پر اہل ثروت حضرات کو اس نازک موقع پر ان لوگوں کی مدد کےلیے آگے آنا ہوگا، جن کے اس قدرتی آفت کی وجہ سے چولہے ٹھنڈے ہورہے ہیں۔ اور ان میں بھی خاص طور پر سفید پوش لوگ، جو کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرسکتے۔

اس سلسلے میں ہمیں گوگل کی مدد کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ اپنے ارگرد اپنے گلی، محلے یا زیادہ سے زیادہ اپنے شہر میں موجود ایسے افراد کی مدد کرنا ہوگی۔

چلتے چلتے اس فورم کے توسط سے ینگ ڈاکٹرز سے بھی مودبانہ گزارش ہے کہ یہ وقت دھرتی کا قرض اتارنے کا ہے نہ کہ ہڑتال کرنے کا۔ براہِ کرم ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہڑتال ختم کرکے اللہ کی رضا کےلیے خود کو وقف کردیں۔ کیونکہ اللہ رب العزت بہترین آجر ہے۔

اے اہل وطن آئیے قدم بڑھائیے اور بیرونی امداد پر تکیہ کرنے کی بجائےاپنے زور بازو پر عملی میدان میں کارکردگی دکھا کر کورونا کو شکشت دیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں