پاکستان مستحکم افغانستان چاہتا ہے اوراسے اپنے فیصلے کرنے میں مکمل آزادی حاصل ہے وزیراعظم

ملا برادر سے ملاقاتوں پر کوئی پابندی نہیں، افغان صدرجسے چاہیں ان سے ملاقات کے لئے بھیج سکتے ہیں، وزیر اعظم


ویب ڈیسک November 30, 2013
افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے مستقبل کا فیصلہ افغان حکومت کو ہی کرنا ہے، وزیر اعظم ۔ فوٹو: ایکسپریس نیوز

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان افغان عوام اورقیادت کی جانب سے طے کئے گئے امن فارمولےکی حمایت کرتا ہےاس کے علاوہ امریکی اڈوں کے بارے میں فیصلہ بھی افغان حکومت ہی کرے گی۔

کابل میں افغان صدر سے ون ٹو ون اور وفود کی سطح پر ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان مشترکہ روایات کے حامل ممالک ہیں، کابل میں ان کا استقبال افغان روایات کے مطابق کیا گیا جس کے وہ مشکور ہیں، پُرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے اس لئے پاکستان حکومت افغانستان میں استحکام دیکھنا چاہتی ہے۔ افغان عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا ہے اور پاکستان افغان عوام کے ساتھ ہے، انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اسے اپنے بارے میں فیصلوں پر مکمل آزادی حاصل ہے۔ پاکستان افغان عوام اورقیادت کی جانب سے طے کئے گئے امن فارمولےکی حمایت کرتے ہیں اس کے علاوہ امریکی اڈوں کے بارے میں فیصلہ بھی افغان حکومت ہی کرے گی۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغان عوام کو 2014 سے کئی نئے چیلنجز کا سامنا کرنا ہے اس سلسلے میں پاکستان افغان عوام کے ساتھ ہیں، افغانستان میں ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں افغان عوام اپنے سربراہ کے انتخاب میں آزاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان صدر سے ان کی ملاقات کے دوران ملا برادر کے معاملے پر بھی بات ہوئی جلد ہی اس معاملے کو بھی حل کرلیا جائے گا۔ ملا برادر کو افغان حکومت کے ساتھ مشاورت کے نتیجے میں رہا کیا گیا ہے ان کی ملاقاتوں پر کوئی پابندی نہیں، افغان صدرجس کو بھی چاہیں ملا برادر سے ملاقات کے لئے بھیج سکتے ہیں۔

پریس بریفنگ کے دوران افغان صدر کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم نوازشریف کو افغانستان خوش آمدید کہتے ہیں، ان کے دورہ کابل سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردی سے پاک ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر کے درمیان ون ٹو ون اور وفاد کی سطح پر مزاکرعات ہوئے جن میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات، خطے کی صورت حال، امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں