قرارداد پاکستان کے اثرات و ثمرات

عجب بات یہ تھی کہ جیسے جیسے پاکستان کا نام لکھ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ویسے ویسے پاکستان کا نام عام ہوتا جاتا۔


ایم قادر خان March 20, 2020

1930ء میں عنایت اللہ خان مشرقی نے اپنی سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر ''تحریک خاکسار'' کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد ڈالی۔ برصغیر میں مختلف مقامات پر چھوٹے بڑے سانحات سے دوچار رہی۔

19 مارچ 1940ء کو لاہور میں تحریک کو بہت بڑا سانحہ پیش آیا۔ جس میں سترہ سے زائد اس تحریک کے نوجوانوں کو حکومت برطانیہ کا حکم پر شہید کر دیا گیا۔ اس کو ایک تصادم کا نام دیا گیا جب کہ تحریکی نوجوان پر امن تھے۔ لاہور میں 22 تا 23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں جلسہ منعقد ہونا تھا۔ گلی، کوچوں، چوک، چوراہوں میں جو خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی وہاں ماتم برپا ہوگیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو جب اس امرکی اطلاع ملی تو وہ فوری20 مارچ 1940ء کو خصوصی ریل کے ذریعے دہلی سے لاہور روانہ ہوئے۔ دہلی سے لاہور تک بڑے بڑے اسٹیشنز پر ریل گاڑی ٹھہرتی رہی، ان کا نہایت والہانہ خیرمقدم ہوتا رہا۔22 مارچ 1940ء کو منٹو پارک جو آج کل مینار پاکستان ہے وہاں مسلم لیگ کا جلسہ شروع ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے گزشتہ دو سال کے سیاسی واقعات و حالات کا مفصل تجزیہ پیش کیا پھر فرمایا:ہندوؤں اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف مذہبی فلاسفی، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے ہے، نہ ان کے مابین کوئی شادیاں ہوتی ہیں، نہ یہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں دو ایسی تہذیبوں کے ماننے والے ہیں جن کی بنیاد، تصادم خیالات اور تصورات پر قائم ہے۔قرارداد 22 مارچ 1940ء کو پیش ہونی تھی پیش نہ کی جاسکی کیونکہ وزیر اعلیٰ بنگال اے کے فضل الحق اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث نہ آسکے لہٰذا قرارداد کو اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیا۔ 23 مارچ 1940ء کو وزیر اعلیٰ بنگال اے کے فضل الحق لاہور پہنچ گئے۔ جب فضل الحق اسٹیج پر پہنچے تو پورا پنڈال نعروں سے گونج اٹھا ان کو شیر بنگال کا خطاب دیا گیا۔ میں عرض کرتا چلوں اس جلسے میں خصوصی طور پر چوہدری رحمت علی بھی موجود تھے جنھوں نے پاکستان کا نام تخلیق کیا۔

یہ ہماری بدقسمتی چوہدری صاحب اپریل 1948ء کو پاکستان تشریف لائے لیکن یہاں اس وقت کے چند ایک بیوروکریٹ نے ان کو واپس روانہ کر دیا۔ 29 جنوری 1951ء کو نمونیہ کے سخت ترین عارضے میں مبتلا ہوئے یہ مسٹر ایم سی کرین کے کرایہ دار تھے۔ گھر سے ان کو اسپتال میں داخل کر دیا گیا لیکن صحت یاب نہ ہوسکے 3 فروری 1951ء بروز ہفتہ کی صبح اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ سترہ دن انھیں برطانیہ میں برف خانے میں رکھا گیا ان کا جب کوئی وارث یا ملک کا سربراہ نہ آیا تو دو مصری طلبا کے ہاتھوں 20 فروری 1951ء کو غریب الوطن کے ہاتھوں ان کے جسد خاکی کو انگلستان کے شہرکیمبرج کے قبرستان میں امانتاً دفن کردیا گیا۔

افسوس بلکہ نہایت غم انگیز بات ہے سات دہائیوں کے بعد بھی یوں دیار غیر میں چند گمنام مقبروں کے درمیان ابھی تک امانتاً دفن ہیں۔ چونکہ ان کی کوشش بھی مسلمانوں اور پاکستان بنانے میں سر فہرست رہی ہیں ان کا بڑا مقام تھا لوگ بھول جائیں لیکن تاریخ کے اوراق میں ان کا نام سنہری حروف سے رقم ہے۔ شیر بنگال فضل الحق نے قرارداد پیش کی۔

آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہندوستان میں قائم کی گئی فیڈریشن کو مسترد کرتا ہے۔ ملک میں کوئی بھی دستور اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک کہ مسلمان اس کو قبول نہ کریں۔ کوئی بھی نظام اس وقت تک قابل قبول نہ ہوگا جب تک اسلامی ریاستوں کو ملا کر خود مختار ریاستیں نہ بنائی جائیں، ان ریاستوں میں اقلیتوں کو دستوری ضمانتیں مہیا کی جائیں۔ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں جہاں مسلمان اقلیت ہیں وہاں دستور میں ان کے لیے مذہبی، ثقافتی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق مفادات کی خود اقلیتوں کے مشورے کے ذریعے حفاظت ہوسکے۔

تئیس مارچ 1940ء کو مذکورہ قرارداد پیش ہوئی اس کو منظور کرلیا گیا مسلمانوں کے لیے یہ خوشی کا دن تھا۔24 مارچ 1940ء کی صبح ملک کے تمام ہندو پریس اور انگریزی پریس ان تمام اخبارات میں نمایاں سرخیوں پر خبر شایع ہوئی کہ مسلم لیگ نے قیام پاکستان اور تقسیم ہند کا مطالبہ پیش کر دیا۔ اگرچہ ہندو پریس نے اپنی روایتی بد نیتی کے اظہارکی غرض سے یہ خبر مسلمانوں اور مسلم لیگ پر طعنہ زنی اور طنز کرتے ہوئے شایع کی۔ یہ قرارداد لاہور اس طرح قرارداد پاکستان بن گئی چونکہ چوہدری رحمت علی خان کا ایک نقطہ نظر پہلے موجود تھا جس میں انھوں نے تقسیم ہند کی بات کی تھی۔ بعد میں لوگوں نے اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کردیا۔

عجب بات یہ تھی کہ جیسے جیسے پاکستان کا نام لکھ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ویسے ویسے پاکستان کا نام عام ہوتا جاتا۔ پھر وہ وقت آیا جب مسلم لیگ نے خود پاکستان کا نام اختیارکیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان بنانے میں مسلمانوں کی جدوجہد موجود ہے وہیں ہندوؤں کا تعصب بھی ہے۔ مسلمان بچے بچے کی زبان پر اسی وقت سے ملک کے چپے چپے پر ایک ہی نعرہ تھا ''بن کر رہے گا پاکستان، لے کر رہیں گے پاکستان، زندہ باد پاکستان'' قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کو پیغام دیا کہ:

اپنی تمام کوشش عوام کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی ہوں گی۔ آپ کو آزادی ہے کہ آپ اپنی مساجد میں جائیں، اپنے مندر میں جائیں یا جو بھی آپ کی عبادت گاہیں ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں میرا انتہائی اصول ہوگا اسلام کا انصاف بغیر کسی تعصب اور نفرت، بغیر کسی جانبداری اور مفاد کے۔ ہمیں رشوت خوری کی لعنت اور اقربا پروری کے زہرکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ہم رہنمائی حاصل کریں گے ان سنہری اصولوں سے جو حضرت محمدؐ نے بتائے۔ مجھے یقین ہے آپ کی مدد سے وہ دن ایک سنہرا دن دور نہیں جب پاکستان پوری دنیا کے نقشے پر ایک اعلیٰ حیثیت کا حامل ہوگا۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے خداداد صلاحیت، فہم و فراست، عظم وجرأت، یقین محکم، عمل پیہم سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت پاکستان نمایاں کیا۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر تمام مسلمان متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ڈیول نے مسلم لیگ ، پاکستان کی مقبولیت اور دیگر جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کے لیے انتخابات کرائے۔ انگریزوں کی ایما پر بننے والے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ مسلم لیگ مسلمانان ہند کی باقاعدہ جماعت بن کر ابھری اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب ہوگئی۔ اکتوبر 1946ء میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔

علما دین کی قیادت نوابزادہ خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتوں، ایوانوں، مجلس، میں قائد اعظم مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور قیام پاکستان کے لیے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے۔ دوسری طرف مسلم کش فسادات نے جنم لیا ان فسادات میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ 3 جون کو تقسیم ہند کا اعلان کیا گیا 14 اگست 1947ء مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی۔ 23 مارچ کا دن اہل پاکستان کو اس جذبہ لاکھوں مسلم شہادت کی یاد دلاتا ہے جو قیام پاکستان کا باعث بنا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں