امریکی اِنخلا اور ممکنہ خانہ جنگی
پاکستان کی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو آنے والے خطرے سے آگاہ ہو کر فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
پچھلے کالم میں کہا گیا تھا کہ کابل میں دو متوازی حکومتوں کا قیام افسوس ناک ڈویلپمنٹ ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا ہونے جا رہا ہے۔ اس پر میرے ایک نہایت ہی معزز قاری اور دوست جن کی پاکستانی سیاست اور خطے کی صورتحال پر گہری نگاہ رہتی ہے اور جو اپنے بے لاگ تبصروںسے نوازتے رہتے ہیں، انھوں نے میرے پچھلے کالم پر درج ذیل تبصرہ کیا ہے
''پورے کالم میں آپ جسے اچھی خبر گنوا رہے ہیں، وہ مجھے سب سے زیادہ خوفناک لگی۔ امریکی انخلا ایک خوفناک انٹرا افغان جنگ کا آغاز ہو گا۔''
میرے محترم قاری جناب مسعود ملک کا یہ تبصرہ بہت ہی لائقِ تحسین اور توجہ طلب ہے۔ اس تبصرے میں کافی وزن ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں کوئی ایک ایسی قد آور شخصیت اس وقت موجود نہیں جس کا اقتدارِ اعلیٰ سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ جو اتنی اہم اور بزرگ تر ہو کہ سب اس کی بات سنتے، مانتے اور اپنی گردن اس کے سامنے جھکا دیتے ہوں۔ یہی حال افغانستان کی سیاسی پارٹیوں اور گروہوں کا ہے۔ کوئی ایک بھی پان افغان پارٹی یا گروہ نہیں جس کی جڑیں سارے افغانستان میں پھیلی ہوں اور سب اس پارٹی کی قیادت کو مانتے ہوں۔ یہ ساری باتیں میرے پچھلے کئی ایک کالموں میں لکھی جا چکی ہیں اور افغان قیادت کو درپیش چیلنجز کا کئی بار ذکر ہو چکا ہے۔
افغانستان میں قبائل بہت اہم ہیں، قبائلی نظام اور قبائلی کلچر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ افغان باہمی مخاصمت کی ایک بڑی وجہ قبائلی نظام ہے۔ وہ جو کسی بھی حوالے سے بھی اتھارٹی میں ہیں وہ اپنے قبیلے، رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازتے اور دوسروں کر محروم رکھتے ہیں۔ وہ تمام ذرایع پر اپنا اور اپنے قبیلے، رشتے داروں اور دوستوں کا قبضہ چاہتے ہیں۔ یہیں سے نزاع اور قتل و غارت جنم لیتی ہے۔ لیڈر شپ کے اندر ویژن ہو، مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت ہو اور قربانی کا جذبہ ہو تو تمام منفی باتیں دب جاتی ہیں یا پنپ ہی نہیں پاتیں لیکن بدقسمتی سے اس وقت افغان لیڈر شپ میں ایسی دور اندیش، معاملہ فہم اور قربانی کے جذبے سے سرشار قیادت نظر نہیں آ رہی۔
افغانستان میں جھگڑے کی ایک وجہ فرقہ واریت بھی ہے۔ افغانستان کی ایک بہت بڑی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ افغان طالبان کے حمایتوں کو چھوڑ کر باقی تمام حلقوں میں طالبان حکومت کی واپسی پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک تو طالبان پشتون ہیں ساتھ ساتھ وہ ایک مخصوص مذہبی بیانیہ لے کر ابھرے تھے جس کو عمومی طور پر دنیا نے شدت پسند بیانیے سے تعبیر کیا، انھوں نے باقی قومیتوں اور فرقوں کو ناراض ہونے دیا۔ بامیان میں انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل بدھ مجسموں کو تباہ کرنا اور ساری دنیا کی مخالفت مُول لینا اس کی ایک مثال ہے۔ طالبان حکومت کی واپسی سے باقی طبقے اسی شدت پسندی کی وجہ سے خائف ہیں۔
شدت پسندی کے ساتھ طالبان چونکہ پشتون ہیں اس لیے اُن کی حکومت پشتون گردانے جانے کی وجہ سے تمام طبقوں کے لیے پسندیدہ نہیں ہو سکتی اور نان پشتونوں سے جب تک شراکت داری کا کوئی قابلِ قبول فارمولا طے نہیں پاتا مخاصمت کی فضاء قائم رہے گی۔ افغانستان کے اندر طالبان ، اشرف غنی اور عبداﷲ کے دھڑوں کے علاوہ جو سیاسی پارٹیاں پائی جاتی ہیں ان میں ایک عبدالرشید دوستم کی جنبشِ ملی اسلامی ہے جس کو آپ ازبک سیاسی پارٹی کہہ سکتے ہیں۔
2009 میں جب انتخابات میں دوستم نے حامد کرزئی کی حمایت کی تو حامد کرزئی ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے اور دوستم کو قومی یکجہتی کی علامت قرار دیا لیکن جب دوستم نے اپنی حمایت واپس لے لی تو وہی دوستم صدر کی نظروں میں غدار اور علیحدگی پسند جانا گیا، اسلامی شیعہ پارٹیوں کو صرف اور صرف ہزارہ لوگوںکی ہی حمایت حاصل ہے، ہزارہ کے علاوہ کوئی بھی قابلِ ذکر گروہ ان میں شامل نہیں یوں زیادہ طبقوں، گروہوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔
ادھر ایران یہ چاہتا تھا کہ امریکا افغانستان میں پھنسا رہے۔ امریکا کا خون بہتا رہے کیونکہ ایران امریکا اور نیٹو کو یہاں فیل ہوتا دیکھنا چاہتا تھا لیکن موجودہ تناظر میں شاید خطے کے تمام ممالک بشمول ایران امریکی انخلا کے حق میں ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ ہزارہ قبائل ایران یا وسط ایشیائی لوگ نہیں بلکہ یہ پاکستان سے ملحق چین کے اندر مسلمان صوبوں سے مختلف اوقات میں افغانستان آنے والے لوگ ہیں، ہزارہ افغانستان میں تیسرا بڑا لسانی گروہ ہیں، اس کیمونٹی کی کئی شخصیات اس وقت اہم حکومتی عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ افغانستان کے اندر لسانی اور قبائلی وابستگی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ میرے معزز قاری کی آبزرویشن کہ امریکی انخلا خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتا ہے، کے اندر بہت وزن ہے۔
میرے ایک اور معزز و مکرم قاری جو عملی سیاست میں بہت فعال ہیں اور ہمارے بہادر اور نڈر بھائیوں کے صوبے خیبر پختون خوا کے گورنر رہ چکے ہیں، انھوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ طالبان کی کامیابی سے پاکستان میں طالبان کو حوصلہ مل رہا ہے، دونوں اصل میں ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، وہ ابھی ابھی اپنے علاقے میں رہ کر واپس اسلام آباد پلٹے ہیں، ان کے خیال کے مطابق پاکستانی طالبان نے پہلے ہی اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں اور وہ اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ ان کی بڑھتی سرگرمیوں کی وجہ سے افغانستان سے ملحق پاکستانی علاقوں کے اندر تشویش بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو آنے والے خطرے سے آگاہ ہو کر فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ میرے معزز قاری نے مزید کہا کہ افغانستان کے اندر کوئی بھی ڈویلپمنٹ دیرپا نہیں ہوتی، صورتحال ہر آن تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ کیاآپ اس بات کو نہیں مانتے کہ دو باتیں افغانستان میںبڑی حقیقت بن گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ اور دوسرا یہ کہ افغان طالبان، افغان سیاست میں سب سے بڑی اور وزنی اکائی بن چکے ہیں۔ اس پر وہ مسکرا دیے، انھوں نے مزید کہا کہ ایک بات طے ہے کہ افغان حکومت میں طالبان کی غالب حیثیت میں شمولیت کی صورت میں بھارت کا کردار نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا اور یہ پاکستان کے لیے ایک خوش آیند پیشرفت ہو گی۔
قارئینِ کرام !کورونا وائرس پوری دنیا میں ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے، ہمیں اس سے بچنے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا، تمام انتظامی اقدامات کی پاسداری کرنی ہے۔ آپ اپنا بہت زیادہ خیال رکھیں، انشااﷲ ہم جلدی ہی اس وبا سے نجات حاصل کر لیں گے۔
''پورے کالم میں آپ جسے اچھی خبر گنوا رہے ہیں، وہ مجھے سب سے زیادہ خوفناک لگی۔ امریکی انخلا ایک خوفناک انٹرا افغان جنگ کا آغاز ہو گا۔''
میرے محترم قاری جناب مسعود ملک کا یہ تبصرہ بہت ہی لائقِ تحسین اور توجہ طلب ہے۔ اس تبصرے میں کافی وزن ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں کوئی ایک ایسی قد آور شخصیت اس وقت موجود نہیں جس کا اقتدارِ اعلیٰ سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ جو اتنی اہم اور بزرگ تر ہو کہ سب اس کی بات سنتے، مانتے اور اپنی گردن اس کے سامنے جھکا دیتے ہوں۔ یہی حال افغانستان کی سیاسی پارٹیوں اور گروہوں کا ہے۔ کوئی ایک بھی پان افغان پارٹی یا گروہ نہیں جس کی جڑیں سارے افغانستان میں پھیلی ہوں اور سب اس پارٹی کی قیادت کو مانتے ہوں۔ یہ ساری باتیں میرے پچھلے کئی ایک کالموں میں لکھی جا چکی ہیں اور افغان قیادت کو درپیش چیلنجز کا کئی بار ذکر ہو چکا ہے۔
افغانستان میں قبائل بہت اہم ہیں، قبائلی نظام اور قبائلی کلچر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ افغان باہمی مخاصمت کی ایک بڑی وجہ قبائلی نظام ہے۔ وہ جو کسی بھی حوالے سے بھی اتھارٹی میں ہیں وہ اپنے قبیلے، رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازتے اور دوسروں کر محروم رکھتے ہیں۔ وہ تمام ذرایع پر اپنا اور اپنے قبیلے، رشتے داروں اور دوستوں کا قبضہ چاہتے ہیں۔ یہیں سے نزاع اور قتل و غارت جنم لیتی ہے۔ لیڈر شپ کے اندر ویژن ہو، مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت ہو اور قربانی کا جذبہ ہو تو تمام منفی باتیں دب جاتی ہیں یا پنپ ہی نہیں پاتیں لیکن بدقسمتی سے اس وقت افغان لیڈر شپ میں ایسی دور اندیش، معاملہ فہم اور قربانی کے جذبے سے سرشار قیادت نظر نہیں آ رہی۔
افغانستان میں جھگڑے کی ایک وجہ فرقہ واریت بھی ہے۔ افغانستان کی ایک بہت بڑی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ افغان طالبان کے حمایتوں کو چھوڑ کر باقی تمام حلقوں میں طالبان حکومت کی واپسی پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک تو طالبان پشتون ہیں ساتھ ساتھ وہ ایک مخصوص مذہبی بیانیہ لے کر ابھرے تھے جس کو عمومی طور پر دنیا نے شدت پسند بیانیے سے تعبیر کیا، انھوں نے باقی قومیتوں اور فرقوں کو ناراض ہونے دیا۔ بامیان میں انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل بدھ مجسموں کو تباہ کرنا اور ساری دنیا کی مخالفت مُول لینا اس کی ایک مثال ہے۔ طالبان حکومت کی واپسی سے باقی طبقے اسی شدت پسندی کی وجہ سے خائف ہیں۔
شدت پسندی کے ساتھ طالبان چونکہ پشتون ہیں اس لیے اُن کی حکومت پشتون گردانے جانے کی وجہ سے تمام طبقوں کے لیے پسندیدہ نہیں ہو سکتی اور نان پشتونوں سے جب تک شراکت داری کا کوئی قابلِ قبول فارمولا طے نہیں پاتا مخاصمت کی فضاء قائم رہے گی۔ افغانستان کے اندر طالبان ، اشرف غنی اور عبداﷲ کے دھڑوں کے علاوہ جو سیاسی پارٹیاں پائی جاتی ہیں ان میں ایک عبدالرشید دوستم کی جنبشِ ملی اسلامی ہے جس کو آپ ازبک سیاسی پارٹی کہہ سکتے ہیں۔
2009 میں جب انتخابات میں دوستم نے حامد کرزئی کی حمایت کی تو حامد کرزئی ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے اور دوستم کو قومی یکجہتی کی علامت قرار دیا لیکن جب دوستم نے اپنی حمایت واپس لے لی تو وہی دوستم صدر کی نظروں میں غدار اور علیحدگی پسند جانا گیا، اسلامی شیعہ پارٹیوں کو صرف اور صرف ہزارہ لوگوںکی ہی حمایت حاصل ہے، ہزارہ کے علاوہ کوئی بھی قابلِ ذکر گروہ ان میں شامل نہیں یوں زیادہ طبقوں، گروہوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔
ادھر ایران یہ چاہتا تھا کہ امریکا افغانستان میں پھنسا رہے۔ امریکا کا خون بہتا رہے کیونکہ ایران امریکا اور نیٹو کو یہاں فیل ہوتا دیکھنا چاہتا تھا لیکن موجودہ تناظر میں شاید خطے کے تمام ممالک بشمول ایران امریکی انخلا کے حق میں ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ ہزارہ قبائل ایران یا وسط ایشیائی لوگ نہیں بلکہ یہ پاکستان سے ملحق چین کے اندر مسلمان صوبوں سے مختلف اوقات میں افغانستان آنے والے لوگ ہیں، ہزارہ افغانستان میں تیسرا بڑا لسانی گروہ ہیں، اس کیمونٹی کی کئی شخصیات اس وقت اہم حکومتی عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ افغانستان کے اندر لسانی اور قبائلی وابستگی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ میرے معزز قاری کی آبزرویشن کہ امریکی انخلا خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتا ہے، کے اندر بہت وزن ہے۔
میرے ایک اور معزز و مکرم قاری جو عملی سیاست میں بہت فعال ہیں اور ہمارے بہادر اور نڈر بھائیوں کے صوبے خیبر پختون خوا کے گورنر رہ چکے ہیں، انھوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ طالبان کی کامیابی سے پاکستان میں طالبان کو حوصلہ مل رہا ہے، دونوں اصل میں ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، وہ ابھی ابھی اپنے علاقے میں رہ کر واپس اسلام آباد پلٹے ہیں، ان کے خیال کے مطابق پاکستانی طالبان نے پہلے ہی اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں اور وہ اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ ان کی بڑھتی سرگرمیوں کی وجہ سے افغانستان سے ملحق پاکستانی علاقوں کے اندر تشویش بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو آنے والے خطرے سے آگاہ ہو کر فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ میرے معزز قاری نے مزید کہا کہ افغانستان کے اندر کوئی بھی ڈویلپمنٹ دیرپا نہیں ہوتی، صورتحال ہر آن تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ کیاآپ اس بات کو نہیں مانتے کہ دو باتیں افغانستان میںبڑی حقیقت بن گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ اور دوسرا یہ کہ افغان طالبان، افغان سیاست میں سب سے بڑی اور وزنی اکائی بن چکے ہیں۔ اس پر وہ مسکرا دیے، انھوں نے مزید کہا کہ ایک بات طے ہے کہ افغان حکومت میں طالبان کی غالب حیثیت میں شمولیت کی صورت میں بھارت کا کردار نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا اور یہ پاکستان کے لیے ایک خوش آیند پیشرفت ہو گی۔
قارئینِ کرام !کورونا وائرس پوری دنیا میں ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے، ہمیں اس سے بچنے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا، تمام انتظامی اقدامات کی پاسداری کرنی ہے۔ آپ اپنا بہت زیادہ خیال رکھیں، انشااﷲ ہم جلدی ہی اس وبا سے نجات حاصل کر لیں گے۔