کورونا مسٹر مودی کے کام آ گیا
نسلی اور جنگی جنون نے مسٹر مودی کو دنیا میں رسوا تو کردیا ہے۔
1955کی گرمیوں کے ابتدائی دن تھے اور اسکولوں کی چھٹیاں تھیں، مجھے خاندان کے ہمراہ دریائے سندھ کے دہانے پر ایک گاؤں میں اپنے نانا مولوی سید فقیر حسین رضوی کے گھر جانے کا موقع ملا۔ اردگرد کی ماحولیاتی خوبصورتی، دریائے سندھ کے پل سے گزرتا پانی ، پرندوں کی چہچہاہٹ ، کھجور اور خرمے کے باغات ، فالسے کے چھوٹے چھوٹے درخت نما کھیت کو دیکھنے اور چکھنے کا موقع ملا۔
میرے چھوٹے ماموں دن بھر تفریح کرواتے اور شام ہوتے ہی نماز مغربین کے بعد مجھے پہاڑے یاد کرواتے تھے اورکہانیاں سناتے تھے۔ انھی دنوں کوئی اسلامی متبرک مہینہ بھی آ گیا جو مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ وہ ماہ رجب تھا یا ماہ ربیع الاول تھا۔ اس کی چھوٹی موٹی تقریبات گھر میں ہونے لگیں، گھر کافی بڑا تھا۔ ایک کمرے میں تو کوئی رہتا بھی نہ تھا۔ چھت کو سہارا لکڑی کی موٹے دھرنوں سے لیا جاتا تھا۔ تو پھر ایک شب ایسی آئی کہ گھر میں لوبان اگربتی، موتیے اور چنبیلی کے پھول ہرکمرے میں لگائے گئے۔
رات کے آٹھ بجے کا وقت ہوا کچھ دیر کے بعد میں نے چنبیلی اور موتیے کا عطر گھرکی چوکھٹوں پر لگا دیا۔ جس پر مجھے ڈانٹ بھی پڑی جیسے ہی عطر لگایا تو پھڑپھڑاہٹ کی آواز کمرے میں آنے لگی۔ میں ڈر کر رونے لگا۔ نانی اور ماموں دوڑتے ہوئے آئے اور ماموں نے کہا یہ چمگادڑیں ہیں جنھیں انگریزی میں بیٹ (BAT) کہا جاتا ہے، یہ چنبیلی اور موتیے سے دور بھاگتی ہیں اور زیادہ خوشبو ہو تو مر بھی جاتی ہیں۔
رات کو یہ چھوٹے کیڑوں کا شکار کرتے ہیں۔ سورج کی روشنی سے دور بھاگتے ہیں اور الٹا لٹک کر سوتے ہیں۔ عام طور سے لفظ ''کورونا'' کراؤن یا تاج کا اختصاری نام ہے۔ پرانے وقتوں میں کورونا نام کی ایک گاڑی بھی آتی تھی اور یہ اٹلی کے ایک علاقے کا نام ہے اور یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی حلقے یا ہالے کے بھی ہیں۔ کیونکہ چمگادڑ کے دونوں کان بلند اور بیچ میں تاج کی سی جگہ ہے۔ اس لیے بعض لوگوں نے اس کا نام کورونا رکھ دیا اور چونکہ چین میں غذائی لحاظ سے حرام وحلال کا کوئی تصور نہ تھا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جس شخص نے چمگادڑ کھائی اس کو یہ مرض ہو گیا، یہ کوئی مصدقہ بات نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض افواہ ہی ہو کہ یہ مرض چمگادڑ کے وائرس سے پھیلا ہے۔
ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کے بانی اور سابق وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی سوویں سالگرہ پر مسٹر مودی کو مدعوکرنا چاہا تو بنگلہ دیش کے عوام جس میں بائیں بازو کے انقلابیوں نے زبردست مزاحمت کا پروگرام بنایا۔ یہاں تک کہ پروگرام میں یہ بھی طے کیا گیا کہ ایئرویزکے کارکن بنگلہ دیش کے جہازکے رن وے پر لیٹ جائیں گے۔ ان میں دائیں اور بائیں کی علیحدگی پسندی نہ تھی ، بلکہ سب اس بات پر متفق تھے کہ دہلی کے مسلمانوں کا قاتل بنگلہ دیش کی سر زمین پر قدم نہیں رکھ سکے گا اور وزیر اعظم مودی کی آمد سے قبل ہی آنسوگیس اور لاٹھی چارج بنگلہ دیش کی گلی گلی میں شروع ہوگیا۔
اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام کا سیاسی شعور اس قدر بلند ہے کہ وہ دہلی کے مسلمانوں کے قاتلوں کو بنگلہ دیش کی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دیں گے گوکہ ان مظاہروں میں سیکڑوں لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے زخمی بھی ہوئے۔ لیکن مودی کی آمد کے مرحلے پر عوام جان پر کھیلنے کو تیار تھے۔ یہ توکہیے کہ کورونا وائرس کا ایک عذرلنگ دونوں وزرائے اعظم کو مل گیا اور یہ دورہ ملتوی ہوگیا۔ اس سے قبل مسٹر مودی مغربی بنگال بھی گئے تھے کہ وہ اپنے نئے قانون کی تشہیر کرسکیں، مگر مغربی بنگال کے جیالے بھی سڑکوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ اس طرح مسٹر مودی کا نیا قانون شہریت دربدر ہوگیا۔ جس طرح کورونا خوشبو سے نیم جاں ہوجاتا ہے خصوصاً چنبیلی اور موتیے سے۔ اس طرح مسٹر مودی کشمیر سے دہلی تک احتجاج کی جو لہریں چلی ہیں، اس سے وہ بھی نیم جاں ہوگئے۔
اور خاص طور سے دلی کی ان خواتین کو سلام جو اتنی قدامت پرست تھیں کہ ان میں سے بعض نے تو آسمان بھی نہ دیکھا۔ اب یہ خواتین سولہ دسمبر سے آج تک سردیوں میں شاہین باغ میں دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ اپنے اہل خانہ کو سرد لہروں کے ساتھ ساتھ خوشبو سے معطر کر رہی ہیں۔ اور ان کے کھانے پینے کا انتظام بھارت کے پنجاب کی سکھ برادری کر رہی ہے۔ ذرا غور سے سنیے چائے دن بھر چلتی ہے اور چار ہزار لوگوں کا طعام و قیام ہے۔ ان خواتین کو ملیشیا سے لے کر مشرقی یورپ، مغربی یورپ، کینیڈا اور امریکا سے لوگ سوغات بھیج رہے ہیں کیونکہ ان کی قربانی یہ صاف صاف بتا رہی ہے۔ بقول علامہ اقبال کے:
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
مگر افسوس اس بات کا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جب مسلمانوں پر جبل پور میں ظلم ڈھایا گیا تو کراچی کے طالب علموں نے جو بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے شہرکو ہلا کر رکھ دیا۔ سوئے ہوئے مہاجروں کو جگا دیا۔
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
اس کے مکینوں کو برنس روڈ اور ڈی جے سائنس کالج اور ایس ایم لا کالج کی سڑکوں پر ہفتوں پولیس کی لاٹھیوں کو آزماتے رہے مگر افسوس بھارت کے مسلم کش قوانین کے خلاف پاکستان کے کسی شہر میں کوئی جماعت بھی کھڑی نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ جو خود کو مہاجر کہتے ہیں اور جن کے کچھ لخت کشمیر، دہلی، بہار، لکھنو اور حیدرآباد دکن میں بھی رہ گئے ہیں۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ لوگ بے حس نہیں ہوئے، لیکن جو بھی انجمنیں خلاف قانون قرار دے دی گئیں ان کی چراغ رسانی نہ رہی یہ ملک کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔ جس طرح چنبیلی اور موتیے کی مہک اور لوبان کے دھوئیں سے وائرس فنا ہوتے ہیں یا راستے بدل دیتے ہیں اسی طرح طلبا یونینوں کے آتشیں نعروں کی دہک سے عفریتی حیوانی قوتیں جو انسانوں کے افکار میں بسیرا کرتی ہیں وہ بھی پژمردہ ہو جاتی ہیں۔
بنگلہ دیش کے ذی شعور عوام اور طلبا یونینوں کے ہم مشکور ہیں کہ انھوں نے مودی کو ان کی اوقات یاد دلادی ہے۔ یہ تحریر کرتے ہوئے یہ مصرع بھی زیر لب آتا ہے:
کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
آخر کبھی تو وہ دن آئے گا جب عداوتوں کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی اور سارک ممالک مل بیٹھ کر اپنے دیرینہ مسائل اور غربت کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدام کریں گے۔ جب لوگ روبرو ایک دوسرے کے رہنما سے گفتگوکریں گے اور ایسا لگے گا۔ سارک ممالک کے ارکان محض سارک کے نام سے نہیں بلکہ ساتھیوں کے رشتوں سے جڑے ہیں۔ ان رشتوں سے جو صدیوں پرانے ہیں۔ جن کے شعرا بھی ایک ہیں۔
آج بھی سارک ممالک نے اگر نصاب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اردو زبان ہر شخص سمجھتا ہے بلکہ اس کا ثبوت بھارت کے مظاہروں میں بھی سامنے آیا جس میں کلام اقبال ، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے انقلابی ترانے بھارت کے سترہ شہروں میں گائے جا رہے تھے اور اردو نصاب کے اعتبار سے میر و غالب ، آتش و مومن اور نعت و مرثیوں کے شاعر انیس ودبیر کا کلام اردو زبان میں موجود ہے۔ گویا تقسیم ہند سے قبل ہر شے کا نصف طلب گار پاکستان بھی تھا۔ جس کا بٹوارہ بھارت نے ایمان فروشی سے کیا۔
خیر ! یہی بہت ہے کہ بھارت کے کئی صوبوں میں اردو زبان سرکاری زبان کی حیثیت سے موجود ہے۔ سلام عظمت ہو قائد اعظم محمد علی جناح کو جنھوں نے تین بار دہرا کر یہ لفظ کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہوگی۔ ذرا غور تو کیجیے اس قول کے پیچھے کتنی بڑی ذہانت اور نفاست موجود تھی کیونکہ انگریزی کے ہر لفظ کو من و عن انگریزی تلفظ کے ساتھ تحریرکیا جاسکتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اس موقع کا بعض اخبارات نے ناجائز فائدہ اٹھا رکھا ہے۔ لیکن ہمیں اس بات پر خوشی ضرور ہے کہ مودی کو اتنا تو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اپنے موذی پن سے باز رہے اور انھوں نے علاقائی خطے کی سارک ممالک کی الیکٹرانک کانفرنس کا اہتمام کیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ کانفرنس روبرو ہوتی اور سرحدیں ایسی کھلی رہ جاتیں جیسی مغربی ممالک کی ہیں۔ نسلی اور جنگی جنون نے مسٹر مودی کو دنیا میں رسوا تو کردیا ہے اور بھارت کی سکھ برادری اور تعلیم یافتہ ہندوؤں نے انھیں شہریت کے نئے قوانین میں یکجان ہوکر بھارتی پولیس کے وحشیانہ مظالم کو پسپا کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مختلف ریاستوں میں بھارتی شہریت کے موجودہ قوانین کے خلاف بھارتی دانشور صف اول کے مجاہد بن کر سامنے کھڑے ہیں اور پوری دنیا کے اخبارات نے اس شق کو متعصبانہ اور ظالمانہ قرار دیا اور اب وہ دن دور نہیں کہ رکھے رکھے یہ شق یوں ہی چت ہوجائے گی۔
میرے چھوٹے ماموں دن بھر تفریح کرواتے اور شام ہوتے ہی نماز مغربین کے بعد مجھے پہاڑے یاد کرواتے تھے اورکہانیاں سناتے تھے۔ انھی دنوں کوئی اسلامی متبرک مہینہ بھی آ گیا جو مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ وہ ماہ رجب تھا یا ماہ ربیع الاول تھا۔ اس کی چھوٹی موٹی تقریبات گھر میں ہونے لگیں، گھر کافی بڑا تھا۔ ایک کمرے میں تو کوئی رہتا بھی نہ تھا۔ چھت کو سہارا لکڑی کی موٹے دھرنوں سے لیا جاتا تھا۔ تو پھر ایک شب ایسی آئی کہ گھر میں لوبان اگربتی، موتیے اور چنبیلی کے پھول ہرکمرے میں لگائے گئے۔
رات کے آٹھ بجے کا وقت ہوا کچھ دیر کے بعد میں نے چنبیلی اور موتیے کا عطر گھرکی چوکھٹوں پر لگا دیا۔ جس پر مجھے ڈانٹ بھی پڑی جیسے ہی عطر لگایا تو پھڑپھڑاہٹ کی آواز کمرے میں آنے لگی۔ میں ڈر کر رونے لگا۔ نانی اور ماموں دوڑتے ہوئے آئے اور ماموں نے کہا یہ چمگادڑیں ہیں جنھیں انگریزی میں بیٹ (BAT) کہا جاتا ہے، یہ چنبیلی اور موتیے سے دور بھاگتی ہیں اور زیادہ خوشبو ہو تو مر بھی جاتی ہیں۔
رات کو یہ چھوٹے کیڑوں کا شکار کرتے ہیں۔ سورج کی روشنی سے دور بھاگتے ہیں اور الٹا لٹک کر سوتے ہیں۔ عام طور سے لفظ ''کورونا'' کراؤن یا تاج کا اختصاری نام ہے۔ پرانے وقتوں میں کورونا نام کی ایک گاڑی بھی آتی تھی اور یہ اٹلی کے ایک علاقے کا نام ہے اور یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی حلقے یا ہالے کے بھی ہیں۔ کیونکہ چمگادڑ کے دونوں کان بلند اور بیچ میں تاج کی سی جگہ ہے۔ اس لیے بعض لوگوں نے اس کا نام کورونا رکھ دیا اور چونکہ چین میں غذائی لحاظ سے حرام وحلال کا کوئی تصور نہ تھا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جس شخص نے چمگادڑ کھائی اس کو یہ مرض ہو گیا، یہ کوئی مصدقہ بات نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض افواہ ہی ہو کہ یہ مرض چمگادڑ کے وائرس سے پھیلا ہے۔
ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کے بانی اور سابق وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی سوویں سالگرہ پر مسٹر مودی کو مدعوکرنا چاہا تو بنگلہ دیش کے عوام جس میں بائیں بازو کے انقلابیوں نے زبردست مزاحمت کا پروگرام بنایا۔ یہاں تک کہ پروگرام میں یہ بھی طے کیا گیا کہ ایئرویزکے کارکن بنگلہ دیش کے جہازکے رن وے پر لیٹ جائیں گے۔ ان میں دائیں اور بائیں کی علیحدگی پسندی نہ تھی ، بلکہ سب اس بات پر متفق تھے کہ دہلی کے مسلمانوں کا قاتل بنگلہ دیش کی سر زمین پر قدم نہیں رکھ سکے گا اور وزیر اعظم مودی کی آمد سے قبل ہی آنسوگیس اور لاٹھی چارج بنگلہ دیش کی گلی گلی میں شروع ہوگیا۔
اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام کا سیاسی شعور اس قدر بلند ہے کہ وہ دہلی کے مسلمانوں کے قاتلوں کو بنگلہ دیش کی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دیں گے گوکہ ان مظاہروں میں سیکڑوں لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے زخمی بھی ہوئے۔ لیکن مودی کی آمد کے مرحلے پر عوام جان پر کھیلنے کو تیار تھے۔ یہ توکہیے کہ کورونا وائرس کا ایک عذرلنگ دونوں وزرائے اعظم کو مل گیا اور یہ دورہ ملتوی ہوگیا۔ اس سے قبل مسٹر مودی مغربی بنگال بھی گئے تھے کہ وہ اپنے نئے قانون کی تشہیر کرسکیں، مگر مغربی بنگال کے جیالے بھی سڑکوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ اس طرح مسٹر مودی کا نیا قانون شہریت دربدر ہوگیا۔ جس طرح کورونا خوشبو سے نیم جاں ہوجاتا ہے خصوصاً چنبیلی اور موتیے سے۔ اس طرح مسٹر مودی کشمیر سے دہلی تک احتجاج کی جو لہریں چلی ہیں، اس سے وہ بھی نیم جاں ہوگئے۔
اور خاص طور سے دلی کی ان خواتین کو سلام جو اتنی قدامت پرست تھیں کہ ان میں سے بعض نے تو آسمان بھی نہ دیکھا۔ اب یہ خواتین سولہ دسمبر سے آج تک سردیوں میں شاہین باغ میں دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ اپنے اہل خانہ کو سرد لہروں کے ساتھ ساتھ خوشبو سے معطر کر رہی ہیں۔ اور ان کے کھانے پینے کا انتظام بھارت کے پنجاب کی سکھ برادری کر رہی ہے۔ ذرا غور سے سنیے چائے دن بھر چلتی ہے اور چار ہزار لوگوں کا طعام و قیام ہے۔ ان خواتین کو ملیشیا سے لے کر مشرقی یورپ، مغربی یورپ، کینیڈا اور امریکا سے لوگ سوغات بھیج رہے ہیں کیونکہ ان کی قربانی یہ صاف صاف بتا رہی ہے۔ بقول علامہ اقبال کے:
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
مگر افسوس اس بات کا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جب مسلمانوں پر جبل پور میں ظلم ڈھایا گیا تو کراچی کے طالب علموں نے جو بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے شہرکو ہلا کر رکھ دیا۔ سوئے ہوئے مہاجروں کو جگا دیا۔
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
اس کے مکینوں کو برنس روڈ اور ڈی جے سائنس کالج اور ایس ایم لا کالج کی سڑکوں پر ہفتوں پولیس کی لاٹھیوں کو آزماتے رہے مگر افسوس بھارت کے مسلم کش قوانین کے خلاف پاکستان کے کسی شہر میں کوئی جماعت بھی کھڑی نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ جو خود کو مہاجر کہتے ہیں اور جن کے کچھ لخت کشمیر، دہلی، بہار، لکھنو اور حیدرآباد دکن میں بھی رہ گئے ہیں۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ لوگ بے حس نہیں ہوئے، لیکن جو بھی انجمنیں خلاف قانون قرار دے دی گئیں ان کی چراغ رسانی نہ رہی یہ ملک کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔ جس طرح چنبیلی اور موتیے کی مہک اور لوبان کے دھوئیں سے وائرس فنا ہوتے ہیں یا راستے بدل دیتے ہیں اسی طرح طلبا یونینوں کے آتشیں نعروں کی دہک سے عفریتی حیوانی قوتیں جو انسانوں کے افکار میں بسیرا کرتی ہیں وہ بھی پژمردہ ہو جاتی ہیں۔
بنگلہ دیش کے ذی شعور عوام اور طلبا یونینوں کے ہم مشکور ہیں کہ انھوں نے مودی کو ان کی اوقات یاد دلادی ہے۔ یہ تحریر کرتے ہوئے یہ مصرع بھی زیر لب آتا ہے:
کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
آخر کبھی تو وہ دن آئے گا جب عداوتوں کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی اور سارک ممالک مل بیٹھ کر اپنے دیرینہ مسائل اور غربت کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدام کریں گے۔ جب لوگ روبرو ایک دوسرے کے رہنما سے گفتگوکریں گے اور ایسا لگے گا۔ سارک ممالک کے ارکان محض سارک کے نام سے نہیں بلکہ ساتھیوں کے رشتوں سے جڑے ہیں۔ ان رشتوں سے جو صدیوں پرانے ہیں۔ جن کے شعرا بھی ایک ہیں۔
آج بھی سارک ممالک نے اگر نصاب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اردو زبان ہر شخص سمجھتا ہے بلکہ اس کا ثبوت بھارت کے مظاہروں میں بھی سامنے آیا جس میں کلام اقبال ، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے انقلابی ترانے بھارت کے سترہ شہروں میں گائے جا رہے تھے اور اردو نصاب کے اعتبار سے میر و غالب ، آتش و مومن اور نعت و مرثیوں کے شاعر انیس ودبیر کا کلام اردو زبان میں موجود ہے۔ گویا تقسیم ہند سے قبل ہر شے کا نصف طلب گار پاکستان بھی تھا۔ جس کا بٹوارہ بھارت نے ایمان فروشی سے کیا۔
خیر ! یہی بہت ہے کہ بھارت کے کئی صوبوں میں اردو زبان سرکاری زبان کی حیثیت سے موجود ہے۔ سلام عظمت ہو قائد اعظم محمد علی جناح کو جنھوں نے تین بار دہرا کر یہ لفظ کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہوگی۔ ذرا غور تو کیجیے اس قول کے پیچھے کتنی بڑی ذہانت اور نفاست موجود تھی کیونکہ انگریزی کے ہر لفظ کو من و عن انگریزی تلفظ کے ساتھ تحریرکیا جاسکتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اس موقع کا بعض اخبارات نے ناجائز فائدہ اٹھا رکھا ہے۔ لیکن ہمیں اس بات پر خوشی ضرور ہے کہ مودی کو اتنا تو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اپنے موذی پن سے باز رہے اور انھوں نے علاقائی خطے کی سارک ممالک کی الیکٹرانک کانفرنس کا اہتمام کیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ کانفرنس روبرو ہوتی اور سرحدیں ایسی کھلی رہ جاتیں جیسی مغربی ممالک کی ہیں۔ نسلی اور جنگی جنون نے مسٹر مودی کو دنیا میں رسوا تو کردیا ہے اور بھارت کی سکھ برادری اور تعلیم یافتہ ہندوؤں نے انھیں شہریت کے نئے قوانین میں یکجان ہوکر بھارتی پولیس کے وحشیانہ مظالم کو پسپا کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مختلف ریاستوں میں بھارتی شہریت کے موجودہ قوانین کے خلاف بھارتی دانشور صف اول کے مجاہد بن کر سامنے کھڑے ہیں اور پوری دنیا کے اخبارات نے اس شق کو متعصبانہ اور ظالمانہ قرار دیا اور اب وہ دن دور نہیں کہ رکھے رکھے یہ شق یوں ہی چت ہوجائے گی۔