معصوم بچوں کے قاتل
دوستوں اور رشتے داروں نے یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد قاتل کی گرفتاری کے لیے زمین آسمان ایک کردیا۔
عراق کے شمالی حصے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک مشہور شہر موصل آباد ہے، پْرانے وقتوں میں بڑے بڑے تجارتی قافلے موصل شہر سے ہوکرگذرا کرتے تھے، اْن دنوں شام بھی عراق ہی کا حصہ کہلاتا تھا یا یوں کہہ لیجیے کہ عراق شام میں شامل تھا ،کیونکہ ابھی تک سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تھا لہٰذا اِن دونوں حصوں میں رہنے والے افراد آزادانہ اور بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے علاقوں میںچلے جاتے تھے اور اِسی سبب موصل اور حلب تجارت کے بڑے مراکزکے طور پر معروف تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حلب میں مویشیوں کی بین الاقوامی منڈیاں لگا کرتی تھیںاور دنیا بھر سے مویشیوں کی تجارت کرنے والے اپنے مویشیوں کے ساتھ حلب میں جمع ہوتے تھے جہاں بہترین سودے پایہ تکمیل تک پہنچتے تھے، چنانچہ موصل کے ایک مشہور تاجر نے حلب کا رْخ کیا، وہیں ایک سرائے میں قیام کیا، اپنے مویشی فروخت کیے اور واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگیا،لیکن اْسے کیا معلوم تھا کہ حلب کے رئیس کا ایک بگڑا ہوا چراغ اْس کے سامانِ سکون کو آگ لگانے کے درپے ہے۔
یہ نوجوان کافی دیر سے تاجر کے پیچھے لگا ہوا تھا اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تاکہ اْسے لوٹ کر اپنے جنون، وحشی پن اور احساسِ برتری کو اطمینان دلا سکے اور پھر اْسے موقع مل ہی گیا۔ تاجر، آبادی سے دور نکل کر ایک درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کے لیے جیسے ہی رْکا،نوجوان نے اْس پر دھاوا بول دیا، اْسے زمین پر گرانے کے بعد دو دھاری خنجر اْس کی گردن پر رکھا اور مطالبہ کیا کہ ''تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میرے حوالے کردے''بے چارے تاجر نے بہت شور مچایا، ماہی بے آب کی طرح تڑپا، مدد کے لیے آوازیں دیں مگر ویرانہ بھلا کسی کی کیا مدد کرسکتا ہے، ویرانے تو خود آبادی کے منتظر رہتے ہیں، لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا اْس نے اپنا سارا مال سینے پر چڑھے''شوقیہ لٹیرے ''کے حوالے کر دیا اور اْس سے التجا کی کہ اب وہ اْسے چھوڑدے...مگر...نوجوان کے دماغ پر قابض ابلیس کچھ الگ ہی تانے بانے بننے میں مصروف تھا۔
اْس کی درندگی کی پیاس اْس وقت تک نہیں بجھ سکتی تھی جب تک کہ وہ تاجر کو ذبح نہ کردیتا، تاجر نے بہتیرے ہاتھ جوڑے، رویا، اپنے بیوی بچوں کا واسطہ دیا، منت سماجت کی،گھر پہنچ کر اور مال دینے کا وعدہ کیا لیکن ظالم نے کچھ دیر تلک اْس کی بے بسی کے مزے لینے کے بعد بالاخر اْس کے گلے پر خنجر رکھ دیا۔ تاجر نے آخری مرتبہ چاروں اطراف نگاہ دوڑائی لیکن منظر ساکت تھاکہ گویا تماشے کے انتظار میں ہو، البتہ اْس کی بے چین نگاہوں نے اْسی درخت کی ایک شاخ پر کہ جہاںوہ سستانے لیٹا تھا دوکبوتروں کو دیکھ لیااوراپنے گلے پر خنجر کی جاں لیوا دھارکے ساتھ یہ آخری الفاظ ادا کیے کہ''اے کبوترو! گواہ رہنا۔''
نوجوان اْسے قتل کرنے کے بعد اْس کے سینے سے اْٹھا اور مْردہ جسم کو لات مارتے ہوئے کہنے لگا ''اے کبوترو! گواہ رہنا'' اور پھر دیر تک قہقہے لگاتا رہا، وہ بار بار کہتا کہ ''اے کبوترو! گواہ رہنا'' اور ہنس ہنس کر دہرا ہوجاتا کہ جیسے مرنے والے نے جاتے جاتے اْسے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو۔ دوسری جانب تاجر کے اہلِ خانہ، رشتے دار اور دوست احباب اْس کے یوں اچانک گم ہوجانے سے حد درجہ پریشان ہوگئے، موصل میں اْس کے دوستوں بے باقاعدہ ایک مہم چلائی کہ کسی طور اْس کا سراغ مل سکے اور اِسی مہم کے نتیجے میں اْنہیں یہ معلوم ہوگیا کہ موصل کے قریب اور حلب سے دور ایک ویرانے میں کسی نا معلوم شخص نے بڑی بے رحمی سے تاجر کو قتل کر کے اْس کا سارا مال اسباب لوٹ لیا تھا اور بعد میں اْسی راستے سے گذرنے والے بعض مسافروں نے لاوارث نعش دیکھ کر اْسے وہیں دفنا دیا تھا۔
دوستوں اور رشتے داروں نے یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد قاتل کی گرفتاری کے لیے زمین آسمان ایک کردیا،حاکم شہر کو خط لکھے، قاضی سے نوٹس لینے کی اپیل کی، کوتوالانِ موصل و حلب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواستیں کیں مگر سب بے سود ! وقت گذرتا رہا اور گذرتا ہی چلاگیا ،کئی برس بیت گئے، حاکم بدل گئے، والی گذر گئے، قاضی ملک عدم سدھار گئے اور دوست احباب بھی صبرکرکے بیٹھ گئے۔ آہستہ آہستہ سب اِس سانحے کو بھول گئے البتہ ایک شخص آج تک اِس واردات کو نہیں بھولا تھا اور وہ یقینا وہی قاتل تھا جس نے اْس مظلوم تاجر کا لہو بہایا تھا، وہ جب بھی کبوتر یا اْن کے جوڑے کو دیکھتا اْسے مقتول کے آخری الفاظ یاد آجاتے کہ ''اے کبوترو! گواہ رہنا۔''
ایک دن اْس کے باپ نے دعوت کا اہتمام کیا،باپ چونکہ امیر کبیر اور اثرورسوخ والا تھا اِسی سبب شہر کے جانے مانے افراد ، اعلیٰ حکام ، رئیس، امرا ، وزرا اور تجار بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے، بگڑے ہوئے رئیس زادے نے ایک طبق سے ڈھکن اْٹھایا تو بھنے ہوئے کبوتروں نے اْس کی نظروں کا استقبال کیا،آنِ واحد میں درخت،اْس پر بیٹھے دوکبوتر اور تاجر کی لاش ایک منظر کی طرح اْس کے سامنے گھومنے لگے ، نہ جانے اْسے کیا ہوا کہ اْس نے یکدم ہذیانی انداز میں ایک بلند قہقہہ لگایاجس نے محفل کو اْس کی طرف متوجہ کردیا، لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے کہ اِسے اچانک کیا ہوگیا ہے ؟
لیکن وہ تھا کہ بس ہنسے جارہا تھا ، یکایک اْس کی ہنسی رکی اور ایک غیر مرئی قوت نے اْس کی زبان کھلوا دی، اْس نے بھنے ہوئے کبوتروں کی طرف اشارہ کیا اور بڑے فخر سے اپنے ہاتھوں کیے گئے ایک بے بس کے قتل کا قصہ سنانے لگا، محفل میں موجود افراد پھٹی آنکھوں اور متعجب سماعتوں سے اْس کے اعترافِ جرم کے گواہ بن گئے، جیسے ہی وہ قصہ سنا کرتھما تو اْسے ایک جھٹکا لگا جیسے کسی نے اْس سے کہا ہو کہ ''بے وقوف! یہ تْو نے کیا کر ڈالا! جس قصے کولوگ بھول چکے تھے،فائلیں بند ہوگئی تھیں، واقعہ دَب گیا تھا تْو نے اپنی بَک بَک سے سب کو اِس راز میں شریک کرلیا''مگر اب ہوبھی کیا سکتا تھا،الفاظ تو ادائیگی سے پہلے انسان کے غلام ہوتے ہیں،ادا ہونے کے بعد تو انسان اْن کا غلام بنتاہے چنانچہ کچھ ہی دیر میں حلب میں یہ واقعہ زبان زدِ عام تھا، قاضی القضا کو بھی اِس ''اعتراف'' کی اطلاع مل گئی اور اْس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حاکم کو حکم دیا کہ مظلوم تاجر کے قاتل کو گرفتار کے عدالت میں پیش کیا جائے...مقدمہ چلا...دعوت میں شریک لوگوں کو گواہی کے لیے بلوایا گیا،انکار کی جرات کسی میں نہ تھی۔ حلب کا حاکم کہتا تھا کہ ''میں گواہ ہوں''قاضی نے کہا ''میں نے بھی گواہی دی''پولیس کا چیف بولا''میں بھی گواہی دیتا ہوں'' اور سب لوگوں نے کہا کہ ''ہم بھی گواہ ہیں''جس کے بعد اْسے پھانسی کا حکم سنادیا گیا، سزا سے ایک دن پہلے مجرم سے اْس کی بیوی نے الوداعی ملاقات کی اور اْس سے پوچھا''اِتنے برسوں سے تم نے اِس جرم کو چھپا کر رکھا پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ تم نے خود ہی اِس راز کو سب کے سامنے منکشف کردیا''اْس نے تاسف سے جواب دیا ''سب سے بڑے صاحبِ ارادہ نے میرے اِرادے کو توڑدیا اور مجھے سچ کہنے پر مجبور کردیا''دوسرے دن صبح سویرے جب اْسے کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالاگیاتو اْ س نے چلاکر یہ آخری الفاظ کہے کہ ''وہ الفاظ میرے نہیں تھے، اْن کبوتروں کے تھے جو دعوت کے دن طبق میں میرے سامنے بھنے پڑے تھے''الفاظ ادا ہوتے ہی رسّا کھنچا اور قاتل تختے پر جھول گیا،لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ، انصاف کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچی اور وقت کو اپنے گذرجانے کا احساسِ شرمندگی جاتا رہا، اْس لمحے لوگوں نے ایک اور منظر دیکھا کہ پھانسی کے رسّے سے لٹکے ہوئے قاتل کے سر پر دو کبوتر بے حِس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے،اللہ اکبر کے نعرے بَلند ہوئے اور سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ ''اِن کبوتروں نے بھی گواہی دے دی۔''
بس فرق صرف اِتنا ہے کہ مجرم سزا سننے کے بعد کمرہ عدالت سے اکڑے ہوئے سینے اور تَنی ہوئی گردن کے ساتھ باہر نہیں نکلا تھا،کیونکہ وہ ''زبردست صاحبِ ارادہ'' کی طاقت دیکھ چکا تھا، معصوم بچوں کے قاتلوںنے ابھی دیکھی نہیںہے لیکن قسم رب کی بہت جلد دیکھ لیں گے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حلب میں مویشیوں کی بین الاقوامی منڈیاں لگا کرتی تھیںاور دنیا بھر سے مویشیوں کی تجارت کرنے والے اپنے مویشیوں کے ساتھ حلب میں جمع ہوتے تھے جہاں بہترین سودے پایہ تکمیل تک پہنچتے تھے، چنانچہ موصل کے ایک مشہور تاجر نے حلب کا رْخ کیا، وہیں ایک سرائے میں قیام کیا، اپنے مویشی فروخت کیے اور واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگیا،لیکن اْسے کیا معلوم تھا کہ حلب کے رئیس کا ایک بگڑا ہوا چراغ اْس کے سامانِ سکون کو آگ لگانے کے درپے ہے۔
یہ نوجوان کافی دیر سے تاجر کے پیچھے لگا ہوا تھا اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تاکہ اْسے لوٹ کر اپنے جنون، وحشی پن اور احساسِ برتری کو اطمینان دلا سکے اور پھر اْسے موقع مل ہی گیا۔ تاجر، آبادی سے دور نکل کر ایک درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کے لیے جیسے ہی رْکا،نوجوان نے اْس پر دھاوا بول دیا، اْسے زمین پر گرانے کے بعد دو دھاری خنجر اْس کی گردن پر رکھا اور مطالبہ کیا کہ ''تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میرے حوالے کردے''بے چارے تاجر نے بہت شور مچایا، ماہی بے آب کی طرح تڑپا، مدد کے لیے آوازیں دیں مگر ویرانہ بھلا کسی کی کیا مدد کرسکتا ہے، ویرانے تو خود آبادی کے منتظر رہتے ہیں، لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا اْس نے اپنا سارا مال سینے پر چڑھے''شوقیہ لٹیرے ''کے حوالے کر دیا اور اْس سے التجا کی کہ اب وہ اْسے چھوڑدے...مگر...نوجوان کے دماغ پر قابض ابلیس کچھ الگ ہی تانے بانے بننے میں مصروف تھا۔
اْس کی درندگی کی پیاس اْس وقت تک نہیں بجھ سکتی تھی جب تک کہ وہ تاجر کو ذبح نہ کردیتا، تاجر نے بہتیرے ہاتھ جوڑے، رویا، اپنے بیوی بچوں کا واسطہ دیا، منت سماجت کی،گھر پہنچ کر اور مال دینے کا وعدہ کیا لیکن ظالم نے کچھ دیر تلک اْس کی بے بسی کے مزے لینے کے بعد بالاخر اْس کے گلے پر خنجر رکھ دیا۔ تاجر نے آخری مرتبہ چاروں اطراف نگاہ دوڑائی لیکن منظر ساکت تھاکہ گویا تماشے کے انتظار میں ہو، البتہ اْس کی بے چین نگاہوں نے اْسی درخت کی ایک شاخ پر کہ جہاںوہ سستانے لیٹا تھا دوکبوتروں کو دیکھ لیااوراپنے گلے پر خنجر کی جاں لیوا دھارکے ساتھ یہ آخری الفاظ ادا کیے کہ''اے کبوترو! گواہ رہنا۔''
نوجوان اْسے قتل کرنے کے بعد اْس کے سینے سے اْٹھا اور مْردہ جسم کو لات مارتے ہوئے کہنے لگا ''اے کبوترو! گواہ رہنا'' اور پھر دیر تک قہقہے لگاتا رہا، وہ بار بار کہتا کہ ''اے کبوترو! گواہ رہنا'' اور ہنس ہنس کر دہرا ہوجاتا کہ جیسے مرنے والے نے جاتے جاتے اْسے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو۔ دوسری جانب تاجر کے اہلِ خانہ، رشتے دار اور دوست احباب اْس کے یوں اچانک گم ہوجانے سے حد درجہ پریشان ہوگئے، موصل میں اْس کے دوستوں بے باقاعدہ ایک مہم چلائی کہ کسی طور اْس کا سراغ مل سکے اور اِسی مہم کے نتیجے میں اْنہیں یہ معلوم ہوگیا کہ موصل کے قریب اور حلب سے دور ایک ویرانے میں کسی نا معلوم شخص نے بڑی بے رحمی سے تاجر کو قتل کر کے اْس کا سارا مال اسباب لوٹ لیا تھا اور بعد میں اْسی راستے سے گذرنے والے بعض مسافروں نے لاوارث نعش دیکھ کر اْسے وہیں دفنا دیا تھا۔
دوستوں اور رشتے داروں نے یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد قاتل کی گرفتاری کے لیے زمین آسمان ایک کردیا،حاکم شہر کو خط لکھے، قاضی سے نوٹس لینے کی اپیل کی، کوتوالانِ موصل و حلب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواستیں کیں مگر سب بے سود ! وقت گذرتا رہا اور گذرتا ہی چلاگیا ،کئی برس بیت گئے، حاکم بدل گئے، والی گذر گئے، قاضی ملک عدم سدھار گئے اور دوست احباب بھی صبرکرکے بیٹھ گئے۔ آہستہ آہستہ سب اِس سانحے کو بھول گئے البتہ ایک شخص آج تک اِس واردات کو نہیں بھولا تھا اور وہ یقینا وہی قاتل تھا جس نے اْس مظلوم تاجر کا لہو بہایا تھا، وہ جب بھی کبوتر یا اْن کے جوڑے کو دیکھتا اْسے مقتول کے آخری الفاظ یاد آجاتے کہ ''اے کبوترو! گواہ رہنا۔''
ایک دن اْس کے باپ نے دعوت کا اہتمام کیا،باپ چونکہ امیر کبیر اور اثرورسوخ والا تھا اِسی سبب شہر کے جانے مانے افراد ، اعلیٰ حکام ، رئیس، امرا ، وزرا اور تجار بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے، بگڑے ہوئے رئیس زادے نے ایک طبق سے ڈھکن اْٹھایا تو بھنے ہوئے کبوتروں نے اْس کی نظروں کا استقبال کیا،آنِ واحد میں درخت،اْس پر بیٹھے دوکبوتر اور تاجر کی لاش ایک منظر کی طرح اْس کے سامنے گھومنے لگے ، نہ جانے اْسے کیا ہوا کہ اْس نے یکدم ہذیانی انداز میں ایک بلند قہقہہ لگایاجس نے محفل کو اْس کی طرف متوجہ کردیا، لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے کہ اِسے اچانک کیا ہوگیا ہے ؟
لیکن وہ تھا کہ بس ہنسے جارہا تھا ، یکایک اْس کی ہنسی رکی اور ایک غیر مرئی قوت نے اْس کی زبان کھلوا دی، اْس نے بھنے ہوئے کبوتروں کی طرف اشارہ کیا اور بڑے فخر سے اپنے ہاتھوں کیے گئے ایک بے بس کے قتل کا قصہ سنانے لگا، محفل میں موجود افراد پھٹی آنکھوں اور متعجب سماعتوں سے اْس کے اعترافِ جرم کے گواہ بن گئے، جیسے ہی وہ قصہ سنا کرتھما تو اْسے ایک جھٹکا لگا جیسے کسی نے اْس سے کہا ہو کہ ''بے وقوف! یہ تْو نے کیا کر ڈالا! جس قصے کولوگ بھول چکے تھے،فائلیں بند ہوگئی تھیں، واقعہ دَب گیا تھا تْو نے اپنی بَک بَک سے سب کو اِس راز میں شریک کرلیا''مگر اب ہوبھی کیا سکتا تھا،الفاظ تو ادائیگی سے پہلے انسان کے غلام ہوتے ہیں،ادا ہونے کے بعد تو انسان اْن کا غلام بنتاہے چنانچہ کچھ ہی دیر میں حلب میں یہ واقعہ زبان زدِ عام تھا، قاضی القضا کو بھی اِس ''اعتراف'' کی اطلاع مل گئی اور اْس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حاکم کو حکم دیا کہ مظلوم تاجر کے قاتل کو گرفتار کے عدالت میں پیش کیا جائے...مقدمہ چلا...دعوت میں شریک لوگوں کو گواہی کے لیے بلوایا گیا،انکار کی جرات کسی میں نہ تھی۔ حلب کا حاکم کہتا تھا کہ ''میں گواہ ہوں''قاضی نے کہا ''میں نے بھی گواہی دی''پولیس کا چیف بولا''میں بھی گواہی دیتا ہوں'' اور سب لوگوں نے کہا کہ ''ہم بھی گواہ ہیں''جس کے بعد اْسے پھانسی کا حکم سنادیا گیا، سزا سے ایک دن پہلے مجرم سے اْس کی بیوی نے الوداعی ملاقات کی اور اْس سے پوچھا''اِتنے برسوں سے تم نے اِس جرم کو چھپا کر رکھا پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ تم نے خود ہی اِس راز کو سب کے سامنے منکشف کردیا''اْس نے تاسف سے جواب دیا ''سب سے بڑے صاحبِ ارادہ نے میرے اِرادے کو توڑدیا اور مجھے سچ کہنے پر مجبور کردیا''دوسرے دن صبح سویرے جب اْسے کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالاگیاتو اْ س نے چلاکر یہ آخری الفاظ کہے کہ ''وہ الفاظ میرے نہیں تھے، اْن کبوتروں کے تھے جو دعوت کے دن طبق میں میرے سامنے بھنے پڑے تھے''الفاظ ادا ہوتے ہی رسّا کھنچا اور قاتل تختے پر جھول گیا،لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ، انصاف کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچی اور وقت کو اپنے گذرجانے کا احساسِ شرمندگی جاتا رہا، اْس لمحے لوگوں نے ایک اور منظر دیکھا کہ پھانسی کے رسّے سے لٹکے ہوئے قاتل کے سر پر دو کبوتر بے حِس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے،اللہ اکبر کے نعرے بَلند ہوئے اور سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ ''اِن کبوتروں نے بھی گواہی دے دی۔''
بس فرق صرف اِتنا ہے کہ مجرم سزا سننے کے بعد کمرہ عدالت سے اکڑے ہوئے سینے اور تَنی ہوئی گردن کے ساتھ باہر نہیں نکلا تھا،کیونکہ وہ ''زبردست صاحبِ ارادہ'' کی طاقت دیکھ چکا تھا، معصوم بچوں کے قاتلوںنے ابھی دیکھی نہیںہے لیکن قسم رب کی بہت جلد دیکھ لیں گے۔