نبی کریم ﷺ کا سفر معراج
معراج میں آپؐ نے کس قسم کے علمی حقائق کا سامنا کیا، اس کی ایک مثال پیش ِ خدمت ہے۔
واقعۂ معراج، اﷲ تعالیٰ کی حضور اکرم ﷺ سے محبت اور احترام کی ایک لازوال اور نایاب مثال ہے۔ معراج النبیؐ میں بے شمار سبق آموز حکمتیں پنہاں ہیں۔
یہ واقعہ اﷲ تعالیٰ کی زبردست قوت اور کائنات کی ہر اک شے کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر زبردست اور فیصلہ کن دست رس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ واقعۂ معراج اﷲ تعالیٰ کی طرف سے واضح طور پر کُن فیاکون کا مظہر ہے۔
جب اﷲ تعالیٰ اپنی کسی بات کو نافذ کرنے کی ٹھان لیتے ہے تو کسی بھی قسم کی کوئی کم زوری، کوئی مجبوری، کوئی عذر، کوئی تنگی وقت اس کے آگے تاب نہیں لاسکتی۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا، مفہوم: ''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس اس نے برکت رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے نمونے دکھائیں۔''
چوںکہ اﷲ تعالیٰ نے معراج ہی کے ذریعے حضور پاکؐ کو حق الیقین کی مزید منزلوں پر لے جانا طے کر لیا تھا، لہٰذا یہ سچا عملی معجزہ ہوکر رہا۔ حضور پاک ﷺ، اﷲ تعالیٰ کے مہمان بنے۔ انسانیت کو قُرب کی انتہاء نصیب ہوئی۔ عرش ِ معلیٰ پر وقوع پذیر ہونے والی یہ مہمان نوازی کس قدر شان دار ہے۔ یہاں اس دنیا میں ہی اﷲ تعالیٰ تو انسان کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے اور حضور پاک ﷺ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا یہ قرب کسی بھی شک سے بالاتر تھا تو پھر اس طرح سدرۃ المنتہی تک جانے کے کیا معنی ہیں؟
قرآن ِ مجید کی بیان کردہ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت کے تحت، قربتوں کا یہ پیمانہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی نعمت ِ علم تک رسائی کی وہ آخری حد پالینا تھا، جو عین الیقین اور حق الیقین کی صورت بالآخر اس ساری کائنات میں صرف اور صرف آپؐ کو نصیب ہوئیں۔ اور یوں وہ بے مثال نعت ِ رسولؐ تکمیل کے مراحل کو پہنچی جو خود اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی صورت تحریر فرمائی اور چوںکہ اسی حق الیقین کو آپؐ نے اپنی امت تک پورے صدق اور خلوص کے ساتھ تفویض کرنا تھا، اس لیے آپؐ نے اپنی امت میں اس عین الیقین اور حق الیقین کے تقاضوں کو ان کی زندگی میں دیکھنا چاہا۔ آپؐ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہؓ کو کسی بات پر ہنستے دیکھا تو فرمایا کہ جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں، تم دیکھ لو تو، تم کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔
معراج میں آپؐ نے کس قسم کے علمی حقائق کا سامنا کیا، اس کی ایک مثال پیش ِ خدمت ہے۔ ہر آسمان پر پہنچنے پر آپؐ اور حضرت جبرائیلؑ اپنے آپ کو ایک دروازے پر پاتے۔ اس پر دروازے کو کھٹکھٹایا جاتا تو سوال ہو تا کہ کون ہے؟ حضرت جبرائیلؑ جواب میں فرماتے کہ میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا جاتا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟
حضرت جبرائیل ؑ جواب میں کہتے کہ یہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پھر پوچھا جاتا کہ کیا یہ بلائے گئے ہیں؟ پھر فرمایا جاتا: ہاں۔ جواب ملتا کہ آنا مبارک ہو۔ اور دروازہ کھول دیا جاتا۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعے اپنی امت تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہر کام ایک منظّم انداز میں کیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرشتے اپنی ہر ایک ڈیوٹی کو فرض کی ادائی کے آخری معیار تک سر انجام دینے میں کسی طرح کی کوئی بھی کوتاہی نہیں کرتے اور سب کام ایک قانون اور ضابطے کے مطابق کیے جاتے ہیں۔
معراج النبیؐ کا ایک پہلو ناصرف خود حضور پاک ﷺ کے لیے، بل کہ ہم عام مسلمانوں کے لیے بھی ذریعۂ آزمائش ہے۔ جب آپؐ نے لوگوں کو اس کے بارے میں بتانا چاہا تو ابوجہل جیسے جاہل نے لوگوں کو اکٹھا کر کے اس بات پر خوب قہقہے لگائے کہ لیجیے! پہلے اگر کوئی کمی تھی، تو وہ اب کے پوری ہوگئی کہ حضرت محمدؐ تو دیوانوں کی سی باتیں کرتے ہیں (نعوذ باﷲ)۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ جیسے ایمان والے جلیل القدر صحابی نے فوراً اس سفر اور اس کی بیان کردہ تفاصیل کی تصدیق کردی۔ ابوجہل جہنم رسید ہوا، جب کہ حضرت ابوبکر ؓ دنیا ہی میں جنت اپنے نام لکھوا گئے۔ آج کل کے ابوجہل یہ بھول جاتے ہیں کہ اﷲ جب کچھ کرنا چاہتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، تو پھر ہر صورت اس ہونی کو ہوجانا پڑتا ہے۔
مکہ سے مدینہ، مدینہ سے طور سینا، طور سینا سے بیت اللحم، اور پھر بیت اللحم سے بیت المقدس تک براق پر سفر ختم ہوتا ہے۔ بیت المقدس میں ہی آپ ﷺ نے تمام انبیائؑ کی امامت فرمائی۔ سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبرائیلؑ آپؐ کے ساتھ محو ِ سفر رہے۔ جنت اور دوزخ کے مناظر آپ ؐ کو سفر کے اسی حصے میں دکھائے گئے۔ معراج کا اصل درس اﷲ تعالیٰ کی کائنات پر مکمل بلاشرکت غیرے حکم رانی ہے۔ وہ مالک دوجہاں ہے، وہ مختارکل ہے۔ اسے کسی بھی کام کے لیے کسی کی بھی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بے نیاز اور خود مختار ہے۔
اس واقعۂ معراج سے ہمیں حضور سرور کائنات ﷺ کے مقام و مرتبے کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں اﷲ تعالیٰ کی کائنات ہے، وہاں حضور سرور کائنات ﷺ رحمت للعالمین ہیں، اور اﷲتعالیٰ کے دربار میں ان ہی اعمال کو شرف قبولیت بخشا جائے گا جو آپؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیے جائیں گے۔
یہ واقعہ اﷲ تعالیٰ کی زبردست قوت اور کائنات کی ہر اک شے کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر زبردست اور فیصلہ کن دست رس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ واقعۂ معراج اﷲ تعالیٰ کی طرف سے واضح طور پر کُن فیاکون کا مظہر ہے۔
جب اﷲ تعالیٰ اپنی کسی بات کو نافذ کرنے کی ٹھان لیتے ہے تو کسی بھی قسم کی کوئی کم زوری، کوئی مجبوری، کوئی عذر، کوئی تنگی وقت اس کے آگے تاب نہیں لاسکتی۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا، مفہوم: ''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس اس نے برکت رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے نمونے دکھائیں۔''
چوںکہ اﷲ تعالیٰ نے معراج ہی کے ذریعے حضور پاکؐ کو حق الیقین کی مزید منزلوں پر لے جانا طے کر لیا تھا، لہٰذا یہ سچا عملی معجزہ ہوکر رہا۔ حضور پاک ﷺ، اﷲ تعالیٰ کے مہمان بنے۔ انسانیت کو قُرب کی انتہاء نصیب ہوئی۔ عرش ِ معلیٰ پر وقوع پذیر ہونے والی یہ مہمان نوازی کس قدر شان دار ہے۔ یہاں اس دنیا میں ہی اﷲ تعالیٰ تو انسان کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے اور حضور پاک ﷺ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا یہ قرب کسی بھی شک سے بالاتر تھا تو پھر اس طرح سدرۃ المنتہی تک جانے کے کیا معنی ہیں؟
قرآن ِ مجید کی بیان کردہ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت کے تحت، قربتوں کا یہ پیمانہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی نعمت ِ علم تک رسائی کی وہ آخری حد پالینا تھا، جو عین الیقین اور حق الیقین کی صورت بالآخر اس ساری کائنات میں صرف اور صرف آپؐ کو نصیب ہوئیں۔ اور یوں وہ بے مثال نعت ِ رسولؐ تکمیل کے مراحل کو پہنچی جو خود اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی صورت تحریر فرمائی اور چوںکہ اسی حق الیقین کو آپؐ نے اپنی امت تک پورے صدق اور خلوص کے ساتھ تفویض کرنا تھا، اس لیے آپؐ نے اپنی امت میں اس عین الیقین اور حق الیقین کے تقاضوں کو ان کی زندگی میں دیکھنا چاہا۔ آپؐ نے ایک مرتبہ اپنے صحابہؓ کو کسی بات پر ہنستے دیکھا تو فرمایا کہ جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں، تم دیکھ لو تو، تم کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔
معراج میں آپؐ نے کس قسم کے علمی حقائق کا سامنا کیا، اس کی ایک مثال پیش ِ خدمت ہے۔ ہر آسمان پر پہنچنے پر آپؐ اور حضرت جبرائیلؑ اپنے آپ کو ایک دروازے پر پاتے۔ اس پر دروازے کو کھٹکھٹایا جاتا تو سوال ہو تا کہ کون ہے؟ حضرت جبرائیلؑ جواب میں فرماتے کہ میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا جاتا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟
حضرت جبرائیل ؑ جواب میں کہتے کہ یہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پھر پوچھا جاتا کہ کیا یہ بلائے گئے ہیں؟ پھر فرمایا جاتا: ہاں۔ جواب ملتا کہ آنا مبارک ہو۔ اور دروازہ کھول دیا جاتا۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعے اپنی امت تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہر کام ایک منظّم انداز میں کیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرشتے اپنی ہر ایک ڈیوٹی کو فرض کی ادائی کے آخری معیار تک سر انجام دینے میں کسی طرح کی کوئی بھی کوتاہی نہیں کرتے اور سب کام ایک قانون اور ضابطے کے مطابق کیے جاتے ہیں۔
معراج النبیؐ کا ایک پہلو ناصرف خود حضور پاک ﷺ کے لیے، بل کہ ہم عام مسلمانوں کے لیے بھی ذریعۂ آزمائش ہے۔ جب آپؐ نے لوگوں کو اس کے بارے میں بتانا چاہا تو ابوجہل جیسے جاہل نے لوگوں کو اکٹھا کر کے اس بات پر خوب قہقہے لگائے کہ لیجیے! پہلے اگر کوئی کمی تھی، تو وہ اب کے پوری ہوگئی کہ حضرت محمدؐ تو دیوانوں کی سی باتیں کرتے ہیں (نعوذ باﷲ)۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ جیسے ایمان والے جلیل القدر صحابی نے فوراً اس سفر اور اس کی بیان کردہ تفاصیل کی تصدیق کردی۔ ابوجہل جہنم رسید ہوا، جب کہ حضرت ابوبکر ؓ دنیا ہی میں جنت اپنے نام لکھوا گئے۔ آج کل کے ابوجہل یہ بھول جاتے ہیں کہ اﷲ جب کچھ کرنا چاہتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، تو پھر ہر صورت اس ہونی کو ہوجانا پڑتا ہے۔
مکہ سے مدینہ، مدینہ سے طور سینا، طور سینا سے بیت اللحم، اور پھر بیت اللحم سے بیت المقدس تک براق پر سفر ختم ہوتا ہے۔ بیت المقدس میں ہی آپ ﷺ نے تمام انبیائؑ کی امامت فرمائی۔ سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبرائیلؑ آپؐ کے ساتھ محو ِ سفر رہے۔ جنت اور دوزخ کے مناظر آپ ؐ کو سفر کے اسی حصے میں دکھائے گئے۔ معراج کا اصل درس اﷲ تعالیٰ کی کائنات پر مکمل بلاشرکت غیرے حکم رانی ہے۔ وہ مالک دوجہاں ہے، وہ مختارکل ہے۔ اسے کسی بھی کام کے لیے کسی کی بھی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بے نیاز اور خود مختار ہے۔
اس واقعۂ معراج سے ہمیں حضور سرور کائنات ﷺ کے مقام و مرتبے کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں اﷲ تعالیٰ کی کائنات ہے، وہاں حضور سرور کائنات ﷺ رحمت للعالمین ہیں، اور اﷲتعالیٰ کے دربار میں ان ہی اعمال کو شرف قبولیت بخشا جائے گا جو آپؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کیے جائیں گے۔