کورونا‘ عالمی سطح کے اجلاس کی ضرورت
اس شاہی بیماری کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے سے فاصلے پر رہے
انسان فطرت کے آگے کس قدر بے بس ہے، اس کا اندازہ ان وباؤں سے ہوتاہے جو خوفناک بلاؤں کی طرح انسانوں پر مسلط ہو جاتی ہیں اور کسی امتیاز کے بغیر سارے انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں آج کل ساری دنیا کے انسان بلا تفریق مذہب و ملت وبا کورونا سے متاثر ہیں اور مختلف حلقوں سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ اس خطرناک وبا کا مقابلہ دنیا کے سارے انسان کسی تفریق کے بغیر مل کر کریں۔ یہ ایک مثبت خواہش ہے کورونا ایک خطرناک بیماری ہے جوکسی تفریق کے بغیر دنیا کے سارے انسانوں کے لیے یکساں طور پر خطرناک ہے۔ انسانوں کو یہ سوچنے پر مجبورکر دیا ہے کہ کورونا کا مقابلہ سارے انسان مل کرکریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا ایک آفاقی بیماری ہے جو دین دھرم کو نہیں دیکھتی۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دولت مندوں کو اس بیماری سے اتنا نقصان نہیں پہنچے گا جتنا غریب طبقات کو پہنچے گا کیونکہ غریب طبقات ان احتیاطوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھ سکتے جو حکومت کی طرف سے بتائی جا رہی ہیں۔
مثلاً انسانوں کے ساتھ انسانوں کا میل جول۔ طبقہ امرا سال بھر کی غذا کا ذخیرہ کرسکتا ہے کہ دولت سے سال نہیں دو سال کی ضرورتوں کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہجوم سے بچنے کا مسئلہ ہے ہمارے ملک خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے کراچی میں عوام بسوں اور منی بسوں میں ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر جانوروں کی طرح سفر کرتے ہیں اور دوسری طرف طبقہ امرا ہے جس کے پاس ایک دو نہیں بلکہ گھر کے ہر فرد کے پاس اپنی کار ہوتی ہے اور وہ بغیر کسی خوف کے اپنی کاروں میں سفر کرتا ہے جب کہ ٹرینوں میں عام آدمی ہجوموں کے ساتھ سفر کرتا ہے۔
اس شاہی بیماری کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے سے فاصلے پر رہے۔ یہ فاصلے صرف کاروں میں سفر کرنے والے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غریب ہی نہیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس جس میں ادیب ، شاعر اور صحافی وغیرہ شامل ہیں کاروں میں سفر نہیں کرسکتے۔ انھیں بسیں نہ سہی منی بسوں میں سفرکرنا پڑتا ہے اور منی بسوں میں بھی بھیڑکا عالم یہ ہوتا ہے کہ ہر مسافر ایک دوسرے سے چپک کر سفر کرتا ہے۔ اس بیماری میں صفائی کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور غریب طبقات صفائی جیسی مہنگی ضرورت کو پورا کرنے کے اہل نہیں ہوتے حتیٰ کہ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا بھی کورونا کی شرائط پر پورے نہیں اتر سکتے۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے ایسے کٹر طبقاتی معاشرے میں عام آدمی کے لیے ان شرائط کا پورا کرنا کسی طرح ممکن نہیں جو کورونا وبا سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ بدقسمتی سے یہ وبا جس ملک میں جا رہی ہے آہستہ آہستہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ہمارے ممتاز صحافی دوستوں کا کہنا ہے کہ کورونا کے حوالے سے آنے والا وقت بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
ادھر اس مرض کے بڑھنے کی رفتار خطرناک حد تک زیادہ ہے ایک روز یعنی 24 گھنٹوں میں کراچی میں ایک دن میں کورونا کے مریض ڈبل ہونے کے قریب آ رہے ہیں۔ کراچی میں کورونا زدہ علاقے تفتان سے آنے والے کورونا زدہ 1190 مریضوں کے بعد پاکستان میں کورونا زدہ مریضوں کی تعداد 184 ہوگئی ہے جو ایک ہفتے کے اندر اندر کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے جس سے اس مرض کے تیزی سے بڑھنے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پس منظر میں ایکسپریس کے سینئر صحافیوں کے اس خیال کو غلط نہیں کہا جاسکتا کہ ''آنے والا وقت بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔'' یہ حال صرف اپنے ملک کا نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں یہی حال ہے۔ کورونا کی خطرناک صورتحال کا اندازہ ان حقائق سے کیا جاسکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں باجماعت نماز پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
دنیا کے تقریباً سارے اسکول بند کردیے گئے ہیں عوام کو یہ احمقانہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ تنہائی اختیار کریں۔ پاکستان ایک غریب ترین ملک ہے جہاں ٹرانسپورٹ کی کمی کا حال یہ ہے کہ مسافر بسوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بس کی چھتوں پر مکھیوں کی طرح بیٹھ کر سفر کرتے ہیں تو بسوں کے دروازوں اور کھڑکیوں سے لٹک کر سفر کرتے ہیں۔
ملک میں ٹرانسپورٹ کی قلت آج کی بات نہیں بلکہ عشروں سے ٹرانسپورٹ کا یہی حال ہے کیونکہ ہمارا کرپٹ حکمران طبقہ ٹرانسپورٹ کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کر جاتا ہے جس کا نتیجہ بسوں اور منی بسوں کی قلت کی شکل میں سامنے آتا ہے جب کہ ہماری اشرافیہ (طبقہ امرا) کا حال یہ ہے کہ ایک ایک فیملی میں درجن درجن قیمتی گاڑیاں اور ڈرائیور موجود ہوتے ہیں۔
اس طبقاتی نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بلکہ خواتین بسوں منی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ عوام کو یہ قیمتی مگر احمقانہ مشورہ دے رہا ہے کہ وہ تنہائی اختیار کریں۔ کیا خوبصورت مشورہ ہے کہ بسوں، منی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرکے اپنے کام کی جگہوں پر پہنچنے والوں کو یہ زریں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ تنہائی اختیار کریں۔ ہمارے صنعتکاروں نے پیداوار بڑھانے کے لیے ایسی ٹیکسٹائل مشینیں ایجاد کی ہیں جس پر چار چار چھ چھ مزدور ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ملوں اور کارخانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ چھٹی کے وقت مزدور بھیڑ بکریوں کی طرح گیٹ سے باہر نکلتے ہیں۔ آج پاکستان میں اگرچہ اس بیماری سے بھاری جانی نقصان نہیں ہو رہا ہے بلکہ کل مریضوں کی تعداد 184 ہے اور ابھی تک ہلاکتیں بھی رپورٹ نہیں ہوئیں۔
کورونا وائرس نے 162 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی اور جلد اس بیماری کا علاج دریافت نہ ہوسکا تو آنے والے دنوں میں دنیا کے 7ارب انسانوں میں سے کتنوں کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔پچھلے دنوں سارک کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں اس نئی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی سطح پر دنیا کے تمام ممالک کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جائے جس میں کورونا کی بلا سے نجات پر غور کیا جائے۔
مثلاً انسانوں کے ساتھ انسانوں کا میل جول۔ طبقہ امرا سال بھر کی غذا کا ذخیرہ کرسکتا ہے کہ دولت سے سال نہیں دو سال کی ضرورتوں کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہجوم سے بچنے کا مسئلہ ہے ہمارے ملک خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے کراچی میں عوام بسوں اور منی بسوں میں ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر جانوروں کی طرح سفر کرتے ہیں اور دوسری طرف طبقہ امرا ہے جس کے پاس ایک دو نہیں بلکہ گھر کے ہر فرد کے پاس اپنی کار ہوتی ہے اور وہ بغیر کسی خوف کے اپنی کاروں میں سفر کرتا ہے جب کہ ٹرینوں میں عام آدمی ہجوموں کے ساتھ سفر کرتا ہے۔
اس شاہی بیماری کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے سے فاصلے پر رہے۔ یہ فاصلے صرف کاروں میں سفر کرنے والے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غریب ہی نہیں مڈل اور لوئر مڈل کلاس جس میں ادیب ، شاعر اور صحافی وغیرہ شامل ہیں کاروں میں سفر نہیں کرسکتے۔ انھیں بسیں نہ سہی منی بسوں میں سفرکرنا پڑتا ہے اور منی بسوں میں بھی بھیڑکا عالم یہ ہوتا ہے کہ ہر مسافر ایک دوسرے سے چپک کر سفر کرتا ہے۔ اس بیماری میں صفائی کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور غریب طبقات صفائی جیسی مہنگی ضرورت کو پورا کرنے کے اہل نہیں ہوتے حتیٰ کہ اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا بھی کورونا کی شرائط پر پورے نہیں اتر سکتے۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے ایسے کٹر طبقاتی معاشرے میں عام آدمی کے لیے ان شرائط کا پورا کرنا کسی طرح ممکن نہیں جو کورونا وبا سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ بدقسمتی سے یہ وبا جس ملک میں جا رہی ہے آہستہ آہستہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ہمارے ممتاز صحافی دوستوں کا کہنا ہے کہ کورونا کے حوالے سے آنے والا وقت بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
ادھر اس مرض کے بڑھنے کی رفتار خطرناک حد تک زیادہ ہے ایک روز یعنی 24 گھنٹوں میں کراچی میں ایک دن میں کورونا کے مریض ڈبل ہونے کے قریب آ رہے ہیں۔ کراچی میں کورونا زدہ علاقے تفتان سے آنے والے کورونا زدہ 1190 مریضوں کے بعد پاکستان میں کورونا زدہ مریضوں کی تعداد 184 ہوگئی ہے جو ایک ہفتے کے اندر اندر کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے جس سے اس مرض کے تیزی سے بڑھنے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پس منظر میں ایکسپریس کے سینئر صحافیوں کے اس خیال کو غلط نہیں کہا جاسکتا کہ ''آنے والا وقت بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔'' یہ حال صرف اپنے ملک کا نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں یہی حال ہے۔ کورونا کی خطرناک صورتحال کا اندازہ ان حقائق سے کیا جاسکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں باجماعت نماز پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
دنیا کے تقریباً سارے اسکول بند کردیے گئے ہیں عوام کو یہ احمقانہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ تنہائی اختیار کریں۔ پاکستان ایک غریب ترین ملک ہے جہاں ٹرانسپورٹ کی کمی کا حال یہ ہے کہ مسافر بسوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بس کی چھتوں پر مکھیوں کی طرح بیٹھ کر سفر کرتے ہیں تو بسوں کے دروازوں اور کھڑکیوں سے لٹک کر سفر کرتے ہیں۔
ملک میں ٹرانسپورٹ کی قلت آج کی بات نہیں بلکہ عشروں سے ٹرانسپورٹ کا یہی حال ہے کیونکہ ہمارا کرپٹ حکمران طبقہ ٹرانسپورٹ کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کر جاتا ہے جس کا نتیجہ بسوں اور منی بسوں کی قلت کی شکل میں سامنے آتا ہے جب کہ ہماری اشرافیہ (طبقہ امرا) کا حال یہ ہے کہ ایک ایک فیملی میں درجن درجن قیمتی گاڑیاں اور ڈرائیور موجود ہوتے ہیں۔
اس طبقاتی نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بلکہ خواتین بسوں منی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ عوام کو یہ قیمتی مگر احمقانہ مشورہ دے رہا ہے کہ وہ تنہائی اختیار کریں۔ کیا خوبصورت مشورہ ہے کہ بسوں، منی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرکے اپنے کام کی جگہوں پر پہنچنے والوں کو یہ زریں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ تنہائی اختیار کریں۔ ہمارے صنعتکاروں نے پیداوار بڑھانے کے لیے ایسی ٹیکسٹائل مشینیں ایجاد کی ہیں جس پر چار چار چھ چھ مزدور ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ملوں اور کارخانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ چھٹی کے وقت مزدور بھیڑ بکریوں کی طرح گیٹ سے باہر نکلتے ہیں۔ آج پاکستان میں اگرچہ اس بیماری سے بھاری جانی نقصان نہیں ہو رہا ہے بلکہ کل مریضوں کی تعداد 184 ہے اور ابھی تک ہلاکتیں بھی رپورٹ نہیں ہوئیں۔
کورونا وائرس نے 162 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی اور جلد اس بیماری کا علاج دریافت نہ ہوسکا تو آنے والے دنوں میں دنیا کے 7ارب انسانوں میں سے کتنوں کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔پچھلے دنوں سارک کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں اس نئی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی سطح پر دنیا کے تمام ممالک کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جائے جس میں کورونا کی بلا سے نجات پر غور کیا جائے۔