دور جدید کا ’ابن بطوطہ‘
مائیک نے 23 برس جہاں گردی میں گزاردیے
MONTREAL:
کینیڈین شہری مائیک اسپینسر براؤن 23 برس سیاحت میں گزارنے کے بعد بالآخر وطن واپس پہنچ گیا۔
اسے اگر دنیا کا سب سے زیادہ مسافت طے کرنے والا شخص کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ ان برسوں کے دوران وہ افغانستان سے لے کر زمبابوے تک 195 ممالک سے گزرا۔ بلاشبہ اس طویل سیاحت کے دوران اس نے ہزاروں میل کا سفر طے کیا ہوگا۔ سیلانی طبیعت کے مالک مائیک نے طویل ترین ' مہم جوئی' کے دوران بے شمار خطرات بھی مول لیے۔ عراق پر امریکی اور اتحادی افواج کی چڑھائی کے دوران وہ سابق عراقی صدر صدام حسین کے آبائی قصبے میں موجود تھا۔ جنگ زدہ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں پہنچنے والا وہ اولین سیاح تھا۔ علاوہ ازیں اس نے کانگو کے وحشی قبائل میں بھی دن گزارے۔
دنیا کی سیاحت کے دوران مائیک کتنی بار گرفتار ہوا، یہ خود اسے بھی یاد نہیں۔ دوسری جانب دنیا کی چند خطرناک ترین جگہوں کا دورہ کرنے کے بعد بھی وہ کسی ہلاکت خیز مرض میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہا۔ البتہ دو بار اسے ملیریا نے ضرور اپنی گرفت میں لیا۔ مائیک کے پاس اس جہاں گردی کے لیے کوئی ذاتی سواری نہیں تھی بلکہ وہ لوگوں سے لفٹ لے کر سفر کرتا رہا۔ دنیا کے سفر پر نکلنے والے بیشتر سیاحوں کے برعکس مائیک جس ملک بھی پہنچا، وہاں اس نے قیام کیا اور خود کو مقامی ماحول سے ہم آہنگ کرلیا۔
مائیک دنیا کی سیاحت پر نکلنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے،'' جب میں اکیس سال کا ہوا تو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیا میں پوری دنیا دیکھ سکتا ہوں۔ میرے دل نے کہا کہ کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے۔ چناں چہ میں نے دل کی آواز پر لبیک کہا اور سفری بیگ لے کر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے نکل کھڑا ہوا۔''
اب تک 300 سے زائد افراد دنیا کے ہر ملک میں قدم رکھ چکے ہیں مگر انھیں حقیقی سیاح نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ باقاعدہ انتظام کے ساتھ دنیا کے سفر پر نکلے تھے۔
23 سال کی سیاحت کے دوران مائیک 20 دفعہ انڈونیشیا، دو بار مصر، چھے دفعہ بھارت، پانچ بار کیمرون، دو بار پیرو، تین دفعہ چین، بارہ دفعہ افریقا، اور 50 بار تھائی لینڈ گیا۔ اس نے اپنے اخراجات مختلف کاروبار کرتے ہوئے پورے کیے۔ مثلاًبالی میں وہ چاندی فروخت کرتا رہا، جاوا میں رہ کر اس نے فرنیچر کی برآمدات میں حصہ لیا، اور افریقا میں پہنچا تو قیمتی پتھروں کی خریدوفروخت سے اخراجات کے لیے رقم حاصل کی۔ مائیک کہتا ہے کہ ان برسوں کے دوران اسے کبھی مالی تنگ دستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیوں کہ وہ بہت احتیاط سے رقم خرچ کرنے کا عادی تھا۔ رہائش کا انتظام نہ ہونے پر وہ کہیں بھی خیمہ گاڑ لیا کرتا تھا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ یا سستے ہوٹلوں میں قیام کرتا تھا اور گزراوقات کے لیے چھوٹے موٹے کام بھی کرلیا کرتا تھا۔
مائیک کا کہنا ہے کہ اگر آپ دنیا کی سیاحت پر نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کے پاس مچھر دانی، پرانا سفری بیگ جس میں چور دل چسپی نہ لیں، چھوٹا چاقو، مضبوط اور پائیدار جوتے، ویزا ایپلی کیشن کِٹ اور اپنی بہت سی تصویریں، دھاتی کپ، سفارت خانوں میں جانے کے لیے کالر والی شرٹ، کئی جیبوں والی سوتی خاکی شرٹ، خوب صورت بزنس کارڈ، اور واٹر پروف پیک کور لازمی ہونا چاہیے۔
کینیڈین شہری مائیک اسپینسر براؤن 23 برس سیاحت میں گزارنے کے بعد بالآخر وطن واپس پہنچ گیا۔
اسے اگر دنیا کا سب سے زیادہ مسافت طے کرنے والا شخص کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ ان برسوں کے دوران وہ افغانستان سے لے کر زمبابوے تک 195 ممالک سے گزرا۔ بلاشبہ اس طویل سیاحت کے دوران اس نے ہزاروں میل کا سفر طے کیا ہوگا۔ سیلانی طبیعت کے مالک مائیک نے طویل ترین ' مہم جوئی' کے دوران بے شمار خطرات بھی مول لیے۔ عراق پر امریکی اور اتحادی افواج کی چڑھائی کے دوران وہ سابق عراقی صدر صدام حسین کے آبائی قصبے میں موجود تھا۔ جنگ زدہ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں پہنچنے والا وہ اولین سیاح تھا۔ علاوہ ازیں اس نے کانگو کے وحشی قبائل میں بھی دن گزارے۔
دنیا کی سیاحت کے دوران مائیک کتنی بار گرفتار ہوا، یہ خود اسے بھی یاد نہیں۔ دوسری جانب دنیا کی چند خطرناک ترین جگہوں کا دورہ کرنے کے بعد بھی وہ کسی ہلاکت خیز مرض میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہا۔ البتہ دو بار اسے ملیریا نے ضرور اپنی گرفت میں لیا۔ مائیک کے پاس اس جہاں گردی کے لیے کوئی ذاتی سواری نہیں تھی بلکہ وہ لوگوں سے لفٹ لے کر سفر کرتا رہا۔ دنیا کے سفر پر نکلنے والے بیشتر سیاحوں کے برعکس مائیک جس ملک بھی پہنچا، وہاں اس نے قیام کیا اور خود کو مقامی ماحول سے ہم آہنگ کرلیا۔
مائیک دنیا کی سیاحت پر نکلنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے،'' جب میں اکیس سال کا ہوا تو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیا میں پوری دنیا دیکھ سکتا ہوں۔ میرے دل نے کہا کہ کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے۔ چناں چہ میں نے دل کی آواز پر لبیک کہا اور سفری بیگ لے کر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے نکل کھڑا ہوا۔''
اب تک 300 سے زائد افراد دنیا کے ہر ملک میں قدم رکھ چکے ہیں مگر انھیں حقیقی سیاح نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ باقاعدہ انتظام کے ساتھ دنیا کے سفر پر نکلے تھے۔
23 سال کی سیاحت کے دوران مائیک 20 دفعہ انڈونیشیا، دو بار مصر، چھے دفعہ بھارت، پانچ بار کیمرون، دو بار پیرو، تین دفعہ چین، بارہ دفعہ افریقا، اور 50 بار تھائی لینڈ گیا۔ اس نے اپنے اخراجات مختلف کاروبار کرتے ہوئے پورے کیے۔ مثلاًبالی میں وہ چاندی فروخت کرتا رہا، جاوا میں رہ کر اس نے فرنیچر کی برآمدات میں حصہ لیا، اور افریقا میں پہنچا تو قیمتی پتھروں کی خریدوفروخت سے اخراجات کے لیے رقم حاصل کی۔ مائیک کہتا ہے کہ ان برسوں کے دوران اسے کبھی مالی تنگ دستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیوں کہ وہ بہت احتیاط سے رقم خرچ کرنے کا عادی تھا۔ رہائش کا انتظام نہ ہونے پر وہ کہیں بھی خیمہ گاڑ لیا کرتا تھا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ یا سستے ہوٹلوں میں قیام کرتا تھا اور گزراوقات کے لیے چھوٹے موٹے کام بھی کرلیا کرتا تھا۔
مائیک کا کہنا ہے کہ اگر آپ دنیا کی سیاحت پر نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کے پاس مچھر دانی، پرانا سفری بیگ جس میں چور دل چسپی نہ لیں، چھوٹا چاقو، مضبوط اور پائیدار جوتے، ویزا ایپلی کیشن کِٹ اور اپنی بہت سی تصویریں، دھاتی کپ، سفارت خانوں میں جانے کے لیے کالر والی شرٹ، کئی جیبوں والی سوتی خاکی شرٹ، خوب صورت بزنس کارڈ، اور واٹر پروف پیک کور لازمی ہونا چاہیے۔