جینیاتی تبدیلی کے ذریعے اعصابی خلیات کو برقی پیوند سے جوڑنے میں کامیابی
یہ سلسلہ جاری رہا تو مصنوعی اعضا کو دماغ سے کنٹرول کرنا آسان ہوجائے گا
ماہرین طب نے کہا ہے کہ انسانی دماغ کے خلیات میں جینیاتی تبدیلی سے برقی عمل بدل جاتا ہے جو برقی پیوند کو قابلِ قبول بناسکتا ہے۔
انسانی دماغ میں برقی پیوند اور مائیکرو چپس لگانے سے بسا اوقات مشکل یہ پیش آتی ہے کہ دھاتی چپ کو دماغی خلیات قبول نہیں کرپاتے اور سب کوشش پر پانی پھر جاتا ہے تاہم اب جانوروں کے اعصابی خلیات یا نیورون کو جینیاتی طور پر تبدیل کرکے انہیں برقی پیوند قبول کرنے میں کامیابی ملی ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے خاص قسم کے دماغی خلیات کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا ہے اور ان کے اوپر بجلی منتقل کرنے والے پالیمر کی تشکیل کا عملی مظاہرہ کیا ہے لیکن یہ تحقیق جانوروں پر کی گئی ہے۔
یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر زینن باؤ نے بتایا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو مرگی، پارکنسن اور دیگر امراض کے علاج کے ساتھ ساتھ مصنوعی اعضا کو دماغ سے کنٹرول کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔
فی الحال اس ضمن میں کئی ادارے کام کررہے ہیں یہ ممکن ہے کہ ہر دوا کو بے اثر کرنے والی مرگی کو دماغ میں ایک باریک چپ کے ذریعے کنٹرول یا ختم کیا جاسکتا ہے لیکن دھاتی چپ نرم نیورونز کو اپنے سگنل دیتی رہتی ہے اور خود نیورون کس کیفیت میں ہیں اسے نوٹ نہیں کرسکتی۔ کبھی کبھار دھاتی چپ نیورون سے جڑنے میں ناکام رہ جاتی ہے اسی لیے یہ کام بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اس ضمن میں پاکستانی سائنس داں ڈاکٹر نوید سید نے ایسی دوطرفہ حیاتیاتی چپ بنائی ہے جو ایک جانب خلیات کو سگنل یا ہدایات دیتی ہے تو دوسری جانب خلیات کے سگنل کو سن بھی سکتی ہے۔ طویل تحقیق کے بعد یہ چپ اب مرگی کے مریضوں پر آزمائی جارہی ہے۔
انسانی دماغ میں برقی پیوند اور مائیکرو چپس لگانے سے بسا اوقات مشکل یہ پیش آتی ہے کہ دھاتی چپ کو دماغی خلیات قبول نہیں کرپاتے اور سب کوشش پر پانی پھر جاتا ہے تاہم اب جانوروں کے اعصابی خلیات یا نیورون کو جینیاتی طور پر تبدیل کرکے انہیں برقی پیوند قبول کرنے میں کامیابی ملی ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے خاص قسم کے دماغی خلیات کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا ہے اور ان کے اوپر بجلی منتقل کرنے والے پالیمر کی تشکیل کا عملی مظاہرہ کیا ہے لیکن یہ تحقیق جانوروں پر کی گئی ہے۔
یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر زینن باؤ نے بتایا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو مرگی، پارکنسن اور دیگر امراض کے علاج کے ساتھ ساتھ مصنوعی اعضا کو دماغ سے کنٹرول کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔
فی الحال اس ضمن میں کئی ادارے کام کررہے ہیں یہ ممکن ہے کہ ہر دوا کو بے اثر کرنے والی مرگی کو دماغ میں ایک باریک چپ کے ذریعے کنٹرول یا ختم کیا جاسکتا ہے لیکن دھاتی چپ نرم نیورونز کو اپنے سگنل دیتی رہتی ہے اور خود نیورون کس کیفیت میں ہیں اسے نوٹ نہیں کرسکتی۔ کبھی کبھار دھاتی چپ نیورون سے جڑنے میں ناکام رہ جاتی ہے اسی لیے یہ کام بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اس ضمن میں پاکستانی سائنس داں ڈاکٹر نوید سید نے ایسی دوطرفہ حیاتیاتی چپ بنائی ہے جو ایک جانب خلیات کو سگنل یا ہدایات دیتی ہے تو دوسری جانب خلیات کے سگنل کو سن بھی سکتی ہے۔ طویل تحقیق کے بعد یہ چپ اب مرگی کے مریضوں پر آزمائی جارہی ہے۔