کورونا وائرس کچھ سوچنے کی باتیں
پاکستان میں کورونا وائرس کے تدارک کے لیے حکومتی سطح پر اعلانات اور اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے تدارک کے لیے حکومتی سطح پر اعلانات اور اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس میں بھی وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا۔
اس اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، عسکری اور سول اداروں کے دیگر اعلیٰ ارکان، معاون خصوصی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی شریک ہوئے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزرائے صحت ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ روزانہ کی بنیاد پر صورت حال کے مطابق فیصلے کیے جائیں گے۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ فی الحال ملک میں لاک ڈاؤن کی صورت حال نہیں، انتہائی ایمرجنسی کی صورت حال میں مخصوص شہر یا علاقوں کو لاک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے سینئر اینکر پرسنز سے بھی گفتگو کی اور انھیں اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے آگاہ کیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث ہمیں ڈیڑھ ماہ تک نظم وضبط کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور عوام سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے وہی باتیں کیں جو اخبارات میں مختلف حلقے اور شخصیات کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ایک بھی کیس چین سے نہیں آیا اور ہم وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے چین کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔ وزیراعظم نے ایران کے حوالے سے کہا کہ کورونا وائرس ایک عالمی وباء ہے، ایسے میں ایران پر پابندیاں ختم ہونی چاہئیں، اس پر پابندیاں بہت بڑا ظلم ہے۔
ادھر اخباری اطلاعات کے مطابق جمعے کو ایک ٹویٹ کے ذریعے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن بارڈر کھولنے اور ٹرکوں کو افغانستان جانے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے باوجود افغان بہن بھائیوں کی مدد کے لیے پرعزم ہیں۔
ادھر سندھ حکومت بھی اپنے اقدامات میں مصروف ہے اور سندھ کی حکومت نے تین روز کا لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب میں بھی حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور مختلف جگہوں پر مریضوں کے لیے علیحدگی وارڈز قائم کیے جا رہے ہیں۔ ادھر دنیا میں اس وائرس سے ہلاکتوں کے اعداد وشمار بھی میڈیا میں آ رہے ہیں۔
کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے افواہوں کا بازار بھی گرم ہو گیا ہے۔ کورونا وائرس کے علاج کے حوالے سے مختلف قسم کی باتیں میڈیا میں بھی آ رہی ہیں اور بازاروں، گلی محلوں میں بھی پھیل رہی ہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر ملک میں ایک افراتفری اور خوف وہراس کی کیفیت چھائی ہوئی ہے اور کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ وزیراعظم سے لے کر وزراء اور مشیر صحت تک کسی نے بھی اپنی پریس کانفرنس یا بیان میں اس وائرس کے انسداد کے لیے کوئی دوا تجویز نہیں کی، صرف یہی کہا جا رہا ہے کہ احتیاط کریں۔ احتیاط میں لوگوں کو ہاتھ دھونے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ کوشش کریں کہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اگر کسی کو کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہو جائیں جس سے یہ لگے کہ وہ کورونا کا مریض ہے، تو اس کا اپنے موجود وسائل میں علاج کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا بے پناہ رش ہے اور ویسے بھی دوردراز علاقوں میں عوام کی اسپتالوں تک رسائی نہیں ہوتی۔ کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی قیمت بھی آٹھ سے دس ہزار روپے تک ہے اور اس کے بعد جب مریض کچھ ریکور ہو جائے تو اسے دوبارہ بھی ٹیسٹ کروانا پڑے گا تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ کورونا وائرس سے نجات پا چکا ہے یا نہیں۔
یوں دیکھا جائے تو کورونا کے مریض کو کم ازکم دو ٹیسٹ تو لازمی کرانا پڑیں گے اور ان ٹیسٹوں پر اس کا سولہ سے بیس ہزار روپیہ خرچ ہو جائے گا، اس کے علاوہ جو اسے میڈیسنز دی جائیں گی، ان کے اخراجات الگ ہوں گے۔ حکومت کا اولین فرض تو یہ ہے کہ وہ کورونا ٹیسٹ ہر شخص کے لیے فری کرے یا انتہائی کم معاوضہ رکھا جائے۔
احتیاط کے لیے یہ شرط عائد کر دی جائے کہ جو شخص کورونا کا ٹیسٹ کرانے کے لیے لیبارٹری کے پاس جاتا ہے تو اس کے پاس کسی مستند ڈاکٹر کا نسخہ ہونا چاہیے جس میں اس ڈاکٹر نے مریض کے لیے کورونا کا ٹیسٹ لازمی تجویز کیا ہے۔ اس طریقے سے صرف وہی شخص ٹیسٹ کرائے گا جسے واقعی یہ ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہو گی۔
حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ میڈیا پر وائرل انفیکشن سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ڈاکٹرز کو لے کر میڈیا میں بتایا جائے کہ جن اشخاص کو کورونا جیسی علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو وہ ابتدائی طور پر کون سی میڈیسنز استعمال کرے۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ لوگوں کو فرسٹ ایڈ تقریباً مل ہی جائے گی۔ انڈیا میں ڈاکٹرز ایسا تجربہ کر رہے ہیں۔ وہاں پر اینٹی وائرل ڈرگز کا کمبی نیشن استعمال کروا رہے ہیں جس کا مثبت رزلٹ بھی سامنے آ رہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ حالیہ دہائیوں میں مختلف قسم کی وائرل بیماریاں یا وبائیں پھیلتی رہی ہیں۔ سارس، ایبولا، کانگو وائرس، سوائن فلو اور ڈینگی جیسی بیماریاں اور وائرس ان میں شامل ہیں۔ طبی ماہرین نے ان وباؤں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اور اب ایسی دوائیں موجود ہیں جو ان وائرس کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
کورونا وائرس بھی کوئی نیا نہیں ہے، یہ برسوں پرانا وائرس ہے اور طبی ماہرین اس سے بخوبی آگاہ ہیں البتہ کورونا فیملی کی نئی دریافت جسے نوول 19 کا نام دیا گیا ہے، یہ پہلی دفعہ سامنے آیا ہے۔ اس کے بارے میں چونکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلے وائرس کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہے اور اس کے تدارک کے لیے ابھی کوئی میڈیسن نہیں ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ نوول 19 کے مریضوں پر کم ازکم اس فیملی کے دیگر وائرسز کے خلاف جو ادویات استعمال ہو چکی ہیں، ان کا کمبی نیشن کر کے بھی اس کی قدرے مزاحمت کی جا سکتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان چین یا یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح وسائل کا حامل ملک نہیں ہے اور نہ ہی یہاں اتنی ترقی ہے کہ وہ فوراً اس پر قابو پا لے، لیکن یہ بھی اطلاعات میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں کہ چین میں جب اول اول کورونا متعارف ہوا تو اس وقت چین نے پاکستان سے ملیریا کے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی دوائی بھاری مقدار میں پاکستان سے منگوائی تھی۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جاپان کی بنائی ہوئی ایک اینٹی وائرل ڈرگ بھی چین میں استعمال کی گئی اور اس کے اچھے نتائج آئے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کسی طبی ماہر نے حکومت کو ملیریا ڈرگ یا دیگر اینٹی وائرس ڈرگز کے استعمال کے حوالے سے کوئی مشورہ نہیں دیا یا اگر کوئی مشورہ دیا ہے تو ممکن ہے کہ اسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں پر وہ استعمال کیا جا رہا ہو کیونکہ پاکستان میں بھی بہرحال مریضوں کا علاج تو کیا ہی جا رہا ہے اور انھیں یقینا کوئی نہ کئی میڈیسنز بھی دی جا رہی ہیں۔
زیادہ بہتر ہوتا کہ حکومتی زعماء خوف کی فضاء پیدا کرنے کے بجائے عوام کو کورونا وائرس کے انسداد کے لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ میڈیسنز کا بھی بتایا جاتا تاکہ جو شہروں میں محلے کی سطح پر کلینکس چل رہے ہیں، وہاں موجود ڈاکٹروں کو بھی یہ معلومات مل سکتیں اور وہ وہاں کم ازکم کسی مریض کا ابتدائی علاج کرنے کے قابل ہو سکتے۔
بہرحال پاکستان کی حکومت اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق اقدامات کر رہی ہے اور ان اقدامات کو سراہا بھی جانا چاہیے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے دیگر اہم اقدامات بھی کرے، مثلاً بجلی کے نرخوں میں پیچیس فیصد تک کمی کا اعلان کرے کیونکہ گرمی کا موسم شروع ہوگیا ہے، گھروں میں قرنطینہ اخیتار کرنے کی وجہ سے بجلی کا استعمال بہت بڑھ جائے گا، دوسرا مریضوں، بوڑھوںاور بچوں کے لیے پنکھوں اور اے سی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ادویات بنانے والی فیکٹریوں پر ایکسائز ڈیوٹی اور ریٹلرز پر جی ایس ٹی ختم کرنے کا اعلان کیا جائے بلکہ کھانے پینے کی اشیاء اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا پر جی ایس ٹی ختم کردیا جائے۔پیٹرول پر فوری طور پرٹیکسوں کی شرح کم کی جائے تاکہ پیٹرول کی قمیت میں فوری خاطر خواہ کمی ممکن ہوسکے۔ وفاقی حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر چیک کرنے کا اہتمام کرے۔
سڑکوں، گلیوں، پارکوں پر سپرے کیا جائے، ضلعی انتظامیہ اور ٹاؤن کمیٹیاں محلے کی سطح پر گھر گھر جا کر سپرے کا اہتمام کریں۔ شاپنگ مالز اور کاروباری مراکز کی صفائی کے لیے تاجر تنظیموں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے خرچے پر وہاں سپرے کرائیں اور دیگر حفاظتی لوازمات پورے کریں۔ بڑی بڑی مارکیٹوں میں بیٹھے تاجر روزانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں، کیا وہ چند لاکھ روپے لگا کر اپنی مارکیٹوں میں سپرے نہیں کرا سکتے اور صفائی نہیں کرا سکتے؟
اگر حکومتی مشینری اور ملک کے کاروباری حضرات اور دیگر شعبوں سے وابستہ متمول افراد مل کر جدوجہد کریں تو کورونا وائرس پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، محض باتیں کرنے سے کوئی کام نہیں ہوتا، باتیں کرنے کے لیے تو ملک میں عامل اور بابوں کی کوئی کمی نہیں ہے، وہ ویسے بھی لوگوں کا بغیر دوائی کے علاج کر رہے ہیں، حکومت کو بھی عوام کو بغیر دوائی کے علاج اور پرہیز کی باتیں کرنے سے گریز کرنا چاہیے، اگر ان کے پاس کوئی دوا ہے تو بتا دیں ورنہ خاموش رہیں تو یہ بھی ملک اور قوم کے لیے بڑی بھلے کی بات ہو گی۔
اس اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، عسکری اور سول اداروں کے دیگر اعلیٰ ارکان، معاون خصوصی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی شریک ہوئے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزرائے صحت ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ روزانہ کی بنیاد پر صورت حال کے مطابق فیصلے کیے جائیں گے۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ فی الحال ملک میں لاک ڈاؤن کی صورت حال نہیں، انتہائی ایمرجنسی کی صورت حال میں مخصوص شہر یا علاقوں کو لاک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے سینئر اینکر پرسنز سے بھی گفتگو کی اور انھیں اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے آگاہ کیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث ہمیں ڈیڑھ ماہ تک نظم وضبط کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور عوام سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے وہی باتیں کیں جو اخبارات میں مختلف حلقے اور شخصیات کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ایک بھی کیس چین سے نہیں آیا اور ہم وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے چین کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔ وزیراعظم نے ایران کے حوالے سے کہا کہ کورونا وائرس ایک عالمی وباء ہے، ایسے میں ایران پر پابندیاں ختم ہونی چاہئیں، اس پر پابندیاں بہت بڑا ظلم ہے۔
ادھر اخباری اطلاعات کے مطابق جمعے کو ایک ٹویٹ کے ذریعے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن بارڈر کھولنے اور ٹرکوں کو افغانستان جانے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے باوجود افغان بہن بھائیوں کی مدد کے لیے پرعزم ہیں۔
ادھر سندھ حکومت بھی اپنے اقدامات میں مصروف ہے اور سندھ کی حکومت نے تین روز کا لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب میں بھی حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور مختلف جگہوں پر مریضوں کے لیے علیحدگی وارڈز قائم کیے جا رہے ہیں۔ ادھر دنیا میں اس وائرس سے ہلاکتوں کے اعداد وشمار بھی میڈیا میں آ رہے ہیں۔
کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے افواہوں کا بازار بھی گرم ہو گیا ہے۔ کورونا وائرس کے علاج کے حوالے سے مختلف قسم کی باتیں میڈیا میں بھی آ رہی ہیں اور بازاروں، گلی محلوں میں بھی پھیل رہی ہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر ملک میں ایک افراتفری اور خوف وہراس کی کیفیت چھائی ہوئی ہے اور کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ وزیراعظم سے لے کر وزراء اور مشیر صحت تک کسی نے بھی اپنی پریس کانفرنس یا بیان میں اس وائرس کے انسداد کے لیے کوئی دوا تجویز نہیں کی، صرف یہی کہا جا رہا ہے کہ احتیاط کریں۔ احتیاط میں لوگوں کو ہاتھ دھونے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ کوشش کریں کہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اگر کسی کو کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہو جائیں جس سے یہ لگے کہ وہ کورونا کا مریض ہے، تو اس کا اپنے موجود وسائل میں علاج کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا بے پناہ رش ہے اور ویسے بھی دوردراز علاقوں میں عوام کی اسپتالوں تک رسائی نہیں ہوتی۔ کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کی قیمت بھی آٹھ سے دس ہزار روپے تک ہے اور اس کے بعد جب مریض کچھ ریکور ہو جائے تو اسے دوبارہ بھی ٹیسٹ کروانا پڑے گا تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ کورونا وائرس سے نجات پا چکا ہے یا نہیں۔
یوں دیکھا جائے تو کورونا کے مریض کو کم ازکم دو ٹیسٹ تو لازمی کرانا پڑیں گے اور ان ٹیسٹوں پر اس کا سولہ سے بیس ہزار روپیہ خرچ ہو جائے گا، اس کے علاوہ جو اسے میڈیسنز دی جائیں گی، ان کے اخراجات الگ ہوں گے۔ حکومت کا اولین فرض تو یہ ہے کہ وہ کورونا ٹیسٹ ہر شخص کے لیے فری کرے یا انتہائی کم معاوضہ رکھا جائے۔
احتیاط کے لیے یہ شرط عائد کر دی جائے کہ جو شخص کورونا کا ٹیسٹ کرانے کے لیے لیبارٹری کے پاس جاتا ہے تو اس کے پاس کسی مستند ڈاکٹر کا نسخہ ہونا چاہیے جس میں اس ڈاکٹر نے مریض کے لیے کورونا کا ٹیسٹ لازمی تجویز کیا ہے۔ اس طریقے سے صرف وہی شخص ٹیسٹ کرائے گا جسے واقعی یہ ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہو گی۔
حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ میڈیا پر وائرل انفیکشن سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ڈاکٹرز کو لے کر میڈیا میں بتایا جائے کہ جن اشخاص کو کورونا جیسی علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو وہ ابتدائی طور پر کون سی میڈیسنز استعمال کرے۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ لوگوں کو فرسٹ ایڈ تقریباً مل ہی جائے گی۔ انڈیا میں ڈاکٹرز ایسا تجربہ کر رہے ہیں۔ وہاں پر اینٹی وائرل ڈرگز کا کمبی نیشن استعمال کروا رہے ہیں جس کا مثبت رزلٹ بھی سامنے آ رہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ حالیہ دہائیوں میں مختلف قسم کی وائرل بیماریاں یا وبائیں پھیلتی رہی ہیں۔ سارس، ایبولا، کانگو وائرس، سوائن فلو اور ڈینگی جیسی بیماریاں اور وائرس ان میں شامل ہیں۔ طبی ماہرین نے ان وباؤں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اور اب ایسی دوائیں موجود ہیں جو ان وائرس کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
کورونا وائرس بھی کوئی نیا نہیں ہے، یہ برسوں پرانا وائرس ہے اور طبی ماہرین اس سے بخوبی آگاہ ہیں البتہ کورونا فیملی کی نئی دریافت جسے نوول 19 کا نام دیا گیا ہے، یہ پہلی دفعہ سامنے آیا ہے۔ اس کے بارے میں چونکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلے وائرس کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہے اور اس کے تدارک کے لیے ابھی کوئی میڈیسن نہیں ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ نوول 19 کے مریضوں پر کم ازکم اس فیملی کے دیگر وائرسز کے خلاف جو ادویات استعمال ہو چکی ہیں، ان کا کمبی نیشن کر کے بھی اس کی قدرے مزاحمت کی جا سکتی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان چین یا یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح وسائل کا حامل ملک نہیں ہے اور نہ ہی یہاں اتنی ترقی ہے کہ وہ فوراً اس پر قابو پا لے، لیکن یہ بھی اطلاعات میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں کہ چین میں جب اول اول کورونا متعارف ہوا تو اس وقت چین نے پاکستان سے ملیریا کے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی دوائی بھاری مقدار میں پاکستان سے منگوائی تھی۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جاپان کی بنائی ہوئی ایک اینٹی وائرل ڈرگ بھی چین میں استعمال کی گئی اور اس کے اچھے نتائج آئے ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کسی طبی ماہر نے حکومت کو ملیریا ڈرگ یا دیگر اینٹی وائرس ڈرگز کے استعمال کے حوالے سے کوئی مشورہ نہیں دیا یا اگر کوئی مشورہ دیا ہے تو ممکن ہے کہ اسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں پر وہ استعمال کیا جا رہا ہو کیونکہ پاکستان میں بھی بہرحال مریضوں کا علاج تو کیا ہی جا رہا ہے اور انھیں یقینا کوئی نہ کئی میڈیسنز بھی دی جا رہی ہیں۔
زیادہ بہتر ہوتا کہ حکومتی زعماء خوف کی فضاء پیدا کرنے کے بجائے عوام کو کورونا وائرس کے انسداد کے لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ میڈیسنز کا بھی بتایا جاتا تاکہ جو شہروں میں محلے کی سطح پر کلینکس چل رہے ہیں، وہاں موجود ڈاکٹروں کو بھی یہ معلومات مل سکتیں اور وہ وہاں کم ازکم کسی مریض کا ابتدائی علاج کرنے کے قابل ہو سکتے۔
بہرحال پاکستان کی حکومت اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق اقدامات کر رہی ہے اور ان اقدامات کو سراہا بھی جانا چاہیے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ حکومت عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے دیگر اہم اقدامات بھی کرے، مثلاً بجلی کے نرخوں میں پیچیس فیصد تک کمی کا اعلان کرے کیونکہ گرمی کا موسم شروع ہوگیا ہے، گھروں میں قرنطینہ اخیتار کرنے کی وجہ سے بجلی کا استعمال بہت بڑھ جائے گا، دوسرا مریضوں، بوڑھوںاور بچوں کے لیے پنکھوں اور اے سی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ادویات بنانے والی فیکٹریوں پر ایکسائز ڈیوٹی اور ریٹلرز پر جی ایس ٹی ختم کرنے کا اعلان کیا جائے بلکہ کھانے پینے کی اشیاء اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا پر جی ایس ٹی ختم کردیا جائے۔پیٹرول پر فوری طور پرٹیکسوں کی شرح کم کی جائے تاکہ پیٹرول کی قمیت میں فوری خاطر خواہ کمی ممکن ہوسکے۔ وفاقی حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر چیک کرنے کا اہتمام کرے۔
سڑکوں، گلیوں، پارکوں پر سپرے کیا جائے، ضلعی انتظامیہ اور ٹاؤن کمیٹیاں محلے کی سطح پر گھر گھر جا کر سپرے کا اہتمام کریں۔ شاپنگ مالز اور کاروباری مراکز کی صفائی کے لیے تاجر تنظیموں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے خرچے پر وہاں سپرے کرائیں اور دیگر حفاظتی لوازمات پورے کریں۔ بڑی بڑی مارکیٹوں میں بیٹھے تاجر روزانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں، کیا وہ چند لاکھ روپے لگا کر اپنی مارکیٹوں میں سپرے نہیں کرا سکتے اور صفائی نہیں کرا سکتے؟
اگر حکومتی مشینری اور ملک کے کاروباری حضرات اور دیگر شعبوں سے وابستہ متمول افراد مل کر جدوجہد کریں تو کورونا وائرس پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، محض باتیں کرنے سے کوئی کام نہیں ہوتا، باتیں کرنے کے لیے تو ملک میں عامل اور بابوں کی کوئی کمی نہیں ہے، وہ ویسے بھی لوگوں کا بغیر دوائی کے علاج کر رہے ہیں، حکومت کو بھی عوام کو بغیر دوائی کے علاج اور پرہیز کی باتیں کرنے سے گریز کرنا چاہیے، اگر ان کے پاس کوئی دوا ہے تو بتا دیں ورنہ خاموش رہیں تو یہ بھی ملک اور قوم کے لیے بڑی بھلے کی بات ہو گی۔