مودی ہوش کے ناخن لے
بھارتی عوام جو پہلے سے ہی غربت کا شکار ہیں ان کی غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
کورونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں مودی کی سارک ممالک کے درمیان ویڈیو کانفرنس بلانے کی تجویز کا پاکستان کی جانب سے فوری مثبت جواب دیا جانا حیران کن ہے۔
دراصل اس تجویز کا پیش کیا جانا پاکستان اور مسلم دشمن مودی کی اپنے داخلی امور اور خارجی طور پر مسخ شدہ امیج کو بحال کرانے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ شخص کشمیریوں کو حبس بے جا میں رکھنے، بھارتی مسلمانوں کا قتل عام کرنے اور بالا کوٹ پر بلا جواز حملہ کرکے برصغیر کے امن کو تہہ و بالا کرنے کا مجرم ہے۔
آخر وہ کس منہ سے سارک ممالک کو لبھانے کی بات کر رہا ہے جو خود کھلم کھلا اس تنظیم کا گلا گھونٹنے کا ذمے دار ہے۔ ہمیں اسے کہنا چاہیے تھا کہ وہ کورونا کے بہانے خطے میں یکجہتی اور امن کی بات کرنے سے پہلے بالا کوٹ پر حملہ کرنے، کشمیریوں کو لاک ڈاؤن کرنے اور بھارتی مسلمانوں کا قتل عام کرنے پر معافی مانگے اور ساتھ ہی سارک کو آیندہ کبھی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھانے کا وعدہ کرے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ویڈیو لنک کے ذریعے سارک ممالک کے نمایندوں سے خطاب کیا۔ انھوں نے پاکستان کی جانب سے کورونا سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور حکمت عملی سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اول دن سے اس وبا پر قابو پانے اور حفاظت کے لیے موثر اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اسے امید ہے کہ وہ اس وبا سے اپنے شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔
انھوں نے سارک کو بنیادی پلیٹ فارم بنانے اور اسے ایک بااختیار ادارہ بنانے پر بھی زور دیا ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پاکستان جلد ہی سارک وزرائے صحت کی کانفرنس کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کا فوراً لاک ڈاؤن ختم کرے اور مواصلاتی سہولتوں کو بحال کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو الجھانے اور ہر محاذ پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سارک تنظیم خطے کے ممالک کے درمیان معاشی ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیوں کو بڑھانے اور ان شعبوں میں باہمی ربط پیدا کرکے ایک دوسرے کو اپنے تجربات سے فائدہ پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ باہمی تنازعات کو گفت و شنید کے ذریعے ختم کرکے آپس میں بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے لیے بھی قائم کی گئی تھی بھارت کی پاکستان دشمنی نے اسے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ مگر اس کے ممبران اسے فعال بنانے کے خواہاں ہیں۔
ان کا بھارت سے کہنا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس پر ضرب نہ لگائے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر سارک کی بحالی کی راہ میں حائل ہے تو پھر اسے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی جانب اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ بھارت کا کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ سمجھنا اس کی ایک بڑی بھول ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے حل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس مسئلے کی وجہ سے سارک ممالک کو ہی نہیں خود بھارت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کی معیشت کا براہ راست تعلق اس مسئلے سے ہے۔ وہ اگر ترقی کر بھی رہا ہے تو اس کی ساری ترقی اس کی فوج کی نذر ہو رہی ہے۔ وہ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اپنی فوجی طاقت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے میں لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی ساز و سامان خریدنے اور فوج کے اخراجات پر خرچ ہو جاتا ہے۔
بھارتی عوام جو پہلے سے ہی غربت کا شکار ہیں ان کی غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت بھارت کے تقریباً آدھے عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں مگر حکومت کو ان کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ان کی ساری فکر کشمیر کو ہتھیانے پر مرکوز ہے۔ سارک ممالک چاہتے ہیں کہ بھارت پاکستان سے دشمنی کو ترک کرکے پاکستان سے اچھے تعلقات بحال کرے تاکہ سارک تنظیم پھل پھول سکے اور اسے جن مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا تھا ان کا حصول ممکن ہو سکے۔
کاش کہ مودی ان باتوں کو سمجھ سکتا اور پاکستان دشمنی سے باز آسکتا۔ اس نے کشمیر کو ہتھیانے کے چکر میں بھارت کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ مودی اس وقت ہر محاذ پر پٹا ہوا رہنما ہے اس نے اپنی عزت خود خراب کی ہے۔ اس نے شہریت کا متنازعہ قانون نافذ کرکے اپنے ہی شہریوں کی شہریت کو مشکوک بنا دیا ہے دلی میں مسلمانوں کا قتل عام کراکے پوری دنیا میں پھر سے گجرات میں کی گئی اپنی سفاکیت کی یاد تازہ کردی ہے۔ مودی کے نافذ کردہ متنازعہ شہری قانون کا خاص نشانہ مسلمان ہیں۔
برصغیر کے مسلمان آخرکار اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وہ متحدہ ہندوستان میں نہیں رہ سکتے انھیں اپنے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنا ہوگا اور پھر وہ پاکستان حاصل کرنے میں سرخرو ہوگئے تھے۔ اب وہی آر ایس ایس پاکستان کی دشمن بن گئی ہے اور پاکستان کی حمایت کرنے پر بھارتی مسلمانوں سے اپنی دشمنی نکال رہی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بھارت کے اکثر ہندو آر ایس ایس کے ہندو توا کے فلسفے کے حامی بن چکے ہیں جس کی وجہ سے ہی بھارتی جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے۔
یہ پارٹی بھارتی سیکولرازم کا گلا گھونٹ کر گاندھی کے فلسفے کی جگہ گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے فلسفے کا پرچار کر رہی ہے۔ اس طرح بھارت عملاً دو نظریات میں تقسیم ہو گیا ہے۔ حالانکہ بھارت کی آزادی کی تحریک میں آر ایس ایس کا کوئی حصہ نہیں تھا مگر وہ خود کو آزادی کے اصل علم بردار کہہ رہے ہیں اور گاندھی کو انگریزوں کا پٹھو قرار دے رہے ہیں پھر نہرو کی تو ان کے نزدیک کوئی عزت نہیں ہے وہ انھیں انگریزوں کا ایجنٹ اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی کا عاشق کہہ کر بدنام کر رہے ہیں۔
کانگریس بی جے پی پر بھارت کو توڑنے کا الزام لگا رہی ہے۔ ان تمام باتوں سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ بھارت آگے متحد نہیں رہ سکے گا اور اس کا کئی ٹکڑوں میں بٹنا یقینی ہے۔ پاکستان کو اس وقت بھارت کی فاشسٹ مودی سرکار کا سامنا ہے جسے پاکستان کا وجود ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے وہ بے قابو شخص کس وقت اپنی فوج کو پاکستان پر حملے کا حکم دے دے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اس لیے ہماری حکومت کو ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اب بہت ہوچکا مودی ہوش کے ناخن لے اور اپنی پاکستان و مسلم دشمنی سے باز آجائے ساتھ ہی کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے کی جانب قدم بڑھائے دراصل اسی میں مودی اور بھارت دونوں ہی کی بھلائی ہے۔