کورونا سے زیادہ افواہیں نقصان دہ ۔۔۔
کورونا کو مزید شہریوں میں پھیلنے سے روکنے کے لیے یہ مؤثر اقدام ہے،جیسے چین نے ثابت کیا۔
اس وقت کورونا کے حوالے سے تمام دنیا پریشان ہے لیکن ہماری صورتحال انتہائی تشویشناک بلکہ خطرناک ہے۔
اس وائرس سے دنیا میں سب سے زیادہ اموات ایران اور اٹلی میں ہوئی ہیں مگر وہاں بھی ایسی بے یقینی بلکہ افراتفری کی صورتحال نہیں ہے جیسی ہمارے یہاں ہے ، حالانکہ یہاں اب تک کورونا کے باعث کسی بھی مریض یا متاثر کے جاں بحق ہونے کی تصدیقی اطلاعات نہیں ہیں۔ اُس کے باوجود ملک میں ایک عجیب بلکہ مجرمانہ افراتفری پھیلائی جارہی ہے ۔ پوری قوم کو ہوا میں لٹکایا ہوا ہے ۔ نہ مرنے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی جینے کا راستہ سمجھایا جارہا ہے۔
یوں تو حکومت پے درپے اقدامات کررہی ہے لیکن اُن اقدامات کا عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔ جس کی وجہ ملک میں پل پل پھیلتی افواہیں ہیں ۔ کبھی افواہ پھیل جاتی ہے کہ ملک میں حفاظتی ماسک میسر نہیں ، پھر لوگ اس معمولی سی چیز کے مہنگے داموں خریدنے کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔
کبھی مارکیٹیں بند کرنے کی بات اس انداز سے پھیلائی جاتی ہے کہ ''راشن پانی ذخیرہ کرلو، شہر ، صوبہ یا پھر شاید ملک لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے ''، پھر لوگ دکانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ، حالانکہ حکومتی اعلان واضح تھا کہ کھانے پینے کی اشیاء کے مراکز و دکانیں بند نہیں کی جائیں گی ، لیکن عام لوگوں کے ساتھ ساتھ پولیس بھی کنفیوژن کا شکار نظر آئی اور ہوٹلز سے لے کر گلی محلے کے تندور اور راشن کی دکانیں تک بند کراتی رہی ۔
ان افواہوں کی وجہ سے امیروں نے تو اپنے گھر بھر ہی لیے لیکن غریب اور نادار لوگوں نے بھی کوئی چارہ نہ دیکھتے ہوئے گھر کی قیمتی اشیاء بیچ کر غیر ضروری طور پر اشیائے خور و نوش خریدنا شروع کردیں ۔ یوں افواہوں کی بدولت یہ تاریخ کی پہلی بلا ضرورت عوامی ذخیرہ اندوزی بن گئی ۔ جس کا اثر مارکیٹوں پر پڑا ۔ مارکیٹوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہوگئی اور اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر وہ غریب و مزدور طبقہ ہوا جو دہاڑی پر کام کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر راشن خرید کر گھر کا چولہا جلاتے ہیں ۔ وہ ان افواہوں کی وجہ سے ایک طرف بیروزگار ہوگئے تو دوسری طرف ان کے لیے مارکیٹ میں اشیائے خور ونوش ناپید ہوگئیں ۔
ابھی ہنگامی صورتحال پیدا ہی نہیں ہوئی کہ اُن غریبوں کے گھروں میں فاقے ہونے لگے ہیں ۔ پھر کورونا کے متاثر مریضوں کے حوالے سے بھی عجیب صورتحال ہے ، حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں یہ وائرس نہیں تھا یہ صرف دوسرے ممالک سے سفر کرکے آنیوالے افراد سے پھیلنے کا اندیشہ تھا اور اس کو روکنا قدرے آسان ہوسکتا تھا کہ باہر سے آنیوالے لوگوں کو قرنطینہ قائم کرکے اُن میں چند روز رکھا جاتا اور معیاری و مستعد طریقے سے اسکریننگ ومعائنے کے مراحل سے گذار کر پھر گھرجانے دیا جاتا لیکن یہاں بھی بھلا ہو ان افواہ پھیلانے والوں کا جن کی وجہ سے بارڈر پر اسکریننگ کیمپس یا قرنطینہ مراکز سے لوگ فرار ہوکر ملک میں پھیل گئے اور اب حکومت سفری اعداد و شمار کے حساب سے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کورونا کے لیے قائم قرنطینہ مراکز پر لاکر اسکریننگ کررہی ہے اور اب کورونا کیسز بڑی تعداد میں ظاہر ہورہے ہیں ۔قارئین ضرور سوچتے ہوں گے کہ قرنطینہ سے کیا مراد ہے ؟
قرنطینہ Quaratineسے مراد کوئی خالی پڑی (یا خالی کروائی گئی) بڑی اور وسیع بلڈنگ ،جس میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں بیڈ لگاکر ، ایمرجنسی کٹس، وینٹی لینٹر کی سہولیات فراہم کرکے اُسے اسپتال کا درجہ دیا جائے ، اُسے قرنطینہ کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک محفوظ پناہ گاہ ہوتی ہے ، جہاں مشکوک مریضوں کو باقی کمیونٹی سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے اور اُن کی نقل و حرکت پر پابندی ہوتی ہے ۔قرنطینہ کا مقصد متعدی بیماری کو پھیلنے سے روکنا ہے ، اس میں Complication اور علامات کے مطابق علاج فراہم کیا جاتا ہے۔
اسی طرح چین نے ووہان شہر میں اسٹیڈیم میں 1000بیڈ لگاکر اور تمام سہولیات فراہم کرکے قرنطینہ مرکز بنادیا اور دنیا میں واہ واہ ہوگئی کہ چین نے محض 6دنوں میں اسپتال قائم کردیا ۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صوبہ میں بڑھتے ہوئے مریضوں اور مشکوک مریضوں کی تعداد کے پیش نظر حکومت ِ سندھ نے ایکسپو سینٹر کراچی کو بھی قرنطینہ مرکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہاں ضروری انتظامات کیے جارہے ہیں ۔
کورونا کو مزید شہریوں میں پھیلنے سے روکنے کے لیے یہ مؤثر اقدام ہے،جیسے چین نے ثابت کیا، لیکن اس کے لیے قرنطینہ کو ٹھیک طرح سے Manage کرنا لازمی عنصر ہے ۔ اس سے نہ صرف بیماری کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے بلکہ کم وسائل اور ادویات کے ساتھ اس موذی مرض سے نجات بھی حاصل کی جاسکتی ہے ۔
یوں تو اس وائرس کا کوئی اینٹی ٹیوڈ دستیاب نہیں لیکن یہ سبھی جانتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا نمونیا ہے اور معمولی یا ابتدائی مراحل پر مناسب ادویات سے اس کا علاج ممکن ہے اور چین میں یہ ثابت بھی ہوچکا ہے ۔ جہاں ہزاروں لوگ صحتیاب ہوچکے ہیں ۔ جب کہ ہمیں تو ابتدائی مرحلے پر ہی عالمی ادارہ صحت WHO اور چین کی جانب سے بڑی مقدار میں حفاظتی سامان اور ادویات فراہم ہوچکی ہیں ۔
جب کہ حکومت نے بڑے پیمانے پر اسکریننگ کا مفت انتظام بھی کیا ہے اور قرنطینہ مراکز بھی قائم کیے ہیں ۔ خصوصاًسکھر میں 2000 لوگوں کے لیے قائم قرنطینہ سینٹر کے ساتھ ساتھ میڈیکل یونیورسٹیز اسپتالوں جیسے لاڑکانہ ، نوابشاہ ، حیدرآباد، کراچی ، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں آئسولیشن وارڈز بھی قائم کیے گئے ہیں ۔اس لیے اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ۔
اس وقت سب سے زیادہ جو چیز ضروری ہے وہ ہے احتیاط ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسی علامات ظاہر ہونیوالے افراد خود بخود اسکریننگ مراکز پر جاکر ٹیسٹ کروائیں ،لیکن سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی بے تکی افواہوں کے باعث لوگ معمول کے ٹیسٹ تو چھوڑیں جو دیگر ممالک سے افراد آکر لوگوں میں گھل مل گئے ہیں اور ان کو وائرس کا شک بھی ہے تو بھی وہ اسکریننگ نہیں کروارہے ۔ یہ افواہوں کا ہی اثر ہے کہ کوئی بھی چیز واضح نہیں ۔ حکومت کوئی اعلان کرتی ہے تو افواہیں پھیلانے والے اُس کی آڑ میں معاشرے میں کنفیوژن پھیلادیتے ہیں اور لوگ بھی اُن پر یقین کرلیتے ہیں ۔
ایک چھوٹی سی مثال یہ بھی ہے کہ صدر مملکت اور وزیر خارجہ بیرون ِ ملک سفر کرنے کے باعث احتیاطاً اسکریننگ اور قرنطینہ کے مراحل سے گذر رہے ہیں تو لوگ ان کے متاثر ہونے کی افواہیں پھلا رہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ صرف اسکریننگ کرانے کی بنیاد پر، متاثر ہونے کی افواہیں بھی ملک میں بے چینی پیدا کررہی ہیں ۔ پھرسوشل میڈیا پر ادرک ، لہسن اور دیگر چیزوں یہاں تک کہ بھنگ سے اس وائرس کا علاج ممکن ہونے کی افواہیں بھی پھیلائی جارہی ہیں ۔ جس کے باعث لوگ اس وبا کو سنجیدہ لینے پر آمادہ نہیں ۔
ہمارے یہاں برپا افراتفری توچین اور 349 یومیہ اموات ہونیوالے ملک اٹلی میں بھی نہیں دیکھی گئی ۔ یہاں صورتحال کنٹرول میں ہونے کے باوجود لاک ڈاؤن کی افواہیں بھی مسلسل گردش میں ہیں ۔ حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک لاک ڈاؤن برداشت نہیں کرسکتے ۔ نہ ہماری معیشت اس کی متحمل ہوسکتی ہے اور نہ ہمارے سماجی حالات ایسے ہیں کہ لاک ڈاؤن کیا جاسکے ۔لیکن حکومتی احکامات واضح نہ ہونے اورافواہوں کے باعث ملک خاص طور پر صوبہ سندھ میں شاپنگ سینٹرز اور ٹرانسپورٹ بند کرنے سے بڑے پیمانے پر دہاڑی پر کام کرنے والے مزدور بیروزگار ہوئے ہیں ، جن کے گھر کے چولہے 2ہفتوں تک نہیں جل پائیں گے۔
غذائی قلت اور بیروزگاری سے لوگ بھوکے مرجائیں گے ۔حالانکہ سندھ حکومت نے ایسے غریب اور دہاڑی پر کام کرنے والے لوگوں میں ایک مہینے کے راشن پر مشتمل 20لاکھ راشن بیگ تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جو کہ ایک اچھا قدم ہے لیکن یہ شاید کافی نہ ہوں اور اس کی مستحقین تک رسائی میں بھی وقت لگے گا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عوام کو اعتماد میں لیں اور انھیں اس وبا سے بطور قوم نمٹنے کے لیے ترغیب دینے کی مہم کا آغاز کیا جائے ۔ جس کے ذریعے عوام میں خدمت ِ انسانی کا قومی جذبہ بیدارکرنے کی ضرورت ہے ۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کورونا سے نمٹنے کے لیے ایک فنڈ قائم کیا ہے جس کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ جس میں صوبہ کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے گریڈ کے مطابق 10سے 50فیصد تک کٹوتی کرکے بھی رقم جمع کی جائے گی ،جب کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ، چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس نے اپنی پوری تنخواہ اس فنڈ میں دینے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ عوام کے لیے ایک اچھا ترغیبی عمل ثابت ہوگا۔
دیکھا جائے توان افواہوں نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے جوکہ اس ہنگامی صورتحال میں ایک مزید المیہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ افراتفری کااندازہ خود وزیر اعظم کو بھی ہے ، جنھوں نے قوم سے خطاب میں اس کا ذکر بھی کیا۔ اس لیے افواہیں پھیلانے والے خاص طور پر سوشل میڈیا پر بیٹھے لوگوں کو ان افواہوں کو پھیلانے والی روش سے دستبردار ہونا چاہیے کیونکہ یہ افواہیں لوگوں کی زندگی کو اس وبائی بیماری سے زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہیں ۔ جب کہ حکومت کو ان افواہوں سے نمٹنے اور عوام کے اعتماد بحال کرنے کے لیے بھرپور اور بروقت اقدامات کرنے چاہئیں ۔
خاص طور پر ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف سخت عملی اقدامات ہی عوام میں حکومتی ساکھ اور سماجی و انتظامی اعتماد بحال کرنے کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے ۔پھر دیکھنے میں آیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے ایک اشتہار کے ذریعے عوام سے حکومت کے ساتھ اس مہم میں رضاکارانہ طور پر شریک ہونے کی اپیلکی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب لوگوں کا اعتماد بحال ہو ۔ جس کے لیے حکومت کو اپنے قول و فعل میں تضاد والی روایت کو ختم کرکے اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت جو غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے ، اس کی معاونت کی جائے ، اُن کی مالی مدد کی جائے تاکہ وہ پریشانی سے بچ سکیں ۔ ہمارا ملک ویسے ہی غذائی قلت کا شکار ہے ۔ ایسے میں یہ مصنوعی ذخیرہ اندوزی ملک میں مزید مصیبت کا سبب ہوگی۔
ایک بات جو واقعی میں شدت کے ساتھ نظر آرہی ہے وہ ہے صوبوں اور وفاق کے مابین کوآرڈی نیشن کا فقدان ۔ اس وقت ملک میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہے لیکن وفاقی حکومت کی یہاں کسی قسم کی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی حالانکہ وفاقی حکومت جانتی ہے کہ سندھ حکومت لاکھ کوششوں کے باوجود اس ہنگامی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ویسے بھی یہ ایک امر حقیقت ہے کہ ملک میں صحت عامہ کی صورتحال مخدوش ہے ،اس وبائی صورتحال میں تو ملک کے تمام اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ کسی بھی جنگی صورتحال سے کم نہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے اور جس طرح سندھ حکومت نے انڈس اسپتال کے ساتھ شراکتی ماحول پیدا کیا ہے اسی طرح ملک بھر میں سماجی تنظیموں اور دیگر اداروں کو انتظامی اُمور میں شامل کیا جائے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اس وائرس سے متعلق بھرپور اور مؤثر میڈیا و سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلائے اور احتیاطی تدابیر، اس کی مفت اسکریننگ ، اُس کے مراکزاور علاج سے متعلق ایک وسیع اختیارات و مانیٹرنگ کی حامل ہیلپ لائین ڈیسک قائم کرے۔
کہتے ہیں کہ ''انسان وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے ، وگرنہ اپنے لیے تو جانور بھی جیتے ہیں ''۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا دینی ، اخلاقی اور قومی و انسانی فرض ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ لاک ڈاؤن یا موجودہ افراتفری کے باعث دہاڑی پر کام کرنے والے اور کم آمدنی والے لوگوں پر توجہ رکھنا اور اُن کی مدد کرنا، اُن کا پُرسان ِ حال ہونا اور یہ خیال رکھنا کہ کہیں پڑوس ، محلے ، گلی ، بلڈنگ یا شہر میں کسی غریب کے بچے بھوکے نہ رہ جائیں ۔ ایک تخمینے کے مطابق ملک میں 9لاکھ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں ۔ جنھیں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ ہو کیا رہا ہے ۔
چائے کے ڈھابے سے ریسٹورانٹس تک ، ڈرائی کلینر سے سیلون تک اور ٹرانسپورٹ تک تمام لوگ متاثر ہورہے ہیں ۔ لوگ فاقوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ وائرس جب ہم پر حملہ آور ہوگا تو شاید یہ ہمیں مار سکتا ہے لیکن یہ بیروزگاری اور بھوک تو ہمیں ابھی مارڈالے گی ۔کیونکہ یقیناً کورونا ایک خطرناک وائرس ہے، لیکن اس کا ڈر اس سے بھی خطرناک ہے ۔ دنیا بھر میں بالخصوص پاکستان میں اس وائرس کے پھیلنے کے اسباب اور علاج کی معلومات سے زیادہ خوف و ہراس پھیلانے کی مہم بڑے زور شور اور طاقت سے چلائی جا رہی ہے ۔