مظلوموں کی آہیں اور کرفیو
ہمارے ملک پاکستان میں کورونا وائرس کا اس قدر تیزی سے پھیلنا ہماری بدبختی اور حکومت وقت کے ناقص انتظامات ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں کورونا وائرس کا اس قدر تیزی سے پھیلنا ہماری بدبختی اور حکومت وقت کے ناقص انتظامات ہیں ان حالات میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ناممکنات میں سے ہو گیا ہے، ذخیرہ اندوزوں کو اللہ ہدایت عطا فرمائے کہ ان لوگوں نے ماسک اور سینیٹائزر کی ذخیرہ اندوزی کی مثال قائم کی اور مہنگے داموں فروخت شروع کردی ہے بے ضمیری کی انتہا کو یہ لوگ پہنچ گئے ہیں۔
پاکستانی قوم جہاں اتنی شرمناک مثالیں پیش کرتی ہے وہاں بے شمار پاکستانی ہر لمحہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں کوئی حادثہ ہو جائے، آتشزدگی کے واقعات جنم لیں، راستے میں گاڑی خراب ہو جائے یا پھر ملبے تلے لوگ دب جائیں ہمارے پاکستانی نوجوان اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آگ میں کود جاتے ہیں اور کبھی جلتے ہوئے لوگوں کو بچا لیتے ہیں تو کبھی جاں بلب مریضوں کے لیے طبیب کا کردار ادا کرتے ہیں اور فوراً فوراً اسپتال پہنچانے کی ذمے داری کے ساتھ دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے تعاون کرتے ہیں ایسے لوگ ہی اپنی عاقبت سنوار لیتے ہیں کتنے صاحبان ثروت ایسے بھی ہیں جو بلا تفریق رنگ و نسل بھوکوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں اور آج کل پیکٹوں میں پیک کرکے ضرورت مندوں کو عزت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
آئسولیشن سینٹر اس وقت بنانے کی بات ہو رہی ہے جب مرض کافی بڑھ چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وقت سے پہلے ہی ماسک اور سینیٹائزرز دفاتر و کارخانوں کے ملازمین کو مفت تقسیم کراتے۔
کورونا وائرس یا اس طرح کی دوسری بیماریاں منجانب اللہ ہیں اسی حوالے سے ایک حدیث پاک ہے، حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''طاعون ایک عذاب کی صورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی امتوں بنی اسرائیل پر مسلط فرمایا، سو جب کسی جگہ یہ بیماری پھیل جائے تو وہاں کے لوگ اس بستی سے باہر نہ جائیں اور جو اس بستی سے باہر ہیں وہ اس میں داخل نہ ہوں'' لیکن ہمارے یہاں چونکہ قرآنی تعلیم اور احادیث مبارکہ پر عمل نہیں کیا جاتا ہے اسی لیے مشکلات کا شکار رہتے ہیں، ایران سے آنے والے زائرین اور دوسرے ممالک کے مسافر وہیں رہ کر علاج کراتے تو ان کے اور پاکستانی حکومت اور عوام کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا، بہرحال ایسا ہی ہونا تھا آج پاکستان کیا دوسرے ان ملکوں کی بھی معیشت بیٹھ گئی ہے جو خوشحال اور دولت مند تھے۔
اس بیماری سے قبل بھی لاکھوں، کروڑوں لوگ، ہیضہ، جذام، چیچک اور طاعون کی وبا میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے اور یہ دنیا اسی طرح ہزاروں حادثات کے باوجود چلتی رہے گی، بھاگتی دوڑتی رہے گی اور اپنے وقت پر حکم ربی اختتام کو پہنچے گی۔
کشمیریوں کو گزشتہ سات ماہ سے گھروں میں قید کیا ہوا ہے پوری دنیا کے مسلم حکمران سوائے ترکی کے طیب اردگان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کے سب ہی تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ آج مظلوموں کی آہوں نے عرش کو ہلا دیا اور پوری دنیا میں کرفیو لگ گیا کہاں گئی تعیشات بھری زندگی اور حجاب کا مذاق اڑانے والے خود حجاب میں آگئے۔
اس وقت مجھے وہ چار سالہ شامی بچہ یاد آگیا جو مہاجرین کے قافلے میں شامل تھا اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا اور اس تھیلے میں اس کی ماں اور بہن کے کپڑے تھے جو شہید ہوگئی تھیں، یہی اس کا کل اثاثہ تھا، ان کپڑوں سے 4 سالہ بچے کی یادیں وابستہ تھیں وہ یادیں جو خون میں نہائی ہوئی تھیں وہ یادیں جب وہ اپنے گھر میں محفوظ ہاتھوں میں تھا اپنی ماں کی آغوش میں سوتا تھا، باپ کی شفقت کی چھاؤں میں دوڑتا، بھاگتا اور کھیلتا کودتا تھا اور پھر امریکا اور روس کی سازش نے اسے اور اس جیسے بے شمار لوگوں کو کڑی دھوپ اور سنگ ریزوں پر ننگے پاؤں سفر کرنے اور پناہ کی تلاش کے لیے بھٹکنے پر مجبور کر دیا، ہزاروں، لاکھوں، شامی، کیمپوں اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جب طاقت ور ممالک امت مسلمہ کو منتشر اور بے گھر کرنے کے لیے ہتھیاروں کا استعمال کر رہے تھے اور وہ اپنے بھائیوں کو مدد کے لیے پکار رہے تھے تب مسلم ممالک چین کی بنسری بجا رہے تھے اور وہ امریکا اور بھارت کو خوش کرنے کے لیے انھیں فائدہ پہنچا رہے تھے، تب وہ اللہ کی پکڑ کو یکسر فراموش کر بیٹھے تھے اور اب وہ سب ظالم حکمران بے بسی کی تصویر بن کر دنیا کے سامنے آئے ہیں وہ اپنی دولت اور طاقت کی بنا پر کورونا وائرس کو شکست دینے میں ناکام ہیں امیر، غریب، بادشاہ، فقیر سب کا ایک سا حال ہے ملکہ برطانیہ محل چھوڑ کر قرنطینہ رخصت ہوگئیں کئی اہم عہدیدار ہلاک ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی آنکھیں جواس ذات پاک پر یقین نہیں رکھتے تھے کھول دی ہیں۔ اسی لیے اکثر قرآن پاک کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کو بند نہیں کرنا چاہیے تھا چونکہ وہی تو ایک مقام ہے جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں وہی رحم و کرم عطا فرمائے گا لیکن اکثر اوقات حالات ایسے بھی ہوجاتے ہیں جب لوگوں کی بھلائی کے لیے انتہائی قدم اٹھایا جاتا ہے۔
آخری زمانے میں جہاں بہت سے فتنے رونما ہوں گے اور دین کا راستہ روکنے کی کوششیں کی جائیں گی وہاں کعبہ پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب حج اور عمرہ معطل ہوجائے گا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ بیت اللہ شریف کا حج موقوف نہ ہوجائے (صحیح بخاری الحج حدیث 1593)۔ اسی حوالے سے مفتی منیب الرحمن اسلامی تاریخ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ حرمین طیبین میں ماضی میں بھی بعض فتنوں کے مواقعوں پر نماز موقوف ہوئی، یزید کے لشکر نے جب مسجد نبوی میں اہل مدینہ کی حرمت کو اپنے لشکریوں پر مباح کردیا تھا تو تین دن تک مسجد نبویؐ میں نمازیں نہ ہوسکیں۔
جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیبؓ مجذوب بن کر وہاں ٹھہرے رہے، فرماتے ہیں جب نماز کا وقت آتا تو مجھے روضہ رسول ﷺ سے اذان کی آواز آتی اور میں نماز ادا کرتا، اسی طرح 317 ہجری میں قرامطہ کے فتنے کے موقع پر حرم کعبہ میں قتل و غارت ہوا کعبہ کی حرمت کو پامال کیا گیا اور حجر اسود کو نکال کر لے گئے میزاب رحمت کو اکھاڑ دیا، زم زم کا گنبد گرا دیا ۔ 339 میں حجر اسود کو لاکر واپس اپنے مقام پر نصب کیا گیا۔
اسی طرح 1979 میں خالد بن عبدالعزیز کے عہد اقتدار میں بعض باغیوں نے عارضی طور پر حرم کعبہ پر قبضہ کرلیا تھا اور جب ان کے خلاف آپریشن کیا گیا تو ان دنوں طواف اور نمازیں موقوف رہیں۔ان حالات کے تناظر میں سعودی عرب کی تشویش اور حفاظتی اقدامات بجا ہیں، امام کعبہ نے بھی اس بات کی تردید کی ہے کہ خانہ کعبہ میں عبادت کی پابندی شریعت کے مطابق لگائی ہے۔ لہٰذا اعتراض کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کو راضی رکھنے کے لیے قرآن کی تعلیم اور احادیث مبارکہ پر عمل کرنا ضروری ہے ۔