فاصلہ رکھیں ورنہ کورونا ہو جائے گا
ہم سب کی قوت مدافعت کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہم کس قدر خوفزدہ ہیں۔
ایک ماہ پہلے ہم بات کر رہے تھے کہ چین میں حرام کھانے کی وجہ سے کورونا نام کا وائرس پھیل گیا ہے ۔ دو تین ہفتے قبل تک ہم سمجھ رہے تھے کہ چین سے نکل کر یہ بیماری یورپ، امریکا اور کینیڈا جیسے حرام کھانے والے ملکوں میں پھیل گیا ہے۔ ہم اس وقت تک اسے لطیفوں میں اڑا رہے تھے کہ اگر پاکستان میں کورونا کہیں سے پہنچ بھی گیا تو ہمارے لطیفے اور جگتیں سن کر اڑ جائے گا۔
''مسلمانوں کو کوئی بیماری نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ پاکیزہ کھاتے ہیں اور پاک و صاف رہتے ہیں ! '' جیسے بیانات زبان زد عام تھے۔ لیکن کیا ہم نے خود سے سوال کیا کہ ہم کتنے اچھے مسلمان ہیں، کیاصرف کھانا ہی حرام ہوتا ہے جو منہ کے راستے ہمارے پیٹ میں جاتا ہے؟؟
اس وقت پوری دنیا میں جس مسئلے نے سب کو یکجا کر دیا ہے ، وہ کورونا وائرس ہی کا ہے، اسے عالمی وبا ء قرار دے دیا گیا ہے ۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسے سچ مان لیا جائے کہ اس کا آغاز امریکا نے خود چین کے خلاف اس وائرس کو پھیلا کر کیا ہے تو دیکھ لیں کہ اس عالمی طاقت نے بھی اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں... ان کے ہاں بھی مسئلہ ہاتھ سے نکل چکا ہے اور وسائل ناکافی ثابت ہو رہے ہیں ۔ پورا یورپ اس کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اثرات سے نبرد آزما ہونے کی کاوشوں میں شہروں کے شہر بند کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور اسپتالوں میں گنجائش ختم ہو جانے کے علاوہ باقی وسائل بھی ختم ہو چکے ہیں ۔
چین کے صوبے ووہان سے آغاز ہونے والے اس وائرس کے پھیلاؤ پر چین میں قابو پا لیا گیا ہے لیکن اس پر قابو پانے کے لیے بہترین تیکنیک شہروں اور ملکوں کو لاک ڈاؤن کرنے کی ہی ٹھہری۔ سرحدیں بند کر کے سفر بند کرنا سب سے اہم تھا لیکن ہر ملک میں اس کے بارے میں فیصلہ کرنے تک یہ وائرس مسافروں کے ذریعے پہلے ہی پھیل چکا تھا ۔ اندازہ ہوا کہ ہمارے نبیء پاک ﷺ نے اس کے بارے میں آج سے چودہ سو سال پہلے بتا دیا تھا، یہ حدیث مستند حدیث ہے ۔
جو آدمی وبائی مرض کے علاقے میں ہو وہ اس علاقے کو نہ چھوڑے اور جو اس مرض سے فوت ہو گاوہ شہید ہو گا۔ جہاں کوئی چھوتی وباء پھیل جائے، وہاں سے کوئی نہ باہر جائے نہ کوئی وہاں آئے کیونکہ آنے والے بھی مبتلا ہو سکتے ہیں اور باہر جانے والے، جہاں جہاں جائیں گے، کئی دوسروں کو متاثر کریں گے۔
ہمارے ہاں سندھ حکومت کے علاوہ کسی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا نہ اس کے پہنچنے سے قبل تیز اور موثر اقدامات کیے گئے۔ ابھی بھی سندھ حکومت وفاق اور باقی صوبوں کی حکومتوں کی نسبت بہتر، تیز اور عوام کے مفاد کے لیے فیصلے کر رہی ہے اور وفاقی حکومت جانے کس چیز کا انتظار کر رہی ہے۔ جس روز اس ملک میں کسی ایک طرف سے سفر کر کے وائرس ہمراہ لانے والا پہلا مریض پہنچا تھا، وہ دن تھا جس دن اس خطرے کی چاپ ہم سب نے سنی تھی۔ ایک سے بڑھ کر یہ تعداد دو ہندسی ہوئی، پھر درجنوں اور جلد ہی سیکڑوں کی باتیں ہونے لگیں ۔ یہ وہ وقت تھا، جب یہ وائرس ہم سب کو Round the corner نظر آنے لگا۔ تب میڈیا نے احتیاطی تدابیر بتانا شروع کیں، لوگوں کو سمجھ آنے لگی کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا ان حالات میں اہم ہے۔
حکومت نے اسکول ا ور دیگر تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا اور شادی بیاہ کی تقریبات کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی، پھر میچ بغیر تماشائیوں کے ہونے کا اور ا سکے بعد میچ ملتوی ہونے کا اعلان ہوا۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اذان میں صدا دی جارہی ہے کہ اپنے گھروں پر رہ کر نماز ادا کریں اور ہماری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مساجد میں فرشوں پر اور مختصر نماز ادا کی جائے، اس کی حمایت میں ہمارے علماء کرام نے فتوی بھی دے دیا ہے ۔ کیاہمیں نہیں علم کہ ہمارے ہاں مساجد میں بھی صفائی کے کیا حالات ہیں، ایسے حالات میں گھر پر نماز پڑھنا بہتر حل نہیں ہے، صرف ہمارا ہی مذہب کیوں خطرے میں پڑ جاتا ہے ؟ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اب یہ خطرہ At the doorstep ہے۔
لوگوں نے خدا خدا کر کے ہاتھ دھونا شروع کر دیے ہیں اور کوشش ہو رہی ہے کہ اس کے علاوہ بھی جو حفاظتی اقدامات ہو سکتے ہیں وہ کیے جائیں ۔ جن لوگوں میں یہ شعور ہے ان میںسماجی تعلقات بھی نہ ہونے کے برابر ہو رہے ہیں، لوگ اپنے عزیز و اقارب سے ٹیلی فون پر رابطے میں رہ رہے ہیںاور جس کو جو استطاعت ہے، اب تک لوگوں نے اپنے گھروں میں راشن بھی جمع کر لیا ہے تا کہ بے ضرورت باہر نہ نکلا جائے ۔ شادی بیاہ اور دیگر سماجی تقریبات سے تو اجتناب کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں کہیں جنازے کی مجبوری بن جائے تو اس حالات میں انسان کس کس چیز سے بچ سکتا ہے ؟ ایسے حالات میں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریزکرنا چاہیے۔ بہت سی جگہوں کو نہ چھوئیں، زیادہ وقت اکٹھے نہ بیٹھیں ۔
وسائل کے لحاظ سے ہم دنیا کے ان ملکوں میں آتے ہیں جو عام حالات میں بھی اپنے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے معذور ہے، کجا کہ ایسے مشکل حالات میں عوام کو علاج کی سہولت میسر ہو۔ اس لیے یہ جاننا اہم ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟؟
...کیا اس بات کی تصدیق کروانا لازم ہے کہ ہم وائرس کے متاثرہ فرد ہیں یا کھانسی اور فلو بگڑ گیا ہے؟ یہ ٹسٹ یا تصدیق کہاں کہاں سے کروائی جا سکتی ہے؟
...تصدیق ہو جانے کے بعد، کیا ہمیں اسپتال میں داخل ہوجانا چاہیے یا اپنے گھر پر خود کو علیحدہ کر لینا اور چیزوں کو چھونے میں احتیاط کرنا کافی ہے یا اس کے لیے کوئی دوا بھی لینا ہو گی؟
...اگر اس کے لیے کوئی دوا نہیں ہے تو اسپتال والے کیا علاج کرتے ہیں؟
... اگر اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی تعداد کم پڑ جائے تو اس کا متبادل کیا ہو گا؟ کیا گھر پر وینٹی لیٹر کا کوئی متبادل ہو سکتا ہے؟
...اگر ہم گھر پر رہ کر احتیاط کر رہے ہیں لیکن علامات بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہو رہی ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟
...اگر ہم پر معمولی نوعیت کا حملہ ہو اور گھر پر احتیاط کرنے اور علیحدگی اختیار کرنے سے بہتری ممکن ہو تو اس کے لیے ہمیں کس نوعیت کی احتیاط کرنا چاہیے؟
...کیا گھر میں ایک شخص کے متاثر ہونے سے ، باقی سب کا متاثر ہونا لازمی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر آدمی کے ذہن میں اٹھتے ہیں... ہمارے ملک میں تو اس کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کی صورت میں ، مقابلے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اسپتال چھوڑ، اس بائیس کروڑ آبادی والے ملک میںاگر ہر ایک سرکاری اور غیر رہائشی نجی عمارت کو بھی اسپتال میں تبدیل کر دیں تو کم ہے۔ احتیاطی تدابیر کو یقینی بنائیں مگر ساتھ ساتھ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ مبتلا ہونے کی صورت میں وہ کس بات کے اہل ہیں۔ حکومت سے توقع نہ کریں ، وہ جوپہرے دار صدا لگاتے ہیں، '' جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا !!''
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، ہم سب کی قوت مدافعت کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہم کس قدر خوفزدہ ہیں، خوف بھی قوت مدافعت کو کم زور کر دیتا ہے۔ کثرت سے استغفار کریں اور اس بیماری سے اللہ کی پناہ مانگیں ۔ اللہ کے سوا کوئی اس مصیبت کو ہم سے نہیں ٹال سکتا ۔ پانی استعمال کریں اور حوصلے سے رہیں، موت برحق ہے، جب آنی ہے اسے روک کوئی نہیں سکتا اور جب نہیں آنی تو کورونا وائرس سے بھی بچ جائیں گے ، انشااللہ!