’دہشتگردی ‘کے خلاف جنگ … حصہ اول
کیا پاکستان میں اصل مسئلہ اس ’’امن ‘‘ کا حصول ہے جس کے لیے بین الاقوامی سامراجی طاقتیں بر سرِ پیکار ہیں؟
''آخری دہشت گرد کی گرفتاری اور نتائج کے حصول تک آپریشن جاری رہے گا۔'' نواز شریف ہمارے وزیر اعظم کا یہ بیان پڑھتے ہی مجھے خیال آیا کہ جو پہلا دہشت گرد تھا وہی تو آخری دہشت گرد ہے تو کیا پاکستان امریکا کو گرفتار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ؟ دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی جنگ اور امن کے قیام کے حصول کے لیے کی جانے امریکا اوراس کی اتحادی ریاستوں کی کوششوں کو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے ، مگر بظاہرکوئی خاطر خواہ کامیابی امن کو قائم کرنے میں نہیں ہوسکی، بلکہ انتشار مزید پھیلتا چلا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا یا بین الاقوامی سامراجی طاقتوں کا مقصد امن قائم کرنا نہیں بلکہ امن تباہ کرنا تھا تاکہ پھر اس خطے میں امن قائم کرنے کا ایسا جواز موجود ہو جس کی بھر پور تائید عوام تو عوام پاکستان کے حکمران بھی جب کریں تو سوچنے والے اذہان اور دیکھنے والی آنکھوں کو دھوکا دینے میں آسانی ہو۔
کیا پاکستان میں اصل مسئلہ اس ''امن '' کا حصول ہے جس کے لیے بین الاقوامی سامراجی طاقتیں بر سرِ پیکار ہیں؟ امن کے حصول کے لیے کی جانے والی اس جنگ کے نتیجے میں ، فتح کی صورت پاکستان یا امریکا اور اتحادی افواج کیا حاصل کر سکیں گی جس سے عوامی بھلائی ممکن ہو سکے گی؟ کیا پاکستان اور تمام دنیا کے انسانوں کی زندگیوں کوحقیقی خطرہ طالبان سے ہے؟ یا پھر امن کا قیام اور طالبان سے جنگ کی خواہش انسانوں کے اصل مسائل کو نظر انداز کرنے کا ذریعہ ہے؟ پاکستانی عوام یا پوری دنیا کے انسانوں کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور ان پر توجہ کیوں نہیں کی جا رہی ؟ ان سوالات کے جواب ہمیں تاریخ کے گرد آلود پنوں پر بکھری ہوئی خون آلود سرد جنگ کے حقائق پر نظر ڈالنے سے ملیں گے۔
سرد جنگ کے دوران ، جب پوری دنیا مخالف گروہوں میں بٹ چکی تھی اور نیوکلئیر تباہی کے خوف کے سائے ہر طرف چھا چکے تھے ، اس خوف کے زیر اثر کمزور ریاستوں نے اپنے تحفظ اور بقاء کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا اور غاصب ریاستیں جو' عظیم طاقت' کی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے سے بلاواسطہ بر سرِ پیکار تھیں ، اپنی ہی پھیلائی ہوئی تباہی کے خاتمے کی کوششوں کے نام پر ، ایک نئی جنگی ساخت میں اپنا کردار ادا کرنے کی منصوبہ سازی میں مصروف ہوگئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے لے کر دیوارِ برلن کے انہدام تک ، سامراجی طاقتوں نے مغربی عوام کے اذہان میں بے یقینی اور خوف کے احساسات مختلف سانحات کے ذریعے اس قدر پختہ کردئیے کہ باقی ہر خوف اور خدشہ جو انسانی زندگی کے لیے جابجا موجود تھا پس منظر میں چلا گیا۔ سرد جنگ بھی جنگ کے خدشات کے زیرِ اثر کئی دہائیوں تک پھیلتی چلی گئی، جس کے دوران روایتی حریف عظیم طاقتیں روس اور امریکا براہِ راست آمنے سامنے تو نہیں ہوئیں مگر بیانوں کی بجائے ایک دوسرے کو اسلحہ بھری دھمکیاں دینے میں مصروفِ عمل مسلسل رہی ہیں ۔کبھی کسی نئے میزائل کی صورت تو کبھی خلا کی جانب گامزنِ سفر ہو کر تو کبھی مختلف ریاستوں کے ذریعے کسی نہ کسی آئیڈیالوجی کا سہارا لے کر ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ابھی تک ہیں۔
پاکستان اور افغانستان میں برپا ''امن'' کے حصول کے نتیجے میں پھیلائی جانے والی بد امنی سے پہلے مشرقی یورپ کی مختلف ریاستوں میں بھی امریکا نے سیکیورٹی کونسل کے سہارے لاکھوں انسانی زندگیوں کو تباہ کیا تھا، یوگوسلاویہ میں بھی امریکی ایجنسیوں نے سب سے پہلے وہاں کے صحافتی طبقے کی دماغ شوئی کرکے چھوٹے پیمانے پر ریاست سے کوئی نہ کوئی مطالبہ عوام کی بھلائی کے نام پر کیا اور ان کے مطالبات کے حصول کے لیے عوامی مزاحمت کی راہ ہموار کی، پھر ان ہی مزاحمت کاروں کو استعمال کرتے ہوئے، یوگوسلاویہ کے امن کو تباہ کیا ، جس کے نتیجے میں بوسینیا اور کوسوو کی ریاستوں میں منافرت اتنی بڑھا دی گئی کہ امریکا کو در اندازی کرنے کا اخلاقی جواز مل گیا۔
سرد جنگ کی تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا نے ''امن'' کے نام پر ہر اس ریاست میں بد امنی پھیلائی تھی اور اب تک ایسی ریاستوں کو نشانہ بنا رہا ہے جن کا جھکائو رشئین بلاک کی طرف تھا۔ اس کے لیے امریکا کے کچھ بنیادی اور کارآمد جنگی ہتھکنڈے ہیں جن کا وہ استعمال کرتا ہے اور سب سے موثر طریقہ کسی بھی ریاست کی قوت کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہوتا ہے اس کی مثال عراق میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بلوچستان میں سرداروں کے زیر اثر دو طبقہ ہائے فکر کو دیکھا جا سکتا ہے اور اس میں امریکی سازش کا ثبوت کانگریس میں بلوچستان کے حوالے سے پاس کی جانے والی ریزولیشن ہے۔ اس کے لیے امریکی ہتھکنڈوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے صحافتی اداروں اور الیکٹرانک میڈیا کے شعبے کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جو لوگوں کے اذہان میں کسی خیال کو اس طور پختہ کرتے ہیں کہ وہ حقیقی لگنے لگتا ہے۔ یوگوسلاویہ میں جن صحافیوں نے مزاحمت کا آغاز کیا اس کی تقسیم کے بعد وہی افراد اپنی غدارانہ خدمات کے عوض بر سرِ اقتدار آئے اور ان کو حکومتی عہدے نصیب ہوئے۔ اسی قسم کے ماضی کے واقعات حال کی صورتحال کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ (جاری ہے)