الفاظ کا جادو

ہماری بعض بیماریاں اس قدر جسمانی نہیں ہوتیں جتنی ذہنی ہوتی ہیں،اس طرح کے امراض میں الفاظ کا جادو بہت کارگر ہوتا ہے

waqar.ahmed@express.com.pk

ہر شخص قدرت اور کائنات کے بھیدوں سے واقف نہیں، حقیقت یہ ہے کہ عوام جن چیزوں کو بخوبی جانتے ہیں وہ بھی ''راز'' ہیں یعنی وہ بھی بھید کی حیثیت رکھتی ہیں، مثلاً الفاظ۔ الفاظ ہمارے لیے ہوا اور غذا سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اگر ہم سے ''الفاظ'' چھین لیے جائیں تو ہم پتھر کے بت بن کر رہ جائیں گے۔ ہم ہر چیز کو استعمال کرنے سے قبل کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں، جس چیز کو سوچ کہتے ہیں وہ دراصل لفظ ہے، لفظ کے بغیر ہم کسی چیز کو سوچ ہی نہیں سکتے۔ تو گویا لفظ حیات انسانی کا بنیادی مظہر اور اساسی اثاثہ ہے۔ اس کے باوجود ہم پوری طرح الفاظ کے جادو سے واقف نہیں۔ صرف ایک لفظ ہمارے ذہن میں خیالات کے طویل سلسلوں اور جذبات کے نہ ختم ہونے والے رشتوں کو متحرک کردیتا ہے۔ تنویم کاری کا پورا جادو لفظ کے سحر سے عبارت ہے۔ ترغیبات کیا ہیں؟ الفاظ! گویا یہ پورا کھیل لفظوں کا ہے۔

''نف جسمی امراض'' کے کالم میں ہم نے اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ ہماری بعض بیماریاں اس قدر جسمانی نہیں ہوتیں جتنی ذہنی ہوتی ہیں، یعنی ہمارا دماغ جسم کی بعض چھوٹی موٹی تکالیف کو بھی بڑھا چڑھا کر ہمیں پیش کرتا ہے اور ہم اس کے دھوکے میں آکر خود کو بہت لاغر اور کمزور محسوس کرنے لگتے ہیں، بہت زیادہ تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس بیماری کو اپنے ذہن پر مزید طاری کرلیتے ہیں۔ اس طرح کے امراض میں الفاظ کا جادو بہت کارگر ہوتا ہے اور الفاظ ہی اس بیماری کے لیے دوا کا درجہ پاتے ہیں۔ نف جسمی امراض کا علاج آپ بذات خود اپنے الفاظ کے ذریعے بھی کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے سر میں یا پیٹ میں درد ہے تو خود کو مستقل یہ ہدایات دیتے رہیں اور ان الفاظ کی تکرار کریں کہ میں بالکل صحت مند ہوں، میں کسی قسم کا درد محسوس نہیں کررہا، مجھے کوئی بیماری لاحق نہیں۔ یہاں سیلف ہپناسز کی تکنیک بھی کارفرما ہے چونکہ آپ خود کو یہ ہدایات دے رہے ہیں۔

مستقل ان ہدایات اور الفاظ کی سحر کاری کے سبب آپ کا دماغ ٹرانس میں چلا جاتا ہے اور وہ بیماری جو جسمانی سے زیادہ ذہنی طور پر آپ کو پریشان کررہی ہوتی ہے دماغ اس کا اثر کم کردیتا ہے اور آپ اپنی بیماری میں افاقہ محسوس کرتے ہیں۔ درد کی شدت کے لحاظ سے آپ کا طریقہ کار بھی مختلف ہونا چاہیے جیسا کہ دانتوں کا درد نہایت بے چین کردینے والا ہوتا ہے، اس درد کو کم کرنے کے لیے اگر آپ ترغیبات کا سہارا لے رہے ہیں تو اس کے لیے مکمل انہماک کی ضرورت ہے، پہلے اس درد کی جانب سے اپنی توجہ ہٹانا لازم ہے تاکہ آپ خود کو ترغیبات کے لیے تیار کرسکیں۔ اگر آپ ارتکاز توجہ کی مشقیں کرتے ہیں تو ایسا کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے کیونکہ ارتکاز توجہ کی مشقیں دماغ کو ایک سوچ پر قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ کسی بھی درد کا ذہنی اثر کم کرنے کے لیے اپنی آنکھیں بند کرکے اس درد کی طرف سے اپنا ذہن ہٹانے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی خود ترغیبی یا الفاظ کے جادو کا سہارا لیتے ہوئے خود کو ہدایات جاری کریں۔ آپ محسوس کریں گے درد کی شدت کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوجائے گی۔


ہپناٹزم کے طریقہ کار میں ہم نے بارہا معمول کی ابروئوں کے درمیان پیشانی کے بیچ نظریں جما کر عمل تنویم کا مشورہ دیا ہے، معمول کو ہپناٹائز کرنے کے لیے کسی چمکدار شے پر مستقل نظریں جمانے کا بھی کہا جاتا ہے تاکہ اس کا دماغ غنودگی کی پوزیشن میں چلا جائے لیکن اگر کوئی معمول نابینا ہو اور وہ کسی چمکدار چیز کو دیکھ ہی نہ پائے تو اسے تنویمی نیند کی طرف کیسے مائل کیا جائے گا؟ جی ہاں! یہاں ترغیبات یا الفاظ کا جادو ہی کام آتا ہے اور مستقل ترغیبات کے ذریعے معمول کے ذہن پر تنویمی نیند طاری کی جاتی ہے۔ الفاظ کی ساحری پر ہم پہلے بھی بات کرچکے ہیں، لفظوں کی اثر پذیری ہماری زندگی پر کس قدر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اس کا مشاہدہ عام آدمی بھی روز مرہ زندگی میں کرتا رہتا ہے۔ کسی کے اشتعال انگیز الفاظ آپ کے ذہن کو کس طرح مشتعل کرتے ہیں، اگر مدمقابل گفتگو میں نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے تو آپ فوراً بھڑک جاتے ہیں، میٹھے بول اور پیار کی باتیں آپ کو دن بھر کی کلفت بھلا دیتی ہے، کسی کی داستان الم سن کر آپ بھی یاس کی کیفیت میں ڈوب جاتے ہیں، ناامیدی کی کیفیت میں حوصلہ افزائی آپ میں نیا جوش جگا دیتی ہے، باکسنگ رنگ میں ہارتا ہوا کھلاڑی اپنے مداحوں کی پرجوش آوازیں سن کر پورے ولولے کے ساتھ مدمقابل کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔

اپنے پیاروں کی چاہت بھری آوازیں مریض کو بستر مرگ پر بھی جینے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ یکم اکتوبر 1977 کے ایک اخبار میں شائع ہونے والی ایک تحریر کو ہم مثال کے طور پر ضرور پیش کریں گے تاکہ آپ الفاظ کی جادوگری کے مظاہر سے صحیح معنوں میں روشناس ہوسکیں۔ ''کیرول روگ مین (مریضہ) کا بیان ہے کہ میں اس لیے زندہ ہوں کہ مجھے ماں نے اپنی دعائوں سے مرنے نہیں دیا۔ کیرول روگ مین اب شادی شدہ ہے اور تین بچوں کی ماں ہے۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ 1966 میں وہ کار کے ایک حادثے میں شدید مجروح ہوگئی تھی، دماغی ضرب ایسی لگی کہ کیرول روگ مین پر بے ہوشی طاری ہوگئی اور وہ چار ماہ اسی حالت میں رہی، اس کا وزن 132 پونڈ سے کم ہو کر صرف 65 پونڈ رہ گیا۔ ڈاکٹروں نے اعلان کردیا کہ اب وہ مریضہ کی جان بچانے سے قاصر ہیں اور یہ کہ اس کی جانبری کی امید صرف پانچ فیصد ہے۔ شفایاب مریضہ کا بیان ہے کہ اس کی ماں ہر روز اس کے کان میں کہتی تھی کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے اور وہ تجھے تندرست کردے گا۔ دعا اور دوا نے آخر اثر دکھلایا اور لڑکی چند ماہ میں بالکل ٹھیک ہوگئی۔''

حقیقت یہ ہے کہ دعا بجائے خود ایک ترغیبی قوت ہے، آپ اضطرار اور اضطراب کے عالم میں پورے اخلاص کے ساتھ جو دعا مانگتے ہیں وہ نفس انسانی کے اندر بعض حیرت انگیز طاقتوں کو جنم دے دیتی ہے اور آدمی پیش آمدہ مصائب پر غالب آنے کے لیے کوشاں اور غالب آجاتا ہے۔ عقیدہ بہت بڑی طاقت ہے۔ نفس کا وہ حصہ جو عقیدہ کی براہ راست گرفت میں رہتا ہے عقل کی ترکتازی سے بچا رہتا ہے۔ تنویمی ترغیبات خواہ وہ ترغیب دوسرے کی زبان سے ادا ہو یا آپ خود ترغیبی پر عامل ہوں، نفس کے اس حصے پر اثر انداز ہوتی ہے جو براہ راست عقیدے کو قبول کرنے پر مستعد رہتا ہے۔ تنویمی علاج سو فیصد سائنسی طریقہ علاج ہے۔
Load Next Story