قیدی کا شعور…

کراچی میں ’’آخری مجرم کی گرفتاری تک آپریشن جاری رہے گا‘‘ یہ موضوع قیدیوں کا پسندیدہ بن گیا ہے

عمومی طورپر قیدیوں کو معاشرے کا ''ناسور'' جرائم کی یونیورسٹی کے اتالیق اور نہ جانے کن کن القابات سے یاد کیاجاتاہے۔ خصوصی طورپر جیل میں پابند سلاسل فرد کو جیل کے اندر بھی مشکلات کھڑی ہوتی ہیں۔ ''باعزت معاشرے میں صرف سیاسی مخلوق'' ہے جیل میں آنے جانے کو وجہ تفاخر سمجھ کر اپنی آپ بیتیوں اور اگر حکمران جماعت ہو تو اس کا پھل حاصل کرنے کے لیے بڑے طمطراق سے جیل کے قصے سناتے ہیں۔ بعض تو خصوصی طورپر کتابیں بھی لکھتے ہیں اور بعض سیاسی لوگوں کی جب پروفائل بنائی جاتی ہے تو اس میں جیل کی زندگی کا اگر صفحہ موجود نہ ہو، ان کی سر گزشت میں نوکر شاہی سے جھڑپ نہ ہو تو اسے سیاسی طورپر نابالغ سمجھاجاتاہے اور جیل جانے کے مشورے دیے جاتے ہیں۔

جیسے خان عبدالغفار خان باچا خان نے ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کے بیٹے ولی خان جب تک جیل نہ گئے اور بار بار جیل یاترا نہیں کی۔ انھیں سیاسی بالغ نہیں سمجھا گیا۔ اسی طرح دیگر سیاسی رہنمائوں کی زندگی میں جب تک جیل نہیں لکھی گئی انھیں قد آور شخصیت نہیں سمجھا گیا۔

سابق وزیراعظم گیلانی کے متعلق مشہور تھا کہ جب وہ جیل میں تھے تو انھیں شدید مشکلات کا سامنا تھا کہ بچوں کے اسکول کی فیس کے لیے ان کے پاس کلائی پر پہنی صرف گھڑی رہ گئی تھی۔ سابق صدر آصف زرداری نے تو اپنے لیے لانڈھی جیل میں زرداری وارڈ بنوایا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ ''آپ کو صدر پاکستان بننے کی خوشی زیادہ تھی کہ جیل سے رہائی کی؟ تو انھوں نے فوراً کہا کہ مجھے جیل سے رہائی کی خوشی زیادہ تھی۔

عمران خان نے ابھی جیل میں آنے کی تکلیف نہیں کی اس لیے ان کے بیشتر فیصلے بھی سیاسی بلوغت میں کمی کا اشارہ جیل نہ آنے کی وجہ سے کرتے ہیں۔سیاسی رہنما جیل جانے کو ''قربانی'' قرار دیتے ہیں اور سیاسی کارکنان ''جیل'' جانے کو پارٹی کی بھینٹ چڑھنا سمجھتے ہیں۔

جیل قیدیوں میں ایک ایسا شعور پیدا کردیتاہے جو دیگر عام شہریوں کے مقابلے میں ارفع ہوتاہے۔ تاہم ان کے شعور و احساسات کو اگر درست سمت منتقل کیاجائے تو ممکن ہے کہ وہ معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں۔ لیکن جیل کے قیدیوں کے احساس محرومی کو بڑھانے کے لیے حکومت کی لاپرواہی شامل ہوتی ہے تو دوسری جانب موجود نظام انھیں معاشرے کا باغی بننے پر مجبور کردیتاہے۔ رہی سہی کسر پولیس کا تفتیشی نظام برابر کردیتاہے۔


مختلف جرائم میں آنے والے اور بے گناہ قیدیوں کی سیاسی بلوغت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ اپنے بے لاگ تبصروں اور پیش گوئیوں سے ماحول کو زعفران بنادیتے ہیں۔ کراچی آپریشن دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ کراچی کی پولیس، رینجرز اور صوبائی حکومت کے بلند بانگ دعوے، پھٹا ڈھول ثابت ہورہے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے کراچی دورے پر ایک بیان سامنے آیا کہ ''آخری مجرم کی گرفتاری تک آپریشن جاری رہے گا'' تو یہ موضوع قیدیوں کا پسندیدہ بن گیا۔ کیوں کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کی آڑ میں 85فیصد بے گناہ افراد کو جیلوں میں ٹھونسا گیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر مجرموں کو گرفتارکیا گیا تو پولیس کے خرچے کون برداشت کرے گا۔ تھانوں کی نیلامی، پوسٹنگ کے لیے بولیاں وغیرہ تو سب ختم ہوجائیںگے۔ اس لیے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرکے پولیس اپنا نقصان نہیں کرسکتی۔ لہٰذا یہ سیزن جاری رہے گا۔ اسی طرح جب وزیراعظم کو دورے کے موقعے پر لا تعداد ہتھیاروں کی بر آمدگی نمائش کروائی گئی تو جیل کی بیرکیں کشت و زعفران بنیں کہ جب ٹارگیٹڈ آپریشن میں 9ہزار سے زائد افراد گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھ بر آمد ہونے والا اسلحہ تو عدالت میں سیل لگاکر کیس ختم ہونے تک ''نظارت'' یا پھر سر بہ مہر پولیس پراپرٹی کے طورپر بطور گواہ محفوظ رکھا جاتاہے تو پھر ہمہ اقسام بھاری و ہلکا ممنوعہ اور غیر ممنوعہ بور کے ہولناک ہتھیار کس طرح عدالتوں سے باہر نکال کر وزیراعظم کو دکھادیے گئے۔

جب بات آپریشن کے تیسرے مرحلے کی آئی کہ ''تیسرا مرحلہ'' سخت ہوگا اور اس کی حکمت عملی فی الحال نہیں بتائی جاسکتی تو یہ بھی لطائف کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل قرار دی گئی۔ کیونکہ دو مراحل میں ثابت ہوا کہ لیاری کراچی کا حصہ ہر گز نہیں ہے۔ یہاں صمٌ بکمٌ عمیٌ لا تعداد لاشے گرنے کی باز گشت تک سنائی نہیں دیتی۔ قانون کے ادارے لیاری میں داخل ہی نہیں ہوسکے۔ متحارب گروپوں کی مسلح چاند ماری نے کراچی آپریشن کے چہرے سے نقاب نوچ لی ہے ۔ لیاری تو کسی کو نظر ہی نہیں آرہا کہ متحارب گروپ کس طرح مخالفین کے گھروں پر قبضے کررہے ہیں، اغوا ہورہے ہیں لیکن آپریشن کامیابی کے جھوٹے دعوے تو رحمان ملک کے سامنے صحیح ہورہے ہیں۔

سالوں سال چلنے والے مقدمات کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائے چاہیے۔ رشوت خوری اور ظلم اپنی جگہ ہے۔ رشوت کے خاطر ایک زنجیر میں کئی کئی قیدیوں کو اس طرح جکڑ دیا جاتا ہے کہ اس کی کلائی کی ہڈیوں میں زنجیر اترجاتی ہے اور زنجیر کو اتنے قریب قریب باندھا جاتاہے کہ اگر ایک قیدی تھوڑا تیز چلے تو کلائی ٹوٹنے لگتی ہے۔ ایک زنجیر میں بندھے آٹھ دس قیدی مختلف عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور انھیں جج مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیاجاتا۔ پیشکار وارنٹ پر تاریخ ڈلواکر واپس بھجوادیا جاتا ہے۔ مقدمے کی سماعت نہیں ہوتی۔ کیونکہ زنجیر میں بندھے قیدی بھی لمبی سماعتوں کا انتظار نہیں کرتے اور وہ اپنی عدالتوں میں جانے کی جلدی کرتے ہیں۔ پھر انھیں لے جانے والے دو پولیس اہلکار بھی جلد بازی کرتے ہیں تاکہ جلد از جلد ان سے جان چھڑائی جائے۔ کیوںکہ ان سے رشوت ملنے کا امکان کم ہوتاہے۔ یا رشوت کی رقم کم ملتی ہے بعض اوقات پولیس اہلکاروں کو زیادہ قیدی لے جانے کی سزا بھی یہی دی جاتی ہے۔ اسی طرح جب انھیں واپس کورٹ لاک اپ لایا جاتا ہے تو ان کی تلاشی لینے والا تقاضا کرتاہے، نہ ملنے پر جیب میں خود ہاتھ ڈال کر اپنی مطلوبہ رقم نکال لیتاہے۔ پھر کورٹ بھیجنے والا منشی ان سے رشوت لیتاہے۔ انٹری کرنے والا منشی رشوت لیتا ہے، لاک اپ گیٹ پر کھڑا ہونے والا منشی رشوت لیتاہے۔ ہتھکڑی کھولنے والا رشوت لیتاہے، لاک اپ کے اندر ہتھکڑی، جیل جانے والے کے لگانے والا رشوت لیتاہے۔ جیل گاڑی میں بھیجنے کے لیے منشی رشوت لیتاہے۔ گاڑی میں بٹھانے والا رشوت لیتاہے ۔

اس لیے قیدی کہتے ہیں کہ ہم گھاس نہیں کھاتے، بلکہ گورنمنٹ کے مہمان ہیں جہاں صبح انڈا، 3دن مرغی، ایک دن دال، ایک دن سبزی، ایک دن گوشت اور ایک دن چاول ملتے ہیں، دو وقت چائے نہیں بلکہ تین وقت پابندی کے ساتھ ملتی ہے۔ اس لیے عوام کو گھاس کھلانا ختم کریں انصاف سستا اور فوری کرائیں ۔
Load Next Story