ایڈز صدی کا سب سے بڑا مسئلہ…

گزشتہ برس 15 لاکھ افراد کی موت ایڈز کے سبب ہوئی،اندازہ ہے کہ اس بیماری سے دنیا بھرمیں ایک کروڑ 60 لاکھ بچے یتیم ہوئے

سماجی اور طبی کارکنوں کے مطابق ایڈز (AIDS) موجودہ صدی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس مسئلے کی کچھ انتہائی ٹھوس وجوہات بھی ہیں۔ اس جان لیوا بیماری نے متعدد خاندانوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اوردنیا بھر کے ان بہت سے ممالک کے تحفظ صحت کے نظام کو متاثر کیا ہے ،جہاںیہ مسئلہ بڑے پیمانے پر موجود ہے ۔اس بیماری نے دنیا کے کئی ممالک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچایاخصوصاًافریقہ کے سب صہارا ریجن(Sub Sahara Africa region) ۔ اقوام متحدہ کے پروگرام یو این ایڈز (The Joint United Nations Programto address HIV and AIDS)نے گزشتہ برس کے لیے کچھ اعدادوشمار مرتب کئے ہیں۔ 2012 کے حوالے سے مرتب کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد 3 کروڑ 53 لاکھ ہے۔

گزشتہ برس 15 لاکھ افراد کی موت ایڈز کے سبب ہوئی، اندازہ ہے کہ اس بیماری کے سبب دنیا بھر میں ایک کروڑ 60 لاکھ بچے یتیم ہوئے اور ان بچوں میں سے زیادہ کا تعلق افریقی ممالک سے ہے۔ کسی اور بیماری نے عالمی سطح پر اتنے اثرات نہیں چھوڑے۔ ایچ آئی وی کے پھیلنے کی بڑی وجہ غیر محتاط جنسی تعلق ہے۔ اس کے علاوہ دیگر وجوہات میں، ایک ہی سرنج کو منشیات کیلئے استعمال کرنا اور بغیر تصدیق کے خون کی منتقلی شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان اس بیماری سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوا۔

پاکستان میں 98 ہزار افراد ایچ آئی وی سے متاثرہ ہیں اور یہ آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہیں جبکہ جنوبی افریقہ، زیمبیا اور دیگر ممالک میں یہ تناسب 20 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ بعض گروہ ایسے ہیں جہاں ایچ آئی وی کے پھیلنے کے بہت زیادہ خطرات ہے، ٹیکے سے نشہ آور ادویات استعمال کرنے والوں میں سے 30 فیصد ایچ آئی وی زدہ ہیں جوکہ بہت زیادہ تناسب ہے۔ ایک محتاط اندازے اور ملک کے 19 شہروں سے حاصل مواد کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان بھر میں 50 ہزار افراد ایسے ہیں جو ٹیکے کے ذریعے منشیات لیتے ہیں اور ان نشئیوں کی سب سے زیادہ تعداد کراچی میں 17 ہزار کے قریب ہے، اگر سونگھنے کے ذریعے نشہ کرنیوالوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جسم فروش خواجہ سرائوں میں بھی یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔ خواجہ سرائوں میں ایچ آئی وی کا تناسب 7.3 فیصد ہے۔ گوکہ جسم فروش خواتین کی تعداد ان سے زیادہ ہے مگر ان میں ایچ آئی وی کی موجودگی کم ہے جوکہ تقریبأ ایک فیصد کے قریب ہے۔

قومی ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے 5 شہروں میں ٹیکے کے ذریعے نشہ کرنے والوں میں ایچ آئی وی کی موجودگی 40 فیصد سے زائد ہے، جوکہ انتہائی خطرناک تناسب ہے، یہ شہر کراچی، فیصل آباد، سرگودھا، گجرات اور ڈی جی خان ہیں۔ اس کالم میں ہماری زیادہ تر توجہ صوبہ سندھ کے ایک منفرد شہر لاڑکانہ پر ہے، لاڑکانہ میں اس بیماری کے خطرناک حد تک بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔ شعبہ سماجی بہبود سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق 2010 میں ضلع لاڑکانہ کی آبادی 14 لاکھ اور شہر لاڑکانہ کی آبادی تقریبأ 5 لاکھ 39 ہزار تھی۔ لاڑکانہ ایچ آئی وی کے حوالے سے خبروں میں جون 2003 میں اس وقت آیا جب پہلی بار 175 نشئیوں کے ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آئے۔ پانچ سال بعد 2008 میں 27.6 فیصد خواجہ سرائوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوگئی۔ ملک کے دوسرے شہروں کی طرح لاڑکانہ میں جسم فروشی کی بہت سی شکلیں موجود ہیں۔ اس شہر میں قحبہ خانے بھی موجود ہیں، ایک آدھ ایسے بھی ہیں جہاں ضلع کی علاوہ دوسرے علاقوں سے بھی لوگ آتے ہیں۔

کراچی اور ملک کے دیگر شہروں کی طرح یہاں بھی بعض گھریلو خواتین جسم فروشی کی مکروہ دھندے میں پھنس چکی ہیں۔ شہر کے مرکزی سٹیشن روڈ پر موجود مسافر خانوں میں خواجہ سرا موجود ہوتے ہیں جن میں سے بعض غلط کاریوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس چھوٹے سے شہر میں ہزار کے قریب ٹیکے سے نشہ کرنے والے اور جسم فروش خواتین جبکہ 15 سو کے قریب خواجہ سرا اور مرد جسم فروش ہیں۔


تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جسم فروش 50 سے 150 روپے تک وصول کرتے ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ ان تمام عوامل کے سبب لاڑکانہ میں مسقبل قریب یا بعید میں ایچ آئی وی وبائی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔ بیماری متاثرہ افراد سے معاشرے کے دیگر طبقات تک بھی منتقل ہوسکتی ہے جیسا کہ شادی شدہ افراد سے بیماری ان کے دوسرے ساتھی کو منتقل ہوسکتی ہے۔ متعلقہ حکام کو اس مسئلے پر فوری توجہ دیتے ہوئے ایچ آئی وی کے پھیلائو کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیے۔ سب سے پہلے نشہ کے عادی افراد کی بحالی کا پروگرام شروع کرنا ہوگا۔

پاکستان میں عمومی طور پر بحالی کا پروگرام 2 ہفتے سے ایک مہینے پر مشتمل ہوتا ہے جس میں دو ہفتے میں نشہ چھڑوایا جاتا ہے جبکہ اسے کے بعد مریض کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی جاتی ہے، بعض اوقات مریض کے اہلخانہ کو بھی سمجھایا جاتا ہے۔ ایسے پروگراموں سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہوتے کیونکہ ان میں 'منشیات متبادل تھراپی' (opioid drug substitution therapy)نہیں کرائی جاتی۔

عالمی سطح پر اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے پروگرام 'متبادل تھراپی' کے بغیر نتائج نہیں دیتے اور بحالی کے بعد ان افراد کے دوبارہ نشہ کے عادی ہوجانے کے امکانات 80 سے 90 فیصد تک رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منشیات کی دستیابی کو بھی روکنا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں کسی چیز کی رسد ہوگی، وہاں طلب بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ جسم فروشی روکنے کے لئے اصلاحی پروگرام سودمند ہوسکتے ہیں، کارکن اور تربیت یافتہ استاد مختلف سیمینارز کے ذریعے خواتین اور حضرات کو ایڈز سے بچاو کی طبی تعلیم دے سکتے ہیں، فوری اقدامات نہ کرنے کی صورت میں صوبے کے نظام صحت پر غیر ضروری بوجھ آسکتا ہے۔

حکومت اے آر ویز (anti retroviral drugs) مفت فراہم کرتی ہے مگر پاکستان یا صوبہ سندھ میں ایچ آئی وی سے متاثرہ تمام افراد یہ ادویات حاصل نہیں کررہے۔ ایڈز ناقابل علاج مرض ہے اور اس کے مریض کو تمام عمر ادویات استعمال کرنا پرتی ہیں، اس لئے احتیاط بہترین حکمت علمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ احتیاطی پروگرام میں روپہ کی تبدیلی ایک مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں۔

(ایڈز کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی مضمون)

(مضمون نگار فزیشن ،پبلک ہیلتھ سپیشلسٹ اور پاکستان اور امریکہ سے تربیت یافتہ ایڈز کا کارکن ہے)
Load Next Story