Brass shines under sunshine
یہی دنیا کا نظام ہے۔ کمان کی چھڑی… ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہونے سمے کتنی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی ہوں گی
29 نومبر کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا... جی ایچ کیو سے ملحقہ ہاکی اسٹیڈیم اس وقت دہرا جگمگا رہا تھا، آسمان پر سورج اور زمین پر brass ... اتنی مقدار میں شاید اس سے قبل اس کی اتنی مقدار شاید ہی ان لوگوں میں سے کسی نے دیکھی ہو جو اس وقت اس وسیع اسٹیڈیم میں موجود تھے اور ایک تاریخی لمحے کے شاہد بننے جا رہے تھے... زمین پر خاکی رنگ بکھرا ہوا تھا، فوجی بینڈ ملی اور علاقائی نغموں کی خوبصورت دھنیں بکھیر رہے تھے... ہزاروں کی تعداد میں انتہائی منظم لوگ بیٹھے بینڈ پر بجائی جانے والی دھن، '' اک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں '' کی دھن سے محظوظ ہو رہے تھے، جس کے بعد باری باری سب صوبوں اور کشمیر کے نغموں کی دھنیں بجائی گئیں۔
فوج کی اعلی کمان کے علاوہ، نیوی اور ائیر فورس کی اعلی کمان بھی وہاں موجود تھی، ہر انکلوژر میں ایک مختلف رنگ کی کرسیوں کے کور تھے جس سے انکلوژر کی پہچان ممکن تھی اور باہر سے جس رنگ کا کارڈ آپ کومل رہا تھا اس رنگ کے انکلوژر میں جا کر آپ کو بیٹھنا تھا۔ سول اعلی بیوروکریسی، سفارت کار، فوجی افسران و مختلف رینک، اسکولوں کے طلباء و طالبات، میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ ریٹائرڈ فوجی و سول لوگوں کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ اتنی شاندار تقریب شاید چشم فلک نے اس ملک میں عرصے سے نہیں دیکھی ہو گی۔ رخصت ہونے والے اور نئے آنے والے، دونوں چیف پہنچ چکے تو ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔
ایک سورج ڈھل رہا تھا اور اک نیا سورج طلوع ہو رہا تھا، ایک ایسی تقریب جسے الوداعی تقریب کا نام دیا گیا تھا مگر وقت رخصت کے لمحے سے ہی تقریب کا modeتبدیل ہو کر خوش آمدید کا سا ہو گیا، یہی دنیا کا نظام ہے۔ کمان کی چھڑی... ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہونے سمے کتنی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی ہوں گی، کتنی سانسیں تھمی ہوں گی۔ چھ سال قبل بھی یہی نظارہ تھا، کردار مختلف تھے، اختیار کی یہ چھڑی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں جنرل اشفاق پرویز کیانی کو منتقل ہوئی اور اس روز وہی چھڑی ان کے ہاتھوں سے جنرل راحیل شریف کو دی جا رہی تھی... چند برس کے بعد، یہی نظارہ ہو گا، کردار مختلف ہوں گے کہ یہی دنیا کا نظام ہے۔
مگر بد قسمتی سے اس ملک میں جو حالات ہیں اس میں کچھ بھی ہونا بعید از قیاس نہیں، اسی لیے اس تقریب کے انعقاد تک بھی لوگوں کے اذہان میں سوالات اور شبہات تھے ۔ اس کی وجہ وزیر اعظم کی طرف سے نئے چیف کے نام کو تین روز قبل تک صیغہء راز میں رکھنا تھا، چند ہفتے قبل تک تو لوگ اس بات پر ہی مشکوک تھے کہ جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں ایک بار پھر توسیع کی جا رہی ہے، ا ن شبہات کو جنرل کیانی کے اپنے اعلان نے دور کر دیا مگر ایک طبقہ پھر بھی اس بات کو بعید از قیاس نہ کرپا رہا تھا کہ انھیں اس عہدے پر قائم رکھا جائے گا، امید ہے کہ ان لوگوں کے شبہات اب مفقود ہو گئے ہوں گے۔ سب سے اچھی بات اس پوری تقریب میں لگی کہ میڈیا کو لگام ڈال کر رکھا گیا تھا، عام طور پر جس طرح یہ لوگ اپنے کیمروں سمیت اسٹیج پر چڑھے ہوئے، اہم شخصیات کے منہ میں مائیک ٹھونس رہے ہوتے ہیں، اس کے برعکس وہاں انھیں ایک خاص حد بندی کر کے کھڑا کیا گیا تھا اور جو اس کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کرتا تھا اس کی اسی وقت پوزیشن تبدیل کر دی جاتی تھی۔ فوج کے اپنے تعلقات عامہ کے شعبے کے کیمرہ مین اور رپورٹر فقط اسٹیج کے قریب تر جانے کے اہل تھے کیونکہ ان کا ایک ضابطہء اخلاق ہے جس کی وہ یقینا ہر حال میں پابندی کرتے ہیں۔
ایک بات جو کہنا ضروری ہے کہ اس تقریب کی کوریج اور اس کو دی جانے والی اہمیت سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس وقت ہمارے ملک میں یہ عہدہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کئی دنوں سے میڈیا عوام کو بھی اس سوچ اور فکر میں مبتلا کیے ہوئے تھا کہ جانے والے چیف نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کس قدر انصاف سے کام لیا اور نئے آنے والے کس طرح توقعات پر پورا اتریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سوالات کے ذریعے خواہ مخواہ hype پیدا کیا جاتا ہے حالانکہ فوج کے کماندار کی تبدیلی محکمانہ معمول کی کارروائی ہے اور اسے باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے ۔ بلا شبہ جنرل کیانی کا ملک میں برے سے برے حالات میں بھی فوج کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے باز رکھنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
ڈرائنگ رومز کی سیاسی گفتگو میں انھیں کئی لوگ کمزور چیف بھی کہتے تھے کہ جنھوں نے کئی ایسی صورت حال اور مواقع گنوا دئیے اور فوج کو آگے نہیں لائے جب کہ لوگ توقع بھی کررہے تھے اور خواہش بھی۔ ٹیلی وژن پر بھی سیاسی نمائندے منہ پھاڑ پھاڑ کر کہتے رہے کہ فوج کیا دیکھ رہی ہے، فوج کس مشکل وقت کا انتظار کر رہی ہے... آگے بڑھ کر ان سیاسی پہلوانوں کو پچھاڑ کیوں نہیں دیتی... مگر کریڈٹ دیا جانا چاہیے جنرل کیانی کو کہ جنھوں نے تین سال کی مدت ملازمت کی توسیع قبول کر کے جہاں چند حلقوں کی نظر میں ناپسندیدہ کام کیا، وہیں انھوں نے اس تمام وقت فہم سے کام لیتے ہوئے فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جن سے ہمیشہ فوج کی بدنامی ہوتی رہی ہے ... فوج کے ادارے کے بگڑے اور لٹے پٹے تاثر کو بدل دیا۔
کچھ لوگوں نے اس بات کا بھی پرچار کیا کہ انھوں نے ڈرون حملوں کی مخالفت نہیں کی، missing persons کے معاملے پر لوگوں کی مدد نہیں کی۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ڈرون حملوں کا ہونا یا نہ ہونا ملک کی حکومت کا فیصلہ ہوتا ہے فوج کا نہیں۔ فوج ملک کی سرحدوں کی محافظ اور اس کی سالمیت کی ذمے دار ہے مگر حکومت کا ایک مطیع ادارہ ہے... چیف آف آرمی اسٹاف فوج کا سربراہ ہوتا ہے، اگر وہ ملک کے آئینی سربراہ کے حکم کی اطاعت نہ کرے تو پھر ایک سابقہ چیف کی طرح بغاوت کے مقدمے بھگتتا پھرے۔ ایک عام آدمی جن معاملات کو نہیں سمجھتا، ان معاملات پر اس کی اپچ عموما سطحی (shallow )ہوتی ہے مگر دکھ تو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے so called پڑھے لکھے لوگ بھی جہالت کی بات کرتے ہیں۔
نئے آنے والے چیف کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہمیں صرف اس بات کی دعا اور توقع کرنا چاہیے کہ وہ اس ملک کی محافظ فوج کی کمان اسی طرح کریں گے جس طرح سے کہ کی جانی چاہیے۔ فوج کو سیاست اور غیر ضروری معاملات سے دور رکھ کر، ان کی تربیت کے aspect کو بالخصوص مدنظر رکھتے ہوئے، انھیں جدید ہتھیاروں سے لیس کرتے اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مثبت استعمال کر کے ، ان کا مورال بلند رکھتے ہوئے...
جنرل کیانی نے ملک کی سرحدوں کی محافظ فوج کی تعریف کی، شہید ہونے والے بچوں ، عورتوں اور سول لوگوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور پورے اعتماد سے کہا کہ انھیں دنیا کی بہترین فوج کی چھ سال کی کمانڈ پر فخر ہے... ان کی اس بات پر پورا اسٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھا، اس بات میں کوئی شک نہیں اس فوج کا ہر سپاہی دھرتی کا قرض اتارنے کے لیے اپنے سر کی بازی لگانے کو تیار ہے، جان کی قربانی اس کی نظر میں ادنی ترین قربانی ہے۔ جہاں مادر وطن اور اپنے ذاتی مفادات کے مابین انتخاب کا مرحلہ آتا ہے ان کی کوئی دو رائے نہیں ہوتیں ۔ ایک عام آدمی کی سوچ خود سے شروع ہو کر خود پر ہی ختم ہوتی ہے مگر ملک کے ایک جیالے سپاہی کی سوچ ملک سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی ہے اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ خود کو وطن سے اور وطن کو خود سے سمجھتا ہے اور ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہے۔
ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، مگر نظام نہیں صرف چہرے بدلے ہیں۔ نئے آرمی چیف کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی سلامتی کی دعا کے ساتھ امید ہے کہ وہ اس ملک کی فوج کا شاندار ریکارڈ قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہیں گے اور ان سے جو توقعات وابستہ کی جارہی ہیںان پر وہ پورا اتریں گے۔ اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو، پاکستان زندہ باد، افواج پاکستان پائندہ باد!!!
فوج کی اعلی کمان کے علاوہ، نیوی اور ائیر فورس کی اعلی کمان بھی وہاں موجود تھی، ہر انکلوژر میں ایک مختلف رنگ کی کرسیوں کے کور تھے جس سے انکلوژر کی پہچان ممکن تھی اور باہر سے جس رنگ کا کارڈ آپ کومل رہا تھا اس رنگ کے انکلوژر میں جا کر آپ کو بیٹھنا تھا۔ سول اعلی بیوروکریسی، سفارت کار، فوجی افسران و مختلف رینک، اسکولوں کے طلباء و طالبات، میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ ریٹائرڈ فوجی و سول لوگوں کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ اتنی شاندار تقریب شاید چشم فلک نے اس ملک میں عرصے سے نہیں دیکھی ہو گی۔ رخصت ہونے والے اور نئے آنے والے، دونوں چیف پہنچ چکے تو ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔
ایک سورج ڈھل رہا تھا اور اک نیا سورج طلوع ہو رہا تھا، ایک ایسی تقریب جسے الوداعی تقریب کا نام دیا گیا تھا مگر وقت رخصت کے لمحے سے ہی تقریب کا modeتبدیل ہو کر خوش آمدید کا سا ہو گیا، یہی دنیا کا نظام ہے۔ کمان کی چھڑی... ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہونے سمے کتنی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی ہوں گی، کتنی سانسیں تھمی ہوں گی۔ چھ سال قبل بھی یہی نظارہ تھا، کردار مختلف تھے، اختیار کی یہ چھڑی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں جنرل اشفاق پرویز کیانی کو منتقل ہوئی اور اس روز وہی چھڑی ان کے ہاتھوں سے جنرل راحیل شریف کو دی جا رہی تھی... چند برس کے بعد، یہی نظارہ ہو گا، کردار مختلف ہوں گے کہ یہی دنیا کا نظام ہے۔
مگر بد قسمتی سے اس ملک میں جو حالات ہیں اس میں کچھ بھی ہونا بعید از قیاس نہیں، اسی لیے اس تقریب کے انعقاد تک بھی لوگوں کے اذہان میں سوالات اور شبہات تھے ۔ اس کی وجہ وزیر اعظم کی طرف سے نئے چیف کے نام کو تین روز قبل تک صیغہء راز میں رکھنا تھا، چند ہفتے قبل تک تو لوگ اس بات پر ہی مشکوک تھے کہ جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں ایک بار پھر توسیع کی جا رہی ہے، ا ن شبہات کو جنرل کیانی کے اپنے اعلان نے دور کر دیا مگر ایک طبقہ پھر بھی اس بات کو بعید از قیاس نہ کرپا رہا تھا کہ انھیں اس عہدے پر قائم رکھا جائے گا، امید ہے کہ ان لوگوں کے شبہات اب مفقود ہو گئے ہوں گے۔ سب سے اچھی بات اس پوری تقریب میں لگی کہ میڈیا کو لگام ڈال کر رکھا گیا تھا، عام طور پر جس طرح یہ لوگ اپنے کیمروں سمیت اسٹیج پر چڑھے ہوئے، اہم شخصیات کے منہ میں مائیک ٹھونس رہے ہوتے ہیں، اس کے برعکس وہاں انھیں ایک خاص حد بندی کر کے کھڑا کیا گیا تھا اور جو اس کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کرتا تھا اس کی اسی وقت پوزیشن تبدیل کر دی جاتی تھی۔ فوج کے اپنے تعلقات عامہ کے شعبے کے کیمرہ مین اور رپورٹر فقط اسٹیج کے قریب تر جانے کے اہل تھے کیونکہ ان کا ایک ضابطہء اخلاق ہے جس کی وہ یقینا ہر حال میں پابندی کرتے ہیں۔
ایک بات جو کہنا ضروری ہے کہ اس تقریب کی کوریج اور اس کو دی جانے والی اہمیت سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس وقت ہمارے ملک میں یہ عہدہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کئی دنوں سے میڈیا عوام کو بھی اس سوچ اور فکر میں مبتلا کیے ہوئے تھا کہ جانے والے چیف نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کس قدر انصاف سے کام لیا اور نئے آنے والے کس طرح توقعات پر پورا اتریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سوالات کے ذریعے خواہ مخواہ hype پیدا کیا جاتا ہے حالانکہ فوج کے کماندار کی تبدیلی محکمانہ معمول کی کارروائی ہے اور اسے باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے ۔ بلا شبہ جنرل کیانی کا ملک میں برے سے برے حالات میں بھی فوج کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے باز رکھنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
ڈرائنگ رومز کی سیاسی گفتگو میں انھیں کئی لوگ کمزور چیف بھی کہتے تھے کہ جنھوں نے کئی ایسی صورت حال اور مواقع گنوا دئیے اور فوج کو آگے نہیں لائے جب کہ لوگ توقع بھی کررہے تھے اور خواہش بھی۔ ٹیلی وژن پر بھی سیاسی نمائندے منہ پھاڑ پھاڑ کر کہتے رہے کہ فوج کیا دیکھ رہی ہے، فوج کس مشکل وقت کا انتظار کر رہی ہے... آگے بڑھ کر ان سیاسی پہلوانوں کو پچھاڑ کیوں نہیں دیتی... مگر کریڈٹ دیا جانا چاہیے جنرل کیانی کو کہ جنھوں نے تین سال کی مدت ملازمت کی توسیع قبول کر کے جہاں چند حلقوں کی نظر میں ناپسندیدہ کام کیا، وہیں انھوں نے اس تمام وقت فہم سے کام لیتے ہوئے فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جن سے ہمیشہ فوج کی بدنامی ہوتی رہی ہے ... فوج کے ادارے کے بگڑے اور لٹے پٹے تاثر کو بدل دیا۔
کچھ لوگوں نے اس بات کا بھی پرچار کیا کہ انھوں نے ڈرون حملوں کی مخالفت نہیں کی، missing persons کے معاملے پر لوگوں کی مدد نہیں کی۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ڈرون حملوں کا ہونا یا نہ ہونا ملک کی حکومت کا فیصلہ ہوتا ہے فوج کا نہیں۔ فوج ملک کی سرحدوں کی محافظ اور اس کی سالمیت کی ذمے دار ہے مگر حکومت کا ایک مطیع ادارہ ہے... چیف آف آرمی اسٹاف فوج کا سربراہ ہوتا ہے، اگر وہ ملک کے آئینی سربراہ کے حکم کی اطاعت نہ کرے تو پھر ایک سابقہ چیف کی طرح بغاوت کے مقدمے بھگتتا پھرے۔ ایک عام آدمی جن معاملات کو نہیں سمجھتا، ان معاملات پر اس کی اپچ عموما سطحی (shallow )ہوتی ہے مگر دکھ تو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے so called پڑھے لکھے لوگ بھی جہالت کی بات کرتے ہیں۔
نئے آنے والے چیف کو خوش آمدید کہتے ہوئے ہمیں صرف اس بات کی دعا اور توقع کرنا چاہیے کہ وہ اس ملک کی محافظ فوج کی کمان اسی طرح کریں گے جس طرح سے کہ کی جانی چاہیے۔ فوج کو سیاست اور غیر ضروری معاملات سے دور رکھ کر، ان کی تربیت کے aspect کو بالخصوص مدنظر رکھتے ہوئے، انھیں جدید ہتھیاروں سے لیس کرتے اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مثبت استعمال کر کے ، ان کا مورال بلند رکھتے ہوئے...
جنرل کیانی نے ملک کی سرحدوں کی محافظ فوج کی تعریف کی، شہید ہونے والے بچوں ، عورتوں اور سول لوگوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور پورے اعتماد سے کہا کہ انھیں دنیا کی بہترین فوج کی چھ سال کی کمانڈ پر فخر ہے... ان کی اس بات پر پورا اسٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھا، اس بات میں کوئی شک نہیں اس فوج کا ہر سپاہی دھرتی کا قرض اتارنے کے لیے اپنے سر کی بازی لگانے کو تیار ہے، جان کی قربانی اس کی نظر میں ادنی ترین قربانی ہے۔ جہاں مادر وطن اور اپنے ذاتی مفادات کے مابین انتخاب کا مرحلہ آتا ہے ان کی کوئی دو رائے نہیں ہوتیں ۔ ایک عام آدمی کی سوچ خود سے شروع ہو کر خود پر ہی ختم ہوتی ہے مگر ملک کے ایک جیالے سپاہی کی سوچ ملک سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی ہے اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ خود کو وطن سے اور وطن کو خود سے سمجھتا ہے اور ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہے۔
ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، مگر نظام نہیں صرف چہرے بدلے ہیں۔ نئے آرمی چیف کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی سلامتی کی دعا کے ساتھ امید ہے کہ وہ اس ملک کی فوج کا شاندار ریکارڈ قائم رکھنے کے لیے کوشاں رہیں گے اور ان سے جو توقعات وابستہ کی جارہی ہیںان پر وہ پورا اتریں گے۔ اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو، پاکستان زندہ باد، افواج پاکستان پائندہ باد!!!