ہمارا گھر کیوں جل رہا ہے

سیاست کرنا یا حکومت چلانا آسان کام نہیں ہوتا، لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوتا ہے


Syed Asadullah November 30, 2013

جی ہاں! یہ ملک ہمارا گھر ہی ہے جس طرح ہم اپنے گھر کی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح اس گھر کی حفاظت کرنا صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنا اسے ایک خوشحال ملک بنانا۔ اس کے شہریوں کو تمام بنیادی سہولتیں مہیا کرنا۔ اس سرسبز لہلہاتے کھیتوں اور باغات کی دیکھ بھال کرنا۔ اس کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں کی حفاظت کرنا انھیں ٹوٹ پھوٹ سے بچانا، انھیں گندگی اور کچرا ڈال کر بدصورت نہیں کرنا، یہی ہمارا فرض ہے۔ اس لیے کہ ہم اس ملک کے شہری ہی نہیں ہیں بلکہ اس گھر کے مالک ہیں۔ جس طرح ہم اپنے گھر کا ہر طریقے سے خیال رکھتے ہیں، ہم اس گھر کا بھی خیال کیوں نہیں رکھتے؟ بڑے افسوس کی بات ہے ہم اس گھر کے مالک ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ اس کی دیکھ بھال سمیت دیگر امور بھی صرف حکومت کا کام ہے۔ جی نہیں! یہ ہمارا بھی فرض ہے بحیثیت اس ملک کے شہری ہونے کے ناتے اگر ہم اس فریضے کو انجام دیں گے تو حکومت بھی مجبور ہوجائے گی، اس کی دیکھ بھال کرنے اور ہم کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اگر ہم اپنا فرض کی طرف سے غفلت برتیں گے تو حکومت ہماری غفلت سے ناجائز فائدہ یقینا حاصل کرے گی۔

یہ تو ہوئی ہمارے فریضے کی بات جس کا ادا کرنا ہمارا بھی ملک کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہی تو ہے کہ ہمارے اپنے منتخب نمایندے جب ایوانوں میں پہنچ کر حکومت بنا لیتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اب ہم اس ملک کے مالک ہوگئے ہیں اور اسے اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں یہی خرابی تو کسی ملک کے بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ اگر ہمارے منتخب نمایندے حکومت قائم کرلینے کے بعد یہ تصور اجاگر کریں کہ یہ ملک صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ پوری عوام کا ملک ہے۔ ہمیں بھی اپنا فریضہ ایمانداری، خلوص نیت، قومی جذبے اور حب الوطنی سے ادا کرنا ہے۔ تب ہی تو عوام بھی خوشحال ہوگی اور ملک بھی خوشحالی اور ترقی پر گامزن ہوگا۔ آج 66 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کچھ نہ کرسکے اور نہ ہی اسے خوشحالی و ترقی کی راہ پر ڈال سکے۔ یہ صورت بدقسمتی سے سول حکومتوں کے ادوار ہی میں دیکھنے میں آئی ہو۔ فوجی حکومتوں کے ادوار میں کچھ ترقیاتی کام ہو بھی جاتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ بعدازاں وہ بھی سیاسی شخصیات اور سیاسی پارٹیوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں اور ان کے ادوار میں بھی لاپرواہی اور بے توجہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس طرح خراب حکمرانی کا طوق ان کے گلے میں بھی پڑ جاتا ہے۔ کہتے ہیں نا! کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے وہی حال آمروں کا بھی ہوجاتا ہے۔ انھیں حکومتیں بنانے کا شوق تو بہت ہوتا ہے اور حکومتیں بنا بھی لیتے ہیں، جس کے لیے جواز بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ لیکن انھیں یہ اندازہ بالکل نہیں ہوتا کہ حکومت بنانے کے بعد کس طرح کے سیاستدانوں اور بیوروکریسی سے واسطہ پڑے گا۔ جس وقت تک اوکلی میں سر نہیں دیا جاتا اس وقت تک چوٹ کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ کتنی زوردار چوٹیں لگتی ہیں۔سیاست کرنا یا حکومت چلانا آسان کام نہیں ہوتا، لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوتا ہے۔ عوام کے حقوق کا خیال رکھنا، مخالفین کی چالوں کا سامنا کرنا اور مفاہمت وہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ تمام امور جو اوپر بیان کیے گئے ہیں یہ حقیقت ہیں مفروضوں پر مبنی نہیں۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہیے کہ شروع سے آج تک ہمیں اہل قیادت ہی نصیب نہیں ہوئی۔

قیادت کا فقدان رہا ہے اور آج بھی ہے۔ جب عوام کو صحیح لیڈر شپ ہی نہیں ملے گی تو کیا خاک وہ عوام و ملک کے خیر خواہ ہوں گے۔ وہ تو اقتدار پاتے ہی عوام کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ انھیں بھیڑ بکریاں سمجھ کر ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے لگ جاتے ہیں۔ اچھے بروں کی تمیز ہی نہیں کرتے۔ بس اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دے کے مترادف یہ رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔ پہلے ہی ملک کے ہر طرف ظلم و خوف کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ اوپر بیان کی گئی صورت حال واضح طور پر بتاتی ہے کہ ہمارا گھر چاروں طرف سے دہشتگردوں کی زد میں ہے۔ اس لیے اعلیٰ حکام اور ذمے داران کی ذمے داری ہوتی ہے وہ ان گمبھیر حالات کو قابو کرنے کے لیے سخت اقدامات کریں۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ بقول وزیر اعلیٰ سندھ شرپسندوں اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا۔ اس لیے قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور رینجرز کو بھی چاہیے کہ وہ دہشتگردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹیں۔ وقفے وقفے سے سانحات رونما ہورہے ہیں جن میں بے گناہوں کا خون بہہ رہا ہے۔ ایک سانحے کے اثرات زائل ہوتے نہیں کہ دوسرا سانحہ وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ ایسے میں قانون نافذ کرنیوالوں اور رینجرز کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ہمارے گھر کے ایک کونے (شہر کراچی) میں تو کئی سالوں سے آگ لگی ہوئی ہے اور یہ شہر جل رہا ہے۔

خدانخواستہ اس کو بجھانے کی کوشش نہ کی گئی تو کہیں یہ آگ ملک کے دوسرے حصوں کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے خدا کرے ایسا وقت نہ آئے۔ صوبائی حکومتوں کی رٹ کہیں نظر نہیں آرہی ہے جس کی وجہ سے وفاقی وزیر داخلہ اور وفاقی وزرا صوبوں میں مداخلت کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں شدت پسند عناصر کو تقویت حاصل ہو رہی ہے چونکہ آٹھویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو خودمختار بنادیا گیا ہے لہٰذا وفاق اس وقت تک صوبائی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتا جب تک صوبائی حکومتیں درخواست نہ کریں۔ لیکن ابھی جو تازہ تازہ سانحہ راولپنڈی رونما ہوا اس نے صرف پنجاب حکومت ہی نہیں بلکہ وفاق اور دیگر صوبوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ یعنی سب کو ''ہائی الرٹ'' کردیا۔ کئی سالوں سے ملک میں فرقہ ورانہ فسادات رکے ہوئے ہیں لیکن بعض ملک و قوم دشمن عناصر اپنے بیانات سے رونما ہونیوالے سانحات کو فرقہ وارانہ فساد کا نام دے رہے ہیں اس کو کہتے ہیں جلتی پر تیل چھڑکنا۔ خدارا! ایسے مذموم بیانات سے گریز کریں اور ملک میں جو آگ لگی ہوئی ہے اسے ہوا نہ دیں۔

اب تو سانحہ راولپنڈی آتشی مسئلہ بن گیا ہے Burning Issues) ہر طرف سے احتجاج بلند ہو رہا ہے، ریلیوں کے پروگرام بن رہے ہیں۔ مذمتی جلوس بھی نکالے جارہے ہیں، وزیر اعظم کی یقین دہانیوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہا اور نہ ہی خاطر میں لایا جارہا ہے۔ یوم مذمت منانے کے بھی اعلانات ہو رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ عوام کا کیا پوچھتے ہو عوام تو بے بس، مجبورولاچار اپنے ہی بنیادی مسائل کے تلے دبی ہوئی ہے ان تمام گمبھیر حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہاں اگر ملکی سلامتی کا معاملہ سنگین صورت اختیار کرلے تو عوام سر بکف میدان میں آجائیں گے یہ تو ان کی فطرت ہے اور ان کی گھٹی میں پیوست ہے۔ ایسے میں کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ موجودہ ایستادہ دو مسائل سے عوام کا کوئی سروکار نہیں ان کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ عوامی سوچ اس کشیدہ صورت حال میں دم بخود ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ حکومت کی ذمے داری (وفاقی و صوبائی) ہے کہ موجودہ کھڑے کیے گئے مسائل سے نمٹنے کے لیے راہ تلاش کرے عوام کو تشویش و ابتلا میں نہ ڈالے۔

سانحہ راولپنڈی، تھیسس اسٹڈی بن گیا ہے۔ (Thesis Study) اس میں ماہرین کی خدمات حاصل کیے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ ماہرین تو الحمد اللہ بہت ہیں لیکن ان کی خدمات حاصل کرکے ان کی مشاورت سے ان گمبھیر مسائل کا حل ڈھونڈنے سے احتراز کیا جارہا ہے۔ ان کی خدمات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جارہا ہے۔ جہاں ہر ایشو پر سیاست کی جاتی ہو۔ وہاں ماہرین کی موجودگی بھی بے سود ثابت ہو رہی ہے۔ ہاں! اگر غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے لیے کہا جائے تو آناً فاناً منصوبے تیار ہوجاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ سود مند ثابت تو نہیں ہوتے لیکن مالی فوائد زیادہ مہیا کرتے ہیں (یعنی کمیشن بھی دیتے ہیں)۔ صحیح تو کہہ رہے ہیں اعلیٰ حکام کہ جس کام میں مالی فوائد پیش نظر ہوں وہ زیادہ ترجیح کے مستحق ہوتے ہیں۔ مثلاً توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے رینٹل پاور معاہدے، (جن کی بابت سپریم کورٹ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے تفتیش کر رہی ہے) اس ساری بحث کے بعد بالآخر اس نتیجے پر پہنچ سکا ہوں کہ سانحہ راولپنڈی نے تمام خرافات کو ''پنڈ'' سے باہر لے آیا۔ انتظار فرمائیے! اور اس گھر کے حق میں دعا کیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں