پی ٹی آئی کی میڈیا اور سوشل میڈیا اسٹریٹجی تبدیلی لائیے
پی ٹی آئی کے کارکنان بالخصوص نظریاتی کارکنان حقیقت پسندانہ اپروچ اختیار کریں
پچھلے دنوں وزیر اعظم نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے کچھ وزرا کے بارے میں شکوہ کیا کہ وہ اپنے دفتروں سے زیادہ اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں پائے جاتے ہیں اور یہ کہ اگر کبھی کسی دن اپوزیشن کی طرف سے کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو تو ان کے شہ دماغ وزرا میں سے کوئی نہ کوئی اپنے کسی نہ کسی بیان سے حکومت کے لیے مسئلہ پیدا کردیتا ہے۔
وزیر اعظم کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی ٹیم مینجمنٹ میں ابھی بہتری کے کافی امکانات موجود ہیں مگر بہتر ہوگا کہ ہم اس معاملے پہ سر کھپانے سے پہلے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مینجمنٹ پہ کچھ بات کرلیں۔ وزیر اعظم آئے روز پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے کارکنوں سے ملتے رہتے ہیں جو ان کی سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کی معاشرے پہ اثرانداز ہونے کی صلاحیت کے بارے میں حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں نے سوشل میڈیا کو کامیابی سے استعمال کیا ہے اور اس ضمن میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا اسٹرٹیجی روایتی طور پہ جارحانہ رہی ہے جس کا فوکس زرداری اور شریف حکومتوں کی مبینہ کرپشن اور نااہلی کو اجاگر کرنا رہا ہے اور اس فوکس میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا اپروچ خصوصاً پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنان کے جارحانہ پن سے بہت سے لوگوں خصوصاً میڈیا کی کئی شخصیات کو بڑی شکایات ہیں۔ غیر معیاری انداز گفتگو اور ناقابل اشاعت قسم کی زبان کا استعمال ظاہر ہے کہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے مگر ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا اپروچ اتنی جارحانہ کیوں رہی ہے۔ وجہ اس کی بڑی سادہ سی ہے۔
پچھلے بائیس چوبیس سالوں سے پی ٹی آئی کو تن تنہا نہ صرف اسٹیٹس کو کی حامی سیاسی پارٹیوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے بلکہ ان کے ان گنت سیاسی و غیر سیاسی اتحادیوں اور سرپرستوں کا بھی۔ پچھلے چالیس پچاس سالوں میں حکومت کرنے والی پارٹیوں نے ''لوٹو اور لوٹنے دو'' والی اپنی پالیسی سے کئی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سویلین بیورو کریسی کے بڑے حصے کو اپنا کٹر حامی بنا لیا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ ان چار پانچ عشروں خصوصاً 2008 میں این آر او جمہوریت کے نزول کے بعد تیزی سے ابھرنے اور طاقتور ہونے والی بے شمار مافیائیں بھی پی ٹی آئی کی کلیدی مخالف پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قدرتی اتحادی اور دست بازو ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ملک میں کرپشن اور ''طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں اور کمزور کے لیے کوئی انصاف نہیں''والے نو آبادیاتی اسٹیٹس کو کے سرپرست ادارے بھی ان پارٹیوں کے دائمی سرپرست اور محافظ ہیں۔
2018 تک ان پارٹیوں کی حکومتوں نے ملکی خزانے پہ ایسی بھرپور جھاڑو پھیری تھی اور صرف دس سالوں میں ملک پہ چڑھنے والے کل قرضوں سے پانچ گنا زیادہ قرضے ایسے چڑھائے تھے کہ اسٹیٹس کو کے محافظ ادارے پی ٹی آئی کو حکومت میں آنے دینے پہ مجبور ہوگئے تاکہ قومی معیشت کی بحالی اورسابق حکومتی پارٹیوں کے ملک پہ لادے گئے کھربوں کے قرضے اور ان کا سود اتارنے کے لیے سخت اقدامات کا عوامی ردعمل پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف آئے جب کہ طاقتور اداروں کی فیوریٹپارٹیاں اپنی سیاسی پوزیشن بہتر کرسکیں۔
تاہم پی ٹی آئی کو حکومت دیتے ہوئے بھی احتیاط یہ کی گئی یا کہہ لیں کہ ڈنڈی یہ ماری گئی کہ پی ٹی آئی کو فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کرنے دی گئی تاکہ یہ حکومت ماتحت چھوٹی پارٹیوں کی محتاج رہے دوسرے پی ٹی آئی میں مختلف کرپٹ پارٹیوں کے کرپٹ افراد داخل کروائے گئے تاکہ ان سے اس پارٹی میں ففتھ کالم کا کام لیا جاسکے۔ پی ٹی آئی کے لوگ خصوصاً کارکنان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ''دو نہیں ایک پاکستان'' والا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے سیاسی پارٹیوں اور سول بیورو کریسی اور دوسری مافیاؤں کے بڑے بڑے کرداروں کو نئے این آر او اور ریلیف پہ ریلیف ملتے گئے ویسے ویسے پی ٹی آئی کے کارکنان کی یہ غلط فہمی دور ہوتی گئی اور ان کا لہجہ مزید تلخ ہوتا گیا۔
اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان بالخصوص نظریاتی کارکنان حقیقت پسندانہ اپروچ اختیار کریں سب سے پہلے یہ اس اٹل اور ابدی حقیقت کو مان لیں کہ ملک کے ادارے ملک میں اسٹیٹس کو کے محافظ ہیں اور پاکستان کے تمام کرپٹ حکمران طبقے کے افراد کوئی الگ تھلگ گروہ نہیں بلکہ ان کے ملک کے اعلیٰ عہدیداروں اور منصب داروں سے قریبی دوستیاں اور رشتے داریاں ہیں اور یہ کوئی آج سے نہیں بلکہ پچھلے پچاس ساٹھ سالوں سے چلی آنے والی روایتی اور تاریخی حقیقت ہے چنانچہ یہ ادارے ہمیشہ اسی طرح ملک کو لوٹنے والے اپنے سیاسی اتحادیوں کو این آر او پہ این آر او اور ریلیف پہ ریلیف دیتے رہیں گے کیونکہ ان کو یہ ڈر ہے کہ اگر آج کسی بڑے لٹیرے سیاستدان یا بیورو کریٹ یا کسی اور مافیا کے بڑے آدمی کو اس ملک کی محکوم رعایا کے کسی عام فرد کی طرح سزا ملنے کی بدعت شروع ہوگئی تو کل کلاں یہ سلسلہ پھیل سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال میں پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بیک وقت کئی سمتوں میں چومکھی لڑائی لڑتا ہے جس کے لیے اسے لامحالہ جارحانہ اور تلخ انداز اپنانا پڑتا ہے۔
ادھر پی ٹی آئی کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ میڈیا کا وہ بڑا حصہ ہے جس پہ اس کے سیاسی مخالفین نے عوام کے پیسے سے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ میڈیا کا یہ حصہ جس میں میڈیا کے پورے کے پورے گروپ اور مختلف چینلوں اور اخباروں کے ٹاک شو اینکرز اور کالم نگار شامل ہیں پی ٹی آئی حکومت کے ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں اور کبھی جو تعریف کرنی پڑ جائے تو اس میں اپنے عناد اور بغض کی مینگنیاں ڈالنی نہیں بھولتے چنانچہ پی ٹی آئی حکومت کے مثبت کام بھی اجاگر نہیں ہو پاتے جب کہ ادھر حال یہ ہے کہ دیہی سندھ کی نمایندہ پیپلز پارٹی کی کامیاب میڈیا اسٹریٹجی اتنی موثر ہے کہ اس کی سندھ کی صوبائی حکومت صرف بیانات دے کر اور وفاق پیسے نہیں دیتا کا شور مچا کر میڈیا کی ہیڈ لائنز میں رہتی ہے۔
سندھ میں پورے ملک سے زیادہ ایڈز کے مریض ہیں، پچھلے سال دگنی آبادی والے پنجاب سے زیادہ ڈینگی کے کیسز سندھ میں پیش آئے، پولیو کیسز میں بھی سندھ سب سے آگے آگے ہے، کتے کے کاٹے جانے سے سب سے زیادہ افراد زخمی اور ہلاک سندھ میں ہوتے ہیں ، اور تو اور کورونا وائرس کے کئی سو مشتبہ زائرین کا پتا نہیں چلا کہ وہ سندھ میں کہاں گئے، گڈاپ میں کورونا متاثرین کے لیے اسپتال تیار نہیں ہوسکے، سکھر میں بھی سہولتوں کے فقدان کی شکایات ہیں مگر میڈیا دیکھ لیں سندھ حکومت کے گن گا رہا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کو ایک تو میڈیا پر جائز انداز میں خرچ کرنا ہوگا مثلاً یہ کہ میڈیا پر حکومت صفائی ستھرائی، سماجی تعلیم و تربیت اور شہری آداب پہ مسلسل آگہی کمپینز چلائے تاکہ میڈیا گروپس مالی مشکلات سے نکل سکیں، قوم کا بھلا ہو اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف میڈیا میں نفرت میں کچھ کمی ہو دوسری اہم بات یہ کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنان کو اپنا فوکس بڑی حد تک پی ٹی آئی حکومت کے مثبت کاموں اور کامیابیوں کو اجاگر کرنے پہ بھی دینا ہوگا جو مین اسٹریم میڈیا نہیں کرتا۔ رہی کرپشن کے خلاف مہم تو وہ آپ کم چلائیں یا زیادہ، ملک کے اربوں کھربوں لوٹنے والوں کو ایسے ہی این آر او پہ این آر او اور ریلیف پہ ریلیف ملتے رہیں گے اور آپ پھر یوں ہی کھمبا نوچتے رہیں گے۔
وزیر اعظم کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی ٹیم مینجمنٹ میں ابھی بہتری کے کافی امکانات موجود ہیں مگر بہتر ہوگا کہ ہم اس معاملے پہ سر کھپانے سے پہلے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مینجمنٹ پہ کچھ بات کرلیں۔ وزیر اعظم آئے روز پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے کارکنوں سے ملتے رہتے ہیں جو ان کی سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کی معاشرے پہ اثرانداز ہونے کی صلاحیت کے بارے میں حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں نے سوشل میڈیا کو کامیابی سے استعمال کیا ہے اور اس ضمن میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا اسٹرٹیجی روایتی طور پہ جارحانہ رہی ہے جس کا فوکس زرداری اور شریف حکومتوں کی مبینہ کرپشن اور نااہلی کو اجاگر کرنا رہا ہے اور اس فوکس میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا اپروچ خصوصاً پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنان کے جارحانہ پن سے بہت سے لوگوں خصوصاً میڈیا کی کئی شخصیات کو بڑی شکایات ہیں۔ غیر معیاری انداز گفتگو اور ناقابل اشاعت قسم کی زبان کا استعمال ظاہر ہے کہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے مگر ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا اپروچ اتنی جارحانہ کیوں رہی ہے۔ وجہ اس کی بڑی سادہ سی ہے۔
پچھلے بائیس چوبیس سالوں سے پی ٹی آئی کو تن تنہا نہ صرف اسٹیٹس کو کی حامی سیاسی پارٹیوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے بلکہ ان کے ان گنت سیاسی و غیر سیاسی اتحادیوں اور سرپرستوں کا بھی۔ پچھلے چالیس پچاس سالوں میں حکومت کرنے والی پارٹیوں نے ''لوٹو اور لوٹنے دو'' والی اپنی پالیسی سے کئی سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سویلین بیورو کریسی کے بڑے حصے کو اپنا کٹر حامی بنا لیا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ ان چار پانچ عشروں خصوصاً 2008 میں این آر او جمہوریت کے نزول کے بعد تیزی سے ابھرنے اور طاقتور ہونے والی بے شمار مافیائیں بھی پی ٹی آئی کی کلیدی مخالف پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قدرتی اتحادی اور دست بازو ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ملک میں کرپشن اور ''طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں اور کمزور کے لیے کوئی انصاف نہیں''والے نو آبادیاتی اسٹیٹس کو کے سرپرست ادارے بھی ان پارٹیوں کے دائمی سرپرست اور محافظ ہیں۔
2018 تک ان پارٹیوں کی حکومتوں نے ملکی خزانے پہ ایسی بھرپور جھاڑو پھیری تھی اور صرف دس سالوں میں ملک پہ چڑھنے والے کل قرضوں سے پانچ گنا زیادہ قرضے ایسے چڑھائے تھے کہ اسٹیٹس کو کے محافظ ادارے پی ٹی آئی کو حکومت میں آنے دینے پہ مجبور ہوگئے تاکہ قومی معیشت کی بحالی اورسابق حکومتی پارٹیوں کے ملک پہ لادے گئے کھربوں کے قرضے اور ان کا سود اتارنے کے لیے سخت اقدامات کا عوامی ردعمل پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف آئے جب کہ طاقتور اداروں کی فیوریٹپارٹیاں اپنی سیاسی پوزیشن بہتر کرسکیں۔
تاہم پی ٹی آئی کو حکومت دیتے ہوئے بھی احتیاط یہ کی گئی یا کہہ لیں کہ ڈنڈی یہ ماری گئی کہ پی ٹی آئی کو فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کرنے دی گئی تاکہ یہ حکومت ماتحت چھوٹی پارٹیوں کی محتاج رہے دوسرے پی ٹی آئی میں مختلف کرپٹ پارٹیوں کے کرپٹ افراد داخل کروائے گئے تاکہ ان سے اس پارٹی میں ففتھ کالم کا کام لیا جاسکے۔ پی ٹی آئی کے لوگ خصوصاً کارکنان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ''دو نہیں ایک پاکستان'' والا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے سیاسی پارٹیوں اور سول بیورو کریسی اور دوسری مافیاؤں کے بڑے بڑے کرداروں کو نئے این آر او اور ریلیف پہ ریلیف ملتے گئے ویسے ویسے پی ٹی آئی کے کارکنان کی یہ غلط فہمی دور ہوتی گئی اور ان کا لہجہ مزید تلخ ہوتا گیا۔
اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان بالخصوص نظریاتی کارکنان حقیقت پسندانہ اپروچ اختیار کریں سب سے پہلے یہ اس اٹل اور ابدی حقیقت کو مان لیں کہ ملک کے ادارے ملک میں اسٹیٹس کو کے محافظ ہیں اور پاکستان کے تمام کرپٹ حکمران طبقے کے افراد کوئی الگ تھلگ گروہ نہیں بلکہ ان کے ملک کے اعلیٰ عہدیداروں اور منصب داروں سے قریبی دوستیاں اور رشتے داریاں ہیں اور یہ کوئی آج سے نہیں بلکہ پچھلے پچاس ساٹھ سالوں سے چلی آنے والی روایتی اور تاریخی حقیقت ہے چنانچہ یہ ادارے ہمیشہ اسی طرح ملک کو لوٹنے والے اپنے سیاسی اتحادیوں کو این آر او پہ این آر او اور ریلیف پہ ریلیف دیتے رہیں گے کیونکہ ان کو یہ ڈر ہے کہ اگر آج کسی بڑے لٹیرے سیاستدان یا بیورو کریٹ یا کسی اور مافیا کے بڑے آدمی کو اس ملک کی محکوم رعایا کے کسی عام فرد کی طرح سزا ملنے کی بدعت شروع ہوگئی تو کل کلاں یہ سلسلہ پھیل سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال میں پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بیک وقت کئی سمتوں میں چومکھی لڑائی لڑتا ہے جس کے لیے اسے لامحالہ جارحانہ اور تلخ انداز اپنانا پڑتا ہے۔
ادھر پی ٹی آئی کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ میڈیا کا وہ بڑا حصہ ہے جس پہ اس کے سیاسی مخالفین نے عوام کے پیسے سے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ میڈیا کا یہ حصہ جس میں میڈیا کے پورے کے پورے گروپ اور مختلف چینلوں اور اخباروں کے ٹاک شو اینکرز اور کالم نگار شامل ہیں پی ٹی آئی حکومت کے ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں اور کبھی جو تعریف کرنی پڑ جائے تو اس میں اپنے عناد اور بغض کی مینگنیاں ڈالنی نہیں بھولتے چنانچہ پی ٹی آئی حکومت کے مثبت کام بھی اجاگر نہیں ہو پاتے جب کہ ادھر حال یہ ہے کہ دیہی سندھ کی نمایندہ پیپلز پارٹی کی کامیاب میڈیا اسٹریٹجی اتنی موثر ہے کہ اس کی سندھ کی صوبائی حکومت صرف بیانات دے کر اور وفاق پیسے نہیں دیتا کا شور مچا کر میڈیا کی ہیڈ لائنز میں رہتی ہے۔
سندھ میں پورے ملک سے زیادہ ایڈز کے مریض ہیں، پچھلے سال دگنی آبادی والے پنجاب سے زیادہ ڈینگی کے کیسز سندھ میں پیش آئے، پولیو کیسز میں بھی سندھ سب سے آگے آگے ہے، کتے کے کاٹے جانے سے سب سے زیادہ افراد زخمی اور ہلاک سندھ میں ہوتے ہیں ، اور تو اور کورونا وائرس کے کئی سو مشتبہ زائرین کا پتا نہیں چلا کہ وہ سندھ میں کہاں گئے، گڈاپ میں کورونا متاثرین کے لیے اسپتال تیار نہیں ہوسکے، سکھر میں بھی سہولتوں کے فقدان کی شکایات ہیں مگر میڈیا دیکھ لیں سندھ حکومت کے گن گا رہا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کو ایک تو میڈیا پر جائز انداز میں خرچ کرنا ہوگا مثلاً یہ کہ میڈیا پر حکومت صفائی ستھرائی، سماجی تعلیم و تربیت اور شہری آداب پہ مسلسل آگہی کمپینز چلائے تاکہ میڈیا گروپس مالی مشکلات سے نکل سکیں، قوم کا بھلا ہو اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف میڈیا میں نفرت میں کچھ کمی ہو دوسری اہم بات یہ کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کارکنان کو اپنا فوکس بڑی حد تک پی ٹی آئی حکومت کے مثبت کاموں اور کامیابیوں کو اجاگر کرنے پہ بھی دینا ہوگا جو مین اسٹریم میڈیا نہیں کرتا۔ رہی کرپشن کے خلاف مہم تو وہ آپ کم چلائیں یا زیادہ، ملک کے اربوں کھربوں لوٹنے والوں کو ایسے ہی این آر او پہ این آر او اور ریلیف پہ ریلیف ملتے رہیں گے اور آپ پھر یوں ہی کھمبا نوچتے رہیں گے۔