کینسر کو حقیقت میں ’سننے‘ والے نظام میں پیش رفت

پوردوا یونیورسٹی کے ماہرین نے آواز کی لہروں سے خلیات کے مجموعے کو سن کر ان میں تبدیلیوں اور مرض کی شناخت کی

امریکی سائنسدانوں نے آواز کے ذریعے خلیاتی سطح پر کینسر شناخت کرنے والا نظام تیار کیا ہے۔ فوٹو: فائل

MOSCOW:
سائنسدانوں نے بیماریوں کو سننے والا ایک نظام بنایا ہے جو صوتی لہروں کے ذریعے کئی امراض کی سن گن لے سکتا ہے۔

یہ آلہ جسمانی خلیات (سیلز) کو اپنے اندر تھامنے والے اسٹرکچر پر صورتی لہریں پھینکتا ہے اور اس بنا پر ان کی سختی کو نوٹ کرتا ہے۔ طب کی زبان میں اسے ایکسٹرا سیلولر میٹرکس کہا جاتا ہے اور ان میں کئی طرح کے خلیات موجود ہوتے ہیں۔

جس طرح دروازے کے ٹوٹے ہوئے لاک کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکان پر کسی نے نقب لگائی ہے ، عین اسی طرح خلیات کو گھیرے میں لئے ہوئے ایکسٹر سیلولر میٹرکس کی نرمی یا سختی کو دیکھ کر سائنسداں بتاسکتے ہیں کہ اس پرکسی بیماری مثلاً کینسر نے حملہ کیا ہے۔

ماہرین کو پوری امید ہے کہ اس کی ساخت کو دیکھتے ہوئے بیماری کی شدت کو ایک نئے انداز سے دیکھا جاسکتا ہے۔ تاہم بین الخلیاتی ساختی اسٹرکچر کو جاننے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے اندر کسی طرح کی مداخلت کی جائے اور اس سے اندر کے پورے نظام کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔


اسی بنا پر پوردوا ینیورسٹی کے ماہرین نے ایک آلہ بنایا ہے جس میں ایکسٹرا سیلیولر میٹرکس رکھا جاتا ہے اور اس پر آواز کی لہریں پھینک کر اس کی نرمی یا سختی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق رحیم رحیمی نے کی ہے جنہوں نے حیرت انگیز آلہ تیار کیا ہے۔

ہمارے ہرعضو کی ہر بافت میں ایکسٹرا سیلیولر میٹرکس جداگانہ ہوتی ہے یعنی جس طرح ہر عمارت اور علاقے کی ساخت اسکی ضرورت کے لحاظ سے الگ الگ ہوتی ہے۔ ہرمیٹرکس میں خاص طرح کے کیمیکل بھی پائے جاتے ہیں جن کی بدولت خلیات ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر رحیمی اور ان کی ٹیم نے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر سیلیولر میٹرکس پر کسی زہر یا مادے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے میٹرکس پر بریسٹ کینسر کے حملے کو نوٹ کرنے کا ارادہ کیا۔

اس کے لیے ایک چپ پر تجربہ گاہ بنائی گئی جس میں ایک ٹرانسمیٹر اور ریسیور بھی تھا۔ اس کے بعد ایکسٹرا سیلیولر میٹرکس اور اس کے ساتھ بعض خلیات رکھے گئے۔ ٹرانسمیٹر نے الٹراساؤنڈ لہریں خارج کیں جو ٹکرا کر ریسیور تک گئیں۔ اس کا نتیجہ ایک برقی سگنل کی صورت میں خارج ہوا جو میٹرکس کی سختی یا نرمی کو ظاہر کررہا تھا۔

اس طرح معلوم ہوا کہ کسی بھی متاثرہ میٹرکس کی شناخت اس نظام کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ اگلے مرحلے میں اس نظام کو بہتر اور مؤثر بناکر اس میں مزید تبدیلیاں کی جائیں گی۔
Load Next Story