لاہور کے چوبرجی دروازہ کی آرائش وتزئین کا کام جاری
چوبرجی دروازے کی آرائش وتزئین کا کام رواں سال مکمل ہوجائے گا
مغلیہ دور کے زیب النساء باغ کے نشانات تو تقریباً مٹ چکے ہیں مگر اس کا داخلی چوبرجی دروازہ اپنی ثقافتی اہمیت کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔ حوادث زمانہ نے اس عمارت کی ظاہری خوبصورتی کومتاثرکیا ہے تاہم محکمہ آثار قدیمہ نے ایک بارپھر اس کے قدیم خدوخال کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے، چوبرجی دروازہ کی آرائش وتزئین کا کام رواں سال مکمل ہوجائے گا۔
ملتان روڈ لاہورپر واقع سرخ پتھروں سے بنی خوبصورت عمارت نظرآتی ہے جسے چوبرجی کہا جاتا ہے۔ یہ عمارت دراصل مغلیہ باغات میں انتہائی ممتاز اور وسیع ترین باغ کا دروازہ تھا جو مغل شہزادی زیب النساء سے منسوب ہے۔ اس تاریخی دروازے کے پچاس ،پچاس فٹ اونچے چار مینار ہیں اوراسی مناسبت سے اس کا نام چو برجی رکھا گیا تھا، اس باغ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کبھی یہ نواں کوٹ سے لاہور شہر کے مرکز کی جانب شمال تک پھیلا ہواتھا لیکن آج اتنے وسیع پیمانے پر اس باغ کے پھیلاؤ کے کوئی نشانات اورآچارنظرنہیں آتے ہیں۔
محکمہ آثارقدیمہ پنجاب کے سابق ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ چو برجی میں منفرد طرز تعمیر دیکھا جا سکتا ہے جو مغلیہ اور قدیم اسلامی طرز تعمیر کے ملاپ کا حسین شاہکار ہے۔ اس تاریخی عمارت کی ممتاز حیثیت اس کے میناروں کی وجہ سے ہے جو برصغیر پاک وہند میں کہیں بھی دوسری عمارات میں نظرنہیں آتی ہے، تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ان میناروں پر گنبد بھی تعمیر کیے گئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے مگر اس یادگار کی طرز تعمیر میں ایسی کسی نشانی کے کوئی ثبوت ابھی تک نہیں ملے۔ اس یادگار میں استعمال ہونے والی سرخ اینٹیں اسلامی طرز تعمیر کی نشان دہی کرتی ہیں جو برصغیر میں کئی عمارات جیسے لال قلعہ اور بادشاہی مسجد میں بھی شامل ہیں ۔ مغلیہ دور میں کئی عمارات میں سنگ مرمر کا بے دریغ استعمال کیا گیا لیکن چوبرجی میں اینٹ کا استعمال اس دور میں اس کی ممتازی حیثیت کو واضع کرتا ہے۔
چوبرجی دروازے کی موجودہ عمارت اوراس کے گرد بنے پارک کا رقبہ تقریبا 3 ایکڑ ہے۔ 1646 میں تعمیر ہونیوالی اس عمارت کو 1843 میں آنے والے شدید زلزلے میں شدید نقصان پہنچا، زلزلے کی وجہ سے اس کے شمال مغربی مینار کو نقصان پہنچا اور یہ منہدم ہو گیا، جب کہ مرکزی حصے میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اس کی ممکن حد تک دوبارہ سے تعمیر کی گئی اور یہ تقریباً مغلیہ دور کی حالت میں دوبارہ بحال کیا گیا۔ اس تاریخی عمارت کی تعمیر نو کا کام محکمہ آثار قدیمہ نے 1960ء میں مکمل کروایا تھا۔
اورنج لائن منصوبے کی وجہ ممکن تھا کہ اس تاریخی ورثے کو بھی نقصان پہنچتا تاہم ماہرین کی آرا کے بعد اس عمارت کومحفوظ کرلیا گیا اور یہاں بحالی اورآرائش وتذئین شروع کی گئی۔ آثارقدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹرملک مقصود نے بتایا کہ اس تاریخی عمارت کی بحالی کا کام دو سال قبل شروع کیاگیا تھا۔ منصوبے کے تحت عمارت کے مختلف حصوں میں کاشی کاری کی گئی ہے۔ کئی ایک مقامات پر ٹوٹی ہوئی اینٹوں کوتبدیل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بحالی کا 80 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ باقی کام بھی اس سال مکمل ہوجائے گا، انہوں نے بتایا کہ منصوبے پر 44 ملین روپے لاگت آئی ہے،اس مقام کو عوام کے لیے کھول دیا جائیگا۔
چوبرجی دروازے کی عمارت کے اطراف میں پی ایچ اے نے خوبصورت پارک بنایا ہے جبکہ باؤنڈری وال کی جگہ لوہے کا جنگلا لگادیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب نشئیوں کا داخلہ یہاں بند ہوگیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس قدیم اورتاریخی عمارت کومحفوظ کرکے اچھا اقدام کیا ہے
مقامی شہری محمد نجم کا کہنا تھا یہ تاریخی عمارت نشیئوں کی آمجگاہ بن چکی تھی، کوئی پرسان حال نہیں تھا عمارت کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسوروتا ہے۔ لیکن اب خوشی ہے کہ اس عمارت کوبحال کیا گیا ہے۔ ایک خاتون فاطمہ احمد نے کہا ان کا گھریہاں قریب ہی ہے۔ بہت اچھا لگ رہا ہے کہ اس عمارت کی آرائش وتذئین کی گئی ہےخاص طورپریہاں جوفیملی پارک بن گیا ہے اس سے مقامی آبادی کوفائدہ ہوگا۔
ملتان روڈ لاہورپر واقع سرخ پتھروں سے بنی خوبصورت عمارت نظرآتی ہے جسے چوبرجی کہا جاتا ہے۔ یہ عمارت دراصل مغلیہ باغات میں انتہائی ممتاز اور وسیع ترین باغ کا دروازہ تھا جو مغل شہزادی زیب النساء سے منسوب ہے۔ اس تاریخی دروازے کے پچاس ،پچاس فٹ اونچے چار مینار ہیں اوراسی مناسبت سے اس کا نام چو برجی رکھا گیا تھا، اس باغ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کبھی یہ نواں کوٹ سے لاہور شہر کے مرکز کی جانب شمال تک پھیلا ہواتھا لیکن آج اتنے وسیع پیمانے پر اس باغ کے پھیلاؤ کے کوئی نشانات اورآچارنظرنہیں آتے ہیں۔
محکمہ آثارقدیمہ پنجاب کے سابق ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ چو برجی میں منفرد طرز تعمیر دیکھا جا سکتا ہے جو مغلیہ اور قدیم اسلامی طرز تعمیر کے ملاپ کا حسین شاہکار ہے۔ اس تاریخی عمارت کی ممتاز حیثیت اس کے میناروں کی وجہ سے ہے جو برصغیر پاک وہند میں کہیں بھی دوسری عمارات میں نظرنہیں آتی ہے، تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ان میناروں پر گنبد بھی تعمیر کیے گئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے مگر اس یادگار کی طرز تعمیر میں ایسی کسی نشانی کے کوئی ثبوت ابھی تک نہیں ملے۔ اس یادگار میں استعمال ہونے والی سرخ اینٹیں اسلامی طرز تعمیر کی نشان دہی کرتی ہیں جو برصغیر میں کئی عمارات جیسے لال قلعہ اور بادشاہی مسجد میں بھی شامل ہیں ۔ مغلیہ دور میں کئی عمارات میں سنگ مرمر کا بے دریغ استعمال کیا گیا لیکن چوبرجی میں اینٹ کا استعمال اس دور میں اس کی ممتازی حیثیت کو واضع کرتا ہے۔
چوبرجی دروازے کی موجودہ عمارت اوراس کے گرد بنے پارک کا رقبہ تقریبا 3 ایکڑ ہے۔ 1646 میں تعمیر ہونیوالی اس عمارت کو 1843 میں آنے والے شدید زلزلے میں شدید نقصان پہنچا، زلزلے کی وجہ سے اس کے شمال مغربی مینار کو نقصان پہنچا اور یہ منہدم ہو گیا، جب کہ مرکزی حصے میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اس کی ممکن حد تک دوبارہ سے تعمیر کی گئی اور یہ تقریباً مغلیہ دور کی حالت میں دوبارہ بحال کیا گیا۔ اس تاریخی عمارت کی تعمیر نو کا کام محکمہ آثار قدیمہ نے 1960ء میں مکمل کروایا تھا۔
اورنج لائن منصوبے کی وجہ ممکن تھا کہ اس تاریخی ورثے کو بھی نقصان پہنچتا تاہم ماہرین کی آرا کے بعد اس عمارت کومحفوظ کرلیا گیا اور یہاں بحالی اورآرائش وتذئین شروع کی گئی۔ آثارقدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹرملک مقصود نے بتایا کہ اس تاریخی عمارت کی بحالی کا کام دو سال قبل شروع کیاگیا تھا۔ منصوبے کے تحت عمارت کے مختلف حصوں میں کاشی کاری کی گئی ہے۔ کئی ایک مقامات پر ٹوٹی ہوئی اینٹوں کوتبدیل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بحالی کا 80 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ باقی کام بھی اس سال مکمل ہوجائے گا، انہوں نے بتایا کہ منصوبے پر 44 ملین روپے لاگت آئی ہے،اس مقام کو عوام کے لیے کھول دیا جائیگا۔
چوبرجی دروازے کی عمارت کے اطراف میں پی ایچ اے نے خوبصورت پارک بنایا ہے جبکہ باؤنڈری وال کی جگہ لوہے کا جنگلا لگادیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب نشئیوں کا داخلہ یہاں بند ہوگیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس قدیم اورتاریخی عمارت کومحفوظ کرکے اچھا اقدام کیا ہے
مقامی شہری محمد نجم کا کہنا تھا یہ تاریخی عمارت نشیئوں کی آمجگاہ بن چکی تھی، کوئی پرسان حال نہیں تھا عمارت کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسوروتا ہے۔ لیکن اب خوشی ہے کہ اس عمارت کوبحال کیا گیا ہے۔ ایک خاتون فاطمہ احمد نے کہا ان کا گھریہاں قریب ہی ہے۔ بہت اچھا لگ رہا ہے کہ اس عمارت کی آرائش وتذئین کی گئی ہےخاص طورپریہاں جوفیملی پارک بن گیا ہے اس سے مقامی آبادی کوفائدہ ہوگا۔