اب لاک ڈاؤن ناگزیر ہے
غیرسنجیدہ عوامی رویہ بہتر نتائج کی خبرنہیں دے رہا اور اگلے ایک ہفتے میں مریضوں کی تعداد ناقبل توقع حد تک بڑھ جائے گی
KARACHI:
2019 میں جنم لینے والا کورونا وائرس پاکستان میں تب خاص طور پر زیر بحث آیا جب چین میں مقیم پاکستانی طلبہ کو یہاں لانے کی بات شروع ہوئی۔ طلبہ کو یہاں نہ لانے کے حکومتی فیصلے کو کچھ حلقوں میں ہدف تنقید تو بنایا گیا لیکن آج کے تناظر میں وہ فیصلہ اکثریت کی نظر میں درست تھا۔ حکومت نے ایئرپورٹس پر اسکریننگ کے عمل کو بڑھایا اور یوں پاکستانی عوام اس وباء سے اب تک محفوظ ہونے پر شکر ادا کر رہے تھے۔
اس ساری احتیاط کے بعد بھی آج جب پاکستان میں کورونا باقاعدہ پھیلنا شروع ہوگیا ہے تو کیا ہم یہ سوال نہ کریں کہ چین سے طلبہ کو واپس لانے سے انکار کرنے والی حکومت نے تفتان بارڈر کھول کر اس بیماری کو پاکستان میں آنے کا کھلا راستہ کیوں فراہم کیا؟
بہت سے لوگوں، بشمول کچھ سیاستدان، یہ کہہ رہے ہیں کہ اس وقت ہمیں سیاسی الزام تراشیوں کو پس پشت ڈال کر اس وائرس سے لڑنا ہے، لہٰذا حکومت پر تنقید نہ کی جائے۔ یہ باتیں بجا ہیں لیکن کیا ہمیں حکومت کو اس ''سنگین غفلت'' کا احساس نہیں دلانا چاہیے؟ تفتان پر قرنطینہ کے ناقص انتظامات بھی سب کے سامنے آچکے ہیں لہٰذا ہمیں یہ کہہ لینے دیجئے کہ حکومت نے تفتان بارڈر کھول کر پہلے کی گئی ساری احتیاط پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس نازک معاملے کو انتہائی لاپرواہی سے برتا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اب حکومت اس غلطی کا مداوا کیسے کر سکتی ہے؟ جہاں تک نظر آ رہا ہے، حکومت اس مداوے کےلیے کوشاں ہے لیکن کیا یہ کوشش کافی ہے؟ عوام کو گھروں میں بیٹھنے کےلیے کہا گیا تو کیا عوام گھروں میں بیٹھ گئے؟ لوگوں کو اجتماعات میں جانے اور محفلوں میں شرکت کرنے سے اجتناب کی درخواست کی گئی تو کیا عوام نے اس درخواست پر کان دھرے؟
دفتروں میں بیٹھ کر احکامات جاری کرنے والے عہدیداران کیا یہ جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں ریستوران تاحال لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں! پارکس میں بچے اب بھی جھولوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور بازاروں میں خریداروں کا بدستور ہجوم لگا ہوا ہے! کیا جناب وزیراعظم اس بات سے واقف نہیں کہ ان کی قوم ''جو ہوگا دیکھا جائے گا'' جیسی باتوں پر یقین رکھتی ہے؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ جس قوم کے وہ وزیراعظم ہیں وہ ان کی ہدایات سے زیادہ معمولات زندگی کی پیروی میں دلچسپی رکھتی ہے؟ یقیناً انہیں اس صورت حال کا ابھی ادراک ہی نہیں!
جناب وزیر اعظم! آپ نے اپنی قوم کو زلزلے اور سیلاب کی آفت سے نمٹتے تو دیکھا ہے، لیکن ایسی خطرناک وباء سے لڑتے ابھی نہیں دیکھا۔ لہٰذا آپ کو اندازہ نہیں کہ لوگوں کی مسلسل غفلت اس وباء کو اُس خطرناک حد تک لے جا سکتی ہے جہاں اسے کنٹرول کرنے کےلیے ہمارے پاس کافی وسائل ہی نہیں۔ لہٰذا ابھی پورے ملک کو لاک ڈاؤن نہ کرکے حکومت ایک اور سنگین غلطی کر رہی ہے اور اس میں جتنی تاخیر کرے گی، نتائج اتنے ہی بھیانک ہوں گے۔
ابھی تو ڈیلی ویجرز اور چھوٹے کاروباری طبقے کی مشکلات کے پیش نظر لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لیکن ایک مرتبہ اس صورت حال کا بھی کچھ اندازہ لگائیے جو لاک ڈاؤن نہ کرنے کی صورت میں اگلے ایک ہفتے تک ہوگی؛ اور موازنہ کیجیے کہ زیادہ خطرناک کونسی صورت حال ہے؟
وائرس کے پھیلاؤ کی شرح تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اسپتالوں کے قرنطینہ میں سہولیات کا فقدان ہے، وینٹی لیٹرز کی کم تعداد کا رونا الگ، یہاں تو ڈاکٹرز کو تشخیصی اور حفاظتی کٹس بھی پوری طرح مہیا نہیں! اس تناظر میں غیر سنجیدہ اور لاپرواہ عوامی رویہ بہتر نتائج کی خبر نہیں دے رہا؛ اور اگلے ایک ہفتے میں مریضوں کی تعداد ناقبل توقع حد تک بڑھ جائے گی۔
لہٰذا حکومت اگر اب لاک ڈاؤن نہیں کر رہی تو اگلے ہفتے تک یہ لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوجائے گی، اور اُس وقت صورت حال قابو سے باہر ہونا شروع ہو جائے گی۔ تب ڈیلی ویجرز کا خیال کرنے کا بھی وقت نہیں رہے گا۔
حکومت اب مزید کسی غفلت کی متحمل نہیں ہو سکتی، لہٰذا فوراً مکمل لاک ڈاؤن کرنے میں ہی عافیت ہے۔ کیونکہ عوام کو اگر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوتا تو اب تک پبلک مقامات پر معمول کا رش دکھائی نہ دیتا۔ حکومت چیخ چیخ کر بھی لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کو کہے تو وہ نہیں سنیں گے۔ لہٰذا کرفیو اور لاک ڈاؤن کا مطلب فوج کا پہرا لگا دینا ہے تو لگا دیجیے کیونکہ اس کے سوا اس وباء کو ختم تو کیا کم بھی نہیں کیا جا سکے گا۔
یاد رکھیے کہ اٹلی میں غیر سنجیدہ عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے بھی حکومت نے مکمل لاک ڈاؤن کرنے میں 18 دن کی تاخیر کردی اور آج صحت کے انفراسٹرکچر میں ہم سے بہتر ہونے کے باوجود اٹلی کی حالت ہمارے سامنے ہے۔
وزیراعظم کے مطابق ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں اور سسٹم بھی ایسا نہیں کہ لاک ڈاؤن کرکے سہولیات دے سکیں۔ تو سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت کس بنیاد پر لاک ڈاؤن کر رہی ہے؟ سندھ حکومت قابل ستائش حد تک ہنگامی اقدامات کر رہی ہے جس میں سرکاری ملازمین کو بلز کی ادائیگی میں سہولت، غریبوں میں راشن بانٹنے کے ساتھ ساتھ عطیات کےلیے فنڈز بھی قائم کئے جاچکے ہیں۔ وفاق، سندھ حکومت کے پیٹرن کو فالو کرے تو پورے ملک میں لاک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے۔ فوج کی مدد سے انتظامی امور کی انجام دہی کو بہتر بنایا جاسکتا اور نچلے طبقے تک اشیائے ضرورت پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے عوام یوں بھی بڑھ چڑھ کر عطیات دیتے ہیں۔ مزید برأں، سب کو اپنے ارد گرد غریبوں کا خیال رکھنے کی خاص تلقین کی جائے۔
وفاقی حکومت اگر ابھی یہ اقدامات کر لے تو بہتر، وگرنہ ایک سے ڈیڑھ ہفتے بعد مجبوراً حکومت کو لاک ڈاؤن کی طرف آنا ہی پڑے گا اور ڈیلی ویجرز کی مشکلات کے باوجود یہ مشکل فیصلہ لینا مجبوری بن جائے گا! اور پھر ہم یہی کہہ سکیں گے کہ
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
2019 میں جنم لینے والا کورونا وائرس پاکستان میں تب خاص طور پر زیر بحث آیا جب چین میں مقیم پاکستانی طلبہ کو یہاں لانے کی بات شروع ہوئی۔ طلبہ کو یہاں نہ لانے کے حکومتی فیصلے کو کچھ حلقوں میں ہدف تنقید تو بنایا گیا لیکن آج کے تناظر میں وہ فیصلہ اکثریت کی نظر میں درست تھا۔ حکومت نے ایئرپورٹس پر اسکریننگ کے عمل کو بڑھایا اور یوں پاکستانی عوام اس وباء سے اب تک محفوظ ہونے پر شکر ادا کر رہے تھے۔
اس ساری احتیاط کے بعد بھی آج جب پاکستان میں کورونا باقاعدہ پھیلنا شروع ہوگیا ہے تو کیا ہم یہ سوال نہ کریں کہ چین سے طلبہ کو واپس لانے سے انکار کرنے والی حکومت نے تفتان بارڈر کھول کر اس بیماری کو پاکستان میں آنے کا کھلا راستہ کیوں فراہم کیا؟
بہت سے لوگوں، بشمول کچھ سیاستدان، یہ کہہ رہے ہیں کہ اس وقت ہمیں سیاسی الزام تراشیوں کو پس پشت ڈال کر اس وائرس سے لڑنا ہے، لہٰذا حکومت پر تنقید نہ کی جائے۔ یہ باتیں بجا ہیں لیکن کیا ہمیں حکومت کو اس ''سنگین غفلت'' کا احساس نہیں دلانا چاہیے؟ تفتان پر قرنطینہ کے ناقص انتظامات بھی سب کے سامنے آچکے ہیں لہٰذا ہمیں یہ کہہ لینے دیجئے کہ حکومت نے تفتان بارڈر کھول کر پہلے کی گئی ساری احتیاط پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس نازک معاملے کو انتہائی لاپرواہی سے برتا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اب حکومت اس غلطی کا مداوا کیسے کر سکتی ہے؟ جہاں تک نظر آ رہا ہے، حکومت اس مداوے کےلیے کوشاں ہے لیکن کیا یہ کوشش کافی ہے؟ عوام کو گھروں میں بیٹھنے کےلیے کہا گیا تو کیا عوام گھروں میں بیٹھ گئے؟ لوگوں کو اجتماعات میں جانے اور محفلوں میں شرکت کرنے سے اجتناب کی درخواست کی گئی تو کیا عوام نے اس درخواست پر کان دھرے؟
دفتروں میں بیٹھ کر احکامات جاری کرنے والے عہدیداران کیا یہ جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں ریستوران تاحال لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں! پارکس میں بچے اب بھی جھولوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور بازاروں میں خریداروں کا بدستور ہجوم لگا ہوا ہے! کیا جناب وزیراعظم اس بات سے واقف نہیں کہ ان کی قوم ''جو ہوگا دیکھا جائے گا'' جیسی باتوں پر یقین رکھتی ہے؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ جس قوم کے وہ وزیراعظم ہیں وہ ان کی ہدایات سے زیادہ معمولات زندگی کی پیروی میں دلچسپی رکھتی ہے؟ یقیناً انہیں اس صورت حال کا ابھی ادراک ہی نہیں!
جناب وزیر اعظم! آپ نے اپنی قوم کو زلزلے اور سیلاب کی آفت سے نمٹتے تو دیکھا ہے، لیکن ایسی خطرناک وباء سے لڑتے ابھی نہیں دیکھا۔ لہٰذا آپ کو اندازہ نہیں کہ لوگوں کی مسلسل غفلت اس وباء کو اُس خطرناک حد تک لے جا سکتی ہے جہاں اسے کنٹرول کرنے کےلیے ہمارے پاس کافی وسائل ہی نہیں۔ لہٰذا ابھی پورے ملک کو لاک ڈاؤن نہ کرکے حکومت ایک اور سنگین غلطی کر رہی ہے اور اس میں جتنی تاخیر کرے گی، نتائج اتنے ہی بھیانک ہوں گے۔
ابھی تو ڈیلی ویجرز اور چھوٹے کاروباری طبقے کی مشکلات کے پیش نظر لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لیکن ایک مرتبہ اس صورت حال کا بھی کچھ اندازہ لگائیے جو لاک ڈاؤن نہ کرنے کی صورت میں اگلے ایک ہفتے تک ہوگی؛ اور موازنہ کیجیے کہ زیادہ خطرناک کونسی صورت حال ہے؟
وائرس کے پھیلاؤ کی شرح تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اسپتالوں کے قرنطینہ میں سہولیات کا فقدان ہے، وینٹی لیٹرز کی کم تعداد کا رونا الگ، یہاں تو ڈاکٹرز کو تشخیصی اور حفاظتی کٹس بھی پوری طرح مہیا نہیں! اس تناظر میں غیر سنجیدہ اور لاپرواہ عوامی رویہ بہتر نتائج کی خبر نہیں دے رہا؛ اور اگلے ایک ہفتے میں مریضوں کی تعداد ناقبل توقع حد تک بڑھ جائے گی۔
لہٰذا حکومت اگر اب لاک ڈاؤن نہیں کر رہی تو اگلے ہفتے تک یہ لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوجائے گی، اور اُس وقت صورت حال قابو سے باہر ہونا شروع ہو جائے گی۔ تب ڈیلی ویجرز کا خیال کرنے کا بھی وقت نہیں رہے گا۔
حکومت اب مزید کسی غفلت کی متحمل نہیں ہو سکتی، لہٰذا فوراً مکمل لاک ڈاؤن کرنے میں ہی عافیت ہے۔ کیونکہ عوام کو اگر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوتا تو اب تک پبلک مقامات پر معمول کا رش دکھائی نہ دیتا۔ حکومت چیخ چیخ کر بھی لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کو کہے تو وہ نہیں سنیں گے۔ لہٰذا کرفیو اور لاک ڈاؤن کا مطلب فوج کا پہرا لگا دینا ہے تو لگا دیجیے کیونکہ اس کے سوا اس وباء کو ختم تو کیا کم بھی نہیں کیا جا سکے گا۔
یاد رکھیے کہ اٹلی میں غیر سنجیدہ عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے بھی حکومت نے مکمل لاک ڈاؤن کرنے میں 18 دن کی تاخیر کردی اور آج صحت کے انفراسٹرکچر میں ہم سے بہتر ہونے کے باوجود اٹلی کی حالت ہمارے سامنے ہے۔
وزیراعظم کے مطابق ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں اور سسٹم بھی ایسا نہیں کہ لاک ڈاؤن کرکے سہولیات دے سکیں۔ تو سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت کس بنیاد پر لاک ڈاؤن کر رہی ہے؟ سندھ حکومت قابل ستائش حد تک ہنگامی اقدامات کر رہی ہے جس میں سرکاری ملازمین کو بلز کی ادائیگی میں سہولت، غریبوں میں راشن بانٹنے کے ساتھ ساتھ عطیات کےلیے فنڈز بھی قائم کئے جاچکے ہیں۔ وفاق، سندھ حکومت کے پیٹرن کو فالو کرے تو پورے ملک میں لاک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے۔ فوج کی مدد سے انتظامی امور کی انجام دہی کو بہتر بنایا جاسکتا اور نچلے طبقے تک اشیائے ضرورت پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے عوام یوں بھی بڑھ چڑھ کر عطیات دیتے ہیں۔ مزید برأں، سب کو اپنے ارد گرد غریبوں کا خیال رکھنے کی خاص تلقین کی جائے۔
وفاقی حکومت اگر ابھی یہ اقدامات کر لے تو بہتر، وگرنہ ایک سے ڈیڑھ ہفتے بعد مجبوراً حکومت کو لاک ڈاؤن کی طرف آنا ہی پڑے گا اور ڈیلی ویجرز کی مشکلات کے باوجود یہ مشکل فیصلہ لینا مجبوری بن جائے گا! اور پھر ہم یہی کہہ سکیں گے کہ
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔