سیکڑوں تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان کباڑ کے کاروبار سے منسلک ہو گئے

شہر بھر کے محلوں اور گلیوں میں کباڑ کی دکانیں کھل گئیں، پیشے میں سرمایہ کاری کم اور منافع کی شرح زیادہ ہے.


عامر خان December 01, 2013
کباڑیے کی دکان پر سامان خریدنے والا جمع شدہ اشیا کی چھانٹی میں مصروف ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

ایک زمانہ تھا جب کباڑ کا کام کرنے والے لوگوں کی اکثریت نا خواندہ ہوتی تھی اور وہ اس پیشے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے تھے تاہم اب صورت حال یکثر تبدیل ہوگئی اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت کباڑکا پیشہ اختیار کرنے لگی۔

اس تبدیلی کی اہم وجوہات ملک خصوصاً کراچی میں بدامنی کے باعث معاشی صورت حال کا خراب ہونا اور روزگار کے مواقع کم ہو جانا ہے ،شہر کے حالات جیسے جیسے تبدیل ہوتے جارہے ہیں ، اسی طرح اس کے اثرات کباڑ کے پیشے پر بھی مرتب ہورہے ہیں، گلی گلی پھیری لگا کر فالتو اشیا جمع کرنے والے کباڑیوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوگیا بلکہ اب تو شہر کے محلوں اور گلیوں میں کباڑ کی دکانیں کھل گئی ہیں، اس پیشے میں سرمایہ کاری کم اور منافع کی شرح زیادہ ہے،جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت اس پیشے سے منسلک ہو گئی،کراچی میں چھوٹے پیمانے پر کباڑ کا کام کرنے والے افراد کی تعداد 85 ہزار سے بڑھ کر تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ گئی،شہر میں چھوٹے کباڑیوں کی دکانوں کی تعداد بھی لگ بھگ 32 ہزار ہوگئی،ایکسپریس نے چھوٹے پیمانے پر کباڑ کے پیشے سے منسلک افراد پر خصوصی سروے کیا۔

اس سروے کے دوران لیاقت آباد میں کباڑ کا کام کرنے والے محمد طلحہ قریشی نے ایکسپریس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کباڑ کے پیشے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن بدامنی کے واقعات میں اضافے کے باعث کراچی کی معاشی صورت حال نہ صرف خراب ہوئی بلکہ بے روزگاری کی شرح عروج پر پہنچ گئی ۔



ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کی تلاش میں گھوم رہے ہیں ، انھوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اہل خانہ کی کفالت کے لیے کباڑ کے پیشے سے منسلک ہو رہی ہے، یہ کام محنت طلب تو ہے لیکن اس میں اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ لوگ اپنے خاندان کو با عزت طریقے سے دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھلاسکتے ہیں،انھوں نے بتایا کہ ہر علاقے میں ایک مرکزی کباڑی ہوتا ہے،جس کے پاس 50 سے 100 ٹھیلے ہوتے ہیں۔

صبح 6 بجے اس کام کا آغاز ہوجاتا ہے،گلی گلی پھیری لگا کر فالتو اشیاء جمع کرنے والے کباڑی مرکزی دکان پر جمع ہو جاتے ہیں اور رجسٹرڈ میں ان کے اندراج کے بعد فی کباڑی کو 500 روپے نقدی دی جاتی ہے ، ہر پھیری لگانے والے کباڑی کا ایک مخصوص علاقہ ہوتا ہے ، وہ اپنی حدود کے اندر گھروں اور فلیٹوں سے ردی ، بھوسی ٹکڑے ، سریا ، پائن ٹین ڈبے ، شیشے اور پلاسٹک کی بوتلیں ، تانبہ ، سلور ، گتہ اور فالتو اشیاء جمع کرتا ہے ، وہ فی کلو کے حساب سے گھروں سے یہ اشیاء خریدتا ہے،پھر10سے 12گھنٹے تک پیدل علاقے میں گھومتا ہے اور ان اشیاء فالتو اشیا کو جمع کرنے کے بعد اپنے ٹھیلے پر بھر کر مرکزی دکان پر لے آتا ہے اور ہر چیز کو علیحدہ کرکے تول کے حساب سے ان کو فروخت کردیتا ہے ، پھر مرکزی دکاندار اپنے 500 روپے کاٹ کر باقی رقم اس کے حوالے کردیتا ہے ، ایک پھیری لگانے والے کباڑی کو یومیہ 400 سے 600 روپے تک آمدنی ہو جاتی ہے ، انھوں نے بتایا کہ اگر کباڑی گھروں اور فلیٹوں سے فالتو اشیاء نہ اٹھائیں تو کراچی کباڑ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں