عوام سازشوں سے ہوشیار
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے جمہوریت کا عمومی مقصد اشرافیہ کی حکومت رہا ہے۔
عوام کی مسترد کردہ جماعتوں کے معتبرین آج کل ایک نئی مہم چلا رہے ہیں کہ فلاں لیڈر ہی ملک کو دوبارہ جمہوریت کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ اس حوالے سے پہلا سوال یہ ہے کہ جمہوریت کا مطلب کسی مخصوص لیڈر کی حکمرانی ہے یا عوام کی حکمرانی۔
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے جمہوریت کا عمومی مقصد اشرافیہ کی حکومت رہا ہے۔ برصغیر کی تاریخ اشرافیہ کی اقتدار کی ہی کہانیاں ہیں۔ اب چونکہ ملک میں جمہوریت ہے لہٰذا ماضی جیسی صورتحال تو نہیں لیکن اقتدار اشرافیہ کے پاس ہی رہتا ہے، اگر لیڈر ایماندار اور عوام کا ہمدرد ہو تو مشکل سے مشکل حالات میں بھی عوام کے ساتھ رہتا ہے اور ان کی ہر ممکنہ مدد کرتا ہے۔ لیکن لیڈر خود غرض ہو تو لندن یا امریکا بھاگ جاتا ہے اور اس کے مصاحبین جن پر لیڈر کے بے شمار احسانات ہوتے ہیں۔ لیڈر کی ایسی ایسی تعریفیں کرتے ہیں کہ عوام ہنس پڑتے ہیں۔
ہمارے ایک سابق حکمران جس پر کرپشن کے الزامات ہیں اور جمہوریت کو خاندانی بنانے میں ماہر ہیں، ان کے ایک چہیتے کا کہنا ہے کہ ملک کو صرف ہمارا لیڈر جمہوریت کی پٹری پر ڈال سکتا ہے، اس دعوے کو عوام اس لیے مسترد کرتے ہیں کہ انھوں نے اس قسم کے لیڈروں کو ہمیشہ دولت سے کھیلتے دیکھا ہے اور دولت سے کھیلنے والوں کو عوام سے صرف اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ عوام ان کے جلسے جلوسوں میں شامل ہوتے رہیں۔پاکستانی عوام اب ایک ایماندار لیڈر کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اپنی صلاحیت کے مطابق عوام اور ملک کو خوشحال بنانے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے عوام اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارے وہ اہل سیاست جو اپوزیشن میں ہیں، وہ سخت پریشان ہیں اور موجودہ حکومت کو نااہل ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ عمران خان پر ان کے مخالفین پوری کوشش کے باوجود ایک پائی کی کرپشن کا الزام ثابت کرنا تو دور کی بات الزام لگا ہی نہ سکے۔
بدقسمتی سے ساری دنیا کورونا وائرس کی زد میں آگئی ہے اور ہر حکمران کی اولین ترجیح کورونا سے نجات بن گئی ہے، اس بلا کی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں ٹھہراؤ آگیا ہے اور ہر ملک کی اولین ترجیح کورونا سے نجات بنی ہوئی ہے۔ اگر یہ صورت حال سامنے نہ آتی تو شاید دوررس حکومتی منصوبے اب تک کامیابیوں کی طرف پیش رفت کرتے۔ تاحال قیامت خیز مہنگائی بھی عوام کی عمران سے محبت میں کمی نہ لاسکی۔
اپوزیشن کی جماعتیں ان حالات میں بھی حکومت کو گرانے کی باتیں کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ساری کوششوں کے ساتھ ساتھ ایسی سازشیں بھی کر رہے ہیں جو کپتان کی بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پچھلے سال ڈیڑھ سال سے ملک میں مہنگائی کی جو لہر آئی ہوئی ہے اس سے عوام مشکلات میں بھی ہیں اور حکومت سے نالاں بھی ہیں۔ لیکن بے چارے عوام ان حقائق سے نابلد ہیں کہ یہ کیا دھرا سابقہ حکومتوں کا ہے جو دس سال تک حکمران رہے اور 24 ہزار ارب قرض کا ترکہ چھوڑ کر چلے گئے۔
ابھی حال میں آٹے اور چینی کی قلت اور مہنگائی کی سازش کی گئی جس کا مقصد حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانا تھا لیکن عوام اس مہنگائی کو اس لیے برداشت کرتے رہے کہ اس میں حکومت کا کوئی دوش نہیں بلکہ یہ اشرافیہ کی سازش ہے۔ کورنا وائرس اگر حملہ آور نہ ہوتا تو حکومت عوام کو سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔عوام سخت پریشان ہیں ایسے میں تین دن کی نظربندی کے اعلان کی وجہ سے مزدور طبقہ جس کی تعداد کروڑوں میں ہے، سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے خاص طور پر دیہاڑی دار طبقہ فاقہ کشی پر مجبور ہو گیا ہے۔
ان لاکھوں دیہاڑی داروں کو روٹی کون فراہم کرے گا؟عمران خان کوئی انقلابی لیڈر نہیں بلکہ نظریاتی طور پر کنفیوژڈ لیڈر ہے لیکن عمران نے ان سیاسی جماعتوں سے اقتدار چھین کر جو کارنامہ انجام دیا ہے، اسے انقلاب ہی کہا جائے گا۔ ان جماعتوں کی جڑیں بہت گہری تھیں، انھیں نکال باہر کرنا اگرچہ انقلاب نہیں لیکن انقلاب کی راہ ہموار کرنے والا کارنامہ ضرور ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہی سیاسی جماعتیں دوبارہ اقتدار پر قابض نہ ہوجائیں۔پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کو اقتدار سے باہر کردیا لیکن یہ بات غیر یقینی ہے کیونکہ ملک میں تاحال اس کی حمایت موجود ہے اور اس کے لیڈر حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اقتدار سے محروم اشرافیہ دوبارہ اقتدار کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہے، اس امکان کا حل یہ ہے کہ یا تو حکومت مکمل طور پر عوامی ہوجائے یا پھر چھوٹی چھوٹی ترقی پسند جماعتیں متحد ہوکر اشرافیہ کے خلاف میدان انتخاب میں پوری طاقت سے کھڑی ہوجائیں۔
بدقسمتی سے یہ چھوٹی لیکن حقیقی جمہوری جماعتیں اپنے غیر منطقی اختلافات میں اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ انھیں اپنی ممکنہ طاقت کا احساس ہی نہیں۔ کاش یہ احساس کمتری سے نکل کر عوام میں آئیں اور اپنی تمام کمزوریوں سے نکل کر ایک طاقتور اتحاد بن کر ملک کی سنجیدہ اور عوامی سیاست کرنے والی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کریں۔