کورونا کیخلاف مرکز اور صوبے ایک پیج پر نہ آسکے
اسلام آباد میں جزوی لاک ڈاؤن، شہریوں کو نقل وحرکت کی آزادی، سندھ میں 10لیٹر سے زائد پٹرول بھروانے پر پابندی
ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد 875 ہوچکی ہے تاہم اس مہلک وائرس کی روک تھام کیلیے مرکز اور صوبوں کے اقدامات میں مکمل یکسانیت نظر نہیں آ رہی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کھلا ہے اور وہاں کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے، اسلام آباد میں ابھی تک کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ مختلف صوبائی حکومتوں نے مختلف شکلوں کے لاک ڈاؤن متعارف کرائے ہیں۔ اسلام آباد اور روالپنڈی جڑواں شہر ہیں مگر اسلام آباد میں نقل وحرکت کی آزادی ہے مگر راولپنڈی میںلاک ڈاؤن ہے۔ اسلام آباد میں کام کرنیوالے بیشتر ملازمین راولپنڈی سے ہی آتے ہیں۔
صوبائی حکومتوں نے لازمی خدمات کے محکموں کے سوا تمام سرکاری و نجی دفاتر اور فیکٹریاں بند کر دی ہیں۔پنجاب میں ڈیوٹی پر موجود سرکاری ملازمین کو نقل وحرکت کی آزادی ہے، اسی طرح وفاقی اداروں جیسے بینک، پاکستان سٹاک ایکسچینج، نادرا، پاسپورٹ، دفترخارجہ، ہوابازی ڈویژن، ٹی ڈی اے پی، سٹیل ملز وغیرہ کو صوبوں میں کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس طرح اگر خاندان کا ایک ممبر وفاقی حکومت کا ملازم ہے تو وہ کام پر جائیگا جبکہ نجی ادارے یا صوبائی محکمے میں کام کرنیوالا خاندان کا دوسرا رکن گھر میں آئسولیشن میں رہے گا۔
اس طرح ایک شہر میں دو مختلف قوانین پر عمل ہوگا۔ لاک ڈاؤن کی صورتحال مختلف صوبوں میں مختلف ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں فوڈ ڈلیوری اور ٹیک اوے کی اجازت ہے تاہم سندھ میں اس پر پابندی ہے۔ سندھ میں 10لٹر سے زیادہ پٹرول دینے پر پابندی ہے جبکہ پنجاب میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ سندھ حکومت نے اڑتالیس گھنٹوں میں اشیائے ضروریہ کی خریداری کیلئے خاندان کے صرف ایک رکن کو گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے جبکہ پنجاب میں دو افراد کو اجازت ہے۔
اتوار کی رات سندھ حکومت نے پہل کرتے ہوئے صوبہ بھر میں تقریباً مکمل لاک ڈاؤن کردیا اور ہر طرح کے بین الاضلاعی اور بین الاصوبائی سفر اور تقریبات پرپابندی عائد کردی ، تقریبات میں مذہبی اجتماعات بھی شامل ہیں۔ لازمی خدمات کے محکموں کے سوا تمام دفاتر، ادارے اور کاروبار بند رہیں گے۔ صحت، خوراک، کریانہ سٹورز، فارمیسیز، میونسپل سروسز، بجلی، گیس،واٹر سپلائی، واٹر اور سیوریج ، بینک، پٹرول پمپ وغیرہ کو کام کرنے کی اجازت ہوگی۔
سندھ حکومت نے اڑتالیس گھنٹوں میں ہر خاندان کے ایک شخص کو اشیائے ضروریہ کی خریداری کیلئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے اس کے علاوہ میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے ساتھ ضروری تیمارداروں کوجانے کی اجازت ہوگی۔ ناگزیر مذہبی اجتماعات جیسے نماز جنازہ، تدفین وغیرہ بھی پابندی سے مستثنیٰ ہوگی تاہم اس کیلئے مقامی پولیس سٹیشن سے پیشگی اجازت حاصل کرنا ہوگی اور تمام حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی سندھ حکومت نے ہرقسم کی پبلک ٹرانسپورٹ بشمول ٹیکسی اور رکشا پر بھی پابندی لگا دی ہے، کمشنر کراچی نے ہر قسم کی فوڈ ڈلیوری اور ٹیک اوے سروسز پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
بلوچستان حکومت نے قریب قریب ویسے ہی اقدامات کئے ہیں اور پابندیاں لگائی ہیں جیسے کہ سندھ حکومت نے لگائی ہیں۔ پیر کے روز پنجاب حکومت نے کافی گو مگو کے بعد پابندیوں اور دیگر اقدمات کا اعلان کیا جو سندھ کے اقدامات سے کافی مماثلت رکھتے ہیں۔ سندھ کی طرح پنجاب نے بھی بین الاضلاعی اور بین الصوبائی نقل وحرکت اور ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق شہریوں ان کے شہروں میں نقل وحرکت کی محدود آزادی دی گئی ہے۔ ضروری اشیاء کی خریداری کیلئے خاندان کے دو افراد کو گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی۔ میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے ساتھ دو تیمارداروں کو جانے کی اجازت ہوگی۔ سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں نے معمر شہریوں کو ڈرائیور ساتھ لے جانے کی اجازت دی ہے سندھ کی طرح پنجاب میں بھی لازمی خدمات کے محکموں کو پابندیوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
سندھ کے برعکس پنجاب میں سرکاری دفاتر بند نہیں کئے گئے اور سرکاری محکموں کے ملازمین کو نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہوگی۔ پنجاب میں ریستوارنوں کی ٹیک اوے، ہوم ڈلیوری سروسز، کیٹل، لائیو سٹاک مارکیٹس اور دفاع سے متعلق صنعتوں کو پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔پنجاب میں بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گاہکوں کو چھوٹے گروپوں میں داخلے کی اجازت دیں۔
سندھ اور پنجاب کے برعکس اسلام آباد میں جزوی لاک ڈاؤن ہے، مارکیٹس اور شاپنگ مالز بند رہیں گے تاہم شہریوں کے شہر کے اندر اور انٹر سٹی نقل وحرکت پر پابندی نہیں۔ اشیائے ضروریہ بیچنے والوں، فارمیسیز، آٹو ورکشاپس کو دکانیں کھولنے کی اجازت ہے، ریستوارنوں کو صرف ٹیک اوے اور ہوم ڈلیوری کی اجازت دی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے لفظ لاک ڈاؤن استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوئے سخت پابندیاں عائد کی ہیں، صوبائی حکومت نے چوبیس مارچ سے اٹھائیس مارچ تک سرکاری چھٹیوں کا اعلان کیا ہے اس کے ساتھ ہی تمام مارکیٹیںخ شاپنگ مالز انتیس مارچ تک بند کر دیئے ہیں شہر کے اندر اور دیگر شہروں کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ معطل کردی ہے۔
البتہ نجی اور مال بردار گاڑیوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور شہری بظاہر نقل و حرکت میں آزاد ہیں۔کے پی حکومت نے بینک اور موبائل فون سروسز کے دفاتر کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھلے رہنے کی اجازت دی ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کھلا ہے اور وہاں کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے، اسلام آباد میں ابھی تک کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ مختلف صوبائی حکومتوں نے مختلف شکلوں کے لاک ڈاؤن متعارف کرائے ہیں۔ اسلام آباد اور روالپنڈی جڑواں شہر ہیں مگر اسلام آباد میں نقل وحرکت کی آزادی ہے مگر راولپنڈی میںلاک ڈاؤن ہے۔ اسلام آباد میں کام کرنیوالے بیشتر ملازمین راولپنڈی سے ہی آتے ہیں۔
صوبائی حکومتوں نے لازمی خدمات کے محکموں کے سوا تمام سرکاری و نجی دفاتر اور فیکٹریاں بند کر دی ہیں۔پنجاب میں ڈیوٹی پر موجود سرکاری ملازمین کو نقل وحرکت کی آزادی ہے، اسی طرح وفاقی اداروں جیسے بینک، پاکستان سٹاک ایکسچینج، نادرا، پاسپورٹ، دفترخارجہ، ہوابازی ڈویژن، ٹی ڈی اے پی، سٹیل ملز وغیرہ کو صوبوں میں کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس طرح اگر خاندان کا ایک ممبر وفاقی حکومت کا ملازم ہے تو وہ کام پر جائیگا جبکہ نجی ادارے یا صوبائی محکمے میں کام کرنیوالا خاندان کا دوسرا رکن گھر میں آئسولیشن میں رہے گا۔
اس طرح ایک شہر میں دو مختلف قوانین پر عمل ہوگا۔ لاک ڈاؤن کی صورتحال مختلف صوبوں میں مختلف ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں فوڈ ڈلیوری اور ٹیک اوے کی اجازت ہے تاہم سندھ میں اس پر پابندی ہے۔ سندھ میں 10لٹر سے زیادہ پٹرول دینے پر پابندی ہے جبکہ پنجاب میں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ سندھ حکومت نے اڑتالیس گھنٹوں میں اشیائے ضروریہ کی خریداری کیلئے خاندان کے صرف ایک رکن کو گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے جبکہ پنجاب میں دو افراد کو اجازت ہے۔
اتوار کی رات سندھ حکومت نے پہل کرتے ہوئے صوبہ بھر میں تقریباً مکمل لاک ڈاؤن کردیا اور ہر طرح کے بین الاضلاعی اور بین الاصوبائی سفر اور تقریبات پرپابندی عائد کردی ، تقریبات میں مذہبی اجتماعات بھی شامل ہیں۔ لازمی خدمات کے محکموں کے سوا تمام دفاتر، ادارے اور کاروبار بند رہیں گے۔ صحت، خوراک، کریانہ سٹورز، فارمیسیز، میونسپل سروسز، بجلی، گیس،واٹر سپلائی، واٹر اور سیوریج ، بینک، پٹرول پمپ وغیرہ کو کام کرنے کی اجازت ہوگی۔
سندھ حکومت نے اڑتالیس گھنٹوں میں ہر خاندان کے ایک شخص کو اشیائے ضروریہ کی خریداری کیلئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے اس کے علاوہ میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے ساتھ ضروری تیمارداروں کوجانے کی اجازت ہوگی۔ ناگزیر مذہبی اجتماعات جیسے نماز جنازہ، تدفین وغیرہ بھی پابندی سے مستثنیٰ ہوگی تاہم اس کیلئے مقامی پولیس سٹیشن سے پیشگی اجازت حاصل کرنا ہوگی اور تمام حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی سندھ حکومت نے ہرقسم کی پبلک ٹرانسپورٹ بشمول ٹیکسی اور رکشا پر بھی پابندی لگا دی ہے، کمشنر کراچی نے ہر قسم کی فوڈ ڈلیوری اور ٹیک اوے سروسز پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
بلوچستان حکومت نے قریب قریب ویسے ہی اقدامات کئے ہیں اور پابندیاں لگائی ہیں جیسے کہ سندھ حکومت نے لگائی ہیں۔ پیر کے روز پنجاب حکومت نے کافی گو مگو کے بعد پابندیوں اور دیگر اقدمات کا اعلان کیا جو سندھ کے اقدامات سے کافی مماثلت رکھتے ہیں۔ سندھ کی طرح پنجاب نے بھی بین الاضلاعی اور بین الصوبائی نقل وحرکت اور ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق شہریوں ان کے شہروں میں نقل وحرکت کی محدود آزادی دی گئی ہے۔ ضروری اشیاء کی خریداری کیلئے خاندان کے دو افراد کو گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی۔ میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں مریض کے ساتھ دو تیمارداروں کو جانے کی اجازت ہوگی۔ سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں نے معمر شہریوں کو ڈرائیور ساتھ لے جانے کی اجازت دی ہے سندھ کی طرح پنجاب میں بھی لازمی خدمات کے محکموں کو پابندیوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
سندھ کے برعکس پنجاب میں سرکاری دفاتر بند نہیں کئے گئے اور سرکاری محکموں کے ملازمین کو نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہوگی۔ پنجاب میں ریستوارنوں کی ٹیک اوے، ہوم ڈلیوری سروسز، کیٹل، لائیو سٹاک مارکیٹس اور دفاع سے متعلق صنعتوں کو پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔پنجاب میں بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گاہکوں کو چھوٹے گروپوں میں داخلے کی اجازت دیں۔
سندھ اور پنجاب کے برعکس اسلام آباد میں جزوی لاک ڈاؤن ہے، مارکیٹس اور شاپنگ مالز بند رہیں گے تاہم شہریوں کے شہر کے اندر اور انٹر سٹی نقل وحرکت پر پابندی نہیں۔ اشیائے ضروریہ بیچنے والوں، فارمیسیز، آٹو ورکشاپس کو دکانیں کھولنے کی اجازت ہے، ریستوارنوں کو صرف ٹیک اوے اور ہوم ڈلیوری کی اجازت دی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے لفظ لاک ڈاؤن استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوئے سخت پابندیاں عائد کی ہیں، صوبائی حکومت نے چوبیس مارچ سے اٹھائیس مارچ تک سرکاری چھٹیوں کا اعلان کیا ہے اس کے ساتھ ہی تمام مارکیٹیںخ شاپنگ مالز انتیس مارچ تک بند کر دیئے ہیں شہر کے اندر اور دیگر شہروں کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ معطل کردی ہے۔
البتہ نجی اور مال بردار گاڑیوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی اور شہری بظاہر نقل و حرکت میں آزاد ہیں۔کے پی حکومت نے بینک اور موبائل فون سروسز کے دفاتر کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھلے رہنے کی اجازت دی ہے۔