سیاست کی سیڑھی اور سانپ کا کھیل

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہاں لوگ بتدریج سیاسی قیادت کی طرف نہیں آئے بلکہ ٹارزنوں کی طرح دولت، شہرت کی ٹہنیوں سے لٹک کر سیاسی جنگل میں وارد ہوئے۔ ہر ملک میں سیاسی تربیت کا ایک نظام موجود ہوتا ہے جسے ہم لوکل باڈیز کے نام سے جانتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاست میں اس تدریجی نظام کو اہلِ سیاست نے ہمیشہ پس پشت ڈالنے کی کوشش کی اور اس کی جگہ خاندانی سیاست کا وہ کلچر پیدا کیا، جس میں سیاسی خدمات کے بجائے دولت،خاندانی وجاہت کو سیاسی قیادت تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی قیادت چند خاندانوں کی میراث بن گئی اور نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھارنے کا راستہ ہی بند ہوگیا۔

اس کلچر کے فروغ میں نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ سرداری قبائلی جاگیردارانہ نظام کی اساس شخصیت پرستی ہوتی ہے۔ جاگیردار، وڈیرے، سردار اس نظام میں مقامی بادشاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور عوام کے ساتھ ان کا رشتہ بادشاہ اور رعایا کا ہوتا ہے۔ برصغیر میں اس احمقانہ کلچر کے استحکام کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ یہاں ایک ہزار سال تک بادشاہتوں کا ایک ایسا نظام قائم رہا جس میں عوام کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہ رہی۔ اس نظام کی پائیداری میں بادشاہتوں کے استحکام میں جاگیرداروں، امراء، نوابوں، سرداروں نے اہم کردار ادا کیا۔ برصغیر کی ایک ہزار سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بادشاہوں نے اپنے آپ کو مستحکم کرنے اورکاروبار سلطنت چلانے کے لیے امراء کی خدمات حاصل کیں اور انھیں ان کی خدمات کے عوض جاگیریں منصب وغیرہ دے کر رعایا کو قابو میں رکھنے کے لیے وہ طبقہ پیدا کیا، جس نے عوام کے حقوق کی پامالی پر اپنی اعلیٰ حیثیت کی بنیاد رکھی۔ مغل دورِ حکومت کے بعد جب انگریز ہندوستان میں آئے تو انھوں نے بھی وہی راستہ اختیار کیا، جس پر ہندوستان کے بادشاہ چلتے رہے تھے، یعنی طبقۂ امراء کی پذیرائی۔

اسے تاریخ کا المیہ کہیں یا اتفاق کہ جب انگریزوں کی وداعی کا وقت آیا تو عیار انگریزوں نے وہ تباہ کن سازش تیار کی، جس کا مقصد متحدہ ہندوستان میں مذہبی اختلافات کو اس جگہ پہنچانا تھا جہاں ملک کی تقسیم کے علاوہ کوئیاور راستہ نہ رہے۔ مذہبی انتہا پسندوں کو ایسی کھلی چھوٹ دی گئی کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت کا ایک ایسا بازار گرم کیا گیا جس میں مذہبی جنوں انسانیت کے تمام رشتوں کو پامال کرکے حیوانیت کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے، جہاں انسان اور جانور کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ اس پس منظر میں ملک تقسیم ہوا اور اس المیے سے سبق حاصل کرکے سیاسی اور جمہوری راستوں کا انتخاب کرنے کے بجائے مسلم لیگ پر قابض وڈیروں اور جاگیرداروں نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ اور خاندانی حکمرانی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ہندوستان پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِ اقتدار کو ایک ایسا آئیڈیل بنا کر پیش کیا کہ اس نئے ملک میں جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے فروغ کے بجائے وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں کی سیاست اور اقتدار پر گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اور اس گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے علمائے سو کا وہ طبقہ پیدا کیا گیا جو ان مراعات یافتہ طبقات کی مرضی کے مطابق اسی نئے ملک میں نشاۃ ثانیہ کے اس خواب کو عوام کی زندگی کے اعلیٰ مشن میں تبدیل کردیا، جس کا بنیادی مقصد ایلیٹ کے حق حکمرانی کو مضبوط کرنا اور عوام کو نشاۃ ثانیہ کے سحر میں مبتلا کرنا تھا۔


عوام اور حکمرانوں کے درمیان حاکم و محکوم رعایا اور بادشاہوں کا ایک نیا رشتہ قائم کیا گیا اور اسے بڑی کامیابی کے ساتھ ''جمہوریت'' کا نقاب پہنایا گیا۔ چونکہ پاکستان کا نقشہ ایسے علاقوں پر بنا جو کٹّر قبائلی سرداری اور فیوڈل تھے، لہٰذا پاکستان پر خاندانی حکمرانیاں قائم کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہ ہوئی۔ ہندوستان کے حصّے میں جو علاقے آئے وہ صنعتی کلچر کے علاقے تھے، پھر ہندوستان کی پہلی قیادت نے اپنے ملک میں سخت زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری کی رہی سہی باقیات کو سیاست سے اس طرح نکال باہر پھینکا کہ وہاں فکر و خیال اور اظہارِ رائے کی آزادی مل گئی اور اس آزادی نے ترقی کے راستے کھول دیے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہندوستان ایشیا کی دوسری بڑی طاقت بن گیا ہے اور اس کا یہ سفر جاری و ساری ہے۔ہندوستان پر ایک ہزار سالہ مسلم دورِ حکومت کو ہمارے ذہنوں میں ایک ایسا آئیڈیل بنا کر ٹھونسا گیا کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام کو بڑی آسانی سے اس سراب کے پیچھے لگایا جاسکتا ہے اور اب اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے قبائلی کلچر کے ان کرداروں کو آگے لایا جارہا ہے جو جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی سے اس حد تک الرجک ہیں کہ وہ ترقی کے راستے کے ابتدائی نشانات اسکولوں کو بموں سے اڑا رہے ہیں اور نشاۃ ثانیہ کا راستہ بارودی گاڑیوں، خودکش بمباروں، فقہی قتل و غارت گری کے ذریعے طے کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس راستے پر اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ دنیا ہمیں انسان ماننے کے لیے ہی تیار نہیں۔

سماجی تبدیلیوں کی تاریخ میں صنعت کار اور مڈل کلاس عموماً ایک مثبت کردار ادا کرتے دیکھے گئے ہیں لیکن ہمارے فیوڈل اور قبائلی کلچر کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ صنعت کار اور مڈل کلاس فیوڈل کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاسی سفر طے کررہے ہیں اور ان کے نظریاتی ڈانڈے بارودی گاڑیوں اور خودکش حملوں سے اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ دودھ اور پانی بن گئے ہیں۔ اس الم ناک صورت حال میں مشرق وسطیٰ کی عوامی تحریکیں کھاد کا کام کررہی ہیں اور ہمارا نشاۃ ثانیہ کا علمبردار مڈل کلاس اور میڈیا اس حوالے سے ایک عجیب اور حیرت انگیز دوغلے پن کا مظاہرہ کررہا ہے اور دوسرے ملکوں سے بے معنی نشاۃ چانیہ کے داعی ڈھونڈ ڈھونڈ کر لارہا ہے اور اس ملک کے سادہ لوح عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ بس اب ہم سے نشاۃ ثانیہ لبِ بام رہ گئی ہے۔

دنیا میں ہر قوم، ہر ملک کو ترقی کرنے اور سربلند ہونے کا حق حاصل ہے لیکن اس جائز حق کے حصول کا جو راستہ اختیار کیا جارہا ہے، وہ صنعتی جدید علوم، سائنس و ٹیکنالوجی کا راستہ نہیں بلکہ بارودی گاڑیوں اور خودکش بمباروں کا راستہ ہے اور حیرت ہے کہ ہمارا فیوڈل مائنڈ سیاست دان جمہوریت اور سیاست کے تدریجی سفر لوکل باڈیز کو ٹھکرا کر کمشنری نظام کا وہ راستہ اختیار کرنے پر بضد ہے، جس کے ڈانڈے نوآبادیاتی نظام کی بالواسطہ بادشاہتوں سے ملتے ہیں۔ یہ وہ منظرنامہ ہے جس میں ہمارے مستقبل کا تعیّن ہورہا ہے۔
Load Next Story