حسن ’’ یہ عمر نہ تھی جانے کی … ‘‘
لیاری کے فرزندوں میں ادیب، دانشور، صحافیوں، ڈاکٹروں، سیاسی اور سماجی کارکنوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
لیاری یوں تو غریبوں کی بستی ہے مگر لیاری کے فرزندوں میں ادیب، دانشور، صحافیوں، ڈاکٹروں، سیاسی اور سماجی کارکنوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ نوجوان صحافی حسن منصور لیاری کے محلہ نیا آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق خیرپور ڈسٹرکٹ سے تھا۔ حسن منصور کے دادا انگریزوں کے دور میں کراچی آئے۔
یہ خاندان پہلے میٹھادر میں آباد ہوا۔ پھر لیاری کے محلہ نیا آباد میں منتقل ہوا۔ حسن منصور کے والد ایک راج مستری تھے۔ انھیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا تھا مگر ان کے والد کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بخوبی احساس تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حسن منصور کے والد نے اپنی تمام توانائی بچوں کو تعلیم دلوانے میں وقف کی۔ حسن منصور چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے ایک بھائی کا کچھ عرصہ پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے سب سے بڑے بھائی رشید نظامانی نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا۔ وہ جج کے عہدہ پر تعینات ہوئے۔ رشید نظامانی کو احساس ہوا کہ ایمانداری سے انصاف کرنے میں مالیاتی خوشحالی نہیں ہے۔
رشید کے والد نے ایمانداری سے زندگی بسر کی تھی، یوں رشید نظامانی ایک ایماندار جج کے فرائض انجام دیتے رہے، پھر جج کا منصب چھوڑ دیا اور وکالت شروع کردی۔ ان کے دوسرے بھائی رؤف نظامانی نے اسٹیٹ بینک میں زندگی گزاردی۔ اسٹیٹ بینک کے ریسرچ سیکشن کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
ان کے ایک اور بھائی شکور نظامانی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات سے فارغ التحصیل ہوئے اور صحافت کا شعبہ اختیار کیا۔ وہ سندھی اور اردو میڈیا میں صحافتی فرائض کی انجام دہی کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ حسن منصور کے بڑے بھائی رؤف نظامانی کارل مارکس کے اسیر ہوئے۔ رؤف سندھی، اردو، انگریزی، ادب، معاشیات، سماجیات اور سیاسیات وغیرہ جیسے موضوعات کی کتابوں کے شوقین ہیں،اس ماحول میں حسن منصور کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کی عادت پڑگئی۔
رؤف نظامانی عوامی تحریک ،وطن دوست، انقلابی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے حلقوں میں شامل رہے، جس کی بنا پہ اب حسن کے گھر میں مارکسزم اور جدید موضوعات پر کتابوں کے علاوہ سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور ادیبوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ حسن منصور کبھی کہتے تھے کہ جب بھائی کے دوست گھر کی بیٹھک پر براجمان ہوتے تو ان کا فریضہ بھائی کے دوستوں کو چائے پانی فراہم کرنے کا ہوتا مگر ان محفلوں میں حسن منصور کو مارکسزم کے نظریہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظریات کے بارے میں کچھ سننے کا موقع ملتا۔
1988ء میں پہلی دفعہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بنیں ، یوں شہری آزادیوں کا دور شروع ہوا۔ بے نظیر حکومت نے اخبارات کے ڈیکلریشن حاصل کرنے میں عائد پابندیوں کو نرم کیا جب کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے اخباری صنعت کی بنیادی ہیت کو چیلنج کیا۔ ڈاکٹر جبار خٹک اور سہیل سانگی نے کمپیوٹر کا پہلا سندھی اخبار ''عوامی آواز'' شایع کیا۔
اس کا پہلا دفتر لیاری کے مرکزی علاقہ چاکیواڑہ میں قائم ہوا۔ حسن منصور ابھی ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے مگر انھوں نے سندھی کے پہلے کمپیوٹر پر شایع ہونے والے اخبار عوامی آواز کے کمپیوٹر سیکشن میں کام کرنا شروع کر دیا۔ معروف دانشور اسلم خواجہ کا کہنا ہے کہ حسن منصور کو سندھی اخبارات میں کمپیوٹر پر کام کرنے والے پہلے یا دوسرے آپریٹربننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ حسن منصور نے میٹرک سائنس کے امتحان میں اعلیٰ نمبر حاصل کیے، یوں انھیں ڈی جے کالج کا داخلہ مل گیا۔ وہ انجینئر نگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند تھے مگر انٹرسائنس میں وہ میرٹ پر کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ حسن منصور نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی میں داخلہ لیا اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
حسن منصور 90ء کی دھائی میں کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف میں متحرک رہے۔ انھوں نے سندھی زبان میں افسانہ اور کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ حسن منصور نے سندھی اخبارات میں ''سلام کراچی ''کے عنوان سے کالم لکھے۔ پھر حسن نے انگریزی صحافت میں طبع آزمائی کی اور جلد ہی محنتی، ایماندار اور ذہین رپورٹروں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ حسن منصور نے نیشن، فرنٹیئر پوسٹ، دی ٹائمز اور بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور ڈان میں رپورٹر کے فرائض انجام دیے۔
حسن اپنی محنت اور جستجو کی بناء پر سینئر صحافیوں کی فہرست میں آگئے۔ انھوں نے ہمیشہ پروفیشنل ازم کو اہمیت دی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27دسمبر2007 کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا تو اسی دن ان کی والدہ انتقال کرگئیں۔ حسن منصور کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک راستہ تو روایتی طور پر والدہ کا غم منانے اور دور ،دراز کے علاقوں سے آنے والے رشتہ داروں اور دوستوں سے تعزیت قبول کرنے کا تھا تو دوسرا راستہ یہ تھا کہ ان کی پروفیشنل ڈیوٹی یہ تھی کہ وہ اپنی والدہ کی تدفین کے فوراِ بعد لاڑکانہ چلے جائیں۔ یہ دسمبر کی شدید سردی کے دن تھے۔ کراچی میں موسم سرد نہیں تھا۔
حسن منصورنے کراچی کے موسم کے اعتبار سے ہلکی جیکٹ پہنی ہوئی تھی،وہ قبرستان سے سیدھا لاڑکانہ چلے گئے۔جہاں سے انھوں نے بے نظیر بھٹو شہیدکی تدفین کے موقع پر رونما ہونے والے واقعات اور آصف علی زرداری کے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بننے کی خبریں اپنی ایجنسی کو فراہم کیں۔ یہ خبریں دنیا بھر کے اخبارات میں شایع ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر تین دن رتوڈیرو میں رہے اور پوری دنیا کو حقائق سے آگاہ کیا۔ حسن منصور کئی سال غیر ملکی خبررساں ایجنسی ازینس فرانس پریس (AFP) کے کراچی کے بیورو کے سربراہ رہے مگر پھر انھیں یہ احساس ہوا کہ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، یوں انھوں نے ایک معاصر روزنامہ میں ملازمت اختیار کرلی۔
انھیں اس دوران کراچی شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ حسن نے تعلیم، صحت اور حکومت سندھ کے مختلف محکموں کے بارے میں عوام کے مسائل کو اجاگر کیا۔انھیں سندھ اسمبلی کی رپورٹنگ کا موقع ملا۔ حسن منصور نے خبر کے بنیادی اصولوں کو ہمیشہ مدنظر رکھا ور معروضیت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حقائق پیش کیے، یوں کسی بھی رکن اسمبلی کو ان کی رپورٹنگ سے شکایت نہیں ہوئی ۔ حسن منصور کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ کراچی کے اس گروہ کے فعال رکن تھے جو ہر اتوار کو صدر میں پرانی کتابوں کی خریداری میں مصروف نظر آتے۔ حسن نے ساری زندگی جتنا وقت کتابوں کی خریداری کے لیے وقف کیا اتنا وقت انھوں نے کبھی دیگر اشیاء کی خریداری پر خرچ نہیں کیا۔
حسن نے ایک دن باتوں کے دوران بتایا تھا کہ انھوں نے کئی برسوں سے نئے جوتے نہیں خریدے تھے اور پرانے جوتے خستہ حالت میں تھے۔ ان کی بیٹی ایک دن اپنا گلک لے آئی اور انھیں کہا کہ باباگلک میں جو پیسے ہیں ان کے جوتے خریدلیں۔ حسن سندھی میں جدید افسانے لکھتے تھے۔ ان کے افسانوں کا ہندی، اردو، پشتو اور انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے اور ان کی کتاب طباعت کے مرحلے میں ہے۔ حسن منصور کراچی پریس کلب کی شام کی محفلوں کی جان تھے ۔ ان کے اچانک رخصت ہونے سے ان کا بیٹا اور بیٹی سرپرست سے محروم ہوگئے، ان کی اہلیہ کی مانگ اجڑ گئی۔
بہن کی زندگی سوگوار ہوگئی۔ اسلم خواجہ ڈپریشن میں چلے گئے۔معین ،حسن کی جدائی کے صدمے کو برداشت کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ صحافی برادری اپنے ایماندار اور محنتی ساتھی سے محروم ہوگئی۔ عوام کے کرب کو تحریر کی شکل دینے والا چلا گیا۔ حسن ''یہ عمر نہ تھی جانے کی... ''
یہ خاندان پہلے میٹھادر میں آباد ہوا۔ پھر لیاری کے محلہ نیا آباد میں منتقل ہوا۔ حسن منصور کے والد ایک راج مستری تھے۔ انھیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا تھا مگر ان کے والد کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بخوبی احساس تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حسن منصور کے والد نے اپنی تمام توانائی بچوں کو تعلیم دلوانے میں وقف کی۔ حسن منصور چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے ایک بھائی کا کچھ عرصہ پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے سب سے بڑے بھائی رشید نظامانی نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا۔ وہ جج کے عہدہ پر تعینات ہوئے۔ رشید نظامانی کو احساس ہوا کہ ایمانداری سے انصاف کرنے میں مالیاتی خوشحالی نہیں ہے۔
رشید کے والد نے ایمانداری سے زندگی بسر کی تھی، یوں رشید نظامانی ایک ایماندار جج کے فرائض انجام دیتے رہے، پھر جج کا منصب چھوڑ دیا اور وکالت شروع کردی۔ ان کے دوسرے بھائی رؤف نظامانی نے اسٹیٹ بینک میں زندگی گزاردی۔ اسٹیٹ بینک کے ریسرچ سیکشن کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
ان کے ایک اور بھائی شکور نظامانی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات سے فارغ التحصیل ہوئے اور صحافت کا شعبہ اختیار کیا۔ وہ سندھی اور اردو میڈیا میں صحافتی فرائض کی انجام دہی کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ حسن منصور کے بڑے بھائی رؤف نظامانی کارل مارکس کے اسیر ہوئے۔ رؤف سندھی، اردو، انگریزی، ادب، معاشیات، سماجیات اور سیاسیات وغیرہ جیسے موضوعات کی کتابوں کے شوقین ہیں،اس ماحول میں حسن منصور کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کی عادت پڑگئی۔
رؤف نظامانی عوامی تحریک ،وطن دوست، انقلابی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے حلقوں میں شامل رہے، جس کی بنا پہ اب حسن کے گھر میں مارکسزم اور جدید موضوعات پر کتابوں کے علاوہ سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور ادیبوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ حسن منصور کبھی کہتے تھے کہ جب بھائی کے دوست گھر کی بیٹھک پر براجمان ہوتے تو ان کا فریضہ بھائی کے دوستوں کو چائے پانی فراہم کرنے کا ہوتا مگر ان محفلوں میں حسن منصور کو مارکسزم کے نظریہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظریات کے بارے میں کچھ سننے کا موقع ملتا۔
1988ء میں پہلی دفعہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بنیں ، یوں شہری آزادیوں کا دور شروع ہوا۔ بے نظیر حکومت نے اخبارات کے ڈیکلریشن حاصل کرنے میں عائد پابندیوں کو نرم کیا جب کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے اخباری صنعت کی بنیادی ہیت کو چیلنج کیا۔ ڈاکٹر جبار خٹک اور سہیل سانگی نے کمپیوٹر کا پہلا سندھی اخبار ''عوامی آواز'' شایع کیا۔
اس کا پہلا دفتر لیاری کے مرکزی علاقہ چاکیواڑہ میں قائم ہوا۔ حسن منصور ابھی ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے مگر انھوں نے سندھی کے پہلے کمپیوٹر پر شایع ہونے والے اخبار عوامی آواز کے کمپیوٹر سیکشن میں کام کرنا شروع کر دیا۔ معروف دانشور اسلم خواجہ کا کہنا ہے کہ حسن منصور کو سندھی اخبارات میں کمپیوٹر پر کام کرنے والے پہلے یا دوسرے آپریٹربننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ حسن منصور نے میٹرک سائنس کے امتحان میں اعلیٰ نمبر حاصل کیے، یوں انھیں ڈی جے کالج کا داخلہ مل گیا۔ وہ انجینئر نگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند تھے مگر انٹرسائنس میں وہ میرٹ پر کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ حسن منصور نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی میں داخلہ لیا اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
حسن منصور 90ء کی دھائی میں کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف میں متحرک رہے۔ انھوں نے سندھی زبان میں افسانہ اور کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ حسن منصور نے سندھی اخبارات میں ''سلام کراچی ''کے عنوان سے کالم لکھے۔ پھر حسن نے انگریزی صحافت میں طبع آزمائی کی اور جلد ہی محنتی، ایماندار اور ذہین رپورٹروں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ حسن منصور نے نیشن، فرنٹیئر پوسٹ، دی ٹائمز اور بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور ڈان میں رپورٹر کے فرائض انجام دیے۔
حسن اپنی محنت اور جستجو کی بناء پر سینئر صحافیوں کی فہرست میں آگئے۔ انھوں نے ہمیشہ پروفیشنل ازم کو اہمیت دی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27دسمبر2007 کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا تو اسی دن ان کی والدہ انتقال کرگئیں۔ حسن منصور کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک راستہ تو روایتی طور پر والدہ کا غم منانے اور دور ،دراز کے علاقوں سے آنے والے رشتہ داروں اور دوستوں سے تعزیت قبول کرنے کا تھا تو دوسرا راستہ یہ تھا کہ ان کی پروفیشنل ڈیوٹی یہ تھی کہ وہ اپنی والدہ کی تدفین کے فوراِ بعد لاڑکانہ چلے جائیں۔ یہ دسمبر کی شدید سردی کے دن تھے۔ کراچی میں موسم سرد نہیں تھا۔
حسن منصورنے کراچی کے موسم کے اعتبار سے ہلکی جیکٹ پہنی ہوئی تھی،وہ قبرستان سے سیدھا لاڑکانہ چلے گئے۔جہاں سے انھوں نے بے نظیر بھٹو شہیدکی تدفین کے موقع پر رونما ہونے والے واقعات اور آصف علی زرداری کے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بننے کی خبریں اپنی ایجنسی کو فراہم کیں۔ یہ خبریں دنیا بھر کے اخبارات میں شایع ہوئیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر تین دن رتوڈیرو میں رہے اور پوری دنیا کو حقائق سے آگاہ کیا۔ حسن منصور کئی سال غیر ملکی خبررساں ایجنسی ازینس فرانس پریس (AFP) کے کراچی کے بیورو کے سربراہ رہے مگر پھر انھیں یہ احساس ہوا کہ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کا دائرہ محدود ہوتا ہے، یوں انھوں نے ایک معاصر روزنامہ میں ملازمت اختیار کرلی۔
انھیں اس دوران کراچی شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ حسن نے تعلیم، صحت اور حکومت سندھ کے مختلف محکموں کے بارے میں عوام کے مسائل کو اجاگر کیا۔انھیں سندھ اسمبلی کی رپورٹنگ کا موقع ملا۔ حسن منصور نے خبر کے بنیادی اصولوں کو ہمیشہ مدنظر رکھا ور معروضیت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حقائق پیش کیے، یوں کسی بھی رکن اسمبلی کو ان کی رپورٹنگ سے شکایت نہیں ہوئی ۔ حسن منصور کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ کراچی کے اس گروہ کے فعال رکن تھے جو ہر اتوار کو صدر میں پرانی کتابوں کی خریداری میں مصروف نظر آتے۔ حسن نے ساری زندگی جتنا وقت کتابوں کی خریداری کے لیے وقف کیا اتنا وقت انھوں نے کبھی دیگر اشیاء کی خریداری پر خرچ نہیں کیا۔
حسن نے ایک دن باتوں کے دوران بتایا تھا کہ انھوں نے کئی برسوں سے نئے جوتے نہیں خریدے تھے اور پرانے جوتے خستہ حالت میں تھے۔ ان کی بیٹی ایک دن اپنا گلک لے آئی اور انھیں کہا کہ باباگلک میں جو پیسے ہیں ان کے جوتے خریدلیں۔ حسن سندھی میں جدید افسانے لکھتے تھے۔ ان کے افسانوں کا ہندی، اردو، پشتو اور انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے اور ان کی کتاب طباعت کے مرحلے میں ہے۔ حسن منصور کراچی پریس کلب کی شام کی محفلوں کی جان تھے ۔ ان کے اچانک رخصت ہونے سے ان کا بیٹا اور بیٹی سرپرست سے محروم ہوگئے، ان کی اہلیہ کی مانگ اجڑ گئی۔
بہن کی زندگی سوگوار ہوگئی۔ اسلم خواجہ ڈپریشن میں چلے گئے۔معین ،حسن کی جدائی کے صدمے کو برداشت کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ صحافی برادری اپنے ایماندار اور محنتی ساتھی سے محروم ہوگئی۔ عوام کے کرب کو تحریر کی شکل دینے والا چلا گیا۔ حسن ''یہ عمر نہ تھی جانے کی... ''