مقصدِ حیات اورمیری مرضی
کیا ہم کسی عظیم ترمنصوبے کے تحت اس دنیا رنگ و بومیں نمودار ہوئے ہیں
کم و بیش ہر سوچنے والا ذہن چاہے وہ کسی بھی معاشرے،مذہب اور خطے سے تعلق رکھتا ہو اس طرح کے سوالات کا سامنا ضرور کرتا ہے کہ ہم اس دنیا میں کیا کر رہے ہیں؟ ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟ کیا ہم کسی عظیم ترمنصوبے کے تحت اس دنیا رنگ و بومیں نمودار ہوئے ہیں یا بس کسی طبعی اور کیمیاوی حادثے کا نتیجہ ہیں؟کیا ہم مختلف اور متنوع ناقابل رسائی ارتقائی اعمال اور ا بھی تک نامعلوم ایسے طبعی قوانین کی پیداوار ایک خاص قسم کی کمزور سی مخلوق ہیں جو شاید دیگر مخلوقات کے مقابلے میں کچھ اضافی خصوصیات صلاحیتوں خاص طور پر قوت گویائی کی حامل ہے یا پھر ہمیں بہت محبت سے کسی عظیم الشان خالق نے اپنی بلند و بالا حکمتوں کے تحت تخلیق کیا ہے۔
یہ چند ایسے بنیادی سوالات ہیں جو مختلف طبقہ ہائے فکر میں زمانوں سے موضوع بحث تھے، ہیں اور شاید قیامت تک رہیں گے اگر کوئی قیامت متعین ہے تو (بقول لبرلز) کیونکہ ان نظریاتی لبرلز کے خیال میں قیامت کا اس طرح وقوع پذیر ہونا جس طرح مذہبی تعلیمات بتاتی ہیں،ممکن ہی نہیں ہے۔ لبرل ازم یا آزاد تمدن کے حاملین اور ماننے والے بظاہر اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ دہریت کے پرچارک ہیں بس ان کا بیانیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ملائیت ، پاپائیت اور مذہبی بالا دستی اور اصولوں کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنا الگ نظام زندگی رکھتے ہیں جسکے اپنے ہی قواعد و ضوابط ہیں۔ہم اس بحث کے ایک بنیادی سوال سے آغاز کر کے مذہبی تعلیمات کو بیچ میں لائے بغیر کچھ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرینگے۔ تو بات شروع کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی مقصد حیات یا دنیا میں ہونے کی وجہ ایسی بھی ہے جو ہمیں دیگر مخلوقات سے مختلف ،ممتازاور منفرد بناتی ہو۔
اپنی خواہشوں کے اسیر بظاہرآزاد سوچ رکھنے والوں سے جو عرف عام میں لبرلز کہلائے جاتے ہیں یہ سوال کیجیے کہ خدا اورمذہب سے ہٹ کر ذرا کوئی اور مقصد حیات ہو تو بتائیے تو وہ لفاظی سے ہٹ کر یقینا انسانی زندگی کا مقصد چندعیاشیوں یعنی سوائے کھانے پینے،مزے اڑانے اور نسل بڑھانے یا جنسی لذت کشید کرنے سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکے گا۔۔ آپ ایک لبرل کے طرز حیات کو بغور دیکھیں اس کی ساری جہدحیات جسم کی ترقی سے وابستہ ہے اور ان ہی چیزوں کو بہتر سے بہتر بنانے میں صرف ہوتی ہے۔
ایک معاصر نے کچھ عرصے پہلے کیا خوب لکھاتھا کہ آپ سے وہ روشن خیال یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میرا مقصد حیات تو شعور پھیلانا ہے،آپ اس سے پوچھیں کہ شعورپھیلنے اورپھیلانے سے کیا ملے گا تو وہ کہے گا کہ ایک بہتر سماج کی تشکیل ہو گی یا پھر لائف اسٹائل بہتر ہوگا، آپ پھر پوچھیں کہ لائف اسٹائل بہتر ہونے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا تو اس کے پاس مغرب کے عیش کدو ں کی جانب اشارہ کرنے او ر حیوانی لذات کے حصول میں آسانیوں میں اضافے کی جانب یعنی وہی رنگ برنگی خوراک، پوشاک اورجنسی جبلت وغیرہ کی جانب اشارہ کرنے کی سوا کوئی دلیل نہ ہوگی یعنی وہی لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ تو یہ تو پھر کم و بیش ہر جاندار کر رہا ہے اور آپ سے بہتر طریقے سے اور آسانی سے کر رہا ہے پھر آپ میں اور ان میں وجہ امتیاز کیا رہی؟ کچھ نہیں! اب ذرا غور کیجیے، لبرلز کہتے ہیں کہ دین و مذہب کا مطلب خود پر خوامخواہ کی پابندیاں عائد کرنا ہے اس لیے مذہب کو انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نکال دو، اگر یہ مطالبہ تسلیم کرلیا جائے تو انسانی زندگی کا مقصد کھانے پینے اور دیگر حیوانی جبلتیں پورا کرنے کے سوا اور کیا رہ جائے گا اور پھر یہ کہ انکو پورا کرنے میں بھی کوئی قائدہ قانو ن کوئی ضابطہ نہیں رہے گا جو چاہا کھا لیا، جیسا چاہا پہن لیا۔
دل چاہا تو بنا کپڑوں کے رہنے لگے، یورپ اور امریکا کے بظاہر مہذب نظر آنیوالے معاشرے میں، مردوں کی مردوں سے اور عورتوں کی عورتوں سے شادی، ننگوں کے کلب، والے گروہ ،خاندانی نظام کی تباہی لبرلز کے طرز زندگی کے عملی نتائج ہیں جن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مغربی معاشرے میں لبرلز نے آزادی کے نام پر خواتین کا جو بدترین استحصال کیا ہے وہ بھی اظہر من الشمس ہے چنانچہ پتہ چلا کہ مذہب ہی دراصل وہ شئے ہے جو انسان کو جینے کا اعلی تر مقصد فراہم کرتا ہے، اس میں حرام حلال، جائز ناجائز،اچھے برے اور مکافاتِ عمل کا احساس پیدا کر کے ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کا احساس اور جذبہ عمل پیدا کرتا ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مذہب انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔
یو ٹیوب پر ان نو مسلم سابقہ غیر مسلموں کی ہزاروں ویڈیو اپ لوڈ ہیں اور دیکھی جاسکتی ہیں اور کتابیں بھری پڑی ہیں ایسے نو مسلموں کہ واقعات سے جو ہر طرح کی دنیاوی آسائشیں اور لذتوں کی فراوانی حاصل ہونے کے باوجود بے چین رہتے تھے اور جن میں سے بیشتر اسی سوال کے متلاشی تھے کہ ہم کیوں ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ہمارا مقصد حیات کیا ہے وغیرہ۔ جنھیں کسی تبلیغی جماعت اور تحریک نے متاثر نہیں کیا بلکہ وہ اپنے لبرل طرز زندگی سے بیزار ہوکر خود ہی ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے نکلے اور بالآخر اسلام کے دامن میں پناہ لے کر مسلمان ہو گئے۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ لبرل سے میری مراد وہ طبقہ ہے جس نے لبرل ازم کو بطور طرزِ حیات اپنا رکھا ہے۔ نظریاتی لبرل اور سماجی لبرل میں فرق ہے۔ نظریاتی لبرل وہ ہے جو خود کو کسی عقیدے یا الہامی ہدایت کا پابند نہیں سمجھتا۔ وہ انسان کی مطلق آزادی کو بطور قدر قبول کرتا ہے۔ سماجی لبرل وہ ہے جو ممکن ہے کہ خود کو کسی خاص عقیدے کا پابند سمجھتا ہو لیکن اسے دوسروں پر بزور نافذ کرنے کا قائل نہیں اور انکو بھی یہ حق دیتا ہو کہ وہ اپنی مرضی سے جو عقیدہ یا آئیڈیالوجی چاہیں، اختیار کر سکتے ہیں۔ نظریاتی لبرل، سماجی لبرل بھی ہوتا ہے لیکن سماجی لبرل لازم نہیں کہ نظریاتی لبرل بھی ہو۔
مذہبی انتہا پسندوں کی طرح ایک طبقہ لبرل انتہا پسندوں کا بھی ہے، اور انتہا پسندی کسی بھی شکل یا شعبے میں ہو نقصان دہ ہی ہوا کرتی ہے۔ معاشرے میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے روشن خیالی اور لبرل ازم کے خاص اہداف میں سے تحریک آزادی نسواں نمایاں ہے۔ یہ تحریک بھی مغرب سے اٹھی اور آج اس کے خوش نما نعرہ کی بازگشت مسلم معاشرے کے اندر بھی سنائی دے رہی ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت کے ساتھ جو نفرت آمیز سلوک روا رکھا جاتا تھا، اس کے ردعمل میں آزادی نسواں کی تحریک شروع ہوئی تھی لیکن میرا نہیں خیال کہ یہاں وطن عزیز میں میری مرضی کی کوئی گنجائش اس طرح کی آزادی نسواں کے حوالے سے بننا ممکن ہے۔
یہ چند ایسے بنیادی سوالات ہیں جو مختلف طبقہ ہائے فکر میں زمانوں سے موضوع بحث تھے، ہیں اور شاید قیامت تک رہیں گے اگر کوئی قیامت متعین ہے تو (بقول لبرلز) کیونکہ ان نظریاتی لبرلز کے خیال میں قیامت کا اس طرح وقوع پذیر ہونا جس طرح مذہبی تعلیمات بتاتی ہیں،ممکن ہی نہیں ہے۔ لبرل ازم یا آزاد تمدن کے حاملین اور ماننے والے بظاہر اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ دہریت کے پرچارک ہیں بس ان کا بیانیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ملائیت ، پاپائیت اور مذہبی بالا دستی اور اصولوں کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنا الگ نظام زندگی رکھتے ہیں جسکے اپنے ہی قواعد و ضوابط ہیں۔ہم اس بحث کے ایک بنیادی سوال سے آغاز کر کے مذہبی تعلیمات کو بیچ میں لائے بغیر کچھ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرینگے۔ تو بات شروع کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی مقصد حیات یا دنیا میں ہونے کی وجہ ایسی بھی ہے جو ہمیں دیگر مخلوقات سے مختلف ،ممتازاور منفرد بناتی ہو۔
اپنی خواہشوں کے اسیر بظاہرآزاد سوچ رکھنے والوں سے جو عرف عام میں لبرلز کہلائے جاتے ہیں یہ سوال کیجیے کہ خدا اورمذہب سے ہٹ کر ذرا کوئی اور مقصد حیات ہو تو بتائیے تو وہ لفاظی سے ہٹ کر یقینا انسانی زندگی کا مقصد چندعیاشیوں یعنی سوائے کھانے پینے،مزے اڑانے اور نسل بڑھانے یا جنسی لذت کشید کرنے سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکے گا۔۔ آپ ایک لبرل کے طرز حیات کو بغور دیکھیں اس کی ساری جہدحیات جسم کی ترقی سے وابستہ ہے اور ان ہی چیزوں کو بہتر سے بہتر بنانے میں صرف ہوتی ہے۔
ایک معاصر نے کچھ عرصے پہلے کیا خوب لکھاتھا کہ آپ سے وہ روشن خیال یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میرا مقصد حیات تو شعور پھیلانا ہے،آپ اس سے پوچھیں کہ شعورپھیلنے اورپھیلانے سے کیا ملے گا تو وہ کہے گا کہ ایک بہتر سماج کی تشکیل ہو گی یا پھر لائف اسٹائل بہتر ہوگا، آپ پھر پوچھیں کہ لائف اسٹائل بہتر ہونے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا تو اس کے پاس مغرب کے عیش کدو ں کی جانب اشارہ کرنے او ر حیوانی لذات کے حصول میں آسانیوں میں اضافے کی جانب یعنی وہی رنگ برنگی خوراک، پوشاک اورجنسی جبلت وغیرہ کی جانب اشارہ کرنے کی سوا کوئی دلیل نہ ہوگی یعنی وہی لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ تو یہ تو پھر کم و بیش ہر جاندار کر رہا ہے اور آپ سے بہتر طریقے سے اور آسانی سے کر رہا ہے پھر آپ میں اور ان میں وجہ امتیاز کیا رہی؟ کچھ نہیں! اب ذرا غور کیجیے، لبرلز کہتے ہیں کہ دین و مذہب کا مطلب خود پر خوامخواہ کی پابندیاں عائد کرنا ہے اس لیے مذہب کو انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نکال دو، اگر یہ مطالبہ تسلیم کرلیا جائے تو انسانی زندگی کا مقصد کھانے پینے اور دیگر حیوانی جبلتیں پورا کرنے کے سوا اور کیا رہ جائے گا اور پھر یہ کہ انکو پورا کرنے میں بھی کوئی قائدہ قانو ن کوئی ضابطہ نہیں رہے گا جو چاہا کھا لیا، جیسا چاہا پہن لیا۔
دل چاہا تو بنا کپڑوں کے رہنے لگے، یورپ اور امریکا کے بظاہر مہذب نظر آنیوالے معاشرے میں، مردوں کی مردوں سے اور عورتوں کی عورتوں سے شادی، ننگوں کے کلب، والے گروہ ،خاندانی نظام کی تباہی لبرلز کے طرز زندگی کے عملی نتائج ہیں جن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مغربی معاشرے میں لبرلز نے آزادی کے نام پر خواتین کا جو بدترین استحصال کیا ہے وہ بھی اظہر من الشمس ہے چنانچہ پتہ چلا کہ مذہب ہی دراصل وہ شئے ہے جو انسان کو جینے کا اعلی تر مقصد فراہم کرتا ہے، اس میں حرام حلال، جائز ناجائز،اچھے برے اور مکافاتِ عمل کا احساس پیدا کر کے ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کا احساس اور جذبہ عمل پیدا کرتا ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مذہب انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔
یو ٹیوب پر ان نو مسلم سابقہ غیر مسلموں کی ہزاروں ویڈیو اپ لوڈ ہیں اور دیکھی جاسکتی ہیں اور کتابیں بھری پڑی ہیں ایسے نو مسلموں کہ واقعات سے جو ہر طرح کی دنیاوی آسائشیں اور لذتوں کی فراوانی حاصل ہونے کے باوجود بے چین رہتے تھے اور جن میں سے بیشتر اسی سوال کے متلاشی تھے کہ ہم کیوں ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ہمارا مقصد حیات کیا ہے وغیرہ۔ جنھیں کسی تبلیغی جماعت اور تحریک نے متاثر نہیں کیا بلکہ وہ اپنے لبرل طرز زندگی سے بیزار ہوکر خود ہی ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے نکلے اور بالآخر اسلام کے دامن میں پناہ لے کر مسلمان ہو گئے۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ لبرل سے میری مراد وہ طبقہ ہے جس نے لبرل ازم کو بطور طرزِ حیات اپنا رکھا ہے۔ نظریاتی لبرل اور سماجی لبرل میں فرق ہے۔ نظریاتی لبرل وہ ہے جو خود کو کسی عقیدے یا الہامی ہدایت کا پابند نہیں سمجھتا۔ وہ انسان کی مطلق آزادی کو بطور قدر قبول کرتا ہے۔ سماجی لبرل وہ ہے جو ممکن ہے کہ خود کو کسی خاص عقیدے کا پابند سمجھتا ہو لیکن اسے دوسروں پر بزور نافذ کرنے کا قائل نہیں اور انکو بھی یہ حق دیتا ہو کہ وہ اپنی مرضی سے جو عقیدہ یا آئیڈیالوجی چاہیں، اختیار کر سکتے ہیں۔ نظریاتی لبرل، سماجی لبرل بھی ہوتا ہے لیکن سماجی لبرل لازم نہیں کہ نظریاتی لبرل بھی ہو۔
مذہبی انتہا پسندوں کی طرح ایک طبقہ لبرل انتہا پسندوں کا بھی ہے، اور انتہا پسندی کسی بھی شکل یا شعبے میں ہو نقصان دہ ہی ہوا کرتی ہے۔ معاشرے میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے روشن خیالی اور لبرل ازم کے خاص اہداف میں سے تحریک آزادی نسواں نمایاں ہے۔ یہ تحریک بھی مغرب سے اٹھی اور آج اس کے خوش نما نعرہ کی بازگشت مسلم معاشرے کے اندر بھی سنائی دے رہی ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت کے ساتھ جو نفرت آمیز سلوک روا رکھا جاتا تھا، اس کے ردعمل میں آزادی نسواں کی تحریک شروع ہوئی تھی لیکن میرا نہیں خیال کہ یہاں وطن عزیز میں میری مرضی کی کوئی گنجائش اس طرح کی آزادی نسواں کے حوالے سے بننا ممکن ہے۔